• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عذاب قبر

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
67:خلافِ قرآن​

موصوف کبھی یہ تاثر بھی دیتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت کے خلاف ہے مثلا اعادہ روح والی روایت اوپر نقل کردہ آیات کے خلاف ہے اور حدیث قرع نعال آیت انک لا تسمع الموتیٰ کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔مگر اصل بات یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں کیونکہ احادیث تو قرآن کریم کی شرح اور تفسیر ہوا کرتی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی قرآن کریم کے اصل شارح اور مفسر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کس طرح قرآن کریم کی خلاف ہو سکتی ہے ۔خود موصوف لکھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کی بتیین ‘تشریح و تائید کے لئے بھیجے گئے تھے اس کو جھٹلانے کئے لئے تو نہیں۔
’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیہم ولعلھم یتفکرون‘‘۔(النحل ۴۴)
اور ہم نے یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اس کی تشریح اور توضیح کرتے جائیں جو ان کے لئے اتارا گیا ہے اور لوگ غور و فکر کریں۔(النحل ۴۴ ) (عذاب قبر ص۱۸)
اصل بات یہ ہے کہ جس طرح بھینگے کو ایک کے دو نظر آتے ہیں اور ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا وسوجھتا ہے اسی طرح جب کوئی شخص ایک نظریہ قائم کر لیتا ہے تو اسے ہر حدیث ہی قرآن کریم کے خلاف معلوم ہوتی ہے جیسا کہ دور ماضی میں خوارج نے اپنا ایک نظریہ قائم کر لیا تھا اور وہ ہر حدیث پر اعتراض کرتے تھے اور اسے قرآن کریم کے خلاف سمجھتے تھے اور اس پر مستزادیہ کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑے توحیدی اور کتاب اللہ کے ماننے والے بھی سمجھتے تھے ۔حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق یہ پیش گوئی فرمائی تھی کہ عنقریب ایک قوم نکلے گی جن کی نماز کے مقابلے میں تم اپنی نماز کو حقیر سمجھو گے ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر سمجھو گے ۔وہ قرآن پڑھیں گے ۔جو ان کی ہنسلی سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے ‘ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جائے اور اس پر کہیں بھی خون کا نشان نہ ہو ۔ان میں ایک سیاہ فارم شخص ہو گا جس کا ایک بازو مثل عورت کے پستان ہو گا ۔ان کی علامت یہ ہو گی کہ وہ سر منڈاتے ہوں گے اگر میں نے ان کو پایا تو میں ان کو اس طرح ہلاک کرڈالوں گا جس طرح عادو ثمور ہلاک کر دئیے گئے ۔وہ ایسے وقت میں نکلیں گے جب مسلمین میں اختلاف ہو گا اور وہ دو جماعتوں میں تقسیم ہو جائیں گے ان کو مسلمانوں کی وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہو گی۔(بخاری و مسلم)
چنانچہ جناب علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ لوگ نکلے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مقابلہ کیا اور انہیں قتل کیا ۔(بخاری و مسلم)

موجودہ دور میں منکرین حدیث نے احادیث کو خلاف قرآن کہہ کر ان کا انکار کر دیا ہے اور وہ اپنے آپ کو بڑے فخر سے اہل قرآن بھی کہتے ہیں ۔ذیل میں ہم قرآن کریم کی چند ایسی آیات اور احادیث پیش کرتے ہیں جو بظاہر ایک دوسرے کے خلاف معلوم ہوتی ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں۔
۱۔
’’ الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ‘‘
’’ زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔(النور ۔۳)
جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ اور زین بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے آئے ان میں سے ایک نے کہا ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے دوسرے نے کہا ہاں یا رسول اللہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے اور مجھ کو واقعہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔اس نے کہا میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا ۔میں نے اس کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی۔پھر میں نے علماء سے مسئلہ پوچھا انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا اور سنگساری کی سزا اس کی عورت کو ملے گی (اس لئے کہ وہ شادی شدہ ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ سن کر فرمایا۔خبردار قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔تیری لونڈی اور تیری بکریاں تجھ کو واپس ملیں گی اور تیرے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انیس! تو اس عورت کے پاس جا اگر وہ جرم کا اقرار کرے تو اس کو سنگسار کر دے چنانچہ عورت نے اقرار کیا اور انیس رضی اللہ عنہ نے اس کو سنگسار کر دیا۔(بخاری و مسلم)
قرآن کریم میں زانی مرد اور زانیہ عورت کے لئے مطلق سو کوڑًں کی سزا کا بیان ہوا ہے اور شادی شدہ مرد و عورت کے لئے رحم کا کہیں تذکرہ نہیں لیکن احادیث میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ شادی شدہ مرد و عورت کو رحم کیا جائے اور غیر شادی شدہ مرد و عورت کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی ۔بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے ۔کیونکہ قرآن کریم نے تو کہیں بھی رحم کا تذکرہ نہیں کیا۔یہی وجہ ہے موجود ہ دور میں منکرین حدیث نے رحم کی خلاف قرآنقرار دے کر مانے سے انکار کر دیا ہے۔اس مسئلہ پر آج کل خوب علمی بحثیں ہو رہی ہیں ۔یہاں تک کہ شرعی عدالتوں میں بھی بحث جاری ہے۔
’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو الا یہ کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا سور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے یافسق ہو کہ اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو‘‘۔
جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’ ہر کو نچلی والا درندہ (یعنی جو دانتوں سے شکار کرے )حرام ہے۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کونچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے (کو کھانے) سے منع فرمایا ہے‘‘۔
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
قرآن کریم کی آیات سے ثابت ہوا کہ صرف چار چیزیں ہی اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دی ہیں اور ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں مثلا گدھا ‘کتا بھیڑیا‘گیدڑ ‘لومڑی ‘چیل ‘گدھ وغیرہ مگر احادیث بتا رہی ہیں کہ ان چار چیزوں کے علاوہ بھی گھریلو گدھا کو نچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے بھی حرام ہیں۔یہ تو بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کہ قرآن کریم میں دو زندگیوں یعنی دنیا کی زندگی اور قیامت کے دن کی زندگی کا ہی تذکرہ موجود ہے اور قبر کی زندگی کا کوئی واضح تذکرہ نہیں ملتا البتہ احادیث میں اس برزخی زندگی کا تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے۔
اسی طرح حدیث میں ہے کہ دو مردے اور دو خون حلال ہیں ۔چنانچہ جناب ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’ ہمارے لئے دو مردے اور دو خون حلال کئے گئے یعنی مچھلی ‘ٹڈی اور جگر اور تلی‘‘۔(مسند احمد ۔ابن ماہ ۔دارقطنی۔حدیث جید التعلیقات الالبانی جلد ۲ ص۱۲۰۲مشکوٰۃ ص۳۶۱)
قرآن کریم میں چار مقامات پر کمال ہصر کے ساتھ چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے جن میں مردہ اور خون بھی شامل ہیں مگر یہ حدیث بتا رہی ہے کہ دو مردے اور دو خون ایسے بھی ہیں جو حلال ہیں ۔موصوف کے نظرئیے کے مطابق کسی قسم کا کوئی مردہ اور خون حلال نہیں ہو سکتا مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ بھی ان مردہ چیزوں اور خون کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں معلوم نہیں کہ وہ اس نص صریح کی خلاف ورزی کیسے کر رہے ہیں؟

اس موقع پر ہم ایک حدیث کو نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں:۔
جناب مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خبردار! بیشک مجھے قرآن کریم بھی دیا گیا ہے اور اسی کے مثل اس کے ساتھ (حدیث بھی دی گئی ہے) خبردار!عنقریب ایک پیٹ بھرا شخص اپنے چھپر کٹ میں (تکیہ لگائے بیٹھا ہو گا اور )کہے گا کہ اس قرآن کو لازم جانو۔پس جو چیز تم قرآن میں حلا ل پاؤ اس کو حلال سمجھو اور جس کو قرآن میں تم حرام پاؤاس کو حرام سمجھو اور واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ حرام کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اسی کی مانند ہے جس کو حرام کیا اللہ تعالیٰ نے خبردار تمہارے لئے پالتو گدھا حرام ہے اور اسی طرح کونچلی رکھنے والا ہر درندہ بھی حرام ہے ……۔(ابو دائو بسند ۔صحیح التعلقات الالبانی جلد ۱ ص۵۸ مشکوٰۃ ص۲۹)
’’ اور جب تم لوگ (کافروں سے جہاد کے) سفر کے لئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں اختصار (قصر) کر دو۔ جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے کیونکہ وہ کھلم کھلا تمہاری دشمنی پر تلے ہوئے ہیں‘‘۔
جناب انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں ۔(بخاری ومسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)
جناب حارثہ بن دہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو منی میں دو رکعتیں پڑھائیں اس حال میں کہ ہم بہت سے آدمی تھے اور امن کی حالت میں تھے ۔(بخاری و مسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)
قرآن کریم کی اس آیت سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ قصر صرف ’’خوف‘‘ کے وقت جائز ہے ۔چنانچہ خارجیوں اور کچھ ظاہریوں نے اس آیت کا یہی مطلب سمجھ کر امن کی حالت میں قصر کرنے کو قرآن کریم کے خلاف سمجھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل یہی تھا کہ وہ ہر سفر میں قصر کیا کرتے تھے اور جیسا کہ اوپر نقل کردہ احادیث بھی اس کی وضاحت کرتی ہیں ۔جناب یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے جناب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا ‘کیا وجہ ہے کہ لوگ اب تک سفر میں قصر کئے جا رہے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ صرف یہ فرماتا ہے ۔اور جب تم لوگ سفر کے لئے نکلو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر نماز میں قصر کرو جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ تمہیں کافر ستائیں گے اور آج خوف کی یہ حالت باقی نہیں رہی؟ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس چیز سے آپ کو تعجب ہوا ہے خود مجھے بھی اس سے تعجب ہوا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا ۔آپ نے فرمایا یہ ایک صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے لہذا تم اس کا صدقہ قبول کرو۔(مسلم ۔مشکوٰۃ ص۱۱۸)

آپ نے دیکھا صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تک کو اس آیت کے ظاہر سے دھوکہ ہوا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ان کو اطمینان ہوگیا ۔اب اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ نہیںجناب یہ احادیث اس آیت کے خلاف ہیں لہذا انہیں تسلیم کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو ایسے شخص کو سمجھانا ہمارے بس کی بات نہیں۔
جناب یزید الفقیر رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات (یعنی مرتکب کبیرہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا) راسخ ہو گئی تھی۔چنانچہ (ایک مرتبہ) ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج کے ارادہ سے نکلے کہ (حج کے بعد)پھر لوگوں پر نکلیں گے ۔(یعنی ان میں اپنا مذہب پھیلائیں گے) جب ہمارا گزر مدینہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سے ہوا تو ہم نے دیکھا کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنارہے ہیں ۔انہوں نے اچانک دوزخیوں کا تذکرہ کیا میں نے کہا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ عنہ تم کیا حدیث بیان کرتے ہو حالانکہ اللہ تبارک وتعالیٰ تو فرماتا ہے کہ’’ ان ک من تدخل النار فقد اخزیتہ وکلما ارادو ان یخرجو منھا اعیدو فیھا‘‘۔ (اے ہمارے پروردگار) ـجس کو تو نے جہنم میں داخل کیا تو تو نے اس کو رسوا کر دیا اور (فرماتا ہے) جہنم کے لوگ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں ڈال دیے جائیں گے ۔اب (قرآن کریم کی ان آیات کے ہوتے ہوئے) تم کیا کہتے ہو؟ جناب جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن پڑھا ہے ۔میں نے جواب دیا جی ہاں ۔انہوں نے کہا تو پھر تم نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے متعلق سنا ہے جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز انہیں عا فرمائے گا۔ میں نے کہا ہاں ۔جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا تو پھر یہ وہی مقام محمود ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ جہنم سے جسے چاہے گا نکالے گا ۔اس کے بعد انہوں نے پل صراط پر سے گزرنے کا تذکرہ کیا اور مجھے ڈر ہے کہ اچھی طرح یہ چیز مجھے یاد نہ رہی ہو۔مگر یہ کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ لوگ جہنم میں ڈالے جانے کے بعد پھر اس سے نکالے جائیں گے اور اس طرح نکلیں گے جیسا کہ آنبوس کی لکڑیاں (جل بھن کر) نکلتی ہیں پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو نکلیں گے ۔یہ سن کر ہم وہاں سے نکلے اور کہنے لگے ہلاکت ہو تمہارے (خارجیوں ) کے لئے کیا یہ شیخ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ سکتا ہے ۔(ہر گز ایسا نہیں ) چنانچہ ایک شخص کے علاوہ ہم سب خارجیوں کی بات سے پھر گئے ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)
خارجی قرآن کریم کی ان آیات سے استدلال کر کے سمجھتے تھے کہ جو شخص جہنم میں داخل کر دیا گیا وہ جہنم سے نہیں نکل سکتا حالانکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ جہنم سے نکالیں جائیں گے جیسا کہ بہت سی احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ احادیث قرآن کریم کی ان آیات کی وضاحت اور تشریح کرتی ہیں اور قرآن کریم کے خلاف نہیں ہیں جیسا کہ خوارج اور منکرین حدیث نے سمجھ رکھا ہے ۔
جناب عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ اعتراض کیا کہ قرآن کریم کی بعض آیات سے تقدیدر کے انکار کا پہلو نکلتا ہے تو عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بھی پڑھیں تھیں اور وہ ان کی صحیح تاویل جانتے تھے جب کہ تم اس سے بے خبر ہو۔(ابو دائود مع عون المعبود جلد ۴ ص۳۲۵)
مطلب یہ ہے کہ آج اگر تمہیں قرآن کریم کی بعض آیات کے ظاہر سے دھوکہ ہو رہا ہے اور تم انہیں احادیث کے خلاف سمجھ رہے ہوتو یہ تمہارے ذہن کی کجی اور ٹیڑ ہے ورنہ کبھی احادیث بھی بھلا قرآن کریم کے خلاف ہو سکتی ہیں۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
68:قرآن کریم کی آیت کا انکار​

جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ بات بھی آئی ہے کہ ’’جب کافر کی روح کو فرشتے لے کر آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں اور آسمان دنیا کا دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں تو دروازہ نہیں کھولا جاتا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔’’ لا تفتح لھم ابواب السماء ولا یدخلون الجنتہ حتی یلج الجمل فی سیم الخیاط ‘‘۔ یعنی نہ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھلیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے یہاں تک کہ سوئی کہ ناکے میں سے اونٹ گزر جائے ۔(مسند احمد ۔تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص۵۳۳)
جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی اس بات کا ذکر موجود ہے ۔(مسند احمد بحوالہ تفسیر ابن کثیر جلد ۲ ص۵۳۲)
جناب سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات کے سلسلہ میں آتا ہے کہ ’’ ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے ‘‘۔(نسائی)
مگر موصوف کہتے ہیں :۔
قرآن کی اس بات کے انکار کی جرات نہ پاکر دوسری آیت کو پیش کیا جانے لگتا ہے کہ دیکھو سورۃ الاعراف میں ہے کہ ان لوگوں کے لئے جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں اور ان سے استکبارے کرتے ہیں آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے ۔ثابت ہوا کہ ان کی روحیں دنیا ہی میں رہتی ہیں ۔جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن کی ادیبانہ زبان ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے اعمال ان کی دعائوں اور خود ان کی ہرگز پزیرائی نہ ہو گی اور وہ کبھی جنت میں داخل نہ کئے جائیں گے تو یقین نہیں آتا اور اگر یہ بھی کہہ دیا جائے کہ چلئے مانا کہ روحیں یہیں دنیا میں رہتی ہیں لیکن قرآن کا ارشاد ہے کہ قیامت سے پہلے یہ اپنے جسموں میں واپس نہیں جا سکتیں تو کیا اس دنیا مین بھٹکا کرتی ہیں اور ان لوگوں کا عقیدہ آپ کے خیال میں درست ہے جو بدروحوں کی ایزا رسانی کے قائل اور بھوت پریت کے ماننے والے ہیں تب بھی حامی نہیں بھری جاتی‘‘۔(عذاب قبر ص۲۲)
قرآن کریم کی آیت اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ (کافروں کے لئے ) آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے ۔موصوف نے اس آیت کا واضح الفاظ میں انکار کیا ہے اور اس کی تاویل بلکہ قرآن کریم میں تحریف کی زبردست کوشش کی ہے ۔کاش ان کے مقلدین اس حقیقت کو جان جاتے مگر اس کے برخلاف ان کا ایک انتہائی عالی مقلد جو محدثین کرام کا زبردست دشمن ہے اور محدثین کرام کو سازشی اور اسلام دشمنی قرار دیتا ے اور جہالت ہی ابو جہل کا ریکارڈ بھی توڑ چکا ہے ۔اپنے استاذ کی زبردست حمایت کرتا ہے اور موصوف کے نظرئیے کو درست اور قرآن وحدیث کے بیان کو غلط قرار دیتا ہے ۔(دعوت قرآن ص۸۲)(نعوذ باللہ ) اور اس انکار قرآن کے نظرئیے کو ادب قرار دیتا ہے ۔کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس ادب سے ناواقف تھے کہ جسے آج یہ حضرات ادب قرار دے کر جھٹلا رہے ہیں یا وہ عربی زبان سے ناواقف تھے ۔موصوف کا بدروحوں کا بہانہ بنا کر بھی قرآن آیت کا انکار کرنا ایک عجیب مذاق ہے ۔بہرحال وہ ہر صورت اس آیت کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔

موصوف کی ایک عجیب عادت یہ بھی ہے کہ ایک طرف وہ خود کتاب و سنت کو جھٹلاتے بھی ہیں اور دوسری طرف کتاب وسنت کے ماننے والوں کے طبعہ بھی دیتے ہیں کہ درحقیقت وہ کاب و سنت کو نہیں مانتے ۔چنانچہ لکھتے ہیں :۔
بات صاف ہو گئی اور یہ معمولی بات ہے بھی نہیں بلکہ یہ ایمان باللہ ایمان بالکتاب ‘ایمان بالرسول کا معاملہ ہے ‘جس طرح عذاب قبر کا انکاری بہرحال ایماندار نہیں ہے اس طرح جو یہ عقیدہ رکھے کہ اسی دنیاوی قبر کے مردہ میں روح واپس آ جاتی ہے ۔اسی کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے ‘سوال و جواب ہوتا ہے اور اب اسی پر قیامت تک دنیاوی قبر کے اندر عذاب یا راحت کا دور گزرتا رہے گا وہ بھی ایمان سے خالی ہے ۔ان دونوں پر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجت تمام کر دی۔( عذاب قبر ص۲۵)
گویا موصوف کی ذہنیت کو ماننا کتاب وسنت کو ماننے کے مترادف ہے۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
69:مختلف احادیث میں تطبیق​

احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام ‘شہداء اور مومنین کی روحیں جنت میں ہیں البتہ انبیاء کرام علیہم السلام ‘شہداء اور مومنین کی روحیں اپنے اپنے مراتب کے لحاظ سے جنت میں مختلف مقامات پر فائز ہوتی ہیں اور کفار و مشرکین ‘منافقین وغیرہ جہنم میں ہوتی ہیں اور سزا پاتی رہتی ہیں لیکن دوسری طرف ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ میت پر قبر میں صبح و شام یعنی دوم و استمرار کے ساتھ جنت یا جہنم کو پیش کیا جاتا ہے اور نیک شخص سے کہا جاتا ہے کہ آرام سے سو جا اور کفار و منافقین کو ہتھوڑے سے مارا جاتا ہے پہلے ہم ترتیب واران احادیث کو نقل کرتے ہیں اور آخر میں ان کے مجموعے سے نتیجہ اخذ کریں گے چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :۔
’’ ہر نبی کو مرض موت میں دنیا و آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے (یعنی اگر وہ چاہے تو ایک مدت تک مزید دنیا میں قیام کر لے اور چاہے تو آخرت کے قیام کو اختیار کر لے)اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بیماری نے جو سخت شکایت پیدا کی تھی میں نے اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا (اے اللہ ) مجھ کو ان لوگوں میں شامل کر دے جن پر تو نے انعام کیا یعنی نبیوں‘ صدیقوں ‘شہداء اور صالحین۔میں جان گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کو پسند فرمایا ہے‘‘۔
۲۔ ایک دوسری حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کر تی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت صحت میں فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو جنت میں اس کا ٹھکانا اور مقام دکھا دیا جاتا ہے اور پھر اسے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو دنیا پسند کرے چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھیں کھولیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا ۔’’اللھم الرفیق الاعلیٰ ‘‘یعنی اے اللہ بلند مرتبہ رفیقوں (میں مجھے رکھنا) میں سمجھ گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں رہنا پسند نہیں فرماتے اور میں یہ بھی سمجھ گئی کہ یہ وہی بات ہے جو آپ تندرستی میں فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر کلام بھی ہی تھا ۔’’اللھم الرفیق الاعلیٰ‘‘۔(بخاری و مسلم ۔مشکوٰۃ ص۴۷‘۷۵‘۵۴۸)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخر وقت تک یہی دعا مانگتے رہے کہ ’’اللھم فی الفیق الاعلی‘‘یعنی اے اللہ تو مجھے اعلیٰ درجے کے ساتھیوں کے ساتھ ملا دے وہ اعلیٰ درجے کے ساتھی کون تھے؟اوپر والی حدیث میں ہے یعنی انبیاء کرام علیہم السلام ‘صدیقین ‘شہداء اور صالحین اور چونکہ یہ رفقاء جنت میں اپنے اپنے درجات کے لحاظ سے قیام پذیر ہیں اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں کے ساتھ جنت میں رہنے کی آرزو فرماتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آرزو اللہ تعالیٰ پوری فرما دیتا ہے۔
۳۔ جناب سمرہ بن ـجذب رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا خواب بیان فرماتے ہیں اس حدیث کے آخر میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت میں اپنا گھر دکھایا جاتا ہے آگے کے الفاظ یہ ہیں (جناب جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے ہیں کہ :۔
ذرا اپنا سر اوپر اٹھائیے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) اپنا سر اٹھایا تو میں نے اپنے سر کے اوپر ایک بادل سا دیکھا ۔ان دونوں نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر ہے ۔میں نے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) کہا کہ مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے گھر میں داخل ہو جائوں ۔ان دونوں نے کہا کہ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا کچھ حصہ باقی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا نہیں کیا ہے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پورا کر لین تو اپنے اس گھر میں آ جائیں گے ۔ (صحیح و بخاری ‘عذاب قبر ص۶)

ان احادیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحوں کا جنت میں ہونا معلوم ہوتا ہے۔
’’ مسروق رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ ہم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے قرآن کی اس آیت ’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے انہیں تم مردہ نہ کہو…… کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگوں نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جون (پیٹوں) میں ہیں اور ان کے لئے قندیلیں عرش الہی سے لٹکی ہوئی ہیں وہ جنت میں جہاں چاہے گھومتی پھرتی ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آکر بسیرا کرتی ہیں ۔ان کی طرف ان کے رب نے جھانکا اور ارشاد فرمایا کہ کسی اور چیز کی خواہش ہے ۔شہداء نے جواب دیا کہ اب ہم کس چیز کی خواہش کر سکتے ہیں جب ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جنت میں جہاں چاہیں مزے کریں۔اللہ تعالیٰ نے اس طرح تین بار ان سے یہی دریافت کیا اور شہدا نے دیکھا کہ جب تک وہ کسی چیز کی خواہش کا اظہار نہ کریں گے ان کا رب ان سے برابر پوچھتا رہے گا تو انہوں نے کہا کہ اے رب ہمار ی تمنا یہ ہے کہ ہماری روحوں کو پھر ہمارے جسموں میں واپس لوٹا دیا جائے اور ہم دوسری بارے تیری راہ میں شہید کئے جائیں ۔اب کہ اللہ تعالیٰ نے دیکھ لیا کہ انہیں کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے تو پھر ان سے پوچھنا چھوڑ دیا۔(صحیح مسلم توحید خالص نمبر ۲ ص۹)
۵۔ جمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ حارثہ رضی اللہ عنہ (ابن سراقہ) جنگ بدر کے دن شہید ہو گئے اور وہ ابھی نوجوان تھے ۔ان کی ماں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہے کہ حارثہ رضی اللہ عنہ میرے لیے کیا تھا ۔اگر وہ جنت میں ہے تو صبر کروں گی ثواب جان کر اور اگر کسی دوسری جگہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں ہو کیا گیا ہے ۔کیا تم سمجھتی ہو کہ جنت ایک ہی ہے۔جنتوں کی تعداد کی تو کثرت ہے اور تمہارا بیٹا تو جنت الفردوس میں ہے ۔( صحیح و بخاری ۔توحید خالص نمبر ۲ ص۹)
یہ احادیث ظاہر کرتی ہیں کہ شہداء بھی جنت میں ہیں ۔
’’ البراء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے لئے جنت میں ایک دودھ پلانے والی ہے ۔(بخاری جلد ۱ ص۱۸۴ مطبوعہ دہلی ‘عذاب قبر ص۹)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ بھی جنت میں ہیں۔
۷۔ جناب عبد الرحمن بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
’’ بے شک مومن کی روح ایک پرندہ کی طرح ہوتی ہے اور جنت کے درخت سے کھاتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کو لوٹا دے گا اس کے بد کی طرف جس دن اس کو اٹھائے گا ۔(یعنی قیامت کے دن)
اس حدیث کی ایک سند میں تین ائمہ کرام بھی موجود ہیں یعنی امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے امام الشافعی رحمتہ اللہ علیہ سے انہوں نے اس حدیث کو امام مالک سے روایت کیا ہے۔
۸۔ جناب عبد الرحمن بن کعب بن مالک رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ام مبشر رضی اللہ عنہ نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس وقت کہا جب وہ مرض الموت میں مبتلا تھے کہ میرے بیٹے مبشر کو سلام کہنا! انہوں نے فرمایا ۔اللہ تعالی آپ کی مغفرت کرے کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نہیں سنا ۔’’ انما نسمۃ المسلم طیر تعلق فی شجرا الجنۃ حتی یرجعھا اللہ عزو جل الی جسدہ یوم القیمۃ‘‘۔’’ بے شک مسلم کی روح ایک پرندہ کی طرح (جنت میں ) ہوتی ہے اور جنت کے درختوں سے کھاتی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ پھر اس کو اس کے بدن کی طرف لوٹا دے گا قیامت کے دن‘‘۔
ام مبشر رضی اللہ عنہ نے کہا ! آپ نے سچ فرمایا پس میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتی ہوں۔(مسند احمد ج۳ ص۴۵۵ وقال الالبانی ۔وھذا استاد صحیح علی شرط الشیخین الصحیحۃ ج۲ ص۷۳۰)
اس حدیث میں روح کو اڑنے والے پرند ہ سے تشبیہ دی گئی ہے یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ارواح پرندوں کے پیٹوں میں سواری کرتی ہیں اور پرندے بطور سواری کے ان کے استعمال میں ہوتے ہیں اگر روحوں کو پرندوں کے اجام عطا کئے جائیں اور وہ جنت میں پرندے بن کر رہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اشرف المخلوقات کو پرندہ بنا دیا جائے۔اور پرندوں کو ان کی سواریاں مانا جائے تو پھر کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔اور ارواح کے جنت میں جسم کے بغیر رہنے کا قرینہ بھی موجود ہے ۔چنانچہ شہداء والی حدیث میں ہے کہ شہدا اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ ’’ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں کی طرف لوٹا دے‘‘۔یہ واضح قرینہ ہے کہ ان کے جسم موجود نہیں ہیں اور اس حدیث میں بھی ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بد روحوں کو ان کے جسموں کی طرف لوٹا دے گا ۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے جسم موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ پرندے ان کا جسم ہوں تو پھر حدیث میں یہ الفاظ ہونے چاہئیں کہ ان پرندوں کو موت آ جائے گی اور پھر یہ روحوں اپنے پرانے جسموں کی طرف لوٹا دی جائیں گی۔
۹۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :۔
’’ اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اسے راضی وہ تجھ سے کوش پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا‘‘۔
یہ خطاب موت کے وقت روح سے کیا جاتا ہے ۔(مسنن ابن ماجہ و سندہ صحیح و مسلم ‘مسند احمد ‘النسائی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح باب ما یقال عند من خصر الموت)
۱۰۔ جناب ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:۔
’’ میں نے ایک شخص کو جنت میں دیکھا کہ وہ جنت میں مزے سے اڑ رہا ہے تھا ‘محض اس بناء پر کہ اس نے راستہ سے ایک درخت کاٹ کر پھینک دیا تھا جو لوگوں کو تکلیف دیتا تھا‘‘۔
۱۱۔ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جب موت کا فرشتہ اس کے پاس اس کی روح نکالنے آیا تو اس سے پوچھا کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے اس نے کہا مجھ کو یاد نہیں پڑتا (کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہو )فرشتے نے کہا یاد کر اور سوچ۔اس نے کہا کوئی بات یاد نہیں آتی مگر ہاں یہ کہ دنیا میں جب لوگوں سے خرید و فروخت کا معاملہ کرتا تھا تو احسان کرتا تھا لوگوں پر تقاضے کے وقت یعنی خوش حال کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ دست کو معاف کر دیتا تھا ۔’’ فادخلہ اللہ الجنۃ‘‘۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس کو (اس کی بدولت) جنت میں داخل کر دیا۔(بخاری و مسلم مشکوٰۃ ص۲۴۳)

’’ عائشہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے جہنم کو دیکھا کہ اس کا بعض حصہ بعض کو برباد کئے دے رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ عمرو (ابن الحی الخزاعی) اپنی آنتوں کو کھینچ رہا تھا وہ پہلا شخص (عرب) ہے جس نے بتوں کے نام پر جانوروں کو چھوڑنے کی رسم ایجاد کی تھی۔(بخاری جلد ۲ ‘ص۲۲۵ مطبوعہ دہلی ‘عذاب قبر ص۳ ورواہ مسلم عن جابر مشکوٰۃ ص۴۵۶)
۱۳۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
’’ ایک عورت اپنی بلی ہی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو گئی بلی کو اس نے باندھ رکھا تھا نہ تو کھانے ہی کو دیتی تھی اور نہ چھوڑتی بھی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی چبا لیتی ‘یہاں تک کہ وہ مر گئی ‘‘۔(صحیح مسلم)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں ۔عذبت امراۃ فی ھرۃ سجنتھا حتی ماتت فدخلت فیہا النار …یعنی ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا ۔عورت نے بلی کو باندھ رکھا تھا یہاں تک کہ وہ (بھوک سے) مر گئی ۔پس وہ عورت جہنم میں داخل ہو گئی ۔(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ)
۱۴۔ صحیح بخاری کی تفصیلی روایت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو مبتلائے عذاب دیکھا ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے عذاب قبر ص۴ تا ۶)

یہ خواب کا واقعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف لوگوں کو عذاب ہوتے ہوئے دکھایا مگر عثمانی صاحب نے کچھ ایسا تاثر دینے کیکوشش کی ہے ۔مگر اس حدیث میں بھی وضاحت ہے کہ آپ کو الرض المقدس میں لے جایا گیا جہاں مختلف مناظر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشاہدہ فرمایا اور یہ تمام واقعات آپ نے زمین ہی ملاحظہ فرماتے اور یہی کچھ ہم کہنا چاہتے ہیں کہ قبر کا عذاب اسی ارضی قبر میں ہوتا ہے اور دوسرے وہ واقعات جو بیداری میں پیش آئے اور جن میں آپ نے عذاب قبر کو سنا اور اس سے خوف زدہ بھی ہوئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تو انگلی رکھ کر بتا دیا کہ ان قبر والوںکو عذاب ہو رہا ہے ۔ان تمام پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ پھر یہود والا معاملہ ہو گا کہ وہ کتاب کے بعض حصہ کو مانتے تھے اور بعض کا انکار کرتے تھے۔
۱۵۔ جناب علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن ارشاد فرمایا ’’ ملا اللہ علیہم بیوتھم وقبورھم نارا ‘‘۔اے اللہ کافروں کے گھر اور ان کی قبریں آگ سے بھر دے کیونکہ انہوں نے ہمیںصلوٰۃ الوسطیٰ نہ پڑھنے دی اور سورج غروب ہو گیا ۔(صحیح بخاری ج۲ ص۸۰۔۵۹)
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی قبروں کو آگ سے بھر دینے کی بدعا فرمائی ہے اگر اس سے وہ قبریں مراد ہیں تو گھر کون مراد ہیں؟
۱۶۔ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
’’ جب آدمی مرجاتا ہے تو صبح و شام اسے ٹھکانا دکھایا جاتا ہے اگر وہ اہل جنت سے ہوتا ہے تو جنت (دکھائی جاتی ہے) اور اگر اہل النار میں سے ہوتا ہے تو جہنم (دکھائی جاتی ہے) اور (اس سے) کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا اصلی ٹھکانا ہے ۔جس کی طرف قیامت کے دن تجھے (قبر سے) اٹھا کر داخل کر دیا جائے گا‘‘۔
۱۷۔ جناب انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :۔
’’ بے شک جب مردہ کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ واپس جانے والوں کے جوتوں کی چاپ سنتا ہے‘‘۔
۱۸۔ عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ میرے پاس یہود مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں آئیں ان دونوں نے مجھ سے کہا ’’ ان اھل القبور یعدلون فی قبورھم ‘‘ بے شک قبر والے اپنی قبروں میںعذاب دئیے جاتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے ان کی تکذیب کی اور اچھا نہیں سمجھا کہ ان کی تصدیق کر دوں ۔چنانچہ وہ دونوں چلی گئیں پھر میرے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ۔میں نے تمام واقعہ بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ صدقتا انھم یعدبون عذاب تسمعہ البھائم کلھا ‘‘۔ ان دونوں نے سچ کہا ۔بیشک (لوگ) قبروں میں عذاب دئیے جاتے ہیں جنہیں تمام چوپائے سنتے ہیں۔(اس واقعہ کے بعد) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز میں عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے دیکھا۔(صحیح بخاری ص۔ج۲ ص۹۴۲ ومسلم)
’’ اور اس میت کو لوہے کے ہتھوڑوں سے مارا جاتا ہے پس وہ (اس مار سے تکلیف) سے چیختا چلاتا ہے اور اس کی چیخ و پکار انسان و جنات کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں ‘‘۔
۱۹۔ جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ) وہ شخص ہیں جن کے لئے عرش نے حرکت کی اور ان کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے اور ستر ہزار فرشتے (ان کے جنازے میں ) حاضر ہوئے‘‘۔
’’ لقد ضم ضمۃ ثم فس ج عنہ ‘‘ ۔یعنی ان کی قبر ان پر تنگ کی گئی اور پھر کشادہ ہو گئی ۔(نسائی ۔مشکوٰۃ ص۲۶)
۲۰۔ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ریشمی کپڑا لایا گیا لوگوں نے اس کی خوبصورتی اور نرمی کو بے حد پسند فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ لمنا دیل لمنادیل سعد بن معاذ فی الجنۃ افضل من ھذا ‘‘یعنی جنت میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال اس سے زیادہ بہتر ہیں۔
۲۱۔ جناب ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں۔
’’ (نیک میت سے فرشتے کہتے ہیں) سو رہو جس طرح دلہن سوتی ہے جس کو وہی اٹھاتا ہے جو گھر والوں میں سب سے زیادہ اس کا پیارا اور محبوب ہو ۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی خواب گاہ (قبر) سے اٹھائے گا (اور منافق) کے لئے زمین کو کہا جاتا ہے کہ تو اس پر مل جا ۔زمین اس پر مل جاتی ہے جس سے اس کی پسلیاں مختلف ہو جاتی ہیں۔(یعنی ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر) اس کو قبر میں برابر عذاب ہوتا رہتا ہے جب تک کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز نہیں اٹھا لیتا‘‘۔
صحیح بخاری میں نیک میت کے لئے یہ الفاظ آئے ہیں۔’’ نعم صالحاً‘‘ یعنی آرام سے سو جا۔( توحید خالص نمبر ۲ ص۳۲)
۲۲۔ جناب انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا کرتا تھا پھر وہ مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا ملا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ زمین اس کو قبول نہ کرے گی ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس زمین پر پہنچا جہاں وہ شخص مرا تھا میں نے دیکھا کہ وہ قبر سے باہر پڑا ہوا ہے۔میں نے لوگوں سے پوچھا اس کی کیا حالت ہے ۔(یہ قبر سے باہر کیوں پڑا ہے؟) لوگوں نے بیان کیا کہ ’’ دفنا ہ مرارا فلم تقبلہ الارض ‘‘ یعنی ہم نے اس کو کئی دفعہ زمین کے اندر دفن کیا لیکن زمین نے اس کو قبول نہ کیا (اور دفن کرتے ہی زمین سے اس کو باہر گل دیا) ۔(بخاری و مسلم ۔مشکوٰ ۃ ص۵۳۵‘۵۳۶)

جس طرح عام لوگوں کو قبر دباتی ہے یا ان پر فراخ ہو جاتی ہے اس طرح اس شخص کے متعلق زمین کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ وہ اسے اگل دے تاکہ لوگوں کو اس شخص کے انجام سے عبرت حاصل ہو۔
۲۳۔ جناب ابو ایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آفتاب غروب ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی چنانچہ فرمایا کہ یہ آواز یہودیوں کی ہے جن کو قبر کے اندر عذاب دیا جا رہا ہے‘‘۔
ان احادیث کے علاوہ ان احادیث کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جو ہم نے وقتاً فوقتاً اوپر نقل کی ہیں۔
ان تمام احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام ‘شہداء اور صالحین کی روحیں جنت میں مقیم ہوتی ہیں اور وہاں ان پر ان کے درجات کے مطابق انعام و اکرام ہوتا ہے لیکن دوسری طرف ایسی احادیث بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک میت پر صبح و شام جنت پیش کی جاتی ہے ۔جنت کا دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے اور اس میں روشنی کر دی جاتی ہے وغیرہ ۔

جہاں جنت میں روح کے قیام کا تذکرہ ہے تو وہاں یہ الفاظ ہیں ’’ مومن کی روح ایک پرندہ کی طرح کے درخت سے کھاتی رہتی ہے ‘‘۔’’حتی یرحمہ اللہ فی جسدہ یوم یبعثہ ‘‘ یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم کی طرف لوٹا دے گا اور جہاں قبر مین جسم کا تذکرہ ہے وہاں یہ الفاظ ہیں’’ ھذا مقعدک الذی تبعث الیہ یوم القیمۃ ‘‘ یعنی یہ (جنت) تیرا اصلی ٹھکانا ہے جس کی طرف قیامت کے دن تجھے (قبر سے) اٹھا کر داخل کر دیا جائے گا ’’ حتی یبعثہ اللہ من مضجعہ ذلک ‘‘ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی خواب گاہ (قبر) سے اٹھائے گا۔ظاہر بات ہے کہ جب روح جنت سے اس کے جسد کی طرف لوٹائی جائے گی تو وہ زندہ ہو کر جنت میں داخل ہو گا اسی طرح کفار ومشرکین ‘منافقین وغیرہ کی روحیں جہنم میں ہیں اور اپنے اپنے گناہوں کے لحاظ سے سزا بھگت رہی ہیں مگر دوسری طرف قبر میں بھی میت کو فولادی ہتھوڑے یا گرز سے مارا جاتا ہے اور اس کی چیخ و پکار کو تمام چیزیں سنتی ہیں مگر انسان اور جنات نہیں سنتے اس کی قبر اس پر تنگ ہو جاتی ہے ۔جس سے اس کی پسلیاں آر پار ہو جاتی ہیں اور اس کی قبر کو ظلمت سے بھر دیا جاتا ہے ۔جہنم اس پر پیش کی جاتی ہے اور جہنم کی طرف سے ایک دروازہ اس کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔

اہل سنت والجماعت روح اور جسم دونوں کے راحت اور عذاب کے قائل ہیں جبکہ باطل فرقے عذاب قبر کے قائل نہیں ہیں ۔موصوف بھی صرف روح کی راحت یا عذاب کے قائل ہیں ۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد روح کو ایک برزخی جسم ملتا ہے اور اسی برزخی جسم کو قیامت تک راحت یا عذاب سے گزارا جائے گا اور عذاب قبر کا مطلب یہ ہے کہ ان برزخی جسموں کو جنت یا جہنم میں رکھا جائے گا وہی مقامات ان کی قبریں ہیں۔گویا بالفاظ دیگر جنت اور جہنم قبرستان کا دوسرا نام ہے؟ ویا للعجب اگر روح برزخی جسم میں داخل ہو جائے اور یہ انسان جنت یا جہنم ہی برزخی جسم کے ساتھ مکمل زندگی گزارے تو اس زندگی کے باوجود موصوف کے نزدیک قرآن وحدیث کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوتی حالانکہ جس نیا ہو یا پرانا ۔اگر جسم کے ساتھ روح کو زندگی عطا کرائی جائے تو پھر وہ مکمل زندگی ہو گی اور اس فلسفہ کو مان کر موصوف خود اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کافر ہوئے۔اس لئے کہ دوزندگیوں اور دو موتوں کے علاوہ یہ تیسری زندگی اور قبر موت کہاں سے آ گئی کیونکہ جب قیامت برپا ہو گی تو یہ نیا برزخی جسم مر جائے گا اور پرانا جسم عنصری دوبارہ زندہ ہو جائے گا ۔اس طرح قبر کی زندگی کی وجہ سے موصوف نے جو سب ہی کو کافر قرار دے دیا تھا اب فتویٰ کی مشین گن کا رخ خود موصوف کی طرف ہو گیا اور وہ خود اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کافر ہو گئے ۔اسے کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے ۔جب کہ علماء اسلام میت کو میت ہی مانتے ہیں اور میت قبر میں جو راحت و عذاب کو محسوس کرتی ہے تو یہ زندگی خواب کی طرح کی زندگی ہے جسے کوئی سونے والا دیکھتا ہے اور اسے نوع من الحیاۃ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اس لئے کہ موت روح اور بدن کی مفارقت اور جلالی کا نام ہے اور روح اس وقت جنت یا جہنم میں ہوتی ہے جبکہ جسم قبر میں راحت یا عذاب میں مبتلا ہوتا ہے ۔قرآن و حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس پر اسی طرح ایمان رکھنا چاہئے جس طرح کہ وہ بیان ہوا ہے اور اس میں اپنی طرف سے کوئی مین میکھ نہیں نکالنی چاہئے۔عذاب قبر پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔البتہ اس کی تفصیلی کیفیت تو اللہ کے علم کی طرف تفویض کر دینا چاہئے اور اسی میں ایمان کی حفاظت ہے۔
عذاب قبر کے سلسلہ میں ہماری دوسری کتاب ’’الدین الخالص دوسری قسط ‘ ’’الدین الخالص (خلاصہ) ‘‘دعوت قرآن کے نام سے قرآن وحدیث سے انحراف وغیرہ کا بھی ضرور مطالعہ کریں۔
آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ’’ اے اللہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے اور باطل سے مکمل اجتناب کی توفیق دے اور ہمیں نفس وشیطان کی پیروی سے بچا‘‘ ۔اٰمین یا رب العالمین
ابو جابر عبد اللہ دامانوی
 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
207
پوائنٹ
82
بھائی جان اس کتاب کا لنک دے دیں ڈاونلوڈ کے لیے ۔۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top