• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عراق میں 'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کا اعلان!

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
لیکن برما میں مسلمانوں کو قتل کرنا اور ان کے گھروں کو نذرِآتش کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فلپائن، انڈونیشیا اور کشمیر میں مسلمانوں کے جسموں کے ٹکڑے کرکے آنتیں نکالنا اور ان کے پیٹ چاک کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔قفقاز میں مسلمانوں کو مارنا اور بے گھر کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔بوسنیا اور ہر زیگوینا میں مسلمانوں کی اجتماعی قبریں بنانا اور ان کے بچوں کو عیسائی بنانا دہشت گردی نہیں۔فلسطین میں مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، ان کی زمینوں کو سلب کرنا، ان کی عزتوں کو لوٹنا اور ان کی حرمات کو پامال کرنا دہشت گردی نہیں۔مصر میں مساجد کو جلانا، مسلمانوں کے گھروں کو منہدم کرنا، پاکباز خواتین کی عزتیں لوٹنا اور سینا ودیگر علاقوں میں مجاہدین کا قلع قمع کرنا دہشت گردی نہیں ۔مشرقی ترکستان اور ایران میں مسلمانوں پر بدترین تشدد کرنا، اُنہیں (زمین میں) دھنسانا، اُنہیں ذلیل ورسوا کرکے انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا دہشت گردی نہیں ہے۔ہر جگہ پر جیلوں کو مسلمانوں سے بھرنا دہشت گردی نہیں ہے۔فرانس اور تیونس وغیرہ میں پاکبازی کے خلاف جنگ برپا کرنا اور حجاب سے روکنا، فحاشی، بدکاری اور زنا کو پھیلانا دہشت گردی نہیں ہے۔ربّ العزت کو برا بھلا کہنا، دین کو گالی دینا اور ہمارے نبیﷺ کا مذاق اُڑانا دہشت گردی نہیں ہے۔وسطی افریقہ میں مسلمانوں کو ذبح کرنا اور بھیڑ بکریوں کی طرح اُن کے گلے کاٹنا دہشت گردی نہیں ہے۔ ان سارے (مظالم) پر نہ کوئی رونے والا اور نہ ہی کوئی مذمت کرنے والا ہے۔ یہ سب کچھ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ تو آزادی، جمہوریت، امن اور بقائے باہم ہے!! سو ہمارے لیے اللّٰہ ہی کافی ہے، اور وہ ہی تمام اُمور کا بہترین کارساز ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اے دنیا بھر کے مسلمانو! آج اللّٰہ کے فضل سے تمہاری ایک مملکت اور خلافت ہے جو کہ تمہاری عزت وکرامت کو، تمہارے حقوق اور تمہاری سیادت کو واپس دلائے گی۔ یہ ایک ایسی 'ریاست'ہے جہاں عرب وعجم، سفید فام اور سیاہ فام، مشرقی اور مغربی سب بھائی بھائی ہیں۔ یہ ایک ایسی خلافت ہے جس نے قوقازی، ہندوستانی، چینی، شامی، عراقی، یمنی، مصری، مراکشی، امریکی، فرانسیسی، جرمنی اورآسٹریلوی سب (مسلمانوں) کو یکجا کردیا ہے اور اللّٰہ نے ان کے دلوں کو ملا دیا ہے۔ وہ سب اللّٰہ کی نعمت سے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بھائی بھائی بن گئے ہیں اور ایک خندق میں کھڑے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہوئے ایک دوسرے کی حفاظت کررہے ہیں اور ایک دوسرے پر اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ ان کا خون ایک جھنڈے اور ایک مقصد تلے، ایک کیمپ میں مل کر ایک ہو رہا ہے۔ وہ ایمانی اخوت کی نعمت سے لطف اندوز ہوکر زندگی بسر کررہے ہیں۔ اگر بادشاہ لوگ اس نعمت کا ذائقہ چکھ لیں تو اپنی بادشاہی ترک کرکے اس (نعمت کو پانے کے لیے اس) پر لڑنا شروع کردیں۔ پس تمام بڑائی اور شکر اللّٰہ کے لیے ہیں۔تو پھر اے مسلمانو! اپنی مملکت کی طرف جلدی بڑھو۔ ہاں یہ تمہاری مملکت ہے، اس کی طرف لپکو کیونکہ شام شامیوں کے لیے نہیں اور عراق عراقیوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ تو اللّٰہ کی زمین ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، اس کا وارث بنا دیتا ہے۔ اور نتیجہ تو پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
یہ ریاست مسلمانوں کی ریاست ہے اور یہ زمین مسلمانوں کی سرزمین ہے، سارے مسلمانوں کی ہے۔سو دنیا بھر کے مسلمانو! پس جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ کی طرف ہجرت کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ہجرت کرے کیونکہ دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا واجب ہےجیساکہ قرآن کریم میں اللّٰہ کا حکم ہے۔

سو اے مسلمانو! اپنے دین کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے اللّٰہ کی طرف دوڑتے ہوئے جلدی کرو۔

ہم خصوصی طور پر طلباے علم، فقہا اور داعیان، جن میں سرفہرست قاضیوں؛ فوجی، انتظامی، اور (شہری) خدمات میں اعلیٰ صلاحیت رکھنے والوں؛ مختلف شعبوں میں اور کسی بھی قسم کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں اور انجینئروں کو بلاتے ہیں اور اُنہیں یاد دلاتے ہیں کہ اللّٰہ سے ڈریں۔ پس ان پر (اس وقت) ہجرت کرنا واجب ہوچکی ہے، اس وجہ سے کہ مسلمانوں کو ان کی شدید ضرورت ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
امارت کے مرکزی ترجمان شیخ ابو محمد عدنانی نے ''یہ اللّٰہ کا وعدہ ہے '' نامی پیغام میں کہا:

''اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اقتدار دینے، زمین میں استحکام بخشنے اور امن فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے، لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ﴿يَعبُدونَنى لا يُشرِ‌كونَ بى شَيـًٔا﴾النور:55 ''وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی بھی چیز کا شرک نہیں کریں گے۔ اس شرط کو پورا کیے بغیر حکمران محض بادشاہ کہلاتے اور ان کے اقتدار وحکمرانی کے ساتھ تباہی، فساد، ظلم، قہر، خوف پیدا ہوتا اور جانوروں کے رہن سہن کی طرح انسانی انحطاط واقع ہوتا ہے۔''

پھر جنگِ قادسیہ کے حوالے سے ملتِ اسلامیہ کے تمام مسائل کے خاتمے کا بعثت نبویؐ پر ایمان اور دین اسلام پر عمل کرنے کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 25 سالوں میں مسلمانوں نے دو سپر طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔

''مسلمانو! اپنی عزت اور اپنی نصرت کی طرف بڑھو۔اللّٰہ کی قسم! اگر تم جمہوریت، سیکولر ازم، قومیت پرستی اور مغرب وامریکہ کے دیگر گھٹیا نظریات کے ساتھ کفر کرو اور اپنے دین وعقیدہ کی طرف لوٹ جاؤ توتم زمین کے مالک بن جاؤگے اور مشرق ومغرب تمہارا ماتحت ہوگا۔ یہ اللّٰہ کا تم سے وعدہ ہے!

تباہی ہو، ایسے حکام کے لیے اور تباہی اس اُمت کے لیے، جسے یہ جمع کرنا چاہتے ہیں، جو سیکولروں، جمہوریت پسندوں اور وطن پرستوں کی اُمت ہے۔ جو مرجئہ، اخوان اور سروریوں کی اُمت ہے۔

پھر اس خلافت پر بعض اعتراضات کا تذکرہ کرکے ان کے جواب دیتے ہیں کہ لوگ ضرور کہیں گے کہ اس امارت کو اُمتِ اسلامیہ ، اتحادی کونسلوں ، افواج، جماعتوں ، تنظیموں اور تحریکوں نے تسلیم نہیں کیا۔ اور یہ بھی کہ یہ خارجیوں کی ریاست ہے۔ ایسےالزامات کے غلط اور جھوٹے ہونے کی دلیل وہ شہرہیں جو دولت کے ماتحت آچکے ہیں۔ اور یہ بھی شبہ کہ یہ ایک چنگاری ہے جو کبھی بجھ سکتی ہے اور کافر اَقوام اسے باقی رہنے نہیں دیں گی۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دولتِ اسلامی کا اپنے زیر قبضہ شہروں میں کیا رویہ ہے، بالخصوص شام کے صوبہ رَقہ میں جہاں دولت کا اقتدار 14 ماہ (مئی 2013ء) سے موجود ہے کہ

1. وہاں خواتین کو شرعی حجاب کی پابندی اور مردوں کو ڈاڑھی رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے اور اس کی تلقین کے پوسٹر ز، آیات سے مزین سٹرکوں پر موجو دہیں۔

2. بی بی سی کے مطابق داعش ایسا نظام چاہتی ہے جو محمدﷺاور ان کے صحابہ کے دور کا ہے اور قرآنِ کریم کے الفاظ کی پابندی کرنے کی داعی ہے۔

3. وہ عراقی یا شامی شہریت کو ترجیح دینےکے بجائے تجربہ کار اور پختہ فکر مسلمانوں کو نظام حکومت میں ترجیح دیتی ہے۔

4. اپنی باضابطہ فوج میں شامل ہونے سے پہلے باقاعدہ دوہفتے کی دینی تعلیم اور ایک ہفتے کی عسکری ٹریننگ دیتی ہے۔

5. بعض ذرائع کے مطابق، دولت کے زیر نظم شہروں میں غیرمسلموں کو امتیازی لباس وشناخت دے کر، اُن کے شہری حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔

6. ہرشہر میں غلبہ ہونےکے ساتھ ہی امن وامان کی صورتحال پر فوری توجہ دی جاتی اور شرعی عدالتیں قائم کردی جاتی ہیں۔

7. جہاں تک سماجی انصاف اور نظم ونسق کی بات ہے تو دولت اسلامی نے اپنے شہروں میں صفائی اور راستوں کی حفاظت کے علاوہ فوری انصاف کا مضبوط نظام بھی قائم کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دولت نے حال ہی میں رَقہ میں اپنی عسکری طاقت اور فوجی پریڈ کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور ہر کارکن کو 500 ڈالر ماہانہ پر بھرتی کرکے، اپنے شہروں میں ہر ہر چیز کی قیمت نصف کردی ہے۔ اس کے لیے اس کے پاس عراق وشام کے تیل کے اہم کنووں پر قبضہ کرلینا اہم کامیابی ہے۔ شام کا تیل سے مالا مال علاقہ 'دیر الزور' اور عراق کی سب سے بڑی آئل ریفائنری اُن کے قبضے میں ہیں جہاں سے وہ شام اور دیگر حکومتوں کو تیل فروخت کررہے ہیں۔ اسی طرح عراق کا سب سے بڑا پانی کا ڈیم: موصل ڈیم، فلوجہ ڈیم اور شام کا 'طبقہ ڈیم ' جو اسد جھیل پر ہے، بھی ان کے کنٹرول میں ہیں۔اس لحاظ سے تیل اور پانی ،دونوں بڑے وسائل، وافر تعداد میں اُنہیں حاصل ہیں اور وہ کسی بھی وقت پورے عراق کو ابتری سے دوچار کرسکتے ہیں۔

داعش نے بڑی منصوبہ بندی سے تیل اور پانی کے مراکز کے علاوہ ، زرعی دولت سے مالامال سرزمین کو ہدف بنایا ہے، جہاں زیادہ تر اہل السنّہ عقائد کے حامل مسلمان آباد ہیں۔اسے دنیا کی سب سے مال دار اور اسلحہ کی طاقت رکھنے والے تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ قابل ذِکر امریہ ہے کہ 22؍ اپریل کو یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ اتحاد کے اجلاس میں 27؍ ارکان نے یہ طے کیا تھا کہ شام میں مزاحمتی تحریک سے تیل کی خرید کا آزادانہ سلسلہ شروع کیا جائے، اس کے نتیجے میں داعش اور کرد تحریکات کے لیے تیل فروخت کرنے کے امکانات وسیع ہوگئے۔اور یوں مالی وسائل فراہم کرنا ان کے لیے ممکن ہوا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
داعش کے خلاف عالمی مزاحمت

عراقی حکومت اور افواج دولتِ اسلامی کے مقابلے میں بے بس نظر آرہی ہیں۔4 جولائی کو امریکی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی سٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا کہ عراقی فوجیں ، دولتِ اسلامی کا مختلف شہروں سے قبضہ واپس نہیں لے سکتیں۔عراق نے اقوام متحدہ اور سپر طاقتوں کو اپنی جنگ میں جھونکنےکے لیے دولتِ اسلامی پر موصل کی یونیورسٹی سے ایٹمی مواد کے حصول کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹر ی جنرل کو لکھے گئے ایک خط میں 'مثنی کمپلیکس' نامی ایک فیکٹری کے بھی دولتِ اسلامی کے ہاتھ لگ جانے کی شکایت کی گئی ہے ، جس میں صدام دور میں کیمیائی ہتھیار بنائے جانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ امریکہ نے اس سلسلے میں 300 فوجی اپنی کٹھ پتلی مالکی حکومت کی مدد کے لیے بھیجے ہیں، لیکن اس کا اصرار ہے کہ یہ فوجی انٹیلی جنس اور رہنمائی کے عمل تک محدود رہیں گے، میدانِ جنگ میں اُنہیں نہیں بھیجا جائے گا۔امریکی ہیل فائر میزائل بھی عراقی فوج کو دیے گئے ہیں،ساتھ ہی امریکی طیارہ بردار جنگی جہاز جارج ایچ ڈبلیو بش دو ماہ سے قریبی سمندر میں پہنچ چکا ہے۔

اقوام متحدہ نے بھی انسانی حقوق کی صورتحال کے نام پر روزانہ بنیادوں پر رپورٹ جاری کرنا شروع کی ہے، جس کی مدد سے دولت اسلامی کے خلاف یورپی ممالک کی ممکنہ ومشترکہ جارحیت کو بنیاد فراہم کی جائے گی۔اس کا کہنا ہے کہ صرف ماہ جون میں 2417 شہری عراق میں 'تشدد اور انتہاپسندی' کی نذر ہوگئے ہیں جن میں سے 1531 عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ نوی پیلے نے داعش کے عراقی فوجیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے پر کڑی تنقید کی ہے۔شام میں جنگی جرائم کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے چیف تفتیش کار پاؤلو پنہیرو کا کہنا ہے کہ ''داعش کے جنگجوؤں کو مبینہ طور پر جنگی جرائم میں ملوث افراد کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے اورداعش کے جنگجو کے خلاف کیس کافی مضبوط ہے۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
داعش کے خلاف ایرانی جدوجہد

دولتِ اسلامی کے اس جہادومزاحمت میں ایران کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے جو ہر جگہ وحدت ِاسلامی کا نعرہ لگاتا ہے، وہ عراقی حکومت کی مدد کے لیے نہ صرف اپنے جنگی طیارے Sukhoi Su-25 بھیج چکا ہے جسے ایرانی پائلٹ ہی اُڑا سکتے ہیں، کیونکہ عراقی فضائیہ کے پاس تمام جنگی طیارے تباہ ہوچکے ہیں۔ بلکہ جو ن کے پہلے خطبہ جمعہ کے بعد عراق کے سب سے سینئر شیعہ رہنما آیت اللّٰہ العظمیٰ علی سیستانی کی جانب سے سنّی شدت پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لیے شہریوں سے ہتھیار اُٹھانے اور سکیورٹی فورسز کا ساتھ دینے کی باضابطہ اپیل کی جا چکی ہے۔نامور عراقی شیعہ رہنما اور 'مہدی آرمی' کےبانی مقتدیٰ الصدر کی قیادت میں بغداد میں شیعہ عوام نے داعش کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ ایران کی 'سپاہ پاسدارانِ انقلاب ' پہلے ہی عراق میں موجود ہے جس کی خبر امریکی وال سٹریٹ جنرل اور سی این این مصدقہ ذرائع سے دے چکے ہیں، لیکن ایران اس کو تسلیم نہیں کرتا رہا۔ایرانی پاسداران انقلاب کی 'القدس فورس' ، ایرانی بریگیڈیر جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں داعش کے خلاف مزاحمت میں سرگرمِ عمل ہے۔بغداد میں پستولوں اور گولیوں کی قیمتیں تگنی ہو چکی ہیں اور کلاشنکوف تو شاید ہی مل پائے۔ یہ قیمتیں اس لیے نہیں چڑھیں کہ لوگ خود کو داعش کے ممکنہ حملے کے لیے مسلح کر رہے ہیں بلکہ اس لیے چڑھی ہیں کہ شیعہ رضاکاروں میں ان کی مانگ زیادہ ہو گئی ہے۔شیعہ رضا کاروں کی ایک بڑی تعداد ہمسایہ ملک ایران سے بغداد پہنچی ہے۔بغداد کے نواح میں سنی آبادیاں موجود ہیں اور بغداد کے اندر بھی امیریہ اور خدرا کے سنّی اکثریتی علاقے ہیں، لیکن مجموعی طور پر بغداد میں شیعہ کی اکثریت ہے۔بی بی سی کے مطابق

''اگر آپ وائٹ ہاؤس اور برطانوی دفترِ خارجہ کے بیانات کو سنیں تو آپ ضرور سوچیں کہ وہ موجودہ بحران میں ایران کو ایک چھوٹا سا کردار ادا کرنے کی منصفانہ اجازت دے رہے ہیں...لڑائی میں شیعہ رضاکاروں کی جوابی شرکت نے یہ خطرہ پیدا کر دیا ہے کہ یہی سنّی یہ سوچنے لگیں کہ شیعہ عام سنیّوں سے انتقام لیں گے۔ اسی کے نتیجے میں وہ یہ بھی محسوس کرنے لگیں کہ داعش ہی وہ واحد گروہ ہے جو اُن کی حفاظت کر سکتا ہے۔''2
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بی بی سی کا بغداد ایڈیٹر جان سمپسن لکھتا ہے:

''[بغداد کے نواحی علاقہ ]بعقوبہ کی لڑائی میں معاملہ تبدیل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ فوجی جو داعش کو شہر کے مرکز سے باہر دھکیل رہے ہیں جزوی طور پر ان شیعہ رضاکاروں پر مشتمل ہیں جو اس جنگ میں سنّی دشمنوں سے لڑنے کے لیے آئے ہیں۔''

روسی فضائیہ بھی عراقی حکومت کی پشت پر ہے کیونکہ قفقاز میں جاری جہادی تحریک اور داعش میں نظریاتی قرب وتعلق پایا جاتا ہے، دونوں کا دشمن مشترکہ ہے یعنی جہاد کی عالمی تحریک۔ گویا دولتِ اسلامیہ کو حالیہ طور پر امریکہ، عراق، ایران اور روس کی مشترکہ فوجی قوت کا سامنا ہے۔عراقی افواج میں، ایران سے آنے والے دستے اور جنگی سازوسامان براہِ راست شریک ہیں۔نیزامریکہ عراقی کٹھ پتلی حکومت کے تحفظ کے مسئلہ پر ایران سے براہِ راست بات چیت اور مشاورت کررہا ہے۔ان تفصیلات سے علم ہوتاہے کہ عالم اسلام سے امریکہ کے مقابلے اور ٹکڑ لینے کی حمایت حاصل کرنے اور وحدتِ اسلامی کے فلک بوس نعرے لگانے والا ایران کا چہرہ ، داعش کے معاملے میں کھل کر سامنے آگیا ہے، اور یہاں وہ مغرب کے متحرک آلہ کارکا کردار ادا کررہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ وبرطانیہ کی اہل اسلام کو کچلنے کی مہم میں سفارتی پشت پناہی اور عالمی تائید ایران کو حاصل ہے اور یہاں ایرانی حکومت اور شیعہ رضا کار عملاً مغربی اقوام کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں۔

یہ امریکہ ہی تھا جس نے عراق میں صدام حسین کی حکومت کو جھوٹے الزامات لگا کر تباہ کیا اور اس کی جگہ متعصّب شیعہ نور ی المالکی کو وزیر اعظم بنا کر عراق کو فرقہ واریت کی جنگ میں جھونک دیا، اب اس فرقہ واریت اور تشدد جس کو ماضی میں خود ہوا دی، کی مذمت کرتے ہوئے امن وسلامتی کے قیام کے نام پر اپنی کٹھ پتلی حکومت کی مددکو دوبارہ پلٹ آیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
یہاں ایک چیز خصوصیت سے توجہ طلب ہے کہ عراق میں امریکی جارحیت کے خلاف مزاحمت سنّی جدوجہد کا فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے کیوں ہے؟ اسی سوال کو یوں بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ داعش کے اس جہاد کو سنّی جہاد کیوں قرار نہ دیا جائے جو وہ شیعہ کے خلاف کررہے ہیں اور شیعہ کو ہی کیوں فرقہ واریت کا داعی اور استعمارکاحاشیہ نشین قرار دیا جاتا ہے؟

دراصل دنیا بھر کے شیعہ حکام، اگر اپنے عوام پر غصب اور جبر وتشدد کریں، یا عالمی طاقتوں کے کٹھ پتلی بن کر حکومتوں پر قابض ہوجائیں تو ایرانی حکومت ، اس شیعہ تسلط کی مذمت کے بجائے، اس کی حمایت پرکمربستہ ہوجاتی ہے۔ شام میں گذشتہ تین برسوں میں یہی سانحہ رونما ہورہا ہے کہ بشار الاسد اور اور اس کے باپ کی حکومتیں ، مصر کے حکمرانوں حسنی مبارک اور صدرقذافی کی طرح غاصب وجابر حکومتیں تھیں جنہوں نے اپنے عوام پر بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا۔جب مصر میں عوام ایسے حکمرانوں کے سامنے کھڑے ہوئے تو اُن کا سنّی ہونا تو ان حکمرانوں کےکوئی کام نہ آسکا، جبکہ شام میں بشار الاسد کی غاصب حکومت کے تحفظ کے لیے ایران، لبنان اور عراق کے سب شیعہ ایرانی قیادت میں متحد ہوگئے۔ایسے ہی افغانستان میں کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف جب مزاحمت کی جاتی ہے تو اس کا سنّی ہونا اس کو چنداں فائدہ نہیں دیتا، بلکہ اس کو امریکہ کا حاشیہ بردار سمجھ کرقابل مذمت گردانا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب عراق میں امریکہ نوری المالکی کو زما م ِاقتدار سونپتا ہے تو ایسے میں اس کٹھ پتلی وزیر اعظم کی تائید کے لیے ایران میدان میں کود جاتا ہے۔ گویا شیعہ حکمران چاہے غاصب ہوں یا امریکہ کے حاشیہ بردار، ہر صورت میں شیعہ اقتدار کی حمایت کرنا اور اس کو توسیع دینا ایران کا مطمع نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ جنگ ظلم وجبر یا امریکی غصب وبربریت کے خاتمے کی بجائے، شیعیت اور سنیت کی جنگ بن جاتی ہےاور اس حقیقت کو عالمی سامراج بخوبی سمجھتا ہے اور یوں اہل اسلام کو باہم لڑا کر، اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتا چلا جاتا ہے۔ سنی مزاحمت کا رنگ اس لیے بھی مزید واضح ہوجاتا ہے کہ جب سب شیعہ اپنے تعصّب میں ایک طرف مجتمع ہوجاتے ہیں، جیسے کہ عراق میں نور ی المالکی شیعہ تعصب کا مرکز اور نمائندہ ہے تو ایسے حالات میں مزاحمت کرنے والے عناصر میں صرف سنّی ہی باقی رہ جاتے ہیں یا ان کے ساتھ بعض سیکولر آزادی پسند لوگ مثلاً صدام حکومت کی باقیات اور اسٹیبلشمنٹ بھی کھڑی ہوجاتی ہے،یا مظلوم عوام بھی ساتھ آجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عراق میں امریکی تسلط کے خاتمے کی جدوجہد، دیگر خطوں کے بالمقابل شیعہ سنّی مخاصمت کا رنگ لیے ہوئے ہے، جبکہ اس میں داعش کے ساتھ دیگر عناصر بھی موجود ہیں جو امریکی کٹھ پتلی نظام جبر کے مخالف ہیں۔
 
Top