- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
مغرب کی ایران نوازی
ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعدماضی قریب میں ایران میں شیعہ انقلاب آیا، افغانستان میں حنفی رجحانات کے حامل طالبان نے 'امارتِ اسلامیہ' قائم کی اور مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین والجزائر میں اخوان کی ہم خیال جماعتوں کی حکومتیں جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ ان میں سے ہر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف عالمی طاقتیں یکسو ہوگئیں، جبکہ ایرانی انقلاب کو راہ دی گئی اور وہ آج تک اُمتِ اسلامیہ میں اپنے بد اَثرات پھیلا رہا ہے۔شیعیت کو ایسی کیا خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام کے دعوے کے باوجود، عالمی کفریہ طاقتیں اس کو گوارا کرتی ہیں؟آج عالمی طاقتوں کی یہی سیاسی تدبیر، مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں شیعیت اور سنیت کی کشمکش کی ایک خطرناک تصویر اُبھاررہی ہے۔ ایرانی انقلاب نے روزِ اوّل سے حرمین پرقبضہ کی مذموم کوشش، طویل ایران عراق جنگ، پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات جس کے دفاع میں سپاہ صحابہؓ بنی،افغانستان میں طالبان حکومت کے 2001ء میں خاتمے کی امریکی کوشش میں ایرانی وحدتِ اسلامی کا شمالی اتحاد کا ساتھ دینا،عراق میں نوری المالکی کے تسلط کے ذریعے سنیّوں کو کچلنا اور شام میں سنّیوں کی نسل کشی، اور اسی سال افغانستان کو تباہ کرنے والی امریکی افواج او رنیٹو کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا وغیرہ کے بدنتائج دیے ہیں۔ دراصل شیعہ انتقامی سیاست کے علم بردار ہیں، اور وہ اہل السنّہ کو سیدنا علی اور ان کے خانوادے کو خلافت نہ دینے کا مجرم خیال کرتے ہیں۔اس انتقامی نظریہ کی بنا پر ، ان کی جدوجہد کا محور عالم کفر کی بجائے عالم اسلام بنتا ہے کیونکہ وہ انہی کو غاصب سمجھتے ہیں۔یہ انتقامی نظریہ ہی ہے جس نے سقوطِ بغداد اور برصغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوکی حکومت گرانے میں شیعہ کو سازشی کردار اور عالمی استعمار کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔
داعش کی خبروں کے ساتھ ہی ایران میں انہی دنوں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے کہ ''ایران میں کوئی تنظیم اس وقت تک رجسٹرنہیں کی جائے گی، جب تک وہ ایران کے روحانی پیشوا، آیت اللّٰہ خامنہ ای کے افکار کی غیر مشروط اتباع کا دم نہ بھرے۔'' 20 سال سے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ خامنہ ای کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''وہ امام مہدی کے نائب ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔'' 'اسلامی جمہوریہ ایران' کے ان اقدامات کا مطلب بدترین فکری جبر کے سوا اور کیا ہے؟ یہ فکری جبر نہ تو اس کے دعواے جمہوریت کے مطابق ہے اور نہ ہی 'اسلامی'کےسابقہ کے مصداق ہے، جس میں مخصوص شیعی فکر کے علاوہ کوئی اور نظریہ اختیار کرنا اور پھیلانا قانوناً ممنوع ہے۔ایسی ہی ایک اور چبھتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ
''8؍شوال 1435ھ بمطابق 5؍اگست 2014ء کو دنیا بھر میں شیعہ برادری نے 'یوم انہدامِ جنت البقیع' منایا۔یورپی ممالک اور واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کے سامنےشیعہ مظاہرین نے احتجاج کیا۔ کراچی میں شیعہ رہنما مختار امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جاری ہے کہ ہم نے ماضی میں سعودی حکمرانوں کے مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ 1926ء میں اس دن خاتم الانبیا کی ازواج اور اصحابِ اہل بیتِ اطہار کے روضے مسمار کردیے گئے جس پر شیعہ مسلمان دنیا بھر میں احتجاج کرتے اور نوحہ کناں ہیں۔اسلام آباد میں احتجاجی ماتمی جلوس امام بارگاہ دربارسخی محمود بادشاہ سے برآمد ہوا، لاہورمیں پریس کلب کےباہر احتجاجی ریلی ہوئی۔ پاکستان،بھارت اور دنیا کے مختلف شہروں میں اس موقع پر ماتمی جلوس اور مجالس عزا کا انعقاد کیا گیا۔ اُنہوں نے مسلم حکمرانوں او رعوام سے شکوہ کیا کہ وہ سعودی حکومت سے خائف کیوں ہیں ، احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ یہ روح فرسا واقعہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ''3
ایک طرف ایران اور اس کے زیرقیادت شیعہ قوم کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف یہ ایرانی وحدتِ اسلامی کا ٹائٹل بھی تھامے ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا اصل المیہ اسرائیل ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ کرنے کے بجائے صرف زبانی بیان بازی پر اکتفا کیا جاتاہے حتی کہ 'القدس فورس' سنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں بھیجی جاتی ہے۔اسرائیل کے خلاف ایران کا یہ زبانی جمع خرچ ، اس کے 'وحدتِ اسلامی' یا امریکہ کے 'انسانی حقوق' کے کھوکھلے نعرے کی طرح ، کوئی زمینی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ عملاً پورےے عالم اسلام میں ایران میں سب سے زیادہ یہودیوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ یہودی ایران میں بستے ہیں۔ بی بی سی کی خبر ملاحظہ کریں:
''اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) یا 'ہتکِ عزت مخالف لیگ' نامی تنظیم کے اس جائزے کے مطابق صرف 56 فیصدایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جب کہ ترکی میں اس رائے کاتناسب 69 فیصد اور فلسطینی علاقوں میں 93 فیصد ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے 'مرگِ انبوہ' یا 'ہولوکاسٹ' کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، اسی بنا پر اسے ہولوکاسٹ یا مرگِ انبوہ کہا جاتا ہے۔6مئی 2014ء کو ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کو اس بنا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مرگِ انبوہ کو ایک'سانحہ'قرار دیا تھا۔''4
ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعدماضی قریب میں ایران میں شیعہ انقلاب آیا، افغانستان میں حنفی رجحانات کے حامل طالبان نے 'امارتِ اسلامیہ' قائم کی اور مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین والجزائر میں اخوان کی ہم خیال جماعتوں کی حکومتیں جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ ان میں سے ہر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف عالمی طاقتیں یکسو ہوگئیں، جبکہ ایرانی انقلاب کو راہ دی گئی اور وہ آج تک اُمتِ اسلامیہ میں اپنے بد اَثرات پھیلا رہا ہے۔شیعیت کو ایسی کیا خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام کے دعوے کے باوجود، عالمی کفریہ طاقتیں اس کو گوارا کرتی ہیں؟آج عالمی طاقتوں کی یہی سیاسی تدبیر، مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں شیعیت اور سنیت کی کشمکش کی ایک خطرناک تصویر اُبھاررہی ہے۔ ایرانی انقلاب نے روزِ اوّل سے حرمین پرقبضہ کی مذموم کوشش، طویل ایران عراق جنگ، پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات جس کے دفاع میں سپاہ صحابہؓ بنی،افغانستان میں طالبان حکومت کے 2001ء میں خاتمے کی امریکی کوشش میں ایرانی وحدتِ اسلامی کا شمالی اتحاد کا ساتھ دینا،عراق میں نوری المالکی کے تسلط کے ذریعے سنیّوں کو کچلنا اور شام میں سنّیوں کی نسل کشی، اور اسی سال افغانستان کو تباہ کرنے والی امریکی افواج او رنیٹو کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا وغیرہ کے بدنتائج دیے ہیں۔ دراصل شیعہ انتقامی سیاست کے علم بردار ہیں، اور وہ اہل السنّہ کو سیدنا علی اور ان کے خانوادے کو خلافت نہ دینے کا مجرم خیال کرتے ہیں۔اس انتقامی نظریہ کی بنا پر ، ان کی جدوجہد کا محور عالم کفر کی بجائے عالم اسلام بنتا ہے کیونکہ وہ انہی کو غاصب سمجھتے ہیں۔یہ انتقامی نظریہ ہی ہے جس نے سقوطِ بغداد اور برصغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوکی حکومت گرانے میں شیعہ کو سازشی کردار اور عالمی استعمار کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔
داعش کی خبروں کے ساتھ ہی ایران میں انہی دنوں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے کہ ''ایران میں کوئی تنظیم اس وقت تک رجسٹرنہیں کی جائے گی، جب تک وہ ایران کے روحانی پیشوا، آیت اللّٰہ خامنہ ای کے افکار کی غیر مشروط اتباع کا دم نہ بھرے۔'' 20 سال سے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ خامنہ ای کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''وہ امام مہدی کے نائب ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔'' 'اسلامی جمہوریہ ایران' کے ان اقدامات کا مطلب بدترین فکری جبر کے سوا اور کیا ہے؟ یہ فکری جبر نہ تو اس کے دعواے جمہوریت کے مطابق ہے اور نہ ہی 'اسلامی'کےسابقہ کے مصداق ہے، جس میں مخصوص شیعی فکر کے علاوہ کوئی اور نظریہ اختیار کرنا اور پھیلانا قانوناً ممنوع ہے۔ایسی ہی ایک اور چبھتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ
''8؍شوال 1435ھ بمطابق 5؍اگست 2014ء کو دنیا بھر میں شیعہ برادری نے 'یوم انہدامِ جنت البقیع' منایا۔یورپی ممالک اور واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کے سامنےشیعہ مظاہرین نے احتجاج کیا۔ کراچی میں شیعہ رہنما مختار امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جاری ہے کہ ہم نے ماضی میں سعودی حکمرانوں کے مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ 1926ء میں اس دن خاتم الانبیا کی ازواج اور اصحابِ اہل بیتِ اطہار کے روضے مسمار کردیے گئے جس پر شیعہ مسلمان دنیا بھر میں احتجاج کرتے اور نوحہ کناں ہیں۔اسلام آباد میں احتجاجی ماتمی جلوس امام بارگاہ دربارسخی محمود بادشاہ سے برآمد ہوا، لاہورمیں پریس کلب کےباہر احتجاجی ریلی ہوئی۔ پاکستان،بھارت اور دنیا کے مختلف شہروں میں اس موقع پر ماتمی جلوس اور مجالس عزا کا انعقاد کیا گیا۔ اُنہوں نے مسلم حکمرانوں او رعوام سے شکوہ کیا کہ وہ سعودی حکومت سے خائف کیوں ہیں ، احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ یہ روح فرسا واقعہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ''3
ایک طرف ایران اور اس کے زیرقیادت شیعہ قوم کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف یہ ایرانی وحدتِ اسلامی کا ٹائٹل بھی تھامے ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا اصل المیہ اسرائیل ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ کرنے کے بجائے صرف زبانی بیان بازی پر اکتفا کیا جاتاہے حتی کہ 'القدس فورس' سنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں بھیجی جاتی ہے۔اسرائیل کے خلاف ایران کا یہ زبانی جمع خرچ ، اس کے 'وحدتِ اسلامی' یا امریکہ کے 'انسانی حقوق' کے کھوکھلے نعرے کی طرح ، کوئی زمینی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ عملاً پورےے عالم اسلام میں ایران میں سب سے زیادہ یہودیوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ یہودی ایران میں بستے ہیں۔ بی بی سی کی خبر ملاحظہ کریں:
''اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) یا 'ہتکِ عزت مخالف لیگ' نامی تنظیم کے اس جائزے کے مطابق صرف 56 فیصدایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جب کہ ترکی میں اس رائے کاتناسب 69 فیصد اور فلسطینی علاقوں میں 93 فیصد ہے۔
ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے 'مرگِ انبوہ' یا 'ہولوکاسٹ' کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، اسی بنا پر اسے ہولوکاسٹ یا مرگِ انبوہ کہا جاتا ہے۔6مئی 2014ء کو ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کو اس بنا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مرگِ انبوہ کو ایک'سانحہ'قرار دیا تھا۔''4