• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عراق میں 'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کا اعلان!

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مغرب کی ایران نوازی

ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے بعدماضی قریب میں ایران میں شیعہ انقلاب آیا، افغانستان میں حنفی رجحانات کے حامل طالبان نے 'امارتِ اسلامیہ' قائم کی اور مصر میں اخوان المسلمون اور فلسطین والجزائر میں اخوان کی ہم خیال جماعتوں کی حکومتیں جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں۔ ان میں سے ہر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا اور اس کے خلاف عالمی طاقتیں یکسو ہوگئیں، جبکہ ایرانی انقلاب کو راہ دی گئی اور وہ آج تک اُمتِ اسلامیہ میں اپنے بد اَثرات پھیلا رہا ہے۔شیعیت کو ایسی کیا خصوصیت حاصل ہے کہ اسلام کے دعوے کے باوجود، عالمی کفریہ طاقتیں اس کو گوارا کرتی ہیں؟آج عالمی طاقتوں کی یہی سیاسی تدبیر، مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں میں شیعیت اور سنیت کی کشمکش کی ایک خطرناک تصویر اُبھاررہی ہے۔ ایرانی انقلاب نے روزِ اوّل سے حرمین پرقبضہ کی مذموم کوشش، طویل ایران عراق جنگ، پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات جس کے دفاع میں سپاہ صحابہؓ بنی،افغانستان میں طالبان حکومت کے 2001ء میں خاتمے کی امریکی کوشش میں ایرانی وحدتِ اسلامی کا شمالی اتحاد کا ساتھ دینا،عراق میں نوری المالکی کے تسلط کے ذریعے سنیّوں کو کچلنا اور شام میں سنّیوں کی نسل کشی، اور اسی سال افغانستان کو تباہ کرنے والی امریکی افواج او رنیٹو کو واپسی کا محفوظ راستہ دینا وغیرہ کے بدنتائج دیے ہیں۔ دراصل شیعہ انتقامی سیاست کے علم بردار ہیں، اور وہ اہل السنّہ کو سیدنا علی اور ان کے خانوادے کو خلافت نہ دینے کا مجرم خیال کرتے ہیں۔اس انتقامی نظریہ کی بنا پر ، ان کی جدوجہد کا محور عالم کفر کی بجائے عالم اسلام بنتا ہے کیونکہ وہ انہی کو غاصب سمجھتے ہیں۔یہ انتقامی نظریہ ہی ہے جس نے سقوطِ بغداد اور برصغیر میں سراج الدولہ اور سلطان ٹیپوکی حکومت گرانے میں شیعہ کو سازشی کردار اور عالمی استعمار کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا۔

داعش کی خبروں کے ساتھ ہی ایران میں انہی دنوں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے کہ ''ایران میں کوئی تنظیم اس وقت تک رجسٹرنہیں کی جائے گی، جب تک وہ ایران کے روحانی پیشوا، آیت اللّٰہ خامنہ ای کے افکار کی غیر مشروط اتباع کا دم نہ بھرے۔'' 20 سال سے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللّٰہ خامنہ ای کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''وہ امام مہدی کے نائب ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو جوابدہ نہیں۔'' 'اسلامی جمہوریہ ایران' کے ان اقدامات کا مطلب بدترین فکری جبر کے سوا اور کیا ہے؟ یہ فکری جبر نہ تو اس کے دعواے جمہوریت کے مطابق ہے اور نہ ہی 'اسلامی'کےسابقہ کے مصداق ہے، جس میں مخصوص شیعی فکر کے علاوہ کوئی اور نظریہ اختیار کرنا اور پھیلانا قانوناً ممنوع ہے۔ایسی ہی ایک اور چبھتی ہوئی خبر یہ بھی ہے کہ

''8؍شوال 1435ھ بمطابق 5؍اگست 2014ء کو دنیا بھر میں شیعہ برادری نے 'یوم انہدامِ جنت البقیع' منایا۔یورپی ممالک اور واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کے سامنےشیعہ مظاہرین نے احتجاج کیا۔ کراچی میں شیعہ رہنما مختار امامی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین میں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اس لئے جاری ہے کہ ہم نے ماضی میں سعودی حکمرانوں کے مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ پاکستان میں تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید حامد علی شاہ موسوی نے کہا کہ 1926ء میں اس دن خاتم الانبیا کی ازواج اور اصحابِ اہل بیتِ اطہار کے روضے مسمار کردیے گئے جس پر شیعہ مسلمان دنیا بھر میں احتجاج کرتے اور نوحہ کناں ہیں۔اسلام آباد میں احتجاجی ماتمی جلوس امام بارگاہ دربارسخی محمود بادشاہ سے برآمد ہوا، لاہورمیں پریس کلب کےباہر احتجاجی ریلی ہوئی۔ پاکستان،بھارت اور دنیا کے مختلف شہروں میں اس موقع پر ماتمی جلوس اور مجالس عزا کا انعقاد کیا گیا۔ اُنہوں نے مسلم حکمرانوں او رعوام سے شکوہ کیا کہ وہ سعودی حکومت سے خائف کیوں ہیں ، احتجاج کیوں نہیں کرتے؟ یہ روح فرسا واقعہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کے خلاف شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ''3

ایک طرف ایران اور اس کے زیرقیادت شیعہ قوم کا یہ رویہ ہے تو دوسری طرف یہ ایرانی وحدتِ اسلامی کا ٹائٹل بھی تھامے ہوئے ہیں۔ مشرقِ وسطی کا اصل المیہ اسرائیل ہے، لیکن اس کی طرف کوئی توجہ کرنے کے بجائے صرف زبانی بیان بازی پر اکتفا کیا جاتاہے حتی کہ 'القدس فورس' سنیوں کے خلاف کاروائی کے لیے عراق میں بھیجی جاتی ہے۔اسرائیل کے خلاف ایران کا یہ زبانی جمع خرچ ، اس کے 'وحدتِ اسلامی' یا امریکہ کے 'انسانی حقوق' کے کھوکھلے نعرے کی طرح ، کوئی زمینی وزن نہیں رکھتا۔ کیونکہ عملاً پورےے عالم اسلام میں ایران میں سب سے زیادہ یہودیوں سے ہمدردی پائی جاتی ہے اور کسی بھی مسلم ملک سے زیادہ یہودی ایران میں بستے ہیں۔ بی بی سی کی خبر ملاحظہ کریں:

''اینٹی ڈیفی میشن لیگ (اے ڈی ایل) یا 'ہتکِ عزت مخالف لیگ' نامی تنظیم کے اس جائزے کے مطابق صرف 56 فیصدایرانی یہودیوں کے خلاف رائے رکھتے ہیں جب کہ ترکی میں اس رائے کاتناسب 69 فیصد اور فلسطینی علاقوں میں 93 فیصد ہے۔

ایرانی سرکاری ٹیلی ویژن اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے روایت پسند ادارے 'مرگِ انبوہ' یا 'ہولوکاسٹ' کو گھٹا کر ہی پیش کرتے ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا گیا، اسی بنا پر اسے ہولوکاسٹ یا مرگِ انبوہ کہا جاتا ہے۔6مئی 2014ء کو ایران میں سخت گیر موقف رکھنے والے ارکانِ پارلیمنٹ نے ایرانی وزیرِ خارجہ جاوید ظریف کو اس بنا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے مرگِ انبوہ کو ایک'سانحہ'قرار دیا تھا۔''4
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
داعش اور عالم اسلام

'دولت ِخلافت اسلامیہ ' کی مخالفت کرنے والوں میں اخوان کے بزرگ رہنما علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور اس کی حامی جماعتیں وغیرہ شامل ہیں۔عراق، اُردن، مراکش کےعلاوہ یورپی ممالک کی علما کونسلیں بھی اس کی مذمت میں پیش پیش ہیں ۔بعض کا کہنا ہےکہ یہ اعلان قبل از وقت ہے اور بعض اسے مقامی سنّی قبائل کی جدوجہد کمزور کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔دوسری طرف افغانستان، پاکستان کے طالبان اور نائیجریا کی جہادی تنظیم بوکوحرام وغیرہ دولتِ اسلامی کی تائید کررہی ہیں۔

7 مارچ کو جب سعودی حکومت نے اخوان المسلمون کو باضابطہ دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا تو ا س کے ساتھ ہی داعش اور جبہۃ النصرۃ کو بھی دہشت گرد تنظیمیں ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ جولائی کے وسط میں عراق ؍سعودی بارڈر پر 30 ہزار فوجیوں کو بھی تعینات کردیا گیا ۔

جیساکہ پیچھے گزر چکا ہے کہ داعش ، مختلف رجحانات والے عناصر کے مجموعے پر مشتمل ہے، جن میں عالمی جارحیت و قبضے کے خلاف عسکری جدوجہد کا مرکزی نظریہ کارفرما ہے۔ ایک طرف مغربی قوتیں ، جاسوسی کے ذریعے ان مختلف الخیال قوتوں کے انتشار کا انتظار کررہی ہیں اور دوسری طرف اپنے مہرے ڈھونڈ رہی ہیں تاکہ ان کو تقسیم کرکے، اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں۔ مسلم عرب حکومتوں کو بھی ڈرایا جارہا ہے کہ اگر خلیجی ریاستوں ، اُردن اورسعودی عرب نے مل کر داعش کا راستہ نہ روکا، تو مستقبل میں خلافت کے مقدس نظریے تلے علاقائی حکومتیں ختم ہوکر رہ جائیں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اس ساری جدوجہد کا خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر داعش کی یہ حکومت مستحکم ہوجاتی ہے توایران کی عجمی شیعہ ریاست کے ساتھ ساتھ ، موجودہ باقی ماندہ عراقی ریاست کی صورت میں ایک اور شیعہ عرب ریاست وجود میں لائی جائے، اس لیے ایران کو عراقی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے،کیونکہ دوسری طرف جب سارے سنی عناصر داعش کے زیرقیادت متحد ویکجا ہوگئے اوراس سے قبل کردستان کے نام سے عراق میں ایک آزاد ریاست پہلے سے قائم ہوچکی ہے ،امریکہ وترکی اس کو قبول کرچکے ہیں ، تو باقی ماندہ عراق میں شیعہ اکثریت پر شیعہ عرب ریاست قائم کرنے کی دیرینہ سازش از خود پوری ہو جائے گی ۔ ایران وشام کی شیعہ حکومتیں ، امریکہ کی قیادت میں اسی سمت پیش قدمی کررہی ہیں۔

شیعہ ریاست کے قیام کے ساتھ ، دولت اسلامیہ کے قیام کے ذریعے سنی سلفی اجتماعیت کو بھی تقسیم اور باہم متحارب کرایا جائے گا۔اور داعش کے بارے میں یہ خطرات موجود ہیں کہ وہ سعودی عرب کی طرف پیش قدمی کرےجیسا کہ اس کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تبصرہ و تجزیہ


خلافتِ اسلامیہ اور ملّی میڈیا کی غیرموجودگی: دنیا بھر میں ساٹھ کے قریب مسلم ممالک اور غیرمسلم ملکوں میں بھاری مسلم اقلیتوں کی موجودگی، دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کے مسلمان ہونے، عظیم ترین دینی نظریہ وعمل اور آخری الٰہی دین اسلام کے وارث ہونے ، بھرپور دنیوی وسائل سے مالا مال ہونے کی عظیم حقیقتوں کے ساتھ یہ ایک تلخ صورت حال ہے کہ اس تمام نظریاتی اور مذہبی تشخص کو باہم جوڑنے والا کوئی مرکزِخلافت موجود نہیں، جو نبی کریمﷺ کی سیاسی جانشینی کے فرض سے عہدہ برا ہوتا ہو۔ ممالک کے دفاتر اور سفارتیں تو ہیں لیکن دین اسلام کی عیسائی پوپ ویٹی کن کی طرح کی سفارت بھی نہیں۔دو دہائیوں سے مسلمانوں پر دنیا بھر میں بدترین مظالم تو ہورہے ہیں، ملتِ کفر ان کے خلاف متحد ومجتمع ہے لیکن مسلمان اس کے بالمقابل کسی نظم اجتماعی کی تشکیل کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ان سالوں میں اسلام اور اہل اسلام سے کفر براہِ راست نبرد آزما ہے، لیکن ان بدترین حالات میں بھی مسلمان ایک دوسرے سے متحد ہونےکے بجائے ، کفر کی سازشوں پر عمل پیرا ہوکر ایک دوسرے کے خلاف ہی برسرپیکار ہیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردی کی جنگ ہو، افغانستان میں طالبان اور کرزئی حکومت کا مسئلہ ہو یا عراق میں نوری المالکی، شام میں بشار الاسد وغیرہ کی حکومتیں، مصر میں فوجی آمریت اور لیبیا میں جہادی مزاحمت، ہرجگہ مسلمان اپنے ہی ہم عقیدہ وہم نظریہ سے ظلم وتشدد سہہ رہے ہیں۔

مشرقِ وسطی کا المیہ دراصل کفر واسلام کا معرکہ ہے جہاں برطانیہ کے خفیہ معاہدے (سایکو پیکٹ) کے تحت خلافتِ عثمانیہ کے ماتحت علاقوں کو ریت پر لکیریں کھینچ کرمستقل ریاستیں قرار دیتے ہوئے، ان میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا تھا۔کفر واسلام کا یہ ازلی معرکہ، پہلے عرب اور صہیونیت کا معرکہ بنا۔ روس وامریکہ کی سرد جنگ کے دور میں اس کی یہی کیفیت رہی، لیکن ایرانی انقلاب کے بعدسے عالم عرب یا مشر قِ وسطیٰ کا یہ المیہ ، آہستہ آہستہ شیعہ سنی مخاصمت کے محور کی طرف مرکوز ہوتا گیا۔ ایران عراق جنگ اور ایران سعودی عرب مخاصمت پروان چڑھی، پھر اب کچھ عرصہ سے یہ معرکہ اس سے بھی نیچے آتے ہوئے سعودی عرب اور مصر کی اصل جمہوری حکومت میں اختلاف کا روپ دھار رہا ہے۔ اور شیعہ سنی اختلاف کا ہوا دکھا کر، سلفی اور اخوانی نظریات کی آپس میں لڑائی کو ہوا دی جارہی ہے۔ اس سے اگلا منظر نامہ سلفی اور خارجی کی مخاصمت کی طرف بڑھتا نظر آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
گویا ادارہ خلافت موجود نہ ہونے کی بنا پر ، اس بدترین مظلومیت کے دور میں بھی مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہے اور قرآنی الفاظ میں باہمی اختلاف کی اذیت اور عذاب کا شکار ہے۔ اس المناک صورتحال کی وجہ ایک ہی ہے کہ خلافت کے مقدس تصورسے مسلمانوں نے صرفِ نظر کیا۔ خلافت کانام اوردعویٰ اگر اجنبی نظر آتا ہے تو اس کے احکام ونظریات سے واقفیت تو بالکل خال خال ہے۔ پوری مسلم دنیا جمہوریت، ملوکیت کے سحر اور آمریت کے دباؤ میں جکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہر مسلم ملک کو وطنیت کے بت نے اس طرح اپنے سحر میں لے رکھا ہےکہ وہ اپنے مفادسے بڑھ کر، ملت اسلامیہ کی بات کرنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچی ہے کہ 'سب سے پہلے پاکستان' اور 'سب سے پہلے عرب' کے نعروں تلے ، اپنے ہی مسلمان ہمسایہ بھائیوں کے خون سے ہاتھ رنگے جاتے اور اسے ایک مقدس جہاد باور کرایا جاتا ہے۔پھر یہ بھی ایک دن چڑھی حقیقت ہے کہ کفر اکیلا ملتِ اسلامیہ کاسامنا نہیں کررہا۔ امریکہ52 ریاستوں پر مشتمل ایک مکمل براعظم ہونے کے باوجود،اپنے ہراقدام کے لیے اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرتا ہے، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ یورپی یونین اور نیٹوجس میں بعض مسلم ممالک بھی شامل ہیں، کی افواج کو ساتھ لاتا ہے۔اسرائیل کے ظلم وستم کا دفاع اکیلا امریکہ نہیں، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی مشترکہ ووٹنگ سے کرتے ہیں۔اس کے باوجود ملت اسلامیہ کے حکمرانوں کو ہوش نہیں آتی۔ دینی قیادت کو فرقہ واریت کے تو آئے روز طعنے دیے جاتے ہیں، لیکن سیاسی قیادت اورحکمرانوں کی مفاد پرستانہ گروہ بندی اور ملی مفاد سے غفلت کو ہدفِ تنقید نہیں بنایا جاتاکہ یہ سب مسلمان حکمران کس طرح اپنے اپنے مفاد کے اسیر ہیں۔ کیونکہ وطنیت کے نظریے کا تقاضا یہی نیشنل ازم ہے جو دنیا کا سکہ رائج الوقت ہے۔ جمہوریت کی طاقت اورمحور یہی وطنیت کا نظریہ ہے جسے مسلم دنیا میں مسیحائی اور اُمید کی علامت سمجھاجاتا ہے۔

مسلم دنیا اگر خلافت کے نظریےسے عاری ہے تو وہ مسلم دنیا کو ایک جسد میں پرو دینے والے ذرائع ابلاغ سے بھی بالکل تہی دست ہے۔ مسلمانوں کی خبریں دشمنوں کے توسط سے ٹوٹی پھوٹی اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی چھلنیوں میں چھن کر ، صہیونی خبررساں ایجنسیوں کے توسط سے ہم تک پہنچتی ہیں۔ ان میں سچ اور جھوٹ کی آمیزش کا کوئی پیمانہ ہمارے پاس نہیں۔مختلف حکومتوں کے زیر نگرانی چلنے والے ابلاغی ادارے اُن کے سرکاری مفادات کے زیر اثر خبروں کو عوام میں فلوٹ کرتے ہیں۔مسلم یا ملی میڈیا جو جسد ملی کالازمہ اور اوّلین تقاضا ہے، اس کا کوئی مصداق مسلم دنیا میں نہیں پایا جاتا ۔ حکومتیں اس تصور سے ہی جان چراتی ہیں کہ اس طرح ان کے شہریوں کی نظر آفاقی ہوگی اور اُنہیں مسلم دنیا کے ساتھ مختلف معاملات میں شراکت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ اسی کی قیمت یہ ہے کہ یہ مسلم حکمران ، مغرب کے دریوزہ گر اور ان کے معاشی اداروں کے بھکاری بنے رہتے ہیں اور محمدﷺ کا اُمتی ذلت وہلاکت کا تن تنہاسامنا کرتا ہے۔

مسلمانوں پر ظلم وستم کا خاتمہ اور کلمۃ اللّٰہ کی سربلندی احیاے خلافت کے بغیر ممکن نہیں۔ اور خلافت کا قیام شریعتِ مطہرہ کا بنیادی تقاضا ہے، اس فرض کو ترک کرنے کی بنا پر دنیا بھر کے مسلمان گناہ کے مرتکب ہیں۔بعثتِ نبویؐ کے بعدسے کسی مرکز امارت کے بغیر مسلمان کبھی نہیں رہے،اسلام تو مختصر سفر کے لیے بھی امیرکے تقرر کو لازمی قرار دیتا ہے۔کوئی تحریک اورمرکزاس عظیم مقصد کے لیے یکسو ہوکر کام نہیں کررہی ، اندریں حالات دولتِ خلافت اسلامیہ کا اس عظیم ہدف کو لے کر آگے بڑھنا ایک مبارک مشن ا ور نیک مقصد ہے۔تاہم خلافت جتنا مقدس ومبارک نظریہ ہے، اس کا قیام اور اس کا تحفظ وبقا اس سے بھی زیادہ ذمہ داری اور اہمیت کا معاملہ ہے۔اسی احساسِ ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ماضی میں طالبان نے خلافت کی بجائے 'امارتِ اسلامیہ' تک اکتفا کرنے کو ترجیح دی تھی۔دولتِ خلافت اسلامیہ کا یہ قدم بہرحال قابل تحسین ہے کہ اُنہوں نے اپنے سیاسی ڈھانچے کے لیے مغرب سے کوئی نظام مستعار لینے کی بجائے، خالص اسلامی نظام اور اصطلاحات کی طرف پیش قدمی کی ہے،جب اُنہوں نے اعلان کرلیاہے تو اللّٰہ اُنہیں اس کے تقاضے پورے کرنے کی بھی توفیق مرحمت فرمائے، اور اُن کو کامیابی وکامرانی سے نوازے۔ تاہم کیا یہ وہی شرعی خلافت ہے جس کی اطاعت اور اس کے سائے تلے چلے آنا ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کا تعین قبل از وقت ہے اور علما کی باضابطہ رہنمائی اور وسیع تر فتویٰ کا محتاج ہے ۔

خلافتِ اسلامیہ کا جب بھی آغاز ہوگا، ابتدائی طور پر تو کسی ایک چھوٹے خطے سے اس کا سلسلہ شروع ہوگا، جیساکہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کا آغاز کس قدر مختصر طور پر ہوا، اور بعد میں نبی کریم ﷺکی قائم کردہ یہ خلافت چودہ صدیوں تک کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی، تاآنکہ مصطفیٰ کمال اتاترک نے اسے غیروں کے ساتھ ملی بھگت کرکے خاتمے سے دوچارکردیا۔ موجودہ صورتحال بھی کوئی زیادہ پریشان کن نہیں، بلکہ آج اگرشام وعراق کے نقشے کو دیکھا جائے تو چالیس فیصد تک علاقہ داعش کے زیر حکومت آچکا ہے، اور باقی علاقوں میں ان کی نقل وحرکت اور بڑی قوت موجود ہے۔اس خلافت کا اصل جوہر شریعتِ الٰہیہ کا نفاذ ، اور اسلام کے نظامِ سیاست'خلافت وامارت' کا قیام ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی عالمی خلافتوں کی طرح اس کا دائرہ عمل بھی وسیع ہوتا جائے گا۔ اس لیے دولت خلافت اسلامیہ کو اس وقت آگے بڑھنے سے پہلے اپنی بنیادوں کو پختہ کرنے اور حکومت کو مستحکم کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کی تائید اور حمایت کےاسباب [Strengths]


1. سامراج کی ہزیمت:ملتِ اسلامیہ ایک طویل عرصہ سے ذلّت وپستی اور ہلاکت وبربریت کا سامنا کررہی ہے جس میں 1990ء کے بعد سے واضح اضافہ ہوچکا ہے۔ان سالوں میں مسلمانوں نے بےشمار ہلاکتوں، مظالم، جبر وتشدد، ظلم وستم، عصمت وآبرو کی قربانیوں ، اوراسلام و شعائرِ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں کے زخم سہے ہیں۔ ان حالات میں کوئی بھی طاقت کفریہ استعمار کو براہِ راست چیلنج کرتی اور اس سلسلے میں معمولی کامیابی بھی دکھاتی ہے تو مظالم سے چور اُمتِ مسلمہ اس کی طرف لپکی چلی آتی ہے۔

2. شیعی سازشوں کا جواب:مسلم وعرب دنیا میں شیعہ مظالم ایک کھلی حقیقت بنتے جارہے ہیں۔ شیعہ کے انحرافی نظریات اور سازشی اقدامات جسے ایرانی انقلاب نے مہمیز دی ہے، کا دفاع کرنا بھی اہل السنّہ کی دلی خواہش ہے۔ یہ وقت اُمتِ مسلمہ میں اتحاد کا ہے، اور جو اس اتحاد کو پارہ پارہ کرتا ہے، ملت کا اجتماعی شعور اس سے نفرت کرتا ہے۔ایران اسی ملی شعور کے استحصال کے لیے وحدتِ اسلامی کا نعرہ اور اسرائیل مخالف جذبات کو کیش کراتا ہے لیکن اس کا اندرونی چہرہ اس سے بالکل مختلف ہے۔داعش کا ظاہری پہلو بھی شیعیت اور سامراجیت کے خلاف مزاحمت کا ہے،یہ چیز ان کی حمایت کا باعث ہے۔

3. اعلانِ خلافت اور اس کے زمینی امکانات:مسلم حکمرانوں کی مفاد پرستی اور مغربی نظریات واہداف کی آبیاری ان سالوں میں واضح ہوچکی ہے۔ نفاذ شریعت کے دیرینہ مطالبے کے باوجود کسی حکمران کو نہ تو اس کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ مسلمانوں اور ان کے شعائر پر ہونے والے حملوں کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ ملتا ہے۔نفاذِ شریعت ، خلافت، مسلم مفادات اور اقلیتوں کا تحفظ اور اسلامی حمیت وغیرت کا احیا، دولتِ خلافت اسلامیہ کی تائید کے رجحانات ہیں۔یہ جہادی عناصر عرصہ دراز سے ایک خطہ ارضی کی تلاش میں ہیں جہاں وہ عملاً اسلام نافذ کرکے، اپنے اس موقف اور الزامات کو ثابت کردیں جو مسلم حکمرانوں پر لگائے جاتے ہیں۔ اندریں حالات داعش کو وسیع تر خطہ ارضی مل جانا، بڑی جہادی قوت کا اجتماع او ر دنیوی اموال ووسائل سے بھی مالا مال ہوجانا، بہت سے مسلمانوں کے لیے اُمید کی روشن کرن ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دولتِ اسلامیہ پر کئے جانے والے اعتراضات [Weaknesses]


1. جولوگ دو دہائیوں کے جہادی منظر نامے سے آگاہ ہیں ، بخوبی جانتے ہیں کہ القاعدہ کی شکل میں ہونے والی جہادی مزاحمت، ایک طرف دینی علوم اور اس کی تفقہ و بصیرت سے تہی دامن ہے۔ اس کی قیادت ان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جو ملت پر ہونے والے مظالم میں رنجیدہ ہیں اور اپنے حکام (سیاسی قیادت )کے ساتھ ، علما ے کرام (دینی قیادت )سے بھی ناراض ہیں۔ القاعدہ اور اس کے شجرہ نسب سے تعلق رکھنے والی جہادی جماعتیں، اگرچہ سلفی پس منظر سے تاریخی تعلق رکھیں لیکن سلفی علما ان کے منہج واستدلال کی مذمت کرتے ہیں اور ان کےموقف کو شرعی تائید سے عاری قرار دیتے ہیں۔ القاعدہ اور داعش کی قیادت مظالم کفار کے دفاع سے غفلت یا عاجز ی ظاہر کرنے والے مسلم حکام پر کڑی تنقید کرتی اورردّعمل میں آکر مسلم حکام کو کفار ، طاغوت اور مرتد قرار دیتی ہے۔اسی پر اکتفا نہیں بلکہ ان کی حمایت کرنے والے سرکاری افسران اور اَفواج کو بھی مرتدوطواغیت بنا کر مباح الدم سمجھتی ہے 5۔ان سے اتفاق نہ کرنے والے پہلے تکفیر اورپھر تفجیر(بم دھماکوں) کا سامنا کرتے ہیں۔ اس بنا پر ایسی جہادی تحریکیں ، جہادی کے بجائے فسادی رویے کی حامل بن کرمسلمانوں سے ہی جہاد شروع کردیتی ہیں۔ یہ لوگ علما کو مرجئہ (تساہل پسند)قرار دے کران کی بھی تکفیر کرتے اور اپنے سوا کسی دوسرے کو مسلمان نہیں سمجھتے۔اس طرح حکام وعلما کی اپنے تئیں بعض اغلاط کے سبب اُن کو کافر قراردے کر ان کے خلاف جہاد پر کمربستہ ہوجانا، خوارج کے منہج سے اُنہیں ملا دیتا ہے۔ خوارج دین کے نام پر غلو او رانتہاپسندی کی تحریک ہے،سوان جہادیوں کو ان کے رویے کی بنا پر جہاد ی سے زیادہ فسادی اور مجاہدین سے زیادہ خوارج العصر قرار دیا جاتا ہے۔ داعش پر سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ اگر وہ بھی اپنے پس منظر اور ماضی کے مطابق اسی رویے پرکاربند رہتی ہے تو ان کے جہاد کا نشانہ کفار سے زیادہ مسلمان قرار پائیں گے۔

عجب بات یہ ہے کہ القاعدہ کے زیر اثر یہ جہادی، کسی مسلم ملک کے حکام کے بارے میں کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ پاکستان میں امریکی تائید اور فنڈوسپورٹ سے جنگ جاری ہو، عراق اور افغانستان میں کٹھ پتلی حکومتیں سامراجی ایجنڈے کو پورا کررہی ہوں ، یا سعودی عرب کے حکمران، ان کی توقع کے مطابق دینی اقدام نہ کریں، لیکن اپنے شہریوں کے جا ن ومال اور دین کےقیام میں کامیاب واقع ہوں تو یہ سب حکمران بلا امتیاز القاعدہ کے جہادیوں کی نظر میں طاغوت ہیں۔ جبکہ ہر علاقے اور اسکے حکام کے رویوں کے نتیجے میں شرعی حکم مختلف ہوتا ہے، لیکن جہادیوں کے ہاں ایسا کوئی نظریہ نہیں جو شاہ عبد اللّٰہ اور نوری المالکی میں کوئی فرق کرے۔

القاعدہ کی جوابی اور کمزور مزاحمت نے عالمی قوتوں کو مسلمانوں پر مظالم شدید تر کرنے اور ان میں گھسنے کا جواز بھی فراہم کیا ہے، نائن الیون کا واقعہ کیا مسلم اُمہ کے لیے مفید رہا یا مسائل کی جڑ بن گیا، یہ جہاد تھا یا فساد؟اس پر بہت کچھ بولا اور لکھا جا چکا ہے۔اس بنا پر ان جہادی تحریکوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود ان کے عملی مسائل ، گہرے غور وفکر کا تقاضا کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
2. داعش کے اس انتہاپسند رویے کی تائید اس امر سے ہوتی ہے کہ انہوں نے حالیہ جہاد ی کامیابی سے قبل اپنے سابقہ سب جہادی حلیفوں سے علیحدگی اور جدائی اختیار کی، حتی کہ القاعدہ جو اس کا مرکزی نظریہ تھا اور جس سے بقول کسے ، داعش کی قیادت بیعت تھی، اس کے حلقہ اطاعت کو ترک کرکے، اچانک اپنی جداگانہ خلافت کا اعلان کردیا۔ اعلانِ خلافت کے ساتھ ہی یہ مسئلہ سامنے آتاہے کہ جن علاقوں میں داعش کی حکومت ہے، وہاں کوئی اگر خلیفہ داعش کی بیعت نہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟بعض علما مثلاً سلفی شامی مجاہد عالم مثلاً شیخ عدنان عرعور نے کہا کہ ہم خلیفہ کی اطاعت کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ خلیفہ تو مجہول اور غیردستیاب ہے، ہم اظہارِ اعتماد کے لیے کیسے اس کے خیالات کا جائزہ لیں؟ اس عدم دستیابی کے الزام کے خاتمےکے لیے ابو بکر بغدادی نے 6 رمضان کو موصل میں خطبہ جمعہ میں اپنے آپ کو عوام الناس میں ظاہر کیا۔ لیکن یہ اعتراض تاحال باقی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت میں عامۃ المسلمین کا اعتماد بھی ایک شرط ہےاور اعتماد کے لیے معرفت ضروری ہے۔خلیفہ پر یہ اعتراض بھی ہوا کہ اسلامی خلافت کے لیے قوت کے ساتھ علم وفضل بھی درکار ہیں،﴿زَادَهٗ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَ الْجِسْمِ﴾ کا یہی تقاضا ہے۔ اس کے جواب میں اچانک 10؍اگست کو میڈیا پر یہ آنا شروع ہوگیا کہ جناب خلیفہ محترم علومِ شریعہ میں پی ایچ ڈی کے سند یافتہ ہیں۔ کہا جاتاہے کہ دولت کے زیر اثر شہروں میں ایسے لوگوں اور علما کو قتل کردیا جاتا ہے جو خلیفہ کی بیعت نہ کریں۔ یہ قتل شرعی دلیل کا متقاضی ہے کیونکہ خلیفہ کی بیعت سے تاخیراس کے قتل کو واجب نہیں کرتی، جیساکہ دورصحابہ میں اس کی مثالیں موجودہیں۔ داعش پر بہت بڑا اعتراض دیگر جہادی تحریکوں سے قتل وغارت گری کا بھی ہے۔ ماضی میں جبهة النُّصرةسے ان کی لڑائی مسلمہ حقیقت ہے۔ان کے اسی رویے کی بنا پر شامی اَفواج نے داعش کو شام میں داخلے کے لیے کھلا راستہ دیا، اور داعش نے دیگر غیر جہادی تنظیموں کی قیادت کو ہلاکت سے دوچار کیا۔ القاعدہ رہنما ڈاکٹر ایمن ظواہری نے اسی بنا پر داعش کو شام میں داخلہ سے روک دیا لیکن داعش نے ان کے حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔سلفی علما، داعش سے شرعی عدالتوں کا مطالبہ کرتے اور ان قتلوں کے واضح اور نامزد ملزموں کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں اور داعش کے خودساختہ نظام عدل پر شرعاً مطمئن نہیں ہیں۔جبهة النُّصرةاس وقت پھر داعش سے علیحدہ ہے ، وہ نہ تو خلافت کی داعی ہے اور نہ تكفیر کی۔شیخ عرعور کے بقول ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ رویے جو بکثرت داعش سے صادر ہورہے ہیں، ان کی قیادت کے نزدیک اس کا جواز کیا ہے؟ کیا وہ اس کی مذمت کرتے ہیں یا اصلاح کے لیے سرگرم ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ان میں اکثر باتوں سے داعش نے رجوع کرلیاہے، تاہم ماضی کی کوتاہیوں کا مداوا کیا ہے اور کیا ضمانت ہے کہ دوبارہ ایسا نہ ہو؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
3. داعش کی سیاسی تشکیل پر بھی بہت سے اعتراضات ہیں۔ کئی لوگ اسے 1997ء کے افغانی طالبان کی طرح امریکی چالبازی کا مظہر سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عراق کی موجودہ حکومت پر عدم اطمینان کے بعد، داعش کو اوپر کی سطح پر اختیار سونپنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ داعش کو ملنے والی کامیابی اس کے زمینی وجود سے بہت بڑی ہے اور مقابل فوجیوں نے مقابلہ کی بجائے وردیاں چھوڑ کر بھاگنے اور عوا م میں گھل مل جانے کو ترجیح دی۔شام میں سنی مزاحمت کامیاب ہونے کے دنوں میں داعش کو شام میں راستہ دیا گیا تھا کہ وہ ان جہادی گروہوں پر ہی حملے کرکے، جہاد کی قوت کو کمزور کرے۔دولتِ خلافت اسلامیہ کی صورت میں دنیا بھر کے جہادیوں کو جمع کرکے، ان کے خلاف امریکی بمباری ان کی اجتماعی ہلاکت کی تدبیر ہےجس کے بعد امریکہ کوعراق پر براہِ راست قبضہ رکھنے کا جواز حاصل ہوجائے گا۔ کہا جاتاہے کہ داعش کا مقصد سنی سلفی طاقت کو منقسم کرنا اور باہم لڑانا ہے، اس لئے داعش کا اگلا ہدف لبنان کی سنّی حریری حکومت ہے جس کے دفاع کے لیے سعودی عرب نے ایک اَرب ڈالر کی امداد ہفتہ قبل جاری کی ہےاور داعش عنقریب سعودی حکومت کو بھی نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔داعش کبھی اسرائیل کی طرف پیش قدمی نہیں کرے گی بلکہ اس کانشانہ مسلمان ہی ہوں گے اور یہی خوارج کی علامت ہے ۔

4. اگر یہی معیار مان دے لیا جائے کہ جو بھی گروہ بعض علاقوں پر قبضہ حاصل کرلے اور وہاں خلافت کا اعلان کرکے ، باقی جہادی گروہوں او رعوام کو مرتد بنا کر قتل کرنا شروع کردے تو پھر اس قتل وغارت او رانتشار کا سلسلہ کہاں تک جائے گا۔اس کی بجائے باہمی مشاورت اور اتفاقِ رائے سے اس قدر عظیم امور انجام دیے جائیں تبھی خلافت صحیح معنوں میں قائم ہوسکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
دولت خلافتِ اسلامیہ کے لیے قابل توجہ اُمور

داعش پر کئے جانے والے اعتراضات کا خلاصہ وہ ہے جو اوپر پیش کردیا گیا۔ دراصل مزاحمت اور دفاع میں جب کئی ایک گروہ کارفرما ہوں، اور ان میں ہر ایک اپنے حصے کی جدوجہد کررہا ہو تو اس میں اتباع کے باہمی نظام کا قیام اور ترجیحات کا متفقہ تعین ایک بڑا مشکل امر ہے۔ ماضی میں یہی باتیں افغانی طالبان کے بارے میں بھی سامنے آئیں ،اور اُنہو ں نے دیگر گروہوں حتی کہ کنٹر ونورستان کے سلفیوں کے خلاف بھی جہاد کیا جس پر اُنہیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور آج تک اہل حدیث ان کے اس جرم کو معاف نہیں کرسکے کیونکہ ایک مسلمان کا بھی ناورا قتل ناقابل معافی ہے۔ تاہم آخر اس منتشر ومتحارب جہاد سے آخر کار اللّٰہ تعالیٰ نے خیر نکالی اور طالبان کے نام سے ایک حکومت قائم ہوگئی۔ مذکورہ بالا اُمور بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کی اصلاح جتنی جلد ہوجائے گی، اتنا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لیے بہتر ہوگا۔تاہم داعش کو انتہاپسندانہ رویے کو لازماً ترک کرنا ہوگا، اگر وہ مسلمانوں کی طرف ہی اپنی بندوقوں کا رخ کرلیں گے اور تکفیر وارتداد کی زبان بولیں گے تو پھر اس جہاد کو فساد سمجھنے میں کوئی اَمر مانع نہ ہوگا اور یہ ایک عظیم فتنہ ہوگا۔ داعش کے باضابطہ ترجمان شیخ عدنانی کا پیچھے بیان گزر چکاہے کہ خارجیت کے سلسلے میں ناقدین کو ان کے زیر حکومت شہروں کے ماحول کا مشاہدہ کرنا چاہیے۔اگر وہاں وہ خارجیت کو پاتے ہیں تو یہ الزام درست ، بصورتِ دیگرداعش کا حال ہی اس کا اصل موقف ہے۔
 
Top