• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عراق میں 'دولتِ خلافتِ اسلامیہ' کا اعلان!

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
داعش کو مزید درج ذیل اُمور کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہیے:

1. تعلیم وتربیت کی طرف توجہ: داعش مختلف الخیال لوگوں کا مجموعہ ہے جنہیں مختلف ضرورتوں اور ترغیبات نے مجتمع کردیا ہے۔ دراصل یہ اللّٰہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ ہے جس نے اس قدر وسیع الجہت عناصر کو متحد ہوکر جہادکےنظریے تلے مشترکہ جدوجہد کی توفیق دی ۔ ان مختلف الخیال لوگوں کو پختہ نظریہ اورعقیدہ ہی دائمی طور پر متحد کرسکتا ہے۔ ان کا اللّٰہ تعالیٰ سے گہرا تعلق اور خلوص وللہیت ہی اُنہیں بڑے عظیم چیلنجوں سے عہدہ برا کرسکتی ہے۔ اس لیے داعش کو فوری طور پر تعلیم وتعلّم اور عبادت وعمل کی طرف متوجہ ہونا ہوگا۔ مسلمانوں میں مرکز ومحور صرف کتاب وسنت ہی ہیں، کتاب وسنت کی تعلیم ودعوت کو اس قدر بڑے پیمانے اور قوت سے پھیلایاجائے کہ دیگر شخصی آرا اور رجحانات کو پنپنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ دعوت وتعلیم کو فرقہ وارانہ رجحانات اور فقہی نکتہ رسیوں سے نکال کر، شعائر اور مسلماتِ اسلام کے فروغ اور ان پر زیادہ سے زیاہ عمل کی طرف لانا چاہیے۔ اگر نظریہ وعقیدہ واضح نہ ہو یا بدعملی کی آفت سوار ہو تو ہر دوصورت میں داعش کی وقت منتشر ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔افراد کی اصلاح ہی معاشرے کی حقیقی اصلاح پر منتج ہوتی ہے۔ اسلام نرے حکومتی جبری اقدامات کے بجائے ترغیب وآمادگی کے ذریعے نافذہوتا ہے جو زمینوں کی بجائے دلوں پر حکومت کا داعی ہے اور یہ تمام کام تعلیم وتربیت کے بغیر ممکن نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
2. پابندیوں کی بجائے سہولتوں سے آغاز: خلافت کا نعرہ بڑا عظیم اور مبارک ہے اور اس کے تقاضے بھی بڑے بلند ہیں۔ ہر مسلمان خلافت کا نام سن کر فوراً خلافتِ راشدہ کا تصور اور اسلام کا فلاحی کردار ذہن میں لے آتا ہے۔ فلاح اسلامی کو پیش نظر رکھتے ہوئے، داعش کو معاشرے کی سہولت اور نظم وضبط ، امن وامان کے قیام سے اپنی ترجیحات کا آغاز کرنا چاہیے۔ بڑا مبارک ہے کہ اُنہوں نے قیمتوں کو نصف کرنے، شہری نظام کی بحالی پر فوری توجہ دی ہے۔ انہیں پابندیوں اور سختیوں کو ، سہولتوں کے پہلو بہ پہلو بلکہ ایک قدم پیچھے چلانا چاہیے۔نبی کریم ﷺنے اسلام کی دعوت کو غریبوں کے کام آنے اورمسافروں ، محروموں کی نگہداشت کرنے سے تقویت بخشی۔ مدینہ میں مؤاخات اور امن وامان کے قیام سے آپ نے اپنی مبارک سیاست کا آغاز کیا۔ آپ نظام عبادات اور نظام عدل وانصاف کو بھی بڑی حکمت ودانائی سے ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ پوری دنیا کے میڈیا کی نظریں اُن پرہیں اور ملتِ اسلامیہ کے لیے وہ اُمید کی ایک روشن کرن بن سکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
3. افتراق سے گریز اور حلیفوں کی تلاش: داعش کی قوت مسلم اتحاد واتفاق کی قوت ہے جس کا مرکز قرآن وسنت ہے۔ دولتِ خلافت اسلامیہ جہادی نظریات کی علم بردار ہے۔اور اُسے اپنے اس مرکزی نظریے پر کاربند رہنا چاہیے کہ وہ ملتِ کفر کی مسلم ممالک پر جارحیت اور ان پر غاصبانہ قبضے کے خلاف ایک توانا آواز بنی رہے۔جو ملتِ کفر کا حاشیہ نشین بنے، اور ان کے غصب کو طول دے، چاہے وہ کرزئی کی شکل میں ہو، یا نوری المالکی کی کٹھ پتلی حکومتوں کی صورت میں ، داعش کی صورت میں اُن کا محاسبہ ہونا چاہیے ۔ ملتِ محمدیہ پر ہونے والے مظالم میں وہ اپنے بھائیوں کی ہم نوا اور مؤید ہو۔ اللّٰہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ملتِ اسلام کو متحد رہنے کا ایک عظیم آلہ عنایت کیا ہے او رتاریخ شاہد ہے کہ جب تک جہاد مسلمانوں میں جاری رہا، باہمی آویزشیں سر نہ اُٹھاسکیں۔داعش کو چاہیے کہ مسلمانوں میں باہمی اختلاف سے ہر صورت گریز کرے۔ماضی میں افغانستان میں طالبان کی امارت نے کتاب وسنت کی بجائے، حنفیت کے فروغ کوترجیح دی جس کے نتیجے میں افغانستان کے سلفی حلقے کو کنٹر ونورستان میں ان کی طرف سے تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس چیز نے طالبان کی مقبولیت کو ان کے خیرخواہوں میں بہت نقصان پہنچایا۔ داعش کو بھی کتاب وسنت میں موجود نظریات پر کاربند ہوتے ہوئے ان فرقہ بندیوں سے گریز کرنا ہوگا، وگرنہ اہل اسلام کے باہمی اختلافات کی بے برکتی ان کی قوت کو منتشر کردے گی۔ داعش کی حکومت ایک نظریاتی حکومت ہے، اس لیے اپنی نظریاتی بنیادوں کو مستحکم کرکے اُنہیں ہرصورت واضح کرنا ہوگا۔ اس کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان نظریات کی درجہ بند ی کریں، جن پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی۔ اور جن نظریات میں گنجائش ہے اور اُنہیں گوارا کیا جاسکتا ہو، ان میں سہولت اور تدریج کا رویہ اختیار کریں۔اکیسویں صدی خالص اسلام کے لیے بہت اجنبی ہے، اس دنیا میں داعش کو حلیف قوتوں اور معاہدوں کا بھی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ داعش کا موقف ہے کہ وہ کفر کی عالمی غاصب برادری سے مفاہمت اور اُن سے ماتحتی پر مبنی معاہدات نہ کرے گی،اس صورت میں اہل اسلام میں اپنی جڑیں مضبوط کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
4. سعودی عرب اور داعش کی نظریاتی وحدتیں: داعش کے نظریات کا مطالعہ کریں تو ان میں عقیدہ توحیدکا فروغ، شرک وبدعات کی بیخ کنی، وضعی قانون کی بجائے اللّٰہ کی شریعت پر فیصلے کرنا، جمہوریت، انسانی حقوق، سیکولرزم ،نام نہاد امن، وطنیت اور آزادی رائے جیسے مغربی کھوکھلے نعروں کی مذمت کرنا وغیرہ سرفہرست ہیں۔ عملی طور پر اُنہوں نے شعائر اسلام کے فروغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے قیام کو ترجیح دی ہے۔ان کے خطبات کا تجزیہ کیا جائے تو وہاں عرب قوم پرستی، عراقیت نواز ی کے بجائے ملتِ اسلام کی بات کرکے وطنیت کی عملاً مذمت کی گئی ہے۔ یہاں مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ایجنٹ قرار دے کر، کفر کو ملتِ اسلام کے خزانوں کو لوٹنے والا اور دنیا کو ان کے خلاف ظلم وتشدد کا مجرم بتایا گیا ہے۔اسلامی وسائل اور ملتِ اسلام کے مفادات کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔

داعش تاریخی لحاظ سے سلفی مکتبِ فکر سے نکلا ہوا گروہ ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب کی حکومت وعوام او ران میں بہت سی مشترک قدریں پائی جاتی ہیں۔ بالخصوص عقیدہ توحید کی بنا پر معاشرے کی اصلاح اور اس سے مظاہر شرک وبدعت کا خاتمہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا قیام، شرعی عدالتوں کا قیام ، سیکولرزم، جمہوریت وانسانی حقوق کے مغربی نعروں کی مذمت جیسے کئی چیزیں ان میں قدرِ مشترک ہیں۔ اور دونوں میں وجوہاتِ اختلاف کو دیکھیں تو خلافت اور ملوکیت،عالمی کفر سے معاندت یا مفاہمت بھرے تعلقات، ملتِ اسلامیہ کے مفادات کی فکر اور اس سے مبیّنہ غفلت وغیرہ کو پیش کیا جاسکتا ہے اور یہی جہادی تنظیموں کے سعودی حکومت پر اعتراضات ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا کی کسی بھی ریاست سے بڑھ کر داعش نظریاتی طور پر سعودی عرب کے قریب ہے، یا مستقبل قریب میں اگر طالبان کو افغانستان میں حکومت مل جائے،جس کے روشن امکانات ہیں تو اُن سے بھی ان کی فکری قربتیں ہوسکتی ہیں۔

داعش کے بارے میں اکثر حلقوں میں جو اعترا ض کیا جاتا ہے، وہ خارجیت کا ہےجس کی تفصیل پیچھے گزرچکی ہے۔داعش جیسی جہادی تحریکوں کے لیے تشدد وانتہاپسندی سے گریز ایک بڑا ہی اہم مسئلہ ہے۔ دین کے فروغ کے ساتھ ہی ، ظواہر پرشدت اور مقاصد ومصالح شرع کی پروا نہ کرنے کا مسئلہ ماضی میں بھی پیش آتا رہاہے۔ خیرالقرون ، خلافتِ راشدہ میں بھی اسلام کو پہلا چیلنج اسی فتنہ خارجیت سے پیش آیا تھا جو دین داری میں غلو کا نتیجہ تھا، موجودہ سعودی حکومت کے لیے بھی القاعدہ اور جہادی نوجوانوں کے رجحانات ہی اہم ترین مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔اس غلو وتشدد کو علمی رسوخ ، تقویٰ، عمل اور تحمل سے ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ یہ غلو جہادی میدانوں کی تیز تر حرکت کی بجائے ٹھنڈے دل اور تحمل سے مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہونے سے ہی ختم ہوسکتاہے۔

داعش کے قائد ین کے بیانات ابھی محض دعوے ہی ہیں، میدانِ عمل میں ان کو اختیار کرکے، جب عملاً ان پر کاربند ہوں گے، تب ہی اُن کی پختگی کا علم ہوگا۔ آج کی پیچیدہ عالمی سیاست میں حکومتیں عالمی دباؤ کے سامنے مجبور ہوجاتی ہیں اور بیشتر دعوے خواہشات سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔کفر کے اس عالمی دباؤ کو گہری تدبیر اور مشترکہ قوت کے ساتھ ہی ختم کیا جاسکتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
5. حرمین کی بجائے اسرائیل کی طرف: خارجیت پرور رجحانات کے تناظر میں 4؍اگست کے اخبارات میں روسی میڈیا اور برطانوی اخبار 'ٹائمز 'کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ

''داعش نے سعودی عرب بالخصوص مکہ مکرمہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے، ان دھمکیوں سے گھبر ا کر سعودی حکومت نے اپنی 500 میل لمبی عراقی سرحد پر 30 ہزار فوج متعین کردی ہے۔ کہا جاتاہے کہ اس فوج کا بیشتر حصہ پاکستان او رمصر کی حکومتوں سے طلب کیا گیا ہے۔ اس سال سعودی عرب کے دفاعی اخراجات 35 بلین پونڈ تک پہنچ گئے ہیں جو برطانیہ سے بھی زیادہ ہیں۔''

مشرقِ وسطیٰ بالخصوص عراق وشام میں جاری یہ جنگ سعودی عرب کے ہمسائیگی میں دو دہائیوں سے جاری ہے۔ اور جنگ میں میدانِ جنگ سے زیادہ اہمیت درست خبروں کی ہوتی ہے۔ 30 ہزار فوج کی تعیناتی کی خبر مغربی میڈیا پر ایک ماہ قبل شائع ہوچکی ہے، لیکن اس کی حقیقت آئندہ دنوں میں واضح ہوگی۔ اور یہ داعش کا امتحان ہےکہ اس کے ساتھ سب سے زیادہ نظریاتی قرب سعودی حکومت کا ہی ہے۔ اگر داعش عالمی طاقتوں اور ان کے کٹھ پتلی حکمرانوں کے بجائے، ملت اسلامیہ کو ہی اپنا ہدف بنانا شروع کردیتی ہے تو یہ ایک طرف آغاز میں ہی اپنی طاقت کو کمزور کرلینے، مسلمانوں میں اپنی جڑیں کمزور اور آخرکار اپنے خاتمے کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا تو دوسری طرف یہ الزام بھی یقینی ہوجائیگاکہ داعش بنیادی طور پر خارجی گروہ ہے جو کسی بھی گناہ یا کوتاہی کے مرتکب شخص یا حکومت کے خارج از اسلام ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
داعش مشرقِ وسطیٰ میں جن قوتوں کے خلاف سرگرم عمل ہے یعنی امریکہ اور اس کے کٹھ پتلی عراقی حکمران اور اس کی پشت پر موجود ایرانی حکومت، ان کے اہداف بھی اس نکتہ پر مرکوزہیں کہ سعودی عرب کو سیاسی انتشار کا نشانہ بنا کر، حرمین شریفین میں بدامنی اور فتنہ بازی کو عام کیا جائے۔ ایران اپنے قیام کے پہلے روز سے اسی جدوجہد میں ہے، داعش اگر سعودی عرب کو اپنا ہدف بنانے کی طرف پیش قدمی کرتی ہے تو یہ غلط حکمتِ عملی کےساتھ اپنے اصل حریفوں کی بھی ہم نوائی اور ان کی تائید ہوگی۔اس کے بالمقابل داعش اگر فلسطین وغزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے بڑھتی اور دباؤ ڈالتی ہے تو پورا عالم اسلام اس کی پشت پر ہوگا اور یہی ابوبکر بغدادی کا نعرہ ہے کہ وہ مظلوموں کی مدد کو بڑھیں گے، دنیا میں سب سے زیادہ ظلم ملت اسلامیہ پر کہاں ہورہا ہے، اس کا جواب غزہ وفلسطین کے سوا اور کیا ہے؟

سعودی عرب کی حکومت ایک طرف قبلہ اسلام کی خادم اور حجاج کی میزبان ہے، یہاں موجو د اسلامی نظام کی دنیا بھر میں کوئی اور نظیر نہیں ملتی، یہ عقیدہ توحید کی دنیا بھر میں سب سے توانا آواز ہے، دنیا بھر کے مسلمان علوم اسلامیہ میں رسوخ کے لیے یہاں رجوع کرتے ہیں اور سعودی عرب عالم اسلام کی مدد میں کبھی پیچھے نہیں رہتا۔ دنیا میں دارالاسلام کا اگر کوئی ممکنہ مصداق موجود ہے تو اس وقت تک یہ اعزاز صرف سعودی عرب کے پاس ہے، یہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ اللّٰہ کی عبادت کی جاتی اور یہاں کی ثقافت ونظام دنیا بھر سے مختلف ہے۔ دوسری طرف عجب پریشان کن امر یہ ہے کہ القاعدہ کی جہادی تحریک ہو، اخوان المسلمون کی غلبہ اسلام کی تحریک ہو یا داعش کی صورت میں نیا جہادی محاذ، ان سب کے مطالبے اور شکوے بھی سعودی حکومت سے ہیں جس کے نتیجے میں سعودی حکومت ان کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے تئیں محفوظ ہونے کی کوشش کرتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اسلامیان عالم کے لیے یہ امر کس قدر اندوہ ناک ہے کہ مغربی غلبہ واستیلا کے اس دور میں سعودی عرب کا سب سے بڑا مخالف ایران ہو ، جبکہ انہی دو ممالک میں ہی اپنے اپنے عقیدہ کے مطابق اسلامی حکومتیں پائی جاتی ہیں۔سعودی عرب ، مصر کی اخوانی حکومت کی معزولی پر اس کا ساتھ دینے کی بجائے مخالف کیمپ میں کھڑا نظر آتا ہے جبکہ سلفی اور اخوانی ، دونوں اسلام کے ہی کام کرنے والی دو مخلص تحریکیں ہیں، سید قطب اور حسن البنا کے منہج سے اختلاف کے باوجود ان کے خلوص وجذبہ کی تائید ماضی میں سلفیہ کے قائد شیخ عبد العزیز بن باز کرچکے ہیں اور سعودی عرب میں اخوان کو ہمیشہ سے دینی جدوجہد کی بڑی آزادی اور تائید حاصل رہی ہے۔ پھر اس پر کیوں افسوس نہ ہو کہ سلفی نظریات پر پروان چڑھنے والی داعش کی جہادی تحریک، سعودی عرب کو ہی اپنے نشانے پررکھ لے۔گویا عالم موجود کے چار عظیم اور طاقتور رجحانات آپس میں ہر ایک دوسرے کے درپے ہیں: سعودی عرب، ایران، مصر اور دولتِ خلافت اسلامیہ۔مسائل اور وجوہات کیا ہیں، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے لیکن یہ نتیجہ ہر مسلمان کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے، بالخصو ص ان حالات میں جبکہ ملتِ کفر ، ان سب کو کچا چباجانے اور مچھر کی طرح مسل دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

دنیا میں جو بھی اسلامی تحریک اُٹھتی ہے، حرمین شریفین کے مقدس مقامات کی محافظ اور خادم ہونے کی بنا پر سعودی حکومت کو اپنے نشانے پر رکھ لیتی ہے۔ایران اپنے روزِ قیام سے حرمین میں اپنی مداخلت کے لیے ہرطرح کی جدوجہد کررہا ہے، اور داعش بھی اسی سمت پیش قدمی کرسکتی ہے، لیکن واضح رہنا چاہیے کہ کسی بھی اسلامی حکومت کا حرمین پر تسلط اس کے اسلامی ہونے کا بنیادی تقاضا نہیں بلکہ اس کے مقبولِ عوام ہونے کی بچگانہ خواہش ہے۔ حرمین کی جس طرح سعودی حکومت نے فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر خدمت کی ہے، اسلامی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات بھی نہیں کہ کوئی اور حکومت یہاں ایسے پرسکون انتظامات کرسکے۔آل سعود کی حکومت کا یہ طرۂ امتیاز ہے۔ ماضی کی خلافتیں حرمین پر غلبہ کے باوجود قائم رہی ہیں، افغانستان میں طالبان کی اسلامی حکومت نے حرمین پر غلبہ کو کبھی اپنی خواہش نہیں بنایا ، پھر ایران کی یہ خواہش سراسر ہٹ دھرمی اور مسلمانوں کو منتشر کرنے کی سازش ہے۔ داعش بھی اگر اسی روش کو اختیار کرتی ہے تو یہ خارجیت پر مبنی رویہ ہوگا، شرعاً اور مصلحتاً بھی اس کا جواز نہیں ہے اور دنیا بھر میں وہ اپنا مقام اور وقار دنوں میں کھو دے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
میڈیا میں آنے والی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ، داعش نے سعودی عرب کی بجائے، ترکی وشام کی سرحد کی طرف ،کوہ سنجار کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے وہاں یزیدی فرقے کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ یزیدی فرقہ ، یزد یعنی خدا کے نام پر آگ کا بچاری ہے اورحیران کن طور پردن میں پانچ وقت شیطان کی عبادت کرتا ہے، جسے خدا کےساتھی 'ملک طاؤس' کانام دیتا ہے ۔ اسے فرقے کی عبادت کی رسومات زیادہ ترعیسائیوں اور کچھ مجوسیوں سے ملتی ہیں۔عیسائی چرچ میں راہب کے ذریعے ان کی شادی کی رسومات منعقد ہوتی ہیں اس بنا پر انہیں عیسائی بھی کہا جاتا ہے۔یزیدی ملعون گروہ کے افراد جونہی پہاڑوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تو امریکہ نے پہلی بار عملاً اپنی فضائیہ کے ذریعے داعش پر حملے شروع کردیے ہیں اور ان عیسائی مجوسی یزیدیوں کو بچانے کے لیے کھانے کے سامان جہازوں کے ذریعے گرائے ہیں۔اوباما نے یہ بیان جاری کیا ہے کہ ''ہم جہادیوں کو اسلامی خلافت قائم نہیں کرنے دیں گے۔''

یہی داعش کا اصل کام ہے کہ وہ خالص گمراہی پر کاربندلوگوں یا حکومتوں کی طرف اپنا رخ کرے جو عالمی طاقتوں کے آلہ کار بن سکتےہیں، اور اپنی قوت زیادہ سے زیادہ واضح اہداف کی طرف مرکوز کرے۔ اسلام اور اہل اسلام سے گریز کرکے، ان کو کفر کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے اسلام کے ازلی دشمنوں سے آغاز میں ہی میثاقِ مدینہ کے معاہدے کئے، صلح حدیبیہ کی پیچیدہ شرائط کو قبول کیا تاکہ نوزائیدہ اسلامی ریاست کوکچھ وقت مل سکے۔ بیت اللّٰہ میں شرکیہ بتوں کو فتح مکہ تک گوارا کیا، جب تک لوگوں میں اس کے خلاف واضح ذہن تشکیل نہ دے لیا اور پورا کنٹرول حاصل نہ کرلیا۔دعوتی وفود، معاہدوں، خطوط اور جہادی پیش قدمی کو درجہ بدرجہ پروان چڑھایا۔ سیرتِ نبوی سے یہ رہنمائی شرعی احکام کے ساتھ حالات کی بہترین واقفیت اور عظیم سیاسی بصیرت کی متقاضی ہے۔داعش انہی نقوش سیرت سے رہنمائی حاصل کرکے، آہستہ آہستہ کامیابی کی طرف بڑھ سکتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
6. نظریاتی اتفاق :یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ دنیا بھر کی جہادی تحریکوں میں چند اہداف کے بارے میں واضح اتفاقِ رائے سامنے آرہا ہے۔ایک تو مغربی تہذیب اور اس کے نعروں کے بارے میں ان کا موقف واضح تر ہوتاجارہاہے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق، اقوامِ متحدہ، دہشت گردی اوروطنیت کی مذمت سرفہرست ہیں۔ اسی طرح یہ تحریکیں چاہے مشرق وسطیٰ میں ہوں یا افغانستان وپاکستان میں، شیعیت کے بارے میں بھی ان کے موقف میں بھی واضح اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ وہ شیعہ کو اسلام دوست سمجھنے کی بجائے، کفریہ طاقتوں کا آلہ کار سمجھتے ہیں۔پھر مسلم حکمرانوں اور مسلم ممالک میں جاری سرکاری نظاموں کے بارے میں بھی ان کا موقف واضح طو ر پر نکھر چکا ہے۔ جبکہ دوسری طرف بیسیوں صدی کی معروف احیائی تحریکیں ابھی تک مغربی نعروں اور نظاموں کے بارے میں پوری طرح واضح نہیں ہوسکیں، اور وہ انہی حکومتوں اورنظاموں کے تحت غلبہ اسلام کی طرف پیش قدمی کو ممکن سمجھتی اور اسی کی جدوجہد کررہی ہیں۔ یہی وہ فکری اختلاف ہے جس کی بنا پر علامہ یوسف قرضاوی، اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی وغیرہ، داعش اور جہادی تحریکوں کے موقف کے قائل اور حامی نہیں ہیں۔ جہادی تحریکوں کے بارے میں ایک موقف سلفی علما کا بھی ہے جو کفر کے مقابلے میں ان کے دفاعی جہاد کو تو خالص جہاد سمجھتے ہیں، جیسا ماضی کا افغان جہاد یا امریکہ کے خلاف افغان یا عراق میں دفاعی جہاد اور داعش کا حالیہ جہاد، البتہ اسلامی حکومتوں کے خلاف تشدد آمیز کاروائیوں کو فتنہ انگیزی اورحکمت کے منافی قرار دیتے ہیں اور اقدامی جہاد کے لیے بھی جہادی تنظیموں کو بہت سی شرائط کا پابند کرتے ہیں، جیسا کہ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اللّٰہ جل جلالہ سے دعاہے کہ اہل اسلام کو دین اور دنیا کے مسائل کی بصیرت عطا کرے، افتراق وانتشار اور تعصّب وتحزب کی آفت سے بچائے، شرعی اور ملی مقاصد کے لیے خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کو سمجھنے اور مل کر چلنے کی توفیق دے۔ خیر القرون میں بھی اسلام کا احیا اور اس کاغلبہ خاص انعاماتِ الٰہیہ اور ان تمام تدابیر کے بغیرنہ ہوا تھا۔ شریعت کا گہر ا علم اصل اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، عبادت وعمل کے بغیر اس میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی اور حالات کی صحیح سمجھ بوجھ یعنی فقہ الواقع کے بغیر درست فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ فراستِ مؤمنانہ سے ہی ان پیچیدہ مسائل اور اہم ملی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہواجاسکتا ہے۔ اللّٰہ اُمتِ اسلام کا حامی وناصر ہو!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حوالہ جات

1.http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140623_what_constitutes _isis_sq.shtml

2.مذکورہ بالا تینوں بیانات کے اہم اقتباسات، داعش کے باضابطہ ترجمان عربی مجلہ 'دابق' کے پہلے شمارے بابت رمضان 1435ھ میں صفحہ 6 تا 11 شائع ہوچکے ہیں، جبکہ راقم نے اُنہیں اصل عربی تقاریر سے اَخذ کیا ہے۔

3.http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/06/140618_iraq_fiting_sen.shtml

4.روزنامہ جنگ ونواے وقت:5؍اگست 2014ء

5.عنوان خبر 'یہودیوں کی مخالفت میں ایرانی سب سے پیچھے': بی بی سی، 17 مئی 2014ء

6.داعش کے باضابطہ ترجمان 'دابق' میں 'طاغوت' اور 'مرتدین' کی مخصوص اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں اور پیچھے شیخ عدنانی کے خطاب میں 'مرجئہ' کی مذمت ، القاعدہ کے روایتی موقف سے اتفاق ظاہر کرتی ہے۔
 
Top