• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عصر حاضر میں خروج کا مسئلہ اور شبہات کا جائزہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
5) ﴿وَإِذا حَكَمتُم بَينَ النّاسِ أَن تَحكُموا بِالعَدلِ....٥٨....سورة النساء ''(اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ) جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل (یعنی شریعت) کی بنیاد پر کرو ۔'' نیز اسی طرح فرمایا گیا: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا كونوا قَوّ‌ٰمينَ بِالقِسطِ....١٣٥﴾.... سورة النساء''اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بن جاؤ۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6) ﴿أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم....٥٩ ....سورة النساء ''اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان کی جو تم میں سے صاحب ِامر ہوں۔'' اولی الامر سے قبل 'اطیعوا 'کا لفظ نہ آنے سے معلوم ہوا کہ اطاعت ِامیر مستقل بالذات نہیں بلکہ درحقیقت اطاعتِ شارع سے مشروع ہے، اگر وہ اس کے خلاف ورزی کرے تو اس کی اطاعت ضروری نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
6) حدیث شریف میں اُصول بیان ہوا : «لا طاعة لمخلوق في معصیة الله» یعنی ''اللہ کی نافرمانی کے معاملے میں کسی مخلوق کی اطاعت معتبر نہیں۔'' نیز فرمایا «لا طاعة لمن لم یطع الله»9 یعنی جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اس کی کوئی اطاعت نہیں ۔ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا : ﴿وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِ‌نا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ....٢٨﴾.... سورة الكهف ''اس کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے۔'' نیز ﴿وَلا تُطيعوا أَمرَ‌ المُسرِ‌فينَ ١٥١ الَّذينَ يُفسِدونَ فِى الأَر‌ضِ وَلا يُصلِحونَ ١٥٢....سورة الشعراء ''حد سے گزرنے والوں کے حکم کی پیروی مت کرو۔ یہ وہ ہیں جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے ۔ ''
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ امیر کی اطاعت اطاعتِ شارع سے مشروط ہے، فسق و فجور اور نظام باطل برپا کرنے والوں کی اطاعت جائز نہیں، نیز مسلمانوں پر عدل و قسط پر قائم رہنا لازم ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
7) ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا : «ستکون أمراء فتعرفون وتنکرون فمن عرف برئ ومن أنکر سلم ولکن رضي و تابع قالوا: أفلا نقاتلهم قال :لا ما صلّوا »'' عنقریب ایسے حکمران ہوں گے جنہیں تم پہچانتے ہو گے اور ان کا انکار کرو گے، پس جس کسی نے ان (کی حقیقت) کو پہچان لیا وہ بری ہوگا، جس کسی نے برملا انکا انکار کیا وہ تو سلامتی کے راستے پر ہوگا سوائے اس کے جو اُن پر راضی ہوگیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا (یعنی نہ وہ بری ہے اور نہ سلامتی کے راستے پر)۔ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیاایسے اُمرا کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرلینا چاہئے؟ آپ ﷺنے فرمایا: جب تک وہ نماز ادا کرتے رہیں ،ایسا مت کرنا ۔'' اس حدیث سے پتہ چلا کہ فاسق حکمرانوں کی اطاعت کی کم از کم شرط یہ ہے کہ وہ نظامِ صلوة قائم رکھیں (یعنی خود بھی ادا کریں، اس کی ادائیگی کا اہتمام کریں نیز رعایا کو بھی اس کا حکم دیں)۔ اس حدیث میں لفظ 'قتال'یہ واضح کررہا ہے کہ اس شرط کی عدم موجودگی میں محض احتجاج (منازعت) نہیں بلکہ ' مسلح جدوجہد' کی اُصولی اجازت بھی ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسی احادیث ہیں جن سے حکمرانوں کے خلاف بذریعہ قوت نہی عن المنکر پر استدلال ہوتا ہے۔
اس حدیث پر گفتگو فرماتے ہوئے کچھ حضرات نے یہ نکتہ پیش کیا کہ چونکہ قرونِ اولیٰ میں نماز ان معنی میں شعائر اسلام سمجھی جاتی تھی کہ ہر کوئی نماز پڑھتا تھا لہٰذا اس کی عدم ادائیگی پر خروج کی اجازت دی گئی لیکن چونکہ آج کے دور میں اکثریت بے نمازیوں کی ہے لہٰذا آج یہ اس طور پر شعائر اسلام نہیں رہی ،اس لئے آج ترکِ صلوة پر خروج جائز نہ ہوگا۔ ہم اس تاویل کا سر اور پیر دونوں ہی تلاش کرنے سے قاصر ہیں، اہل علم خود ہی اس تاویل کی حقیقت سمجھ سکتے ہیں۔ البتہ اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ حدیث شریف کا مدعا یہ بتانا ہے کہ اقامت ِصلوٰةہر دور کے لئے حقیقی اسلام کے اظہار کا کم سے کم درجہ ہے، گویا رسول اللہﷺنے وہ پیمانہ بتا دیا جس میں تول کر فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ مؤمن اور کافر میں فرق کرنے والی شے نماز ہے۔ اس نکتہ شناسی کا مطلب تو یہ ہوا کہ شعائر اسلام کا تعین قرآن و سنت کی نصوص سے نہیں بلکہ فاسق مسلم اکثریت کے اعمال سے ہونا چاہئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
8) پھر خیر القرون میں خروج کی سب سے اعلیٰ نظیر حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور سیدنا حسینؓ کے طرزِ عمل میں نظر آتی ہے جس کا مقصد اسلامی خلافت و ریاست کو امارت و سلطنت کے بجائے خلافتِ راشدہ کی طرف پلٹادینے کی جدوجہد کرنا تھا، دوسرے لفظوں میں ان اصحاب کی جدوجہد اختیارِ عزیمت کی اعلیٰ مثال ہے جسے علماے اہل سنت نے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ ان دونوں حضرات کی نظیر اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کا نفس زکیہ وغیرہ کے خروج کا ساتھ دینا بھی اہل علم کو خوب اچھی طرح معلوم ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
9) اسی طرح متعدد قواعد فقہ سے بھی خروج پر استدلال ہوتا ہے، مثلاً إن الضرر یُزال، یعنی نقصان کا ازالہ کیا جانا ضروری ہے، نیز «إزالة الضرر الأکبر بالضرر الأصغر» یعنی بڑے نقصان کا ازالہ نسبتاً کم تر نقصان سے کیا جائے گا ...وغیرہم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭خروج کی اجازت دینے والے علما کے نزدیک بھی اس کی اجازت چند شرائط کے ساتھ مشروط ہے:
اوّل: خروج تب کیا جائے جب بگاڑ بڑی نوعیت کا ہو ، یعنی جب حکمران کھلے بندوں واضح احکامات شریعہ کی دھجیاں بکھیرنے لگیں، اسلامی نظام اطاعت معطل ہو کر غیر اسلامی نظام اطاعت غالب آچکا ہو۔ دوسرے لفظوں میں خروجِ امارة ضالہ و کفر کے خلاف کرنا چاہئے۔ فقہاے کرام نے جواز خروج کی جس شرط پر سب سے زیادہ زور دیا ہے وہ شریعتِ اسلامی کا معطل ہوجانا ہی ہے:
٭علامہ شامی فرماتے ہیں:
''تین چیزوں سے دارالاسلام دارلحرب میں تبدیل ہوجاتا ہے، اہل شرک کے احکام کے اجرا سے، اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے، امن اسلام کے خاتمے سے۔''11
٭امام یوسف و محمد کے نزدیک کسی علاقے میں مذکورہ اُمور میں سے صرف کفریہ احکامات کا اجرا ہی اسے دارالحرب بنانے کےلئے کافی ہے ۔
٭امام سرخسی فرماتے ہیں:'' احکام اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔''12
٭علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں:''ہمارے علما میں اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر اسلامی احکامات ظاہر ہونے سے دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے۔''13
٭شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:'' اگر کوئی ایسا شخص حکمران بن جائے جس میں تمام شروط نہ پائی جائیں تو اس کی مخالفت میں جلدی نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ اس کی مخالفت سے ملک میں لڑائی جھگڑے اور فساد پیدا ہوں گے ... لیکن اگر حکمران کسی اہم دینی امر کی مخالفت کرے تو اس کے خلاف قتال جائز بلکہ واجب ہوگا، اس لئے کہ اب اس نے اپنی افادیت ختم کردی اور قوم کے لئے مزید فساد و بگاڑ کا سبب بن رہا ہے لہٰذا اس کے خلاف قتال جہاد فی سبیل اللہ کہلائے گا۔''14
٭علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ''جب دین (نظم اطاعت) غیر اللہ کےلئے ہوجائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے، چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح و متواتر احکامات و قوانین کی پابندی نہیں کرتے ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا ۔''15
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دوم: حالات اتنے ساز گار اور قوت اتنی ہو کہ خروج کی صورت میں کامیابی کے امکانات روشن ہوں ۔ کامیابی کے امکانات اور تیاری کے مراحل بہر حال اجتہادی مسائل ہیں کیونکہ نہ تو حالات ہی ہمیشہ یکساں کیفیت کے ہوتے ہیں اور نہ تیاری کے لگے بندھے اُصول ہیں بلکہ تیاری کی کیفیت ومراحل کو در پیش حالات پر منطبق کرنے کے نتیجے میں ایک حکمت ِعملی وضع کرناہوتی ہے جس کی نوعیت ہمیشہ مختلف ہواکرتی ہے۔ البتہ جدوجہد کے متوقع نتائج کے اعتبار سے علامہ ابن قیم کی بات بہت خوبصورت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ انکارِ منکر کے چار درجات ہیں:
١) ایک منکر ختم ہوجائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہوجائے، ایسا کرنا مشروع ہے ۔
٢) ایک منکر کم ہوجائے اگرچہ ختم نہ ہو، یہ بھی مشروع ہے ۔
٣) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ ویسا ہی منکر قائم ہوجائے، یہ اجتہادی مسئلہ ہے (کہ آیا واقعی اسی درجے کا دوسرا منکر آجائے گا یا نہیں)؟
٤) ایک منکر ختم ہوجائے مگر اس کی جگہ اس سے بھی بڑا منکر قائم ہوجائے، ایسا کرنا حرام ہے ۔
5. رہی یہ بات کہ جب بذریعہ قوت خروج کی استطاعت نہ ہو تو کیا کیا جائے تو اس کا جوا ب یہ نہیں کہ اس جدوجہد کو روزِ محشر تک کے لئے خیر آباد کہہ دیا جائے بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے یعنی ایسی صورت میں خروج کی تیاری کرنا لازم ہے کیونکہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہواکرتا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭شیخ عبد المنعم المصطفی حلیم فرماتے ہیں کہ اس تیاری کی کئی صورتیں اور درجے ممکن ہیں:
1. حسبِ استطاعت فکری و عملی تیاری کرنا تاکہ ایک طرف خروج کے لئے ذہن سازی ہو سکے تو دوسری طرف متبادل ادارتی صف بندی کی کوشش کی جاسکے تاکہ قوت کو موجودہ اداروں و افراد سے چھین کر (یعنی ان کا اقتدار معطل کرکے ) متبادل اداروں و افراد میں مجتمع کردیا جائے تاکہ خروج کے لئے راہ ہموار ہو اور اُمت ِمسلمہ کو باطل کے غلبے سے نجات ملے۔
2. حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کرکے نظامِ باطل کی مضبوطی کا باعث نہ بننا۔ یعنی ایسے اُمور ترک کردئیے جائیں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو یا ملک پر ان کا اثرو رسوخ بڑھے۔ اس کی اعلیٰ مثال امام ابوحنیفہ یا دیگر ائمہ اسلاف کی زندگی میں نظر آتی ہے جنہوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔
3. ان کے آئین و باطل قوانین کو برضا و رغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعترافِ حاکمیت یا قبولیتِ نظام کا فائدہ دے اور اگر کچھ لوگ متفق ہوکر اُن سے علیحدہ ہونے اور ان کے خلاف تیاری کرنے کے رویے کو اپنائیں تو ان کا فکری وعملی سطح پر ساتھ دینا چاہئے تا کہ باطل نظامِ اقتدار کمزور ہو اور اس سے نجات مل سکے۔
یاد رہے کہ باطل نظامِ اقتدار پر مطمئن رہنا درحقیقت اس سے رضا مندی کی علامت ہے کیونکہ اقتدار کے معاملے میں لاتعلقی یا نیوٹرل رویے کی کوئی حقیقت نہیں ، یعنی یا تو آپ کسی نظام اقتدار کے خلاف ہوتے ہیں یا اس کے حق میں، ان کے درمیان کوئی راستہ موجود نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
خلاصۂ بحث: اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ
1. ایسی احادیث جن میں خروج سے منع فرمایا گیا ہے، ان کا تعلق یا تو انفرادی و شخصی حقوق سے ہے یعنی اگرحکمران ذاتی طور پر تم پر ظلم کررہا ہو مگر ریاست کی بنیاد شریعت ہو تو تم صبر کرو اور اجتماعیت کو نقصان نہ پہنچاؤ اور یا پھر ان کا تعلق حکمران کی انفرادی برائیوں سے ہے۔ اس استدلال کا قرینہ اس حدیث میں موجود ہے:
''حضرت عبادہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ہمیں بلایا تو ہم نے آپ کی بیعت کرلی، آپ نے بیعت کے لئے جو شرطیں لگائیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ہم اپنے امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی کی حالت میں بھی اور ناخوشی کی حالت میں بھی، تنگی میں بھی اور آسانی میں بھی، اور اس حالت میں بھی کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے اور یہ کہ ہم والیانِ اُمور سے جھگڑانہیں کریں گے یہاں تک کہ تم ان میں ایسا کھلا کفر دیکھ لو جس کے کفر ہونے پر تمہارے پاس اللہ (کی کتاب) کی طرف سے کھلی دلیل ہو۔''16
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انفرادی حقوق تلفی (مثلاً باوجود اہلیت عہدہ نہ ملنے ) کی بنیاد پر اطاعت امیر سے نکلنا جائز نہیں البتہ نظم اجتماعی میں واضح رخنہ اندازی کی صورت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی دیگر احادیث کو یہ معنی پہنانا کہ دین سے منحرف اور سرمایہ داری کی ایجنٹ ریاست کے ساتھ بھی التزامِ جماعت تقاضائے شریعت ہے، درحقیقت نصوص میں تضاد پیدا کرنا ہے ۔
 
Top