معصیت اور نافرمانی پر تقدیر کا سہارا غلط ہے
ہمارےخیال میں کسی گناہ گار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے گناہ پر اللہ تعایٰ کی تقدیر کو حجیت پکڑے،کیونکہ گناہ گار معصیت کا اقدام کر تے وقت با اختیار ہوتا ہے اور اسے اس بات کا قطعا علم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں یہی مقرر کر رکھا ہے،کیونکہ نوشتہ تقدیر کا علم،اعمال کے واقع ہونے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ
ترجمہ: ؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا (سورۃ لقمان،آیت 34)
پھر ایسی چیز سے دلیل پکڑنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ،اقدام کرتے وقت جس کا علم خود دلیل پکڑنے والے کو حاصل نہیں ہوتا،جس کو بطور عذر کے اس کام کے اقدام پر جواز کے لیے پیش کر رہا ہے؟چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دلیل کو اپنے ذیل کے ارشاد سے باطل قرار دیا ہے:
سَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكْنَا وَلَآ اٰبَاۗؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۭ كَذٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتّٰي ذَاقُوْا بَاْسَـنَا ۭقُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا ۭاِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ ١٤٨
ترجمہ: یہ مشرکین (یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ تعالٰی کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کر سکتے اس طرح جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا آپ کہیے کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اس کو ہمارے سامنے ظاہر کرو تم لوگ محض خیالی باتوں پر چلتے ہو اور تم بالکل اٹکل پچو سے باتیں بناتے ہو۔(سورۃ الانعام،آیت148)
ہم قضا و قدر کو حجت بنا کر معصیت کا ارتکاب کرنے والے سے کہیں گے تم تقدیر پر اعتماد کر کے عبادت و اطاعت کا راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے؟یہ سمجھ کر کے اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں یہی لکھا ہے ۔اس لحاظ سے معصیت اور اطاعت میں کوئی فرق نہیں ہے،کیونکہ فعل کے صادر ہونے سے قبل لا علمی میں یہ دونوں آپ کے لیے برابر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے صحابہ کر یہ خبر دی ہے کہ :
ما منكم من أحد إلا وقد كتب مقعده من الجنة ومقعده من النار ". فقالوا يا رسول الله أفلا نتكل فقال " اعملوا فكل ميسر
ترجمہ: تم میں سے ہر شخص کی جگہ جنت یا دوزخ میں اللہ تعالیٰ نے لکھ دی ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی کیا ہم عمل ترک کر کے اپنے لکھے ہوئے پر بھروسہ نہ کر لیں۔فرمایا نہیں،عمل کرو ،کیونکہ جو شخص جس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس کے لیے اس کام کو آسان بنا دیا گیا ہے۔(بخاری ،کتاب التفسیر)
اسی طرح ہم قضا و قدر کو دلیل بنا کر گناہ کرنے والے سے کہیں گے اگر تم مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ رکھتے ہو اور تمہاری نظر میں اس کے دو ہی راستے ہوں اور آپ کو کوئی با عتماد آدمی خبر دے کہ ان دو راستوں میں سے ایک راستہ دشوار گزار اور خطرناک ہےاور دوسرا راستہ آسان ،پُر امن اور محفوظ ہے،تو یقینا تم دوسرا راستہ اختیار کرو گے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ یہ کہتے ہوئے پہلے خطرناک راستے پر چل نکلیں کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہے اور اگر ایسا کریں گے تو لوگ آپ کو احمق اور بے وقوف سمجھیں گے۔
اور اسی طرح ہم ایسے شخص سے یہ سوال کریں گے کہ اگر آپ کو دو ملازمتوں کی پیشکش کی جائے ،ان میں ایک بڑی تنخواہ والی ہو تو ظاہر ہے کہ آپ کم تنخواہ والی کی بجائے بڑی تنخواہ والی کو حاصل کرنا زیادہ پسند کریں گے،اسی طرح آخرت کے اعمال کے سلسلے میں تقدیر کو سہارا بنا کر کم اجرت والی چیز کو آپ کیوں اختیار کرتے ہیں؟
اور ہم اسے یہ بھی کہیں گے جب تمہیں کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو علاج معالجہ کے لیے ہر طرح کے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہو ،آپریشن اور تلخ دوائیں استعمال کرنے کی مصیبتیں جھیلتے ہو تو پھر اس طرح کی کاوش و کوشش معصیت سے بیمار دل کے علاج ومعالجہ کے لیے کیوں نہیں کرتے؟