• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علماء اور علم نفسیات

مہر

رکن
شمولیت
جنوری 30، 2012
پیغامات
41
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
36
علماء نفسیات کیوں نہیں پڑہتے؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
(مسلمان) ماہرین نفسیات قرآن و حدیث کیوں نہیں پڑھتے ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
انجینئرز، میڈیسین کیوں نہیں پڑھتے ؟
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
معاشیات دان، انجینئرنگ کیوں نہیں پڑھتے ؟
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
سب سے زیادہ علوم علماء ہی پڑھتےہیں
اردوبازار میں 80 فیصد کتب علماء کی ہوتیں ہیں یا وہ جن کو کسی مرحلہ علماء صحبت حاصل رہی ہے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ان بھائی کا سوال برا نہیں ہے ، بلکہ اہم ہے۔ ہمارا سارا دین مزاج ، اخلاق ، اور قدروں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ہمارے بعض علماء واقعی ہی سوال کرنے والے یا طالب علم کی ذہنی استعداد کو مد نظر نہیں رکھتے۔حالانکہ عالم کے لیے یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے۔تبھی وہ عوام الناس کے لیے موثر ثابت ہو گا۔تاریخ اسلام میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔علماء کے لیے علم نفسیات کے طور طریقے دراصل اسلام میں پہلے سے ہی موجود ہے۔مسئلہ انھیں اختیار کرنے کا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
مثال کے ساتھ وضاحت کردیں ، کہ علماء کے اندر کون سے غلط رویے پائے جاتے ہیں ،کہ اگر وہ علم نفسیات جانتے ہوں تو ان سے بچ سکیں گے ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ علمائے کرام :
  1. سوالات کو پسند نہیں کرتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام الناس ان کے دروس سن کر دین سیکھیں، سوالات کرکے ہمارا وقت ضائع نہ کریں۔ (ایسا وہ الفاظ سے نہیں کہتے بلکہ اپنے ”طرز عمل“ یا باڈی لینگویج سے طاہر کرتے ہیں)
  2. عوام کے سوالات کے جوابات دیتے وقت علمائے کرام سائل کی ”ذہنی اور علمی سطح“ تک اترنا پسند نہیں کرتے ۔ یوں ان کا جواب ”علمی اعتبار“ سے درست ہونے کے باوجود سائل کو مطمئن کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اگر علمائے کرام ”علم نفسیات“ پر عبور رکھتے تو ہر ذہنی و علمی سطح کے لوگوں کے سوالات یا اعتراضات کا عام فہم انداز میں جواب دے کر انہیں اسلام اور اسلامی تعلیمات سے ”مطمئن“ کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یہی کام احس طریقے اس لئے کر پا رہے ہیں کہ وہ علم نفسیات پر عبو ر رکھتے ہیں۔
  3. علمائے کرام خود کو وی آئی پی تصور کرتے ہوئے عوام الناس میں ”گھلنا ملنا“ پسند نہیں کرتے۔ یوں عوام الناس اور علمائے کرام کے درمیان ایک فاصلہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ علماء عموماً اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ ہی عوام سے ”مخاطب“ ہونا پسند کرتے ہیں۔ سوشیل میڈیا کی آمد سے یہ فاصلے گو کہ کچھ کم ہوئے ہیں۔ لیکن تا حال صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ چیزیں بعض علماء میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔
لیکن یہ معاملہ صرف ’’ علماء ‘‘ کے ساتھ خاص نہیں ، کسی ایسے پیشے سےمنسلک افراد اور ملازمین کے رویے پر نظر دوڑائیں جنہیں عوام الناس سے کثرت سے واسطہ رہتا ہے ۔ مثلا سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین ، نادرہ دفتر میں کام کرنے والے ، پاسپورٹ دفتر کے اہلکار ، ان سب جگہوں پر آپ کو بعض ایسے افراد ملیں گے ، جو عوام کے گریبان تک بھی پہنچ جاتے ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ چیزیں بعض علماء میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔
لیکن یہ معاملہ صرف ’’ علماء ‘‘ کے ساتھ خاص نہیں ، کسی ایسے پیشے سےمنسلک افراد اور ملازمین کے رویے پر نظر دوڑائیں جنہیں عوام الناس سے کثرت سے واسطہ رہتا ہے ۔ مثلا سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین ، نادرہ دفتر میں کام کرنے والے ، پاسپورٹ دفتر کے اہلکار ، ان سب جگہوں پر آپ کو بعض ایسے افراد ملیں گے ، جو عوام کے گریبان تک بھی پہنچ جاتے ہیں ۔
تو کیا علمائے کرام کو بھی دیگر پیشوں سے منسلک افراد کی طرح ہی سمجھا جائے۔ کہ چونکہ ”دیگر سب لوگوں“ میں بھی ایسی خامیاں، کمیاں پائی جاتی ہیں، لہٰذا علماء میں بھی پائی جاتی ہیں تو کون سی بڑی بات ہے ۔ ابتسامہ
@عذر گناہ بد تر از گناہ
 
Top