میرے بھائی ا
اصطلاح تصوف کے بارے میں کہاں آپ نے جواب دیا ہے ذرا ایک مرتبہ پھر لکھ دیں اور تصوف کی اصطلاح کے بارے میں جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کا بھی جواب دیں صرف اپنی بات لکھ دینا اور یہ سوچ لینا کہ میں نے لکھ دیا ہے تو بس یہی صحیح ہے تو یہ قطعا غیر معقول ہے آپ میری باتوں کا جواب دیں دعوی نہ کریں
اب اپ نے دو باتیں بیان کرنی ہیں
1۔ اصطلاح تصوف کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا وہ برائے مہربانی دوبارہ لکھیں تاکہ میں اس دیکھوں اگر آپ کے دلائل مضبوط ہوئے تو میں آپ کی بات مان لوں گا ورنہ اس پر تنقیدی جائزہ میرا حق ہے
کتاب الایمان، مذاہب، ج1ص44پر ہے۔ہمارے اہل حدیث عالم و صوفی سید عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ علیہ ست طریقت اور شریقت کے متعلق پوچھا گیا تو کیا خوب آپ نے جواب دیا،سبحان اللہ ہمارے علماء ایلحدیث تصوف وسلوک کسی سے کم نہیں ہیں چند اقتباس پیش کرتا ہوں،فرماتے ہیں:۔
رسول اللہﷺ کے زمانہ میں اور اس کے بعد خیر قرون میں شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت وغیرہ کوئی خاص اصطلاح نہ تھیں۔ صرف شریعت کا لفظ دین کے معنی میں استعمال ہوتا تھا باقی الفاظ قریباً اپنے لغوی معنی پر تھے۔ اس کے بعد جیسے فقہ والوں نے احکام کے درجات بتلانے کی غرض سے فرض واجب وغیرہ اصطلاحات مقرر کی ہیں۔ اسی طرح صوفیائے کرام نے تہذیب اخلاق یعنی علم تصوف میں سلوک عبد کے درجات کو ظاہر کرنے کی غرض سے یہ الفاظ مقرر کیے۔ مثلاًشریعت عقائد اور ظاہری احکام کا نام رکھا جیسے نماز۔۔۔ روزہ وغیرہ۔ طریقت ان پر عمل کرنے میں ریاضت اور مجاہدۂ نفس کرنا اور اپنے اندر اخلاص اور للٰہیت پیدا کرنا۔ حقیقت ان کے اسرارپر مطلع ہوکر اپنا عمل اس کے مطابق کرنا جیسے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغۃ میں ان احکام کے اسرار لکھے یا نفس اور دل کے امراض پر مطلع ہو کر ہر ایک مرض کا مناسب علاج کرنا اور باطنی صحت قائم رکھنے کے اسباب پیدا کرنا۔ معرفت کشف اور مراقبہ کی حالت ہے۔ جو یقین اور اطمینان قلبی کا اعلیٰ مقام ہے۔ اس وقت اللہ کے سوا کسی شے کی طرف نظر نہیں رہتی اور ذکر الہی میں وہ حلاوت اورلذت پاتا ہے کہ کوئی لذت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی بلکہ ذکر الہی ایک طرح سے اس کی غذا ہوجاتا ہے جس کے بغیر اس کی زندگی مشکل ہے۔
مثال ان چاروں مراتب کی مثال درخت کی سی ہے۔ مثلاً درخت کے لئے جڑیں اور تنا ہے ان کے بغیر درخت کا وجود ہی نہیں۔ پھر ٹہنے اورشاخیں ہیں یہ بھی درخت کےلئے لازمی ہیں۔ پھر پھل ہے پھر اس کی لذت ہے۔ ٹھیک اسی طرح تصوف ہے۔ شریعت کے بغیر تو تصوف کوئی چیز ہی نہیں۔ نہ وہاں طریقت ہے نہ حقیقت نہ معرفت کیونکہ شریعت بمنزلہ جڑ اور تنے کے ہے۔ اس کے بعد طریقت کا مرتبہ ہے جو بمنزلہ ٹہنوں اورشاخوں کے ہے۔ اس کے بغیر بھی تصوف کالعدم ہے۔ پھر حقیقت پھل کے قائم مقام ہے اورمعرفت اس کی لذت کے قائم مقام ہے۔ جیسے درخت پھل اور اس کی لذت کے بغیر کامل نہیں اس طرح بندہ بھی خدا کے نزدیک کمال کو نہیں پہنچتا جب تک اس کے اندر حقیقت اور معرفت پیدا نہ ہو جائے۔
اور خلاصہ میں فرماتے ہیں:۔
خلاصہ خلاصہ یہ کہ شریعت ، طریقت ، حقیقت ، معرفت خواہ الگ الگ شاخیں ہوں یا ایک ہوں اور الگ ہونے کی حالت میں چارہوں یا کم ہوں۔ کسی صورت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ جو ایک دوسرے سے جدا ہونے کے قائل ہیں وہ ان کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اللہ ان کو سمجھ دے اور راہ راست کی توفیق بخشے۔ آمین ۔بحوالہ فتوی اہل حدیث۔
بھائی یہ ہما رے نزدیک تصوف ہے ،آپ اس پر جو آپکو اعتراض وہ پیش کریں، اس میں دوسری بات یہ کہ یہ ایک اہلحدیث کا فتوی ہے ،نمبر2 ان کے تعلق تصوف کا ثبوت ہے ،
اب آپ ان کے صوفی ہونے کی وجہ سے کفر ،بدعتی ،جائل ہونے کا فتو ی پیش کریں۔
(گفتگو اسی دائرے میں رہ کرنی ہے کاپی پیسٹ کے بجائے دو ٹوک جواب دینا ہے)
حافظ ابن حجرؒ کا نام میں نے اس لئے لیا کہ وہ محدث بھی تھے ،جب انکی سند میں صوفیاء کا نام آئے گا تو آپکے نزدیک وہ کافر بدعتی مشرک ہوئے تو پھر میں آپ سے پو چھوں گا کہ تواتر توارث سے سند حدیث ثابت کرو ،تو پھر میں دیکھو ں گا کہ کافر مشرک کون ہوتے ہیں یہ کسی سے پوچھ لینا کہ جب کوئی کافر نہ ہو تو اسے کافر کہا جائے تو ایسے بد نصیب فتوی گو کے بارے میں اللہ رسول کا کیا حکم ہے۔