میں آپکے اس جواب پر کچھ حیرانگی نہیں،منکرین تصوف کا یہ شیوہ ہے، صوفیاء اہلحدیث ؒ اور اکابرین امتؒ بدعتی نہیں ہیں ،بدعتی تو منکرین تصوف ہیں ۔
اگر آپ اہلحدیث ہو تو ایک فتوی لے آو جس میں صوفیاء اہلحدیثؒ (سید نذیر حسین دہلویؒ،خاندان غزنوی،لکھوی ،سوہدروی،روپڑی،مولانا مرتسی۔مولانا میر وغیرہ ) کو بدعتی ،مشرک،اور کافر قرار دیا گیا ہو،میں دیکھتا ہوں کون آپکو فتوی دیتا ہے۔ہاں کوئی نام نہاد جائل منکر تصوف اہلحدیث اپنی خباثت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ دلیل سے بات کیجئے۔ہم اسی تصوف کے قائل جو ان حضرات کا تھا،
آپ طریقہ ذکر کی بات کر رہے تھے۔آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ صوفیاء اہلھدیث کی مجلس میں ذکر کونسا ہوتا تھا؟ وہاں اسم ذات کو ذکر خفی اور نفی اثبات کو ذکر ہوتا تھا۔جب منکرین تصوف کا ظہور ہو اتو پھر علماء اہلھدیث نے طریقہ ذکر پر جواب بھی دیئے،میں ایک جواب مشہور عالم ،جید صوفی اور قطع بدعت وداعی سنت مولانا داؤد غزنویؒ کا جواب نقل کر دیتا ہوں،جو انکے بیٹے سید ابوبکر غزنویؒ نے پوچھے ہیں جو خود بہت بڑے صوفی تھے،مگر یہ باتیں آپکی بلا جانیں۔
معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔ "صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاء والمرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسن وجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء
اس مقالے کے آخری لفظ سنئے اگر گوش نصحیت نیوش ہے:
"بہر حال ہم لوگ بعد زمانہ نبوت کی وجہ سے ضعیف الاستعداد اور دنیا کے ظاہری حسن وجمال سے بہت متاثر اور ضعیف الایمان ہیں ،اس لئے ہم جیسے لوگوں کو تزکیہ نفس اور وصول الیٰ اللہ (جو ثقلین کی پیدائش کا حکمت اصلیہ ہے) کے لئے ان وسائل وتدابیر کی اشد ترین حاجت ہے اور تجربہ اسکا شاہد ہے۔"
اگر جرات ہے ابرار صاحب آپ میں تو ان پر مشرک وبدعتی ہونے کا فتوی لے آئے ورنہ آپ اور آپکا ٹولہ جھوٹا ثابت ہوگا،اور مجھے آپ کہتے ہیں تو دس فتوی جات دونگا جن میں یہ ثابت ہوگا کہ یہ اہلسنت تھے۔