• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جناب یہ تو ایسے ہے جیسا کہ قرآن پاک کوئی نیچی آواز میں پڑھنا پسند کرتا ہے کوئی اونچی آواز میں اب ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ اونچی میں پڑھو تو بدعت ہے نیچی آواز میں پڑھو تو ٹھیک ہے ذکر ہے جس کی مرضی اونچا پڑھے جس کی مرضی نیچی آواز سے کرے اپنی اپنی کیفیت ہے۔
بدعت دین میں وہ نیا کام ہوتا ہے جسے ثواب کی نیت سے کیا جائے لیکن وہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو، آپ بدعت کی تعریف کو پہلے سمجھیں۔
 
شمولیت
ستمبر 08، 2013
پیغامات
180
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
41
(الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) (الرعد:28)
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
اس آیت کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہوں اب بھی دے رہا ہوں آپ پہلے اس آیت کو پڑھیں اسکی تفسیر پڑھیں اس آیت کو سمجھیں اللہ تعالیٰ خود کہہ رہے ہیں کہ میرے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے اور آپ اسے بدعت کہہ رہے ہیں؟؟؟
 
شمولیت
ستمبر 08، 2013
پیغامات
180
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
41
چلیں ایک بات بتائیں میں آپکو یہ کہتا ہوں کہ آپ سارا دن یہ دعا پڑھیں یہی آپکا ذکر ہے
اللهم اغفر لى ولوالدى وللمؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات الاحياء منهم والاموات
اب مجھے یہ بتائیں اس میں کون سی بدعت ہے یہ نہ تو آپ نے اجتماعی پڑھنا ہے اور نہ ہی اونچا،جیسے آپکی مرضی پڑھیں، اب سارا دن یہ پڑھیں ہر روز پڑھیں، اس میں کیا مسئلہ ہے اور میرا ارسلان صاحب آپ کو مشورہ ہے کہ یہ دعا آپ سارا دن ہر وقت پڑھیں ان شاء اللہ آپکے دل کی دنیا بدل جائے گی، اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ آپکو وہ نعمتیں دیں گے جس کا تصور بھی نہیں تھا۔ جناب کریں تو صحیح کچھ، پھر دیکھیں کیا ملتا ہے اس مالک کے خزانوں سے اگر اس پر بھی اعتراض ہو تو میرے پاس اس کے مشاہدات ہیں وہ بھی ان شاء اللہ بتا دوں گا کہ اس کے سارا دن پڑھنے سے کس کو کیا کچھ ملا۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جناب یہ تو ایسے ہے جیسا کہ قرآن پاک کوئی نیچی آواز میں پڑھنا پسند کرتا ہے کوئی اونچی آواز میں اب ہم یہ تو نہیں کہ سکتے کہ اونچی میں پڑھو تو بدعت ہے نیچی آواز میں پڑھو تو ٹھیک ہے ذکر ہے جس کی مرضی اونچا پڑھے جس کی مرضی نیچی آواز سے کرے اپنی اپنی کیفیت ہے۔
اور حلقے بنا کر صرف ہو ہو ہو پڑھنا کیا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ہم بدعت اسی فعل کو کہتے ہیں جس کی بسا اوقات شرع میں اصل موجود ہوتی ہے لیکن جس انداز میں اسے بعد میں وضع کیا گیا ہو وہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو تو اسے بدعت کہا جائے گا۔ بشرطیکہ اسے اجر و ثواب یا بغرض عبادت کیا جائے۔
اور جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ قرآن کو اونچا پڑھا جائے یا نیچی آواز میں پڑھا جائے تو اس میں تو کسی کو اختلاف ہے ہی نہیں اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن کو اس انداز میں پڑھنا جو مسنون نہ ہو تو تلاوت قرآن نہیں بلکہ وبال جان بننے کا امکان ہے جیسا کہ ایک مصری بچہ موسیقی کے ساتھ تلاوت قرآن کر تا ہے تو کل آپ یہ کہیں گے کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
محترم ! میں نے یہ سوال اس لئے کیا تھا کہ آپ شرعی علوم میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں ،ان پر کوئی دلیل پیش کرتے ،شریعیت جو رہنمائی کرتی ہے کہ اصطلاحات کے لئے یہ طریقہ کار ہے؟ مگر افسوس کے آپ ادھر ادھر کی ہانکتے رہے ،مگر اصل بات کی نہیں۔پھر دوسری بدعت کی تعریف پوچھی تھی؟مگر وہ بھی آپ نہ بتا سکے۔
محترم بات یہ کہ جب دین پھیلا تو ضرورت کے تحت جہاں مختلف شعبے وجود میں آئے اسی طرح تصوف بھی وجود میں آیا،قرآن کو سمجھانے کے لئے جن نفوس قدسیہ نے حصہ لیا انہیں مفسر کہا گی،اسی طرح خدمات حدیث پر جو لوگ سامنے آئے ،انہیں محدث کہا گیا۔اب ان علوم کو سمجھانے کے لئے ان حضرات نے اصول وضع کئے ،اصطلاحات وجود میں آئی ،اور یہ سب کچھ ضرورت کے تحت تھا،اسی طرح صوفیاء کا شعبہ وجود میں آیا
کسی بات میں اہل علم کے اختلاف کے یہ معنی ہر گز نہیں ہوتے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ،اگر آپ کا کلیہ اصول یہ ہے،تو پھر کل آپ لفظ اللہ سے بھی انکار کر دے گے ،اب بحث لفظ اللہ پر بھی ہے، کہ یہ کس سے مشتق ہے ؟ تو مختلف اقوال ملتے ہیں،تو کیا آپ لفظ اللہ کو ماننے سے بھی انکار کر دے گے۔
میرے بھائی! تصوف کی بحث یہ نہیں کہ یہ لفظ کس سے بنا ہے،یہ تو اایسے ہی ہے کہ کل آپ کہہ اٹھے کہ میں بخاری شریف کو تب مانوں گا جب آپ لفظ بخاری قرآن و حدیث سے دکھائے گے؟
بات یہ کہ تصوف کی اصل قرآن و حدیث میں ہے کہ نہیں،تو ہمارے صوفیاء اہلحدیث ؒ میں کابر اہلحدیث عا لم و صوفی فرماتے ہیں:

"حضو ر علیہ الصلوۃ و السلام نے بعثت کے بعد جو کام سر انجام دیا ،قرآن مجید اسے متعدد جگہوں پر یوں بیان کرتا ہے:۔ یتلو علیھم آیۃ و یز کیھم ویعلمھم الکتاب و الحکمۃ ۔۔۔یہ جو بار بار خدا کہتا ہے:"یزکیھم"یعنی وہ انکا تزکیہ کرتے ہیں ،اسی تزکیہ کے اصول و آداب کو ہم طریقت یا تصوف سے تعبیر کرتے ہیں ۔افسوس ہے کہ ہماری درسگاؤں میں تعلیم کتاب و حکمت کا ہتمام تو کیا جاتا ہے ،لیکن تزکیہ نفس جسکا ذکر قرآن مجید تعلیم کتاب و حکمت کے علاوہ الگ مستقل بالذات بار بار کرتا ہے ،اس کا قطعی طور پر کوئی اہتمام نہیں"۔(حضرت سید داؤد غزنوی ص ۳۶۱)
مزید اس موضوع پر ارسلان صاحب سے گفتگو ہوئی ہے آپ بھی اسکو ملاحظہ فرمالیں اگر آپکو کوئی اشکال ہے تو بات کر سکتے ہیں،ارسلان صاحب کے اشکال کا جواب اگلی فرصت میں لکھ دونگا۔لنک یہ ہے
http://forum.mohaddis.com/threads/تصوف-وہ-راہ-ہے۔۔۔۔۔۔.17176/page-2
نمبر 19 کا مطالعہ فرمائیں ،اگر آپ کو کوئی اشکا ل ہے تو بتائیں۔
تصوف کو کتاب و سنت سے ثابت کریں پھر بات ہو گی میری اس بات کا آپ کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہے ورنہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بجائے اپ جواب دے چکے ہوتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہی وجہ ہے کہ کبھی آپ کسی کا نام لیتے ہیں اور کبھی کسی کا
اورتصوف نہ صرف بدعت ہے بلکہ شرک اور کفر بھی ہے
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
اور حلقے بنا کر صرف ہو ہو ہو پڑھنا کیا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ہم بدعت اسی فعل کو کہتے ہیں جس کی بسا اوقات شرع میں اصل موجود ہوتی ہے لیکن جس انداز میں اسے بعد میں وضع کیا گیا ہو وہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو تو اسے بدعت کہا جائے گا۔ بشرطیکہ اسے اجر و ثواب یا بغرض عبادت کیا جائے۔
اور جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ قرآن کو اونچا پڑھا جائے یا نیچی آواز میں پڑھا جائے تو اس میں تو کسی کو اختلاف ہے ہی نہیں اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن کو اس انداز میں پڑھنا جو مسنون نہ ہو تو تلاوت قرآن نہیں بلکہ وبال جان بننے کا امکان ہے جیسا کہ ایک مصری بچہ موسیقی کے ساتھ تلاوت قرآن کر تا ہے تو کل آپ یہ کہیں گے کہ اس میں بھی کوئی حرج نہیں
یہی وجہ ہے کہ کبھی آپ کسی کا نام لیتے ہیں اور کبھی کسی کا
اورتصوف نہ صرف بدعت ہے بلکہ شرک اور کفر بھی ہے
میں آپکے اس جواب پر کچھ حیرانگی نہیں،منکرین تصوف کا یہ شیوہ ہے، صوفیاء اہلحدیث ؒ اور اکابرین امتؒ بدعتی نہیں ہیں ،بدعتی تو منکرین تصوف ہیں ۔
اگر آپ اہلحدیث ہو تو ایک فتوی لے آو جس میں صوفیاء اہلحدیثؒ (سید نذیر حسین دہلویؒ،خاندان غزنوی،لکھوی ،سوہدروی،روپڑی،مولانا مرتسی۔مولانا میر وغیرہ ) کو بدعتی ،مشرک،اور کافر قرار دیا گیا ہو،میں دیکھتا ہوں کون آپکو فتوی دیتا ہے۔ہاں کوئی نام نہاد جائل منکر تصوف اہلحدیث اپنی خباثت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ دلیل سے بات کیجئے۔ہم اسی تصوف کے قائل جو ان حضرات کا تھا،
آپ طریقہ ذکر کی بات کر رہے تھے۔آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ صوفیاء اہلھدیث کی مجلس میں ذکر کونسا ہوتا تھا؟ وہاں اسم ذات کو ذکر خفی اور نفی اثبات کو ذکر ہوتا تھا۔جب منکرین تصوف کا ظہور ہو اتو پھر علماء اہلھدیث نے طریقہ ذکر پر جواب بھی دیئے،میں ایک جواب مشہور عالم ،جید صوفی اور قطع بدعت وداعی سنت مولانا داؤد غزنویؒ کا جواب نقل کر دیتا ہوں،جو انکے بیٹے سید ابوبکر غزنویؒ نے پوچھے ہیں جو خود بہت بڑے صوفی تھے،مگر یہ باتیں آپکی بلا جانیں۔

معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔ "صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاء والمرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسن وجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء
اس مقالے کے آخری لفظ سنئے اگر گوش نصحیت نیوش ہے:
"بہر حال ہم لوگ بعد زمانہ نبوت کی وجہ سے ضعیف الاستعداد اور دنیا کے ظاہری حسن وجمال سے بہت متاثر اور ضعیف الایمان ہیں ،اس لئے ہم جیسے لوگوں کو تزکیہ نفس اور وصول الیٰ اللہ (جو ثقلین کی پیدائش کا حکمت اصلیہ ہے) کے لئے ان وسائل وتدابیر کی اشد ترین حاجت ہے اور تجربہ اسکا شاہد ہے۔"
اگر جرات ہے ابرار صاحب آپ میں تو ان پر مشرک وبدعتی ہونے کا فتوی لے آئے ورنہ آپ اور آپکا ٹولہ جھوٹا ثابت ہوگا،اور مجھے آپ کہتے ہیں تو دس فتوی جات دونگا جن میں یہ ثابت ہوگا کہ یہ اہلسنت تھے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میں آپکے اس جواب پر کچھ حیرانگی نہیں،منکرین تصوف کا یہ شیوہ ہے، صوفیاء اہلحدیث ؒ اور اکابرین امتؒ بدعتی نہیں ہیں ،بدعتی تو منکرین تصوف ہیں ۔
اگر آپ اہلحدیث ہو تو ایک فتوی لے آو جس میں صوفیاء اہلحدیثؒ (سید نذیر حسین دہلویؒ،خاندان غزنوی،لکھوی ،سوہدروی،روپڑی،مولانا مرتسی۔مولانا میر وغیرہ ) کو بدعتی ،مشرک،اور کافر قرار دیا گیا ہو،میں دیکھتا ہوں کون آپکو فتوی دیتا ہے۔ہاں کوئی نام نہاد جائل منکر تصوف اہلحدیث اپنی خباثت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ دلیل سے بات کیجئے۔ہم اسی تصوف کے قائل جو ان حضرات کا تھا،
آپ طریقہ ذکر کی بات کر رہے تھے۔آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ صوفیاء اہلھدیث کی مجلس میں ذکر کونسا ہوتا تھا؟ وہاں اسم ذات کو ذکر خفی اور نفی اثبات کو ذکر ہوتا تھا۔جب منکرین تصوف کا ظہور ہو اتو پھر علماء اہلھدیث نے طریقہ ذکر پر جواب بھی دیئے،میں ایک جواب مشہور عالم ،جید صوفی اور قطع بدعت وداعی سنت مولانا داؤد غزنویؒ کا جواب نقل کر دیتا ہوں،جو انکے بیٹے سید ابوبکر غزنویؒ نے پوچھے ہیں جو خود بہت بڑے صوفی تھے،مگر یہ باتیں آپکی بلا جانیں۔

معارف اللّطائف میں یو ں رقم طراز ہیں :۔ "صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اسلئے پسند نہیں کرتے کہ یہ صحابہ رضوان اللہ اجماعلیہم اجمعین سے منقول نہیں ،لیکن اگر ذرا دقّت نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر واضح ہو جاتاکہ صحابہ کرامؓ کو اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی،کیونکہ انکو سید الانبیاء والمرسلین کی صحبت کے فیض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاس طیبّہ کی برکات سے مستفید ہونے کی سعادت حاصل تھی،اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ ان کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔فرائض وسنن کی بجا آوری ، مخرمات بلکہ مشتبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کیلئے کافی تھے۔اسکی مثال یوں سمجھئے کہ علوم مروّجہ ( صرفونحو اور فقہ واصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدوّن نہیں ہوئے تھے،کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قوعد وصرف ونحو کے محتاج نہ تھے،اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی،لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور آپ کی ذات اقدس سے بعد ہوتا چلا گیا،ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حل مشکلات کے لئے تدوین علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا،علماء اکرام اور آئمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسن وجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا ۔محدّثین جمع وتدوین حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے ،فقہاء فقہا قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول حکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہوگئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اسکی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا،جن کی برکت سے اصلاح نفس،تزکیہ نفس اور مجاھدہ نفس کے قواعد مرتّب ہوئے اور دنیا ان کے فیضات وبرکاتِ روحانی سے مستفید ہوئی۔جزاھم اللہ عنّا وعن سائر المسلمین احسن الجزاء
اس مقالے کے آخری لفظ سنئے اگر گوش نصحیت نیوش ہے:
"بہر حال ہم لوگ بعد زمانہ نبوت کی وجہ سے ضعیف الاستعداد اور دنیا کے ظاہری حسن وجمال سے بہت متاثر اور ضعیف الایمان ہیں ،اس لئے ہم جیسے لوگوں کو تزکیہ نفس اور وصول الیٰ اللہ (جو ثقلین کی پیدائش کا حکمت اصلیہ ہے) کے لئے ان وسائل وتدابیر کی اشد ترین حاجت ہے اور تجربہ اسکا شاہد ہے۔"
اگر جرات ہے ابرار صاحب آپ میں تو ان پر مشرک وبدعتی ہونے کا فتوی لے آئے ورنہ آپ اور آپکا ٹولہ جھوٹا ثابت ہوگا،اور مجھے آپ کہتے ہیں تو دس فتوی جات دونگا جن میں یہ ثابت ہوگا کہ یہ اہلسنت تھے۔
تصوف کو ثابت کرو
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اور باقی سب باتیں بعد میں جو جو آپ کے مطالبے ہیں اور اعتراضات ہیں ایک ایک کر کے سب کے جواب دوں گا لیکن پہلے تصوف کو کتاب و سنت سے ثابت کرو ورنہ سب باتیں بےکار ہیں کہ سوال گندم جواب چنا اور کہاں سکھر اور کہاں بھکر
 
شمولیت
ستمبر 25، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
32
اور باقی سب باتیں بعد میں جو جو آپ کے مطالبے ہیں اور اعتراضات ہیں ایک ایک کر کے سب کے جواب دوں گا لیکن پہلے تصوف کو کتاب و سنت سے ثابت کرو ورنہ سب باتیں بےکار ہیں کہ سوال گندم جواب چنا اور کہاں سکھر اور کہاں بھکر
آپکا قصور نہیں ہے ،نام فیض الابرار ہے ۔مگر فیض آپ نے کسی ابرار سے نہیں کسی منکر سے لیا ہے۔آپ نے نام تصوف پر اعتراض کیا جواب دیا ،آپ نے کہا صوفی بدعتی مشرک ،کافر ہیں میں نے فتوی مانگا،آپ نے طریقہ ذکر پر اعتراض کیا میں نے جواب دیا ،مگر بات پھر ادھر ہی کہ "کھیر ٹیڑی ہے"محترم اگر آپ کہتے ہو تو میں جید اہلحدیث علماء سے فتوی لیکر آونگا کہ یہ لوگ داعی سنت تھے ،آپ کہتے ہو بدعتی کافر مشرک ہیں تو فتوی لے آو۔رہی بات تصوف ثابت کرو تو اس پر میں یہ لکھ چکا ہو چلو ادھر بھی بتا دیتا ہوں ،مگر بات اپ پوئنٹ ٹو پوائنٹ ہوگئی ،اور صوفیاء اہلحدیث کو صوفی ثابت کرنا میر اکا م ہے ،اور کافر ہونے کا فتوی پیش کرنا آپکا کام ہے
(نوٹ مجھ سے گفتگو کرنی تو پوئنٹ ٹو پوئنٹ بات کرنی ہے ،نمبر2 آپ نے صؤفیاء کو کافر مشرک اور بدعتی کہا ہے۔اب صوفیاء اہلحدیث کے کافر مشرک اور بدعتی ہونےکا فتوی مجھے چاہئے،اگر آپ مفتی تو مجھے بھیج دے ،اور اگر آپ نہیں ہیں تو کسی بھی اہلحدیث مفتی سے مجھے فتوی لے کر دے کہ یہ لوگ کافر ہیں ،(نعوذ باللہ) اپنی بات سچے ہو تو کر کے دکھاؤ

تصوف یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔
برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔
اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔

چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو

ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
 
Top