• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علمائےاہل حدیث کا ذوق تصوف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپکا قصور نہیں ہے ،نام فیض الابرار ہے ۔مگر فیض آپ نے کسی ابرار سے نہیں کسی منکر سے لیا ہے۔آپ نے نام تصوف پر اعتراض کیا جواب دیا ،آپ نے کہا صوفی بدعتی مشرک ،کافر ہیں میں نے فتوی مانگا،آپ نے طریقہ ذکر پر اعتراض کیا میں نے جواب دیا ،مگر بات پھر ادھر ہی کہ "کھیر ٹیڑی ہے"محترم اگر آپ کہتے ہو تو میں جید اہلحدیث علماء سے فتوی لیکر آونگا کہ یہ لوگ داعی سنت تھے ،آپ کہتے ہو بدعتی کافر مشرک ہیں تو فتوی لے آو۔رہی بات تصوف ثابت کرو تو اس پر میں یہ لکھ چکا ہو چلو ادھر بھی بتا دیتا ہوں ،مگر بات اپ پوئنٹ ٹو پوائنٹ ہوگئی ،اور صوفیاء اہلحدیث کو صوفی ثابت کرنا میر اکا م ہے ،اور کافر ہونے کا فتوی پیش کرنا آپکا کام ہے
(نوٹ مجھ سے گفتگو کرنی تو پوئنٹ ٹو پوئنٹ بات کرنی ہے ،نمبر2 آپ نے صؤفیاء کو کافر مشرک اور بدعتی کہا ہے۔اب صوفیاء اہلحدیث کے کافر مشرک اور بدعتی ہونےکا فتوی مجھے چاہئے،اگر آپ مفتی تو مجھے بھیج دے ،اور اگر آپ نہیں ہیں تو کسی بھی اہلحدیث مفتی سے مجھے فتوی لے کر دے کہ یہ لوگ کافر ہیں ،(نعوذ باللہ) اپنی بات سچے ہو تو کر کے دکھاؤ

تصوف یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔
برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔
اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔
چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو
ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
اصطلاح تصوف کو ثابت کریں پھر اگلی بات کروں گا ہر بات کا جواب دوں گا لیکن پہلے لفظ تصوف کو کتاب و سنت سے ثابت کریں کہ اس پر آپ کی زندگی اور موت کا انحصار ہے اور آخری بات دین خیر خواہی کا نام ہے اس لیے ایک چھوٹی سی نصیحت ہے میری آپ سے ایک موضوع پر بحث ہو رہی ہے لیکن آج آپ ذاتیات پر اتر آئے ہیں اور دشنام طرازی کا اسلوب اختیار کر لیا ہے لہذا میرے لیے بہتری اسی میں ہے کہ آپ سے مزید بات نہ کی جائے صرف ایسا کریں کہ جس پوسٹ میں آپ نے تصوف کو کتاب و سنت سے ثابت کیا ہو اس کا حوالہ دے دیں میری مجبوری ہے کہ میں آپ کی طرح ذاتیات پر نہیں اتر سکتا اور نہ ہی آپ کا اسلوب استعمال کر سکتا ہوں جزاک اللہ خیرا اور اللہ آپ کو ہدایت دے
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
(الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ) (الرعد:28)
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
اس آیت کا پہلے بھی حوالہ دے چکا ہوں اب بھی دے رہا ہوں آپ پہلے اس آیت کو پڑھیں اسکی تفسیر پڑھیں اس آیت کو سمجھیں اللہ تعالیٰ خود کہہ رہے ہیں کہ میرے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے اور آپ اسے بدعت کہہ رہے ہیں؟؟؟
اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے، لیکن صوفی کیسا ذکر کرتے ہیں کہ چھلانگیں لگا رہے ہوتے ہیں، زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے ہیں، گول گول گھوم رہے ہوتے ہیں، کبھی ننگے پڑے ہیں، کبھی نہا نہیں رہے، کبھی کیا حرکتیں کر رہے ہیں اور کبھی کیا، کیا اسے سکون کہتے ہیں، سکون واقعی ملتا ہے لیکن موحدوں کو، صحابہ کرام کی زندگیاں پڑھ کر دیکھو ان کو اللہ کے ذکر سے کیسے سکون ملتا تھا، آج بھی ہمیں اللہ کے ذکر سے سکون ملتا ہے، کیونکہ ہم مسنون طریقے سے ذکر کرتے ہیں، آپ کی طرح بدعتی طریقے سے نہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ابو ریحان الیرونی نے کتاب الہند میں لکھا ہے کہ تصوف اصل "س" سے تھا یعنی سوف جس کا معنی یونانی زبان میں حکمت کے ہیں پھر استعمال کے بعد یہ "ص" سے صوف بنا۔صوفی بمعنی حکیم و دانا- الغزالی 260۔
نوالڈ کے نے اس اشتقاق کو رد کیا ہے کہ یونانی زبان میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سوفوس اور صوفی کی درمیانی صورت کہا جاسکے۔"اردہ معارف اسلامیہ جلد 7 صفہ418 "۔
اسامی محققین صوفیاء نے تصوف کو صوف سے مشتق مانا ہے۔ "اسلامی اخلاق اور تصوف ص 169 "۔ "اگر یہ اسلامی جیز ہوتی تو قرآن یا حدیث، صحابہ، تابعین سے اسکی واضح تعریف منقول ہوتی۔ بقول علامہ اقبال: اس میں ذرا شک نہیں کہ تصوف کا وجود ہی سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے۔ "سید سلمان ندوی کے نام خط1917ء"
بعض اہل قلم نے تصوف کے بارے میں کچھ اسطرح اظہارخیال کیا ہے:
حقیقی تصوف یہودیت سے شروع ہوا ہے جب ان کے مذہبی پیشواوں نے اسکندریہ میں یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور وہاں اس فلسفہ اور اپنے معتقدات کے امتزاج سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔ فیلو اس مذہب کا امام ہے جبکہ تصوف کا ابولاباء دراصل افلاطون کو کہا جاسکتا ہے۔ جس نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا کہ اس عالم محسوس کے اوپر ایک اور عالم مثال ہے وہ عالم حقیقی ہے اور یہ عالم صرف اسکا پرتو ہے۔ افلاطون کے اس فلسفہ کی نشاۃ ثانیہ بعد کے فلاسفروں کے ہاتھوں ہوئی جن کا امام فلاطینس تھا ان میں سے ایک فلاسفر نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے برہمنوں سے ہندی تصوف سیکھا۔ فلاطینس رومی لشکر کے ساتھ ایران گیا وہاں کے مغوں سے مجوسی تصوف کی تعلیم حاصل کی اسکے تعد ان فلاسفروں نے فلاطینس کی زیر سرکردگی افلاطون کے فلسفہ قدیم کو ان ہندی اور ایرانی تصورات کے ساتھ ملا کر ایک جدید قالب میں ڈھالا۔ اسکا نام نوفلاطونی فلسفہ ہے اس فلسفہ کا مرکز اسکندریہ تھا جہاں فیلو کا یہودی تصوف اس سے متاثر ہوا۔ اسکا سب سے پہلا تاثر یہ پیدا ہوا کہ تورات کی شریعت معرفت اور حقیقت میں بدل گئی۔
یہودیوں کی ایک اہم کتاب زہار میں لکھا ہے:تورات کی روح درحقیقت اس کے باطنی معنوں میں پوشیدہ ہے۔ انسان ہر مقام پر خدا کا جلوہ دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ تورات کے ان باطنی معانی کا راز پا جائے۔
 
شمولیت
ستمبر 08، 2013
پیغامات
180
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
41
اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے، لیکن صوفی کیسا ذکر کرتے ہیں کہ چھلانگیں لگا رہے ہوتے ہیں، زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے ہیں، گول گول گھوم رہے ہوتے ہیں، کبھی ننگے پڑے ہیں، کبھی نہا نہیں رہے، کبھی کیا حرکتیں کر رہے ہیں اور کبھی کیا، کیا اسے سکون کہتے ہیں، سکون واقعی ملتا ہے لیکن موحدوں کو، صحابہ کرام کی زندگیاں پڑھ کر دیکھو ان کو اللہ کے ذکر سے کیسے سکون ملتا تھا، آج بھی ہمیں اللہ کے ذکر سے سکون ملتا ہے، کیونکہ ہم مسنون طریقے سے ذکر کرتے ہیں، آپ کی طرح بدعتی طریقے سے نہیں۔

جیسا آپ بتا رہے ہیں ایسا منشور ہمارا نہیں ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شریعت اور تصوف کا فرق
1- تصوف میں شریعت نہیں "جس کو اللہ تعالی نے شرع لکم من الدین ما وصی بہ۔۔۔۔۔کہا ہے" بلکہ طریقت ہے۔ شریعت اور طریقت کیا جیز ہے؟ کہتے ہیں دراصل اس کائنات میں ہر ایک چیز کی مانند بندگی کے بھی دو رخ ہیں، ایک ظاہر دوسرا باطن۔ ظاہر میں بندگی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی ادائیگی سے پوری ہوجاتی ہے مگر باطن میں بندگی کا تعلق ان ارکان کی حقیقت سے ہے اس میں ایمان، محبت، خلو، خوف خدا، رضائے الہی، توکل، اور امیر غیب و شہود کی تعلیم و تربیت اور اس پر عمل سے واسطہ پڑتا ہے۔ "اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 184 "۔
اب قرآن و حدیث میں اول الذکر کا حکم ہے ثانی الذکر متوازی دین ہے یا نیہں ؟ یہ ظاہر شریعت کی تنسیخ یا تردید نہیں ہے؟
2- تصوف کا علم اس طریقہ سے اخذ نہیں کیا جاتا جس طریقہ سے اسلامی شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات قرآن و حدیث میں موجود ہیں اور ان کے حصول کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون، النحل:43 ترجمہ "پس تم پوچھ لیا کرو علم والے لوگوں سے اگر تم "کوئی مسئلہ یا بات" نہیں جانتے"۔
اور یہ بھی ارشاد ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو دین کا علم حاصل کرے اور پھر واپس آکر اپنی قوم کوخبردار کرے۔ التوبہ: 122۔
جبکہ تصوف کا طریقہ حصول اس طرح ہے۔
تصوف ایک مخصوص وسیع اور مشکل ترین علم ہے اسکی بنیاد تمام تر احساس و مشاہدہ پر ہے اور احساس و مشاہدہ کا تعلق عمل اور تجربہ سے ہے۔۔۔۔ چنانچہ یہ علم، علم سفینہ نہیں علم سینہ کی تعریف میں آتا ہے یعنی بات سینہ بہ سینہ چلتی ہے اور انتہائی رازداری اور پوری احتیاط کے ساتھ حقائق پیر کے قلب سے مرید کے قلب کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس میں استاد کامل یعنی پیر طریقت کی رہنمائی اور اسکی کامل اتباع نہایت ضروری ہے اور اسکے لئے برسوں کی کٹھن، صبر آزما مسلسل ریاضت، لگن اور یکسوئی درکارہے۔ "ایضا"۔
اس عبارت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام اصطلاحات فارسی ہیں خصوصا پیر، اسی طرح پیر کی اتباع ضروری ہے "جبکہ اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازمی قرار دی گئی ہے"۔ اسکا علم پیرکے قلب سے مرید کے قلب پر منتقل ہوتا ہے.
جبکہ دین اسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ پڑھتے تھے اور آپ پڑھاتے، لکھواتے تھے۔ قرآن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا جبکہ تصوف علم سینہ ہے۔ قرآن کو اللہ نے آسان کیا ہے جبکہ تصوف کو مشکل بنادیا گیا ہے بقول اقبال "یہ ایرانیوں کی کوشش ہے، اسکا ثبوت مندرجہ ذیل اصطلاحات تصوف سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ فورم پر ایک بھائی ہیں ان کا نام ہے ساجد تاج یہ ان کی تحریر سے دو اقتباسات لیے ہیں مجھے وہ طریقہ نہیں آتا جس طرح آپ بھائی کسی تحریر سے اقتباس لیتے ہیں تو متا چل جاتا ہے اسی لیے مجھے الگ سے یہ لکھنا پڑ رہا ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصوص الحکم کو بعض لوگ قرآن کی طرح سبقا سبقا پڑھتے تھے۔ جیسے عفیف الدین تلسمانی، یہی تلسمانی کہتا ہے قرآن میں توحید کہاں، وہ تو پورے کا پورا شرک سے بھرا ہوا ہے جو شخص اسکی اتباع کرے گا وہ کبھی توحید کے بلند مرتبے پر نہیں پہنچ سکتا-"امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص321" اعاذنا اللہ من ھذہ الھفوات-
تلسمانی کی توحید کیا ہے یعنی وحدۃ الوجود، اس کی مثال ملاحظہ فرمائیں۔ تلسمانی کے شاگرد شیخ کمال الدین نے ایک مرتبہ اعتراض کیا کہ اگر عالم کی تمام چیزیں ایک ہیں جیسا کہ تمہارا عقیدہ ہے تو پھر تمہارے نزدیک جورو، بیٹی، اور ایک اجنبی عورت میں کیا فرق ہے؟ تلسمانی نے جواب دیا ھمارے ھاں کوئی فرق نہیں چونکہ محجوبوں "اہل شریعت " نے انکو حرام قرار دیا ہے تو ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ چیزیں تم پر حرام ہیں ورنہ ہم پر کوئی چیز حرام نہیں۔" امام ابن تیمیہ از کوکن عمری ص321"۔
یہ ہے وحدت الوجود جس میں ماں، بیٹی اور اجنبی عورت سب جائز ہیں۔ اس عقیدہ کے بارہ میں دیوبند کے مشہور صوفی عالم امداد اللہ مہاجر مکی کہتے ہیں۔ نکتہ شناسا مسئلہ وحدالوجود حق و صحیح ہے اس مسئلہ میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ فقیر و مشائخ فقیر اور جن لوگوں نے فقیر سے بیعت کی ہے سب کا اعتقاد یہی ہے۔"شمائم امدادیہ ص32"
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جیسا آپ بتا رہے ہیں ایسا منشور ہمارا نہیں ہے ۔
عبقری صاحب اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے اس بدعت سے برات کا اظہار کیا لیکن عملا اہل تصوف کا ذکر ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ارسلان بھائی نے لکھا ہے اور بعض مساجد میں تو نماز کے بعد اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو سب بلند آواز سے یک زبان ہو کر یہ ذکر کرتے ہیں اور قطع نظر اس امر کے یہ انداز مسنون ہے یا غیر مسنون کیا یہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت نہیں ہے کہ آپ نے نماز کے بعد باقاعدہ اذکار کا بیان کیا کہ کس طرح کیے جائیں اب اذکار مسنونہ کو چھوڑ کر خود ساختہ بدعتی اذکار کا اختیار کرنا کیا سنت کی توہین نہیں ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شریعت اور تصوف کا فرق
1- تصوف میں شریعت نہیں "جس کو اللہ تعالی نے شرع لکم من الدین ما وصی بہ۔۔۔۔۔کہا ہے" بلکہ طریقت ہے۔ شریعت اور طریقت کیا جیز ہے؟ کہتے ہیں دراصل اس کائنات میں ہر ایک چیز کی مانند بندگی کے بھی دو رخ ہیں، ایک ظاہر دوسرا باطن۔ ظاہر میں بندگی نماز، روزہ، حج، زکوۃ کی ادائیگی سے پوری ہوجاتی ہے مگر باطن میں بندگی کا تعلق ان ارکان کی حقیقت سے ہے اس میں ایمان، محبت، خلو، خوف خدا، رضائے الہی، توکل، اور امیر غیب و شہود کی تعلیم و تربیت اور اس پر عمل سے واسطہ پڑتا ہے۔ "اسلامی اخلاق اور تصوف صفحہ 184 "۔
اب قرآن و حدیث میں اول الذکر کا حکم ہے ثانی الذکر متوازی دین ہے یا نیہں ؟ یہ ظاہر شریعت کی تنسیخ یا تردید نہیں ہے؟
2- تصوف کا علم اس طریقہ سے اخذ نہیں کیا جاتا جس طریقہ سے اسلامی شریعت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات قرآن و حدیث میں موجود ہیں اور ان کے حصول کیلئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ "فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون، النحل:43 ترجمہ "پس تم پوچھ لیا کرو علم والے لوگوں سے اگر تم "کوئی مسئلہ یا بات" نہیں جانتے"۔
اور یہ بھی ارشاد ہے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو دین کا علم حاصل کرے اور پھر واپس آکر اپنی قوم کوخبردار کرے۔ التوبہ: 122۔
جبکہ تصوف کا طریقہ حصول اس طرح ہے۔
تصوف ایک مخصوص وسیع اور مشکل ترین علم ہے اسکی بنیاد تمام تر احساس و مشاہدہ پر ہے اور احساس و مشاہدہ کا تعلق عمل اور تجربہ سے ہے۔۔۔۔ چنانچہ یہ علم، علم سفینہ نہیں علم سینہ کی تعریف میں آتا ہے یعنی بات سینہ بہ سینہ چلتی ہے اور انتہائی رازداری اور پوری احتیاط کے ساتھ حقائق پیر کے قلب سے مرید کے قلب کی جانب منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس میں استاد کامل یعنی پیر طریقت کی رہنمائی اور اسکی کامل اتباع نہایت ضروری ہے اور اسکے لئے برسوں کی کٹھن، صبر آزما مسلسل ریاضت، لگن اور یکسوئی درکارہے۔ "ایضا"۔
اس عبارت سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تمام اصطلاحات فارسی ہیں خصوصا پیر، اسی طرح پیر کی اتباع ضروری ہے "جبکہ اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع لازمی قرار دی گئی ہے"۔ اسکا علم پیرکے قلب سے مرید کے قلب پر منتقل ہوتا ہے.
جبکہ دین اسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ پڑھتے تھے اور آپ پڑھاتے، لکھواتے تھے۔ قرآن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا جبکہ تصوف علم سینہ ہے۔ قرآن کو اللہ نے آسان کیا ہے جبکہ تصوف کو مشکل بنادیا گیا ہے بقول اقبال "یہ ایرانیوں کی کوشش ہے، اسکا ثبوت مندرجہ ذیل اصطلاحات تصوف سے بخوبی ہوسکتا ہے۔
پھر ابن عقیل رحمہ اللہ ان کے زندقہ اور کفر کا حال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے اپنے خیال میں شریعت اور حقیقت کے درمیان تفریق کی۔ اور نشہ آور حشیش (گانجا اور بھنگ وغیرہ) کو حلال ٹھہرایا۔ بلکہ یہی وہ گروہ ہے جس نے پہلے پہل اس (گانجے) کا انکشاف کیا۔ اور مسلمانوں کے درمیان اس کو رواج دیا۔ اسی طرح انہوں نے گانے اور مرد و عورت کے درمیان اس کو رواج دیا۔ اسی طرح انہوں گانے اور مرد و عورت کے اختلاط کو حلا ل ٹھہرایا۔ اور یہ کہہ کر کفر و زندقہ کے اظہار کو بھی حلال ٹھہرایا کہ یہ احوال شطحیات ہیں۔ اور ضروری ہے کہ ان پر نکیر نہ کی جائے۔ کیونکہ یہ مجذوب لوگ ہیں۔ یا (ان کے خیال میں) بارگاہ پروردگار کے مشاہدہ میں مشغول لوگ ہیں۔
ابن عقیل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے تو انہوں نے نام گھڑ ے۔ اور حقیقت و شریعت کا بکھیڑا کھڑا کیا۔ حالانکہ یہ بری بات ہے۔ کیوں کہ شریعت کو حق تعالیٰ نے مخلوق کی ضروریات کے لئے وضع کیا ہے تو اب اس کے بعد حقیقت نفس کے اندر شیطان کے القاء کیے ہوئے وسوسوں کے سوا اور کیا چیز ہوسکتی ہے۔ جو شخص بھی شریعت سے الگ ہوکر کسی حقیقت کا متلاشی ہو وہ بیوقوف اور فریب خوردہ ہے۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپکا قصور نہیں ہے ،نام فیض الابرار ہے ۔مگر فیض آپ نے کسی ابرار سے نہیں کسی منکر سے لیا ہے۔آپ نے نام تصوف پر اعتراض کیا جواب دیا ،آپ نے کہا صوفی بدعتی مشرک ،کافر ہیں میں نے فتوی مانگا،آپ نے طریقہ ذکر پر اعتراض کیا میں نے جواب دیا ،مگر بات پھر ادھر ہی کہ "کھیر ٹیڑی ہے"محترم اگر آپ کہتے ہو تو میں جید اہلحدیث علماء سے فتوی لیکر آونگا کہ یہ لوگ داعی سنت تھے ،آپ کہتے ہو بدعتی کافر مشرک ہیں تو فتوی لے آو۔رہی بات تصوف ثابت کرو تو اس پر میں یہ لکھ چکا ہو چلو ادھر بھی بتا دیتا ہوں ،مگر بات اپ پوئنٹ ٹو پوائنٹ ہوگئی ،اور صوفیاء اہلحدیث کو صوفی ثابت کرنا میر اکا م ہے ،اور کافر ہونے کا فتوی پیش کرنا آپکا کام ہے
(نوٹ مجھ سے گفتگو کرنی تو پوئنٹ ٹو پوئنٹ بات کرنی ہے ،نمبر2 آپ نے صؤفیاء کو کافر مشرک اور بدعتی کہا ہے۔اب صوفیاء اہلحدیث کے کافر مشرک اور بدعتی ہونےکا فتوی مجھے چاہئے،اگر آپ مفتی تو مجھے بھیج دے ،اور اگر آپ نہیں ہیں تو کسی بھی اہلحدیث مفتی سے مجھے فتوی لے کر دے کہ یہ لوگ کافر ہیں ،(نعوذ باللہ) اپنی بات سچے ہو تو کر کے دکھاؤ

تصوف یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔
برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔
اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔
چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو
ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
محترم عامر رضا صاحب -

اگر آپ کو ٹائم ملے تو لنک میں دی گئی کتاب "آسمانی جنّت اور درباری جہنم: مصنف امیر حمزہ" کا مطالعہ ضرور کیجئے گا -خاص کر اس کتاب کے فصل ششم کا مطالعہ امید ہے کہ آپ پر صوفیت کے حقیقت کو واضح کرنے میں کافی مفید ثابت ہو گا- عنوان ہے "کیا برصغیر میں اسلام صوفیاء کے ذریے پھیلا ؟؟؟ " اور اہل حدیث مسلک سے متعلق آپ کی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو گا -

http://www.scribd.com/doc/67996662/Aasmani-Jannat-Aur-Darbari-Jahannum

آپ کے کمنٹس کا انتظار رہے گا -

والسلام
 
Top