sahj
مشہور رکن
- شمولیت
- مئی 13، 2011
- پیغامات
- 458
- ری ایکشن اسکور
- 657
- پوائنٹ
- 110
السلام علیکم
مسٹر گڈ مسلم اینڈ بن فیض صاھب
معزرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ نے جو عبارات پیش کی ہیں ،میں انہیں بے دلیل ہی رد کرچکا ہوں ، اب مجھ سے دلیل کی بات کرنا فضول ہے ، ہاں یہ آپ کا حق ہے کہ آپ نے جن عبارات کو پیش کیا ہے اسے سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں ۔ میں بلکل بھی برا نہیں مانوں گا ۔ باقی رہا مسٹر گڈ مسلم کا یہ فرمان مبارک ۔۔۔
ان عبارات کے بارے میں جو نیچے دوبارہ پیش کررہا ہوں، جنہیں پڑھ کر فرمان جاری کیا گیا ہے کہ
اور جناب بن فیض صاحب آپ نے ایک واقع بیان فرمایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق
یا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رجوع کروانے کی بات آپ نے کسی خاص مقصد سے لکھی ہے ؟
چلیں میں آپ کو مزید کچھ دکھاتا ہوں اہلحدیث علماء کے خیالات جو انہوں نے خصوصا٘ صحابہ کے بارے میں ارشاد فرماءے تھے ۔
لیکن پہلے یہ اقتباس دیکھ لیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ (معاذللہ) موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے اور ان کا شرعی حکم انھیں معلوم نہی تھا
چنانچہ طریق محمدی مین محمد جو نا گڈھی لکھتے ہیں :
“بہت سےصاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی اور ہمارا اور آپ کا اتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروق اعظم بے خبر تھے“
(طریق محمدی ،ص14)
پھر دس مسءلوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے خبری ثابت کر نے بعد محمد جونا گڈھی کا ارشاد ہوتا ہے :
“یہ دس مسلے ہوۓ ابھی تلاش سے ایسے اور مسائل بھی مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ان موٹے موٹے مسائل میں جو روز مرہ کے ہیں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے “
طریق محمدی، ص42
اب آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ خود ہی فیصلہ کیجءے کہ ایسے علماء اہلحدیثوں کے بارے میں آپ کا دل کیا کہتا ہے ؟ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور خلیفہ راشد کے بارے میں یہ کہنے سے بھی نا چوکے کہ وہ بڑے بڑے مسایل میں بھی غلطی کرتے تھے ؟؟ معاذاللہ۔۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حق بات کہنے اور سمجھنے والا بناءے رکھے ۔
آمین
شکریہ
مسٹر گڈ مسلم اینڈ بن فیض صاھب
معزرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ آپ نے جو عبارات پیش کی ہیں ،میں انہیں بے دلیل ہی رد کرچکا ہوں ، اب مجھ سے دلیل کی بات کرنا فضول ہے ، ہاں یہ آپ کا حق ہے کہ آپ نے جن عبارات کو پیش کیا ہے اسے سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں ۔ میں بلکل بھی برا نہیں مانوں گا ۔ باقی رہا مسٹر گڈ مسلم کا یہ فرمان مبارک ۔۔۔
یہی سوال ہلکے انداز میں ، میں آپ ھضرات سے پہلے کرچکا ہوںگستاخ صحابہ کافر ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو پھر اپنے ان اکابرین پھر کیا حکم لگاؤ گے۔؟ پلیز پہلے اس پوسٹ کا جواب دینا۔اگر یہ حوالہ جات غلط ہیں تو پھر ثابت کرو کہ حوالہ جات ٹھیک نہیں اگر حوالہ جات ٹھیک ہیں تو پھر جواب ضرور دینا۔امید ہے کہ آپ ضرور جواب دیں گے۔ان شاءاللہ
اگر مناسب سمجھیں تو آپ ہی ہمت کیجءے اور فتوی پیش کردیجءے گستاخان صحابہ کے بارے میں ۔"لیکن ایسا ہو گا نہیں"اوپر جو عبارات پیش کی ہیں میں نے ، یا تو انہیں جھوٹ قرار دیجئے یا ان کی تائید کیجئے یا پھر اپنے نام نہاد اکابرین جنہوں نے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہیں ان سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیجئے ۔
ان عبارات کے بارے میں جو نیچے دوبارہ پیش کررہا ہوں، جنہیں پڑھ کر فرمان جاری کیا گیا ہے کہ
جناب گڈ مسلم صاھب شاید بھول گءے ہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کا ہر ہر عمل کسی نا کسی امتی کی تقلید کر کے ہی سیکھا ہے ۔ اور یہاں بھی ہر دوسری تحریر کسی ناکسی عالم صاحب کی پیش کی جاتی ہے ، بلکہ ماشاء اللہ علماء اہلحدیث کی وافر مقدار میں کتب کا زخیرہ بھی موجود ہے ۔ یہ سب کتابیں بھی ایسے ہی سنبھال رکھی ہیں ؟ کیا ان میں لکھی علماء کی باتوں کی آپ تقلید نہیں کرتے ؟ بحرحال یہ موضوع نہیں ہے ۔ کیوں ٹھیک کہا ناں ؟جب ایک بار کہا گیا کہ ہم علماء کے مقلد نہیں تو پھر ہمارے سامنے علماء کے اقوال پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟؟؟
اور جناب بن فیض صاحب آپ نے ایک واقع بیان فرمایا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق
جناب عرض یہ ہے کہ آپ نے جو واقعہ پیش کیا ہے اس میں آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو حجت مانا ہے ؟ یا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو ؟یا پھر عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو؟ اور یہ بھی بتادیجءے وضاحت کے ساتھ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ وہاء سے متاثرہ علاقہ کی طرف جارہے تھے یا پھر وہاں موجود تھے اور وباء سے متاثرہ علاقے سے نکلنا چاہتے تھے ؟ جبکہ آپ نے جسطرح واقع لکھا ہے اس سے لگتا ہے کہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ وباء والے علاقے مین تھے اور عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں تھے ۔؟؟ وضاحت فرمادیجءے گا جناب بن فیض صاحب کیونکہ آخر کار یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا معاملہ ہے ، اسمیں کوءی خود ساختہ بات نہیں آنی چاہءے۔اور یاد رکھیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب حضرت عبیدہ ابن اجراح رضی اللہ تعالٰی عنہ کو واپس بلوانا چاہا تو حضرت عبیدہ ابن جراح رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انکار کردیا اس بنا پر کے ۔۔۔انھوں نے اللہ کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ ۔۔۔جب کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے تو باہر کا آدمی اُس علاقےمیں جائے نہ اور اُس کے اندر موجود والا باہر آئے نہ ۔۔تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس بات کی تصدیق صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین سے فرمائے۔ثابت ہونے پر رجوع کرلیا ضد نہیں کی۔بھائی یہ واقعہ ہمارےلیے بہت بڑا سبق ہے
یا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رجوع کروانے کی بات آپ نے کسی خاص مقصد سے لکھی ہے ؟
چلیں میں آپ کو مزید کچھ دکھاتا ہوں اہلحدیث علماء کے خیالات جو انہوں نے خصوصا٘ صحابہ کے بارے میں ارشاد فرماءے تھے ۔
لیکن پہلے یہ اقتباس دیکھ لیں۔
اب آپ یہ دیکھءےصحابی کا قول حجت نہی
غیر مقلدین کے مزہب و عقیدہ میں صحابی کا قول دین وشریعت میں حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہے
“دوم آنکہ اگر تسلیم کردہ شود کہ سند ایں فتوی صحیح ست تاہم ازواحتجاج صحیح نیست زیرا کہ قول صحابی حجت نیست“
-ص340
یعنی دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا یہ فتوہ صحیح بھی ہے تب بھی اس سے دلیل پکڑ نا درست نہی ہے ،اس لیۓ کہ قول صحابی حجت نہیں ہے ۔
اور نواب صدیق حسن خان نے عرف الجادی میں لکھا ہے ۔
“حدیث جابر دریں باب قول جابر ست وقول صحابی حجت نیست“
یعنی حضرت جابر کی یہ بات (لا صلوۃ لمن یقراء ) والی حدیث تنہا نماو پڑھنے والے کے لیۓ ہے حضرت جابر کا قول ہے اور قول صحابی حجت نہی ہو تا ۔
ص38
فتا وی نذیریہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں-
“مگر خوب یاد رکھنا چاہیۓکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس قول سے صحت جمعہ کے لیۓ مصر کاشرط ہونا ہر گز ثابت نہی ہوسکتا۔
(فتاوی نذیریہ ص594 ج 1)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فہم بھی حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہوا ہے :
رابعا یہ کہ( ولوفرضنا ) تو یہ عائشہ اپنے فہم سے فرماتی ہیں ،یعنی حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے توآپ عورتوں کو مسجد جانے سے منع کردیتے ، فہم صحابہ حجت نہیں-
(ص622ج1)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ (معاذللہ) موٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے اور ان کا شرعی حکم انھیں معلوم نہی تھا
چنانچہ طریق محمدی مین محمد جو نا گڈھی لکھتے ہیں :
“بہت سےصاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم نے ان میں غلطی کی اور ہمارا اور آپ کا اتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت فاروق اعظم بے خبر تھے“
(طریق محمدی ،ص14)
پھر دس مسءلوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بے خبری ثابت کر نے بعد محمد جونا گڈھی کا ارشاد ہوتا ہے :
“یہ دس مسلے ہوۓ ابھی تلاش سے ایسے اور مسائل بھی مل سکتے ہیں ۔۔۔۔ان موٹے موٹے مسائل میں جو روز مرہ کے ہیں دلائل شرعیہ آپ سے مخفی رہے “
طریق محمدی، ص42
اب آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ خود ہی فیصلہ کیجءے کہ ایسے علماء اہلحدیثوں کے بارے میں آپ کا دل کیا کہتا ہے ؟ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی اور خلیفہ راشد کے بارے میں یہ کہنے سے بھی نا چوکے کہ وہ بڑے بڑے مسایل میں بھی غلطی کرتے تھے ؟؟ معاذاللہ۔۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو حق بات کہنے اور سمجھنے والا بناءے رکھے ۔
آمین
شکریہ