السلام علیکم
جناب جوان پیس اور گڈ مسلم
آپ حضرات کا دعوٰی ہے کہ
ہمارے دو اصول،،، اطیعو اللہ واطیعو الرسول
اور مطالبہ ہے کہ
لہذٰا بہتر ہو گا کہ ان اصولوں میں ہی سے کوئی عبارت یا گستاخی نقل کریں۔ پھر کلام اچھا رہے گا
جناب کی یہ خام خیالی بلکہ بدخیالی ہے کہ میں اللہ کے کلام یا سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کچھ لکھوں گا ۔ یہ کام تو میرا نہیں ان کا ہے جو کم سے کم درجہ میں صحابہ پر بھونک مارتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا کام کیا ھے ۔ نمونہ دکھانے کا زکر کیا تھا میں نے ، اب دیکھ لیجئے نمونہ ۔ وحیدی رافضی کا نہیں دکھاتا اسلئے کہ اس پر بہت لعنت کرچکے آپ لوگ اب دوسرے اکابرین پر بھی لعنت کرکے دکھاؤ تو مانوں ۔ دیکھو اور سبق یاد کرو کہ کون کہتا ہے کہ صحابہ ہمارے لئے “حجت“ نہیں ؟ غیر مقلد یا اہل سنت والجماعت ؟
صحابی کا قول حجت نہی
غیر مقلدین کے مزہب و عقیدہ میں صحابی کا قول دین وشریعت میں حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہے
“دوم آنکہ اگر تسلیم کردہ شود کہ سند ایں فتوی صحیح ست تاہم ازواحتجاج صحیح نیست زیرا کہ قول صحابی حجت نیست“
-ص340
یعنی دوسری بات یہ ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن زبیر کا یہ فتوہ صحیح بھی ہے تب بھی اس سے دلیل پکڑ نا درست نہی ہے
،اس لیۓ کہ قول صحابی حجت نہیں ہے ۔
اور نواب صدیق حسن خان نے عرف الجادی میں لکھا ہے ۔
“حدیث جابر دریں باب قول جابر ست وقول صحابی حجت نیست“
یعنی حضرت جابر کی یہ بات (لا صلوۃ لمن یقراء ) والی حدیث تنہا نماو پڑھنے والے کے لیۓ ہے
حضرت جابر کا قول ہے اور قول صحابی حجت نہی ہو تا ۔
ص38
فتا وی نذیریہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں-
“مگر خوب یاد رکھنا چاہیۓکہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے اس قول سے صحت جمعہ کے لیۓ مصر کاشرط ہونا ہر گز ثابت نہی ہوسکتا۔
(فتاوی نذیریہ ص594 ج 1)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا فہم بھی حجت نہی ہے
فتاوی نذیریہ میں لکھا ہوا ہے :
رابعا یہ کہ( ولوفرضنا ) تو یہ عائشہ اپنے فہم سے فرماتی ہیں ،یعنی حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے توآپ عورتوں کو مسجد جانے سے منع کردیتے ،
فہم صحابہ حجت نہیں-
(ص622ج1)
میرا خیال ہے کہ اتنا کافی شافی ہوگا ؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ اپنے قول کے مطابق کہ
ہاں ہم اپنے علماء و اکابرین کی عزت کرتے ہیں ،اور آپ لوگوں سے بھی زیادہ کرتے ہیں ۔قولا بھی اور عملا بھی ۔ لیکن عزت تب تک کرتے ہیں جب تک وہ قرآن وحدیث کو تھامے رکھتے ہیں کسی بھی مسئلہ میں اگر وہ قرآن و حدیث کے مخالف بات کرتے ہیں۔ تو ہمارا ہاتھ ان سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ہاں وہ بھی انسان ہیں اور انسان سے غلطی ہوسکتی ہے۔جہاں غلطی ہوجائے وہاں ہم اپنے اکابرین کی بات کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔
۔ تو اب مجھے دکھائیے کہ اوپر جو عبارات پیش کی ہیں میں نے ، یا تو انہیں جھوٹ قرار دیجئے یا ان کی تائید کیجئے یا پھر اپنے نام نہاد اکابرین جنہوں نے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہیں ان سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیجئے ۔
شکریہ