• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علما و حکمرانوں کے تعلقات کی نوعیت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
افسوس کے ساتھ اس وقت لادینیت حکومتوں کی سرپرستی میں پھیلائی جارہی ہے، اس لادینیت کے خلاف اٹھنے والوں کو کچھ مخلص اہل دین ’خروج و تکفیر‘ کی بحثوں میں الجھا رہے ہیں، حالانکہ مطلوب یہ ہے کہ تمام اہل اسلام لادینیت کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ارجاء یعنی دین میں مداہنت اور عقیدے میں تساہل حکمرانوں کا پسندیدہ مسلک ومذہب رہا ہے، اللہ تعالی تمام اہل دین کو اس قسم کی گمراہیوں سے بچائے۔
مشہور تھا کہ تشدد صرف خوارج میں ہوتا ہے، ہمارے زمانے میں میں ارجائی نظریات رکھنے والوں میں بھی تشدد در آیا ہے۔ لوگوں سے دینی غیرت کریدنے میں یہ خارجیوں سے بھی تیز ترین واقع ہوئے ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اور دین اجنبی ہوگیا
علامہ معلمی جو کہ ایک عرصہ تک یمن میں قاضی رہے تھے، انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ میں کوتاہی کے سبب مسلمانوں پر نازل ہونے والی مصیبت ’غربت دین‘ کا خوب نقشہ کھینچا ہے، فرماتے ہیں:
مدتیں گزر گئیں، شاید ہی کسی عالم دین کا نام سننے میں آئے، جو امر بالمعروف کے فریضہ کو اس شان سے قائم رکھے کہ کسی ملامت گر کی پرواہ نہ ہو. بلکہ اہل علم میں سے ہر دوسرے نے وہ حدیث یاد کر رکھی ہے کہ ’’فتن کے دور میں اپنے ایمان کو سنبھالیں، دوسروں کی برواہ نہ کریں.‘‘ اس حدیث سے نہ صرف وہ خود کو مطمئن رکھتا ہے، بلکہ اگر کسی کو انکار منکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دیکھے، تو اس کو ملامت بھی کرتا ہے۔
صحابہ کے دور میں تیس سال بعد ہی یہ صورت حال بن گئی تھی، لیکن ابو سعید خدری بہت نڈر تھے، انکار منکر میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے، بات یہاں تک پہنچی کہ عبد الملک بن مروان کو کہنا پڑا، جس نے بھی مجھے اللہ سے ڈرنے کی ترغیب دی، اس کا سرتن سے جدا کردوں گا... بعد میں ملوک و امرا نے اسی جابرانہ روش کو وطیرہ بنالیا.إلا ماشاء اللہ۔
ابن طاوس وعمرو بن عبيد وغيره بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، کیونکہ وہ ان حالات میں بھی انکار منکرر کی جسارت سے باز نہیں آتے تھے۔
بہرصورت ڈنکے کی چوٹ بات کرنے والے علما انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، اکثریت خاموشی میں ہی عافیت سمجھنے والی رہی، اور پھر بعد کے زمانوں میں تو کیا ملوک کیا علماء اور کیا عوام الناس، سب منکرات کے سیل رواں میں بہنے لگے، مٹھی بھر افراد میں سے ہمت کرکے أگر کسی نے کوئی جاندار جملہ بول ہی دیا، تو عوام الناس نے کہا: یہ تو علماء کا مخالف اور آباد و اجداد کے دین کا منکر ہے. علماء نے کہا: یہ تو اجماع کا مخالف اور ابتداع کا دلدادہ لگتا ہے، اور حکمرانوں نے کہا: یہ بندہ تو پر امن سلطنت میں فتنہ و اضطراب کو آواز دے رہا ہے، یہ سیدھی راہ سے ہٹ گیا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ سب علماء کو چھوڑ کر حق اس کے پاس ہو. مصلحت کا تقاضا ہے کہ اس کو ڈانٹ ڈپت اور سزا سے دور چار کیا جائے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر اہل حق اور اسلام پسند بھی یہ کہنے لگے: یہ دیوانہ خوامخواہ خود کو مشکل میں ڈال رہا ہے، اور تباہی کا رستہ اختیار کر رہا ہے، حالانکہ جس طرح باقی سب وسعت ورخص سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اسے بھی یہی کرنا چاہیے تھا۔ یوں آہستہ آہستہ دین اجنبی ہوگیا وإنا للہ وإنا ألیہ رجعون.

علامہ کی عبارت میں جو ابلاغ ہے اردو ترجمانی اس سے محروم ہے، اصل عربی عبارت ملاحظہ کیجیے:​
قد مضت عدة قرون لا تكاد تسمع فيها بعالم قائم بالمعروف لا يخاف في الله لومة لائم، بل لا تجد رجلاً من أهل العلم إلا وهو حافظ لحديث: "حتى إذا رأيت هوى متَّبعًا وشُحًّا مطاعًا وإعجاب كل ذي رأي برأيه فعليك بخويصة نفسك ودع عنك أمر العامة" يعتذر به عن نفسه ويعذل به من رآه يتعرّض لإنكار شيءٍ من المنكر.
وقد وُجد ذلك في آخر عصر الصحابة بعد الثلاثين سنة, فكان أبو سعيد الخدري رضي الله عنه واحد عصره في التجاسُر على إنكار المنكر بقدْرِ الإمكان، حتى شدّد في ذلك عبد الملك بن مروان، خطب على منبر وقال:"والله لا يقول لي أحدٌ: اتق الله، إلا ضربت عنقه ... " ثم توارثها الملوك والأمراء إلا مَن شاء الله.
ولهذا عَظم عند الناس ابن طاووس وعمرو بن عبيد وغيرهما ممن كان يتجاسر على النهي عن المنكر.
وعلى كل حال فالمعروفون من العلماء بذلك أفراد يعدون بالأصابع والجمهور ساكتون. وأما في القرون المتأخرة فشاعت المنكرات بين الملوك والأمراء والعلماء والعامة ولم يبق إلا أفراد قليلون لا يجسرون على شيء فإذا تحمّس أحدهم وقال كلمةً، قالت العامة: هذا مخالف للعلماء ولما عرفنا عليه الآباء.
وقال العلماء: هذا خارق للإجماع مجاهر بالابتداع.
وقال الملوك والأمراء: هذا رجل يريد إحداث الفِتن والاضطرابات، ومن المحال أن يكون الحق معه، وهؤلاء العلماء ومن تقدمهم على باطل، وعلى كلًّ فالمصلحة تقتضي زجره وتأديبه!
وقال بقية الأفراد من المتمسكين بالحق: لقد خاطر بنفسه وعرّضها للهلاك، وكان يسعه ما وَسِع غيره!
وهكذا تمَّت غُربة الدين، فإنا لله وإنا إليه راجعون!​

(موسوعة آثَار الشّيخ العَلّامَة عَبْد الرّحمن بْن يحْيَي المُعَلّمِيّ اليَماني 114/5)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حکمرانوں کے متعلق چلنے والی بحث کے حوالے سے میں عرض کرتا ہوں، حزب اتفاق و اختلاف دونوں ہی ذہن میں رکھیں ، کہ ہماری کسی بھی پوسٹ کا ہدف ’خروج اور تکفیر‘ نہیں ہے. ہمارا مطلب انکار منکر سے ہے، چاہے اس کا تعلق حکمران سے ہو یا غیر حکمران سے... جو لوگ خروج وتکفیر کے پیچھے گھٹنے ٹیکنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ کج بحثی سے گریز کرتے ہوئے ، موضوع پر بات کریں، تاک لوگوں کے لیے معاملے کے دونوں پہلو واضح ہوں.
ہم نے عاصمہ جہانگیر سے متعلق بھی اس رویے کو جھیلا ہے، ہم اس کی لادیینیت کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنا موقف پیش کرتے تھے، فریق مخالف ہمیں اس کی تکفیر میں گھسیٹنے کی کوشش کرتا تھا، اور اب یہ حکمرانوں سے تعامل والے بھی خروج کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بہر صورت ان احباب کی کچی ذہنیت یہاں سے بھی واضح ہورہی ہے ، کہ یہ اپنی پوسٹوں میں بات کچھ اور کرتے ہیں، لیکن جب کسی دوسرے کی پوسٹ میں ان کے مزعومہ خیالات کے خلاف دلیل آجائے، تو بوکھلاہٹ میں عجیب وغریب طعنے یا تاویلیں شروع کرلیتے ہیں۔
الحمدللہ کئی ایک احباب جو تعامل حکام والی یک طرفہ پوسٹوں سے ذہنی کشمکش میں مبتلا تھے، اللہ تعالی نے ان کے لیے حق کو نمایان کیا ہے۔
اس موضوع پر ابھی بہت لکھنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی نے توفیق دی، حالات ساز گار ہوئے، تو اپنی مجبوریوں، کاہلیوں اور بزدلیوں کے دلائل ڈھونڈنے والے بھی ان شاءاللہ منہج صحیح کی تحریک میں شامل ہوں گے.. إن شاءاللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ابن ابی ذئب جن کی حق گوئی کے حوالے سے ایک پوسٹ کل کی جاچکی ہے، ایک دفعہ ایک حاکم کو سمجھانے لگے، تو اس نے مکارانہ پتہ پھینکا، اور کہا: تم تو یہ سب ریا کاری کے لیے کر رہے ہو، یعنی تم خود کو ہیرو ثابت کرنا چاہتے ہو، امام نے پاس پڑی ایک لکڑی پکڑی، اور کہا، میرے نزدیک اس لکڑی اور انسان کے سامنے بات کرنا ایک برابر ہے۔ ( سير اعلام النبلاء میں ان کا ترجمہ دیکھیں)
اس بات میں تو کوئی شک نہیں، کہ کوئی مجاہد بھی ایسا ہوتا ہے، جو خود کو جری کہلوانے کے لیے جہاد کرتا ہوگا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مجاہد ہی اس نیت سے اپنی جان گنوا دیتا ہے، حکمرانوں کے خلاف بات کرنے میں ہیرو بننے کا پہلو بھی موجود ہے، لیکن حکمرانوں کے خلاف بات کرنے والے بہت سارے علما کا حشر سامنے رکھ کر، ان لوگوں کو شرم آنی چاہیے، جو اپنی پر تعیشن زندگی کو راہ حق میں داؤ پر لگانے والوں کو طعنے دیتے ہیں کہ ’ یہ صرف ہیرو بننے کے چکر‘ میں ہیں۔
اس طعنے میں ایک تو اس سلسلے میں کام کرنے والے مخلص لوگوں کے لیے تنبیہ ہے کہ اگر نیت میں کسی قسم کا کوئی خلل ہے، تو اسے دور کرنا چاہیے، اور ہمیشہ اللہ تعالی سے اخلاص اور استقامت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔
لیکن دوسری طرف یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ حکمرانوں کے خیرخواہوں کا شاید دماغ ہائی جیک ہوچکا ہے، ایک طرف حکمران کے لیے اتنی وسعت، اور دوسری طرف علماء کے لیے تنگ نظری اور سوء ظن کی انتہا۔
امام احمد کو ایسے ہی کسی موقعے پر کہنا پڑا تھا، بیننا وبینکم یوم الجنائز
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حکمران کی بے راہ روی کی تین صورتیں ہیں:
1۔ وہ خود عیاشی میں مبتلا ہو، محرمات کا ارتکاب کرے، لیکن اس کی خرابی اسی تک محدود ہو، عوام اس سے متاثر نہ ہوں، ایسی صورت میں اس کو ذاتی طور پر نصیحت کرنی چاہیے۔
2۔ وہ کسی کا مال ہڑپ کرے، ظلم و ستم کرے، لیکن دینی شعائر کا تحفظ کرتا ہو، اور شوکت اسلام کا ذریعہ بن رہا ہو، ایسی صورت میں ابن حزم کا وغیرہ کا موقف تو یہ ہے کہ اپنا حق لینے کے لیے حاکم کے خلاف سینہ سپر ہونا جائز ہے، اور صحابہ و تابعین سے ایسے آثار بھی ملتے ہیں، لیکن علما کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کی آزمائشوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اور حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے: وإن جلد ظهرك وأخذ مالك-
3۔ وہ شعائر اسلام کو ڈھانے والا اور لا دینیت کی سرپرستی کرکے اسے پھیلاتا ہو، ایسی صورت میں پہلے دو صورتوں میں بیان کردہ کوئی پابندی باقی نہ رہے گی، ایسے شیطان صفت کی منکرات و تجاوزرات پر اعلانیہ انکار ایک فریضہ ہے، اگر ساری امت ہی خاموش رہے، تو سب گناہ گار ہوں گے۔ حدیث میں ما أقاموا فیکم الصلاۃ، ما أقاموا فیکم کتاب اللہ، وغیرہ جیسی بنیادی قیود میں اسی چیز کا بیان ہے۔ اگر حکمران کے لیے ہر وقت ہی صبر اور خاموشی کا حکم ہو تو یہ قیود بے معنی رہ جاتی ہیں۔
کسی ایک حدیث میں یہ نہ ملے گا، کہ حاکم وقت اگر تمہارے دین کا بھی بیڑھ غرق کردے، تو تم نے خاموش رہنا ہے، کچھ لوگ کج بحثی کرتے ہوئے، وإن جلد ظهرك وأخذ مالك والی حدیث کو یہاں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بعض لوگوں میں خرابی کی بڑی وجہ انہیں مختلف حالات میں فرق نہ کرنا ہے۔ حالانکہ تمام احادیث وآثار کو جمع کرنے سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے، واللہ أعلم۔
البتہ انکار منکر کا ایک عمومی اصول ہے کہ وہ بذات خود فساد کا ذریعہ نہ بن رہا ہو، بلکہ اس سے مصلحت مقصود ہو. اس کا حکمران کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ایک عمومی اصول ہے. بعض لوگ اس میں بھی خلط مبحث کا شکار ہیں، حسب موقعہ اس کی تفصیل بھی عرض کر دی جائے گی.إن شاءاللہ.
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
شیخ احسان الٰہی ظہیر جو کہ ضیاءالحق اور نوازشریف کے شدید مخالف تھے کی ایک تقریر سے اقتباس حاضر ہے،یادرہے یہ اقتباس 1987 سے پہلے کا ہے
"اس قوم کی حمیت و غیرت کو دو قسم کے حکمرانوں نے کچلا ہے۔ ایک ان حکمرانوں نے جنہوں نے اپنے اقتدار کی بساط بچھانے کے لیے ان کی غیرت کو مارا، ایک ان حکمرانوں نے جنہوں نے ہر ایرے غیرے موقع پہ مردہ پرستی کو رواج دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہم مردوں سے ڈرنے والی اور مردوں کو پوجنے والی قوم ہیں اور مردوں‌کو پوجنے والے کبھی زندوں کا مقابلہ نہیں‌کر سکتے۔
مردوں کا پجاری یہ وزیر غسل دے رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑا شریف ہے۔ اس کے نام کا حصہ شریف ہے۔ میں نے کہا اگر اس کے نام کی وجہ سے اس کی شرافت کی گواہی دیتے ہو تو بابراشریف نے کیا جرم کیا ہے؟ اس کے نام کا حصہ بھی تو شریف ہے؟
شرم نہیں‌آتی۔ یہ وزیر ہیں۔ ان مردہ پرستوں نے زندوں کی کیا مدد کرنی ہے؟
دس من عرق گلاب سے ایک قبر کو غسل دیا ہے۔ پی جاو اس عرق گلاب کو تا کہ تمہاری رہی سہی غیرت بھی مر جائے۔"


(خطبات علامہ احسان الٰہی ظہیر: صفحہ نمبر 249، 250)
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
سی آئی اے کی طرف سے شیخ ربیع المدخلی کی تعریف:

One could be forgiven for failing to understand why Abu Qatada was soangry: Madkhali is not well‐known in the West and he is no longer aperson of much influence in Saudi Arabia. But in the 90s, he was incredibly influential in Saudi Arabia (and he still has a large following among Muslims in Europe).
Much of this influence derived from the support he received from the Saudi government. During and after the first Gulf War, the Saudi government faced intense criticism from the leaders of the Sahwa movement (a politically active strain of Wahhabism) for allowing U.S. troops to be stationed in Saudi Arabia. These leaders had a large following, particularly among the youth. To blunt their appeal, the Saudi government arrested the movement’s leaders and strongly backed Madkhali, who supported the regime, was politically quietist, and, most importantly, was effective at si honing off potential Sahwa recruits, particularly among the youth.

Aside from Saudi support, two things account for much of Madkhali’s popularity among the youth: he used cassette tapes to spread his message and he was quite skillful at discrediting his opponents. As an example of the latter, one of his favorite tactics was to call jihadis “Qutbis” rather than Salafis, since they agreed with the political doctrines of Sayyid Qutb, a leading jihadi thinker who was executed by the Egyptian government in the 60s. Doing this denied them the legitimacy of being known as Salafis, followers of the pious forefathers, and suggested that they were members of a deviant sect. To this end, another of Madkhali’s effective tactics was to force an opponent to acknowledge that Sayyid Qutb, whose teachings he followed, had made a number of theological statements that were variance with orthodoxy; thus, his followers were heretics too.
اگر کوئی یہ نہ سمجھ پائے کہ ابوقتادہ اس قدر غصہ کیوں تھا تو اس کی اس لاعلمی کو اس وجہ سے معاف کیا جاسکتا ہے کہ مدخلی اتنے معروف ہیں اور نہ ہی وہ اب سعودی عرب میں اتنے بااثر ہے لیکن 90 کی دہائی میں وہ بہت اثر پزیر تھے ( مگر یورپ میں اب بھی ان کے ماننے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہے)
ان کی اثرپزیری زیادہ تر سعودی حکومت کے تعاون کی مرہون منت تھی۔پہلی خلیجی جنگ کے دوران اور اس کے بعد، سعودی گورنمنٹ کو سھوا تحریک کے رہنماوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا (یہ وہابی تحریک سے علیحدہ ہونے والا ایک گروہ تھا) کہ گورنمنٹ نے امریکی فوجی دستوں کو سعودی عرب میں قیام کی اجازت دی۔ نوجوانوں کے اندر ان رہنماوں کے بہت سے ماننے والے لوگ تھے۔ ان کے زور کوتوڑنے کے لیے سعودی حکومت نے تحریک کے رہنماوں کو گرفتار کر لیا جبکہ مدخلی کی بھرپور حمایت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعودی مدد کے علاوہ، دو چیزوں نے مدخلی کی کامیابی میں کردار ادا کیا کہ انہوں نے کیسٹس کے ذریعے اپنے مخالفین کا رد کیا ، ان کا ایک پسندیدہ طریقہ کار جہادیوں کو 'سلفی' کی بجائے 'قطبی' کہنا کیونکہ ان (جہادیوں) نے سید قطب کے سیاسی نظرئیے سے اتفاق کیا تھا جوکہ ایک سرکردہ جہادی مفکر تھا جس کو مصری حکومت نے 60 کی دہائی میں‌پھانسی دے دی تھی۔اس وجہ سے ان کے 'سلفی' کہلائے جانے کا حق چھن گیا (سلف الصالحین کے پیروکار) اور انہوں نے یہ بتلایا کہ وہ ایک گمراہ گروہ کے ارکان ہیں۔مدخلی کا ایک اور چال اس بات پر زور دینا کہ ان کا مخالف سید قطب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے، جس نے بہت سے مذہبی بیانات میں صیح عقیدہ کی مخالفت کی ہے، لہٰذا اس کے پیروکار بھی بدعتی ہیں۔
حوالہ:
Stealing Al-Qa’ida’s Playbook
JARRET M. BRACHMAN
WILLIAM F. MCCANTS
February 2006
صفحہ:13
--------------------------------------------------
واضح رہے کہ اس میں شیخ ربیع مدخلی کی نیت پر شک نہیں کیا گیا بلکہ یہ بتایا گیا کہ ان کے اقدام کو سی آئی اے نے کیونکر سراہا۔۔۔۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سھوا تحریک
یہ لفظ ’صحوۃ‘ ہے، جس کا مطلب ہے ’بیداری‘۔ ایسے لوگوں کو عموما’ شیوخ الصحوۃ‘ یا ’مشایخ الصحوۃ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی منظم تحریک نہیں، بلکہ ایک طرح کی سوچ رکھنے والوں کو یہ نام دے دیا گیا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سلطان العلماء، العز بن عبد السلام اور دمشق کی جامع مسجد سے حاکم وقت پر تنقید
العز بن عبد السلام ساتویں صدی کے مشہور عالم دیں، اہل علم کے ہاں ’سلطان العلماء‘ کے لقب سے معروف ہیں۔
ان کے حالات زندگی سیر وسوانح پر لکھی ہوئی کئی ایک کتابوں میں موجود ہیں۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ شروع میں شافعی تھے، لیکن بعد میں رتبہ اجتہاد کو جان پہنچے، اور کسی مذہب کی پابندی نہیں کرتے تھے، مشہور محدث زکی المنذری ان کا اتنا ادب واحترام کرتے تھے، کہ ان کی موجودگی میں فتوی نہیں دیتے تھے۔
آپ کے اوصاف حمیدہ اور خصائل فضیلہ میں یہ بات بطور خاص ذکر کی گئی ہے کہ حق گوئی میں کسی ملامت گر کی پرواہ نہ کرتے تھے، حاکمان وقت کو ڈنکے کی چوٹ للکارتے تھے، دمشق کی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے، انہیں دنوں وہاں کے حاکم نے صلیبیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا، سلطان العلماء نے بر سر منبر اس منکر پر نکیر کی، اور سلطان کے عتاب کا شکار ہوئے، حافظ ذہبی کی عبارت ہے:
وولي خطابة دمشق بعد الدولعي، فلمّا تسلطن الصالح إسماعيل وأعطى الفِرَنْجَ الشقيف وصَفَدَ نال منه ابنُ عَبْد السلام عَلَى المِنْبَر، وترك الدعاء لَهُ، فعزله الصالح وحبسه، ثُمَّ اطلقه.(تاريخ الإسلام (14/ 934)
بعد میں مصر تشریف لے گئے، اور وہاں قاضی اور امام مسجد مقرر ہوئے ، ایک دفعہ حادثہ ہوا، شاہی وزیر کے تعلقداروں نے، جامع مصر کی چھت پر ایک عمارت بنا کر وہاں غیر شرعی امور سر انجام دینا شروع کردیے، سلطان العلماء کو عوام نے باخبر کیا، فورا گئے، اور اس عمارت کو ہی سرے سے ہدم کردیا، اور اس وزیر کے فاسق ہونے کا فتوی جاری کیا۔ درباریوں نے کہا، عالم پناہ! ان سے امامت و خطابت چھین لیں، ورنہ جو حاکم دمشق سے ہوا، آپ کی شان میں بھی بر سر منبر گستاخی ہوگی، تو حاکم مصر نے انہیں منصب خطابت سے معزول کردیا. ایک دفعہ ان کی عدالت میں حاکم وقت کا قضیہ پیش ہوا، سلطان العلماء نے حاکم کے گواہ کو رد کردیا کہ یہ لائق شہادت ہی نہیں ہے. حافظ ذہبی ان کے یہ شاندار کارنامے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وله من هذا الجنس أفعال محمودة.(حواله سابقه) کہ اس مرد حر کے اس قبیل کے اور بھی کئی قابل تعریف کارنامے ہیں۔
حاکمان وقت پر نکیر کرنےمیں اگر عز بن عبد السلام ہی چوک گئے تھے، منہج سلف انہیں یاد نہیں رہا تھا، تو ذہبی وابن کثیر کو ہی کم ازکم حاشیہ آرائی کرتے ہوئے، انہیں منہج سلف سے ہٹا ہوا لکھ دینا چاہیے تھا، لیکن وہ بھی انہیں ہیرو بنا کر ہی بیش کر رہے ہیں، یہ سب ہی خارجی و اخوانی ہوگئے؟
 
Top