- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
وقت کے امام سعید بن مسیب کا حکمرانوں سے تعامل
سعید بن مسیب کی جلالت شان کسی اہل علم سے مخفی نہیں، خلافت فاروقی میں ولادت ہوئی، صحابہ کے زمانے میں ہی فتوی لوگ ان سے پوچھنا شروع ہوگئے۔ ’سید الفقہاء‘ ’فقیہ الفقہاء‘ ’سید التابعین‘ جیسے القاب آپ کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پیش کیے جاتے رہے۔
آپ کا زمانہ وہ ہے، جب ملوک و حکمرانوں میں حب دنیا اور عشق ریاست کی بیماری عام ہونا شروع ہوئی، حضرت کو یہ چیزیں ذرا نہیں بھاتی تھیں، جس وجہ سے آپ کو کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، حافظ ذہبی نے ان کی سیرت میں ان کی آزمائش اور حق گوئی کو مستقل عناوین کے تحت ذکر کیا ہے۔
کسی نے پوچھا: عمرے اور حج پر جانا کیوں چھوڑ چکے ہیں؟ لگتا ہے، آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ جب بھی خانہ کعبہ دیکھوں گا، ابن مروان کے خلاف بدعا ضرور کروں گا، فرمایا: ایسی بات نہیں، ان ظالموں کے لیے بدعا تو میں ہر نماز میں کرتا ہوں.
وَمَا أُصَلِّي صَلاَةً إِلاَّ دَعَوْتُ اللهَ عَلَيْهِم۔
کسی نے کہا بیت المال میں آپ کے ہزاروں رکھے ہوئے ہیں، بلاوا آيا هى جا کر لے آئیں. فرمایا: جب تک اللہ تعالی میرے اور ظالم کے درمیان حق آشکار نہیں کردیتا، میں وہاں نہیں جاؤں گأ.
كَانَ لِسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ فِي بَيْتِ المَالِ بِضْعَةٌ وَثَلاَثُوْنَ أَلْفاً، عَطَاؤُهُ. وَكَانَ يُدْعَى إِلَيْهَا، فَيَأْبَى، وَيَقُوْلُ: لاَ حَاجَةَ لِي فِيْهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنِي وَبَيْنَ بَنِي مَرْوَانَ-
حاکم وقت عبد الملک بن مروان مدینہ میں آیا، مسجد کے ساتھ ہی کہیں آرام کرنے کی کوشش کی، لیکن نیند کوسوں دور، پوچھا: مسجد میں کوئی موجود ہے کہ اس سے گپ شپ کرلی جائے؟ کہا : سعید بن المسیب ہیں.
ملازم بلانے کے لیے آیا، اشارہ کیا، انہوں نے ذرا برابر پرواہ نہیں کی.
آخر تنگ ہو کر پاس آیا، کہا: امیر المؤمنین طلب کرتے ہیں، کہا: کوئی اور ہوگا، کہا آپ کا نام لیا، کہا: وہ کوئی میرا ہم نام ہوگا، مجھے نہیں ملنا.
ایک اور روایت میں ہے کہ ابن مروان مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوئے، اور ملازم کو بھیجا کہ ابن المسیب کو کہو، ملنا چاہتا ہوں. ملازم نے آپ کا بیغام دیا، انکار سن کر طیش میں آکیا اور کہا : امیر المؤمنین کے ہاں تمہاری عزت و تکریم نہ ہوتی تو تمہارا سرا ان کے قدموں میں رکھا ہوتا ، فرمایا: تمہارا آقا مجھے نوازنا چاہتا ہےتو وہ عطیہ تم لے لو، اور اگر اس کے عزائم خطرناک ہیں، تو میں یہاں بیٹھا ہون، جو کرنا ہے کرلے. عبد الملک بن مروان اس درشت جواب کو سن کر واپس لوٹ گیا، اور سعید بن المسیب مسجد نبوی میں علمی مجلس میں مصروف مشغول رہے.
ذہبی ان باتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ابن المسیب وقت کے حکمرانوں کی برائیوں کی وجہ سے ان سے شدید متنفر تھے، ان کے عطیے اور اکرامیے مطلقا قبول نہ کیا کرتے تھے۔
اپنے بھائی عبد العزیز بن مروان امیر مصر کی وفات کے بعد عبد الملک بن مروان نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹوں ولید وسلیمان کی ولی عہدی کی بیعت لے لیں، تمام شہروں اور علاقوں میں ہرکارے دوڑا دیے، مدینہ میں اموی گورنر کو جب یہ بات معلوم ہوئی، تو بیعت کے لیے منادی کروا دی گئی، سب بیعت کرنے لگے، لیکن سعید بن المسیب نے انکار کردیا اور فرمایا: میں بیعت نہیں کروں گأ. اموی گورنر نے اس وجہ سے ان پر کافی ظلم و ستم کیا.
ایک اور روایت میں ہے کہ عبد الملک بن مروان کی وفات کے بعد جب ولید و سلیمان کی بیعت کے لیے بھلایا گیا ، تو فرمایا: قیامت تک بھی زندہ رہوں تو دو کی بیعت کبھی نہ کروں گأ، کہا گیا: دکھاوے کے لیے ہی ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاؤ، کہا: کبھی ایسا نہ کروں گا. کہ لوگ میری اقتدا میں یہ کام کرنا شروع ہوجائیں.
اسی سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے، کسی نے ہمدرردی کرتے ہوئے کہا کہ جب بیعت کا سلسلہ شروع ہو، تو تم گورنر کی آنکھوں سے کہیں دور ہی رہنا. فرمایا: چالیس سال سے اسی جگہ اسی طرح رہا ہوں، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی. کہا: چلو عمرے کے لیے مکہ کی طرف رخت سفر باندھ لو، فرمایا: جب عمرے کی نیت ہوگی، تو تب ہی جاؤں گاا جب اپنا ارادہ ہی نہیں تو کیوں عمرے کو چلا جاؤں. کہا: تو پھر بیعت ہی کرلو، غصے میں آکر گویا ہوئے! اگر اللہ نے تم سے بصارت و بصیرت چھین لی ہے، تو تمہارا کوئی عذر ہوگا، لیکن میرے لیے اس غلطی میں کوئی عذر نہ ہوگا.
بہرصورت اس شاہی فرمان کی مخالفت میں مدینہ کی گلیوں میں فقیہ مدینہ کو سر عام ذلیل و رسوا کیا گیا، حکم ہوگیا کہ کوئی اس کی مجلس اور درس حدیث میں نہ بیٹھے، لہذا سعید بن مسیب اکیلے ہی مسجد نبوی میں بیٹھے رہتے.
سعید بن المسیب لوگوں کو بھی نصیحت کیا کرتے تھے: کہ اگر ظالموں کا رعب و دبدبہ تمہاری آنکھوں تک سرایت کرچکا ہے، تو کم از کم اس ظلم کو دل سے برا جانتے رہو، تاکہ تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں.
حاکم وقت نے بہت زور لگایا کہ کسی نہ کسی طرح دلوں پر حکمرانی کرنے والے اس دوریش سے کوئی رشتہ بن جائے، لہذا سعید بن المسیب کو بیغام بھیجا کہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ نے انکار کردیا، اور بیٹی کو اپنے ایک فقیر ومسکین شاگرد کے نکاح میں دےدیا.
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وأسکنہ فسیح جناتہ
( حوالہ جات کے لیے دیکھیے، سیر اعلام النبلاء میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا تفصیلی ترجمہ )
آپ کا زمانہ وہ ہے، جب ملوک و حکمرانوں میں حب دنیا اور عشق ریاست کی بیماری عام ہونا شروع ہوئی، حضرت کو یہ چیزیں ذرا نہیں بھاتی تھیں، جس وجہ سے آپ کو کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا، حافظ ذہبی نے ان کی سیرت میں ان کی آزمائش اور حق گوئی کو مستقل عناوین کے تحت ذکر کیا ہے۔
کسی نے پوچھا: عمرے اور حج پر جانا کیوں چھوڑ چکے ہیں؟ لگتا ہے، آپ نے قسم اٹھائی تھی کہ جب بھی خانہ کعبہ دیکھوں گا، ابن مروان کے خلاف بدعا ضرور کروں گا، فرمایا: ایسی بات نہیں، ان ظالموں کے لیے بدعا تو میں ہر نماز میں کرتا ہوں.
وَمَا أُصَلِّي صَلاَةً إِلاَّ دَعَوْتُ اللهَ عَلَيْهِم۔
کسی نے کہا بیت المال میں آپ کے ہزاروں رکھے ہوئے ہیں، بلاوا آيا هى جا کر لے آئیں. فرمایا: جب تک اللہ تعالی میرے اور ظالم کے درمیان حق آشکار نہیں کردیتا، میں وہاں نہیں جاؤں گأ.
كَانَ لِسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ فِي بَيْتِ المَالِ بِضْعَةٌ وَثَلاَثُوْنَ أَلْفاً، عَطَاؤُهُ. وَكَانَ يُدْعَى إِلَيْهَا، فَيَأْبَى، وَيَقُوْلُ: لاَ حَاجَةَ لِي فِيْهَا، حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنِي وَبَيْنَ بَنِي مَرْوَانَ-
حاکم وقت عبد الملک بن مروان مدینہ میں آیا، مسجد کے ساتھ ہی کہیں آرام کرنے کی کوشش کی، لیکن نیند کوسوں دور، پوچھا: مسجد میں کوئی موجود ہے کہ اس سے گپ شپ کرلی جائے؟ کہا : سعید بن المسیب ہیں.
ملازم بلانے کے لیے آیا، اشارہ کیا، انہوں نے ذرا برابر پرواہ نہیں کی.
آخر تنگ ہو کر پاس آیا، کہا: امیر المؤمنین طلب کرتے ہیں، کہا: کوئی اور ہوگا، کہا آپ کا نام لیا، کہا: وہ کوئی میرا ہم نام ہوگا، مجھے نہیں ملنا.
ایک اور روایت میں ہے کہ ابن مروان مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوئے، اور ملازم کو بھیجا کہ ابن المسیب کو کہو، ملنا چاہتا ہوں. ملازم نے آپ کا بیغام دیا، انکار سن کر طیش میں آکیا اور کہا : امیر المؤمنین کے ہاں تمہاری عزت و تکریم نہ ہوتی تو تمہارا سرا ان کے قدموں میں رکھا ہوتا ، فرمایا: تمہارا آقا مجھے نوازنا چاہتا ہےتو وہ عطیہ تم لے لو، اور اگر اس کے عزائم خطرناک ہیں، تو میں یہاں بیٹھا ہون، جو کرنا ہے کرلے. عبد الملک بن مروان اس درشت جواب کو سن کر واپس لوٹ گیا، اور سعید بن المسیب مسجد نبوی میں علمی مجلس میں مصروف مشغول رہے.
ذہبی ان باتوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ابن المسیب وقت کے حکمرانوں کی برائیوں کی وجہ سے ان سے شدید متنفر تھے، ان کے عطیے اور اکرامیے مطلقا قبول نہ کیا کرتے تھے۔
اپنے بھائی عبد العزیز بن مروان امیر مصر کی وفات کے بعد عبد الملک بن مروان نے فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹوں ولید وسلیمان کی ولی عہدی کی بیعت لے لیں، تمام شہروں اور علاقوں میں ہرکارے دوڑا دیے، مدینہ میں اموی گورنر کو جب یہ بات معلوم ہوئی، تو بیعت کے لیے منادی کروا دی گئی، سب بیعت کرنے لگے، لیکن سعید بن المسیب نے انکار کردیا اور فرمایا: میں بیعت نہیں کروں گأ. اموی گورنر نے اس وجہ سے ان پر کافی ظلم و ستم کیا.
ایک اور روایت میں ہے کہ عبد الملک بن مروان کی وفات کے بعد جب ولید و سلیمان کی بیعت کے لیے بھلایا گیا ، تو فرمایا: قیامت تک بھی زندہ رہوں تو دو کی بیعت کبھی نہ کروں گأ، کہا گیا: دکھاوے کے لیے ہی ایک طرف سے داخل ہو کر دوسری طرف سے نکل جاؤ، کہا: کبھی ایسا نہ کروں گا. کہ لوگ میری اقتدا میں یہ کام کرنا شروع ہوجائیں.
اسی سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے، کسی نے ہمدرردی کرتے ہوئے کہا کہ جب بیعت کا سلسلہ شروع ہو، تو تم گورنر کی آنکھوں سے کہیں دور ہی رہنا. فرمایا: چالیس سال سے اسی جگہ اسی طرح رہا ہوں، اس میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی. کہا: چلو عمرے کے لیے مکہ کی طرف رخت سفر باندھ لو، فرمایا: جب عمرے کی نیت ہوگی، تو تب ہی جاؤں گاا جب اپنا ارادہ ہی نہیں تو کیوں عمرے کو چلا جاؤں. کہا: تو پھر بیعت ہی کرلو، غصے میں آکر گویا ہوئے! اگر اللہ نے تم سے بصارت و بصیرت چھین لی ہے، تو تمہارا کوئی عذر ہوگا، لیکن میرے لیے اس غلطی میں کوئی عذر نہ ہوگا.
بہرصورت اس شاہی فرمان کی مخالفت میں مدینہ کی گلیوں میں فقیہ مدینہ کو سر عام ذلیل و رسوا کیا گیا، حکم ہوگیا کہ کوئی اس کی مجلس اور درس حدیث میں نہ بیٹھے، لہذا سعید بن مسیب اکیلے ہی مسجد نبوی میں بیٹھے رہتے.
سعید بن المسیب لوگوں کو بھی نصیحت کیا کرتے تھے: کہ اگر ظالموں کا رعب و دبدبہ تمہاری آنکھوں تک سرایت کرچکا ہے، تو کم از کم اس ظلم کو دل سے برا جانتے رہو، تاکہ تمہارے اعمال برباد نہ ہوجائیں.
حاکم وقت نے بہت زور لگایا کہ کسی نہ کسی طرح دلوں پر حکمرانی کرنے والے اس دوریش سے کوئی رشتہ بن جائے، لہذا سعید بن المسیب کو بیغام بھیجا کہ میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، آپ نے انکار کردیا، اور بیٹی کو اپنے ایک فقیر ومسکین شاگرد کے نکاح میں دےدیا.
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ وأسکنہ فسیح جناتہ
( حوالہ جات کے لیے دیکھیے، سیر اعلام النبلاء میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ کا تفصیلی ترجمہ )