عبداللہ حیدر
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 11، 2011
- پیغامات
- 316
- ری ایکشن اسکور
- 1,018
- پوائنٹ
- 120
السلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
والسلام علیکم
کیا یہ عبارت اہل الحدیث، دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان نکتہ اتفاق قرار پا سکتی ہے؟"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔
ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی وسعتوں کو یا دینے والا جانتا ہے یا لینے والا۔ یا سکھانے والے کو پتہ ہے یا سیکھنے والے کو۔ ہم تم تو کسی گنتی میں ہیں"۔
(ضیاء القرآن جلد سوم ص ٤٥٨)
والسلام علیکم