• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم الغیب، نکتہ اتفاق؟

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔

اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔

ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی وسعتوں کو یا دینے والا جانتا ہے یا لینے والا۔ یا سکھانے والے کو پتہ ہے یا سیکھنے والے کو۔ ہم تم تو کسی گنتی میں ہیں"۔
(ضیاء القرآن جلد سوم ص ٤٥٨)
کیا یہ عبارت اہل الحدیث، دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان نکتہ اتفاق قرار پا سکتی ہے؟
والسلام علیکم
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
١۔بریلوی حضرات میں دراصل کچھ لوگ معتدل ہیں اور کچھ انتہا پسند بھی ہیں۔ راقم کا احساس ہے کہ جامعہ ازہر میں تعلیم کی وجہ سے عام بریلویہ کی نسبت ان میں کافی اعتدال موجود ہے جیسا کہ انہوں نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں بھی شیخ الاسلام کی رائے کو ترجیح دی ہے۔ لیکن آپ کو اس مسئلہ میں عوام خطبا اور بریلوی علماء کے ہاں مبالغہ بھی مل جائے جسے شاید کوئی بھائی یہاں پوسٹ بھی کردیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا محدود علم بھی ابتدائے کائنات سے قیام قیامت تک کے ہر جزیے کا تھا۔
٢۔بہرحال اس دور میں میرے خیال میں بریلوی حضرات میں ایسے اہل علم بھی غنیمت ہیں اور میں تو کم ازکم بریلوی دوستوں کو یہ مشورہ ضرور دیتا ہوں کہ کم ازکم اپنے ان عالم دین کی کتب کا تو مطالعہ کریں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
علم غیب حقیقی یا عطائی کی فلسفیانہ بحثیں اور پھر یہ طے کرنے کی کوشش کہ انبیاء کرام﷩ اور اولیائے عظام﷭ علم غیب حقیقی جانتے تھے یا عطائی یا نہیں جانتے تھے وغیرہ وغیرہ! ان موشگافیوں میں پڑنے کی بجائے دو لفظوں کی یہ بات ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ یا رسول کریمﷺ علم غیب کہتے ہیں، وہ علم غیب جن کا ذکر ان آیاتِ کریمہ میں ہے، وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا:
فرماِنِ باری: ﴿ قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ﴾ ... سورة النمل کہ ’’ تم فرماؤ غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں مگر اللہ اور انہیں خبر نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی‘‘
نیز فرمایا: ﴿ وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ﴾ ... سورة الأنعام کہ ’’اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی انہیں وہی جانتا ہے ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی‘‘
مزید فرمایا: ﴿ قُلْ لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ﴾ ... سورة الأنعام کہ ’’ تم فرمادو میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں ... ترجمہ احمد رضا خان بریلوی‘‘
مزید فرمایا: ﴿ يَوْمَ يَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ... سورة المائدة کہ ’’جس دن اللہ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
مزید فرمایا: ﴿ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ... سورة المائدة کہ ’’تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے، بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا خوب جاننے والا ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘

اگر کوئی صاحب اس ’علم غیب‘ کے علاوہ کسی اور ’غیب‘ کی بات کریں، تو ہمیں اس سے مطلب وغرض نہیں۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ﴿٢٧﴾
اگر میری پیش کی گئی آیات اور ان سے لئے گئے مفہوم پر آپ کو اتفاق ہے تو پھر آگے بڑھتے ہیں، براہِ کرام! آپ واضح کر دیں کہ آپ کے نزدیک میری پیش کی گئی آیات کا کیا مفہوم ہے؟
کیا ان آیات کریمہ میں موجود جس غیب کی بات ہو رہی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی جانتا ہے؟
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
السلام علیکم،
بھائی جان! اس مسئلے پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ کوئی نئی بحث وقت کا ضیاع ہو گی۔ میں نے پہلے مراسلے میں ایک سوال رکھا ہے کہ جو لوگ اقرار کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات اقدس سمیت تمام مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں ہے جتنی قطرے کو سمندر کے پانی سے نسبت ہوتی ہے، "تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم" کے اصول کے تحت ان سے متفق ہونے کی کوئی راہ ہے یا نہیں؟
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
السلام علیکم،
بھائی جان! اس مسئلے پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ کوئی نئی بحث وقت کا ضیاع ہو گی۔ میں نے پہلے مراسلے میں ایک سوال رکھا ہے کہ جو لوگ اقرار کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی ذات اقدس سمیت تمام مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں ہے جتنی قطرے کو سمندر کے پانی سے نسبت ہوتی ہے، "تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم" کے اصول کے تحت ان سے متفق ہونے کی کوئی راہ ہے یا نہیں؟
عبداللہ حیدر صاحب آپ جسے ’’سواء بیننا و بینکم‘‘ کہہ رہے ہیں وہ واضح طور پر شرک ہے۔
اگر آپ ’’علم غیب‘‘ اور ’’اورامورغیب پر اگاہی‘‘ کا فرق سمجھ لیں تو شاید اپنے آپ کو اس شرک کے دلدل سے بچاسکیں ، امورغیب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا گیا ہے مگر علم غیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک لمحہ کے لئے بھی اورذرہ برابر بھی عطانہیں ہوا ہے، نہ حادث نہ محدود، غرض یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق علم غیب عطائی ، حادث اور محدود کا عقیدہ بھی شرک ہے۔

تفصیل یہاں پر پیش کی جارہی ہے، ہمارا مقصود احقاق حق ہے، ان شاء اللہ ہم نہ تو کسی کا نام لیں گے اورنہ ہی کسی کے خلاف کوئی سخت جملہ استعمال کریں گے، ہمارا مضمون مکمل ہونے کے بعد ہی آپ کوئی وضاحت پیش کریں تو بہترہوگا۔

ہم آپ کے لئے بس دعاء ہی کرسکتے ہیں اللہ آپ کو ہدایت دے ۔
اتحاد امت کے فلسفہ کے تحت ابھی تک تو صرف سب صحابہ ’’سواء بیننا و بینکم‘‘ تھا اب شرک بھی ’’سواء بیننا وبینکم ‘‘ ہوگیا ۔
اللہ ہدایت دے ۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
السلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔
ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی وسعتوں کو یا دینے والا جانتا ہے یا لینے والا۔ یا سکھانے والے کو پتہ ہے یا سیکھنے والے کو۔ ہم تم تو کسی گنتی میں ہیں"۔
(ضیاء القرآن جلد سوم ص ٤٥٨)
کیا یہ عبارت اہل الحدیث، دیوبندی اور بریلوی حضرات کے درمیان نکتہ اتفاق قرار پا سکتی ہے؟
والسلام علیکم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے کہ نہیں!!
  1. کیونکہ اس عبارت میں اللہ تعالیٰ کی لا محدود صفت ’علم الغیب‘ کا اثبات نبی کریمﷺ - جو سید الانبیاء والمرسلین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلوق ہیں - کیلئے محدود طور پر کیا گیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ایسی ہیں جو ’نام کی حد‘ مخلوق میں بھی پائی جاتی ہیں، مثلاً صف ید، عین، اصبع، سمع، بصر، علم، حیاۃ اور قدرت وغیرہ وغیرہ لیکن نام کے اشتراک کا مطلب یہ نہیں کہ مخلوق میں بھی بعینہٖ صفاتِ الٰہی کا محدود حصہ موجود ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات وہ ہیں جو اللہ کی شان کو لائق ہیں، جبکہ ہماری صفات مخلوق صفات ہیں، جن میں صرف نام کے علاوہ کوئی کل مشترک نہیں۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴾ ... سورة الشورىٰکہ ’’اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی شے نہیں، لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیلئے صفات سمع وبصر کا اثبات بھی کیا گیا ہے، حالانکہ انہی صفات کا اثبات انسان کیلئے بھی کیا گیا ہے: ﴿ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا ﴾ ... سورة الدهرمعلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور ہماری صفات میں نام کی حد تک اشتراک بھی ہو تو حقیقت میں کسی قسم کا کوئی اشتراک اور مِثلیّت نہیں۔
    ایک مثال سے اسے مزید سمجھا جا سکتا ہے کہ انسان کی بھی ناک ہے اور ہاتھی کی بھی (جسے سونڈ کہتے ہیں۔) کیا ان میں نام کے علاوہ کوئی اشتراک ہے؟ جب مخلوق کا یہ معاملہ ہے، تو پھر ﴿ وَلِلهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ... سورة النحل
    حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کوئی صفت کسی مخلوق کو - محدود طور پر بھی - نہیں دی، بلکہ اللہ کی صفات خالق کی صفات ہیں اور ہماری مخلوق صفات۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴾ ... سورة القصصکہ ’’اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند فرماتا ہے ان (مخلوق) کا کچھ اختیار نہیں، پاکی اور برتری ہے اللہ کو ان کے شرک سے ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی قسم کا کوئی اختیار کسی مخلوق کو نہیں دیا، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے خواہ محدود طور پر ہی تو یہ شرک ہے، جیسے آیت کریمہ کے آخری حصّے سے معلوم ہو رہا ہے۔
    مزید فرمایا: ﴿ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ﴾ ... سورة السجدةکہ ’’کام کی تدبیر فرماتا ہے آسمان سے زمین تک پھر اسی کی طرف رجوع کرے گا اس دن کہ جس کی مقدار ہزار برس ہے تمہاری گنتی میں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ تمام کاموں کی تدبیر آسمان سے لے کر زمین تک اکیلے کرتے ہیں، اس تدبیر میں مخلوق (فرشتوں یا انسانوں) کو شامل سمجھنے کا عقیدہ غلط ہے۔ البتہ مخلوق کی صفت بھی تدبیر ہے جو مخلوق صفت ہے جس کی اللہ کی تدبیر سے کوئی نسبت نہیں، وہ تدبیر تو اللہ تعالیٰ اکیلے فرماتے ہیں۔
    مزید فرمایا: ﴿ قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ ﴾ ... سورة سبأکہ ’’تم فرماؤ پکارو انہیں جنہیں اللہ کے سوا سمجھے بیٹھے ہو وہ ذرہ بھر کے مالک نہیں آسمانوں میں اور نہ زمین میں اور نہ ان کا ان دونوں میں کچھ حصہ اور نہ اللہ کا ان میں سے کوئی مددگار ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘ معلوم ہوا کہ کسی مخلوق (خواہ وہ فرشتے ہوں یا انبیاء واولیاء کرام﷩) کے پاس زمین وآسمان میں ذرّہ برابر بھی اختیار نہیں، اور نہ ہی کسی کا آسمان وزمین کی تخلیق میں کوئی حصہ ہے اور نہ ہی کوئی مخلوق کسی بھی کام میں اللہ کی مدد گار ہے، اللہ تعالیٰ اکیلے وحدہ لا شریک یہ معاملات سر انجام دے رہے ہیں۔ اور ان معاملات میں کسی کو بھی شریک سمجھنا - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - شرکِ اکبر ہے۔
    مزید فرمایا: ﴿ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ ذَٰلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۚ وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ﴾ ... سورة فاطرکہ ’’ رات لاتا ہے دن کے حصہ میں اور دن لاتا ہے رات کے حصہ میں اور اس نے کام میں لگائے سورج اور چاند ہر ایک ایک مقرر میعاد تک چلتا ہے یہ ہے اللہ تمہارا رب اسی کی بادشاہی ہے، اور اس کے سوا جنہیں تم پوجتے ہو دانہ خُرما کے چھلکے تک کے مالک نہیں ... ترجمہ احمد رضا خان‘‘
    ان تمام آیات بینات سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مخلوق کو - خواہ کتنی ہی افضل کیوں نہ ہو - اپنی کوئی صفت - خواہ انتہائی محدود طور پر ہی - نہیں دی، اور اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے تو یہ شرکیہ عقیدہ ہے، سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی صفات دوسروں کو دینے کا کیا فائدہ؟ (جو شرک ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔) فائدہ تو تب ہو جب (نعوذ باللہ) اللہ کیلئے یہ تمام کام اکیلے سنبھالنا مشکل ہو، یا اللہ تعالیٰ تھک جائیں، جو ممکن نہیں، فرمانِ باری ہے: ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِن لُّغُوبٍ ﴾ ۔۔۔ سورة قکہ ’’اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا، اور تکان ہمارے پاس نہ آئی ۔۔۔ ترجمہ احمد رضا خان‘‘
  2. ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بریلوی حضرات کی نزدیک اللہ تعالیٰ کے علم اور نبی کریمﷺ کے علم میں بالکل ویسا ہی فرق ہے، جیسا اللہ تعالیٰ کی صفت سمع وبصر کا اور مخلوق کی صفت سمع وبصر کا۔ تو پھر نبی کریمﷺ کیلئے علم الغیب کا اثبات کرتے ہوئے نت نئی اصطلاحات حادث، عطائی اور محدود کیوں استعمال کی جاتی ہیں، حالانکہ مخلوق کی صفتِ سمع وبصر کا اثبات کرتے ہوئے ان کیلئے کبھی بھی حادث یا عطائی سمع وبصر کی بات نہیں کی جاتی۔ علم اور دیگر صفات میں یہ فرق کیوں؟
    کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!​
  3. یہ کہنا کہ
    ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔ اس کی وسعتوں کو یا دینے والا جانتا ہے یا لینے والا۔ یا سکھانے والے کو پتہ ہے یا سیکھنے والے کو۔ ہم تم تو کسی گنتی میں ہیں"۔
    یہ بات ٹھیک ہے کہ رسولِ کریمﷺ کو بہت زیادہ علم دے رکھا تھا، اس کی وسعت صرف اللہ تعالیٰ ہی جان سکتے ہیں، تو پھر ہم اس میں ’بغیر علم کے‘ اتنا مبالغہ کیوں کر دیتے ہیں کہ آپ کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی طور پر پیچھے اور کم نظر نہیں آتا۔ کیا یہ افتراء علی اللہ نہیں جو شرک جتنا بڑا ظلم ہے؟
  4. اگر نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی بناء پر کچھ باتوں کا پتہ چل جاتا ہے، جس کی بناء پر بریلوی حضرات کے نزدیک آپ کو عالم الغیب (خواہ عطائی ہی) کہنا صحیح ہے، تو پھر جب یہ باتیں بموجب حکم الٰہی ﴿ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ﴾ ۔۔۔ سورة المائدةنبی کریمﷺ امت کو بتا دیتے ہیں تو پھر امّت کو اسی معنیٰ میں عالم الغیب کہنا کیوں صحیح نہیں؟
    مثلاً نبی کریمﷺ نے (وحی کے ذریعے) ہمیں قیامت کی سو کے قریب چھوٹی بڑی علامات بتائیں، کیا یہ علامات غیب نہیں ہیں، مثلاً امام مہدی ودجال کا آنا، نزول مسیح عیسیٰ﷤، یاجوج ماجوج، دھواں، دابۃ الارض، سورج کا مغرب سے نکلنا اور زمین میں دھنسنا وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر قیامت کے وقوع پذیر ہونے، قبر ونعیم وعذاب قبر، صور، دوبارہ زندہ ہونا، جنت جہنم، پل صراط، حوض کوثر، شفاعت، عرش کا سایہ بلکہ اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان وغیرہ وغیرہ تو اگر نبی کریمﷺ اللہ تعالیٰ سے وحی کے ذریعے علم پاکر ’عالم الغیب‘ ہیں تو غیب کی تو بہت سی خبریں ہمارے علم میں بھی ہیں بلکہ متقین کی صفت ہے ﴿ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ﴾ تو ہم اسی معنیٰ میں عالم الغیب کیوں نہیں؟
  5. ان تمام تفصیلات سے بچتے ہوئے میں نے عبد اللہ حیدر بھائی سے مختصرا عرض کیا تھا کہ جن آیات (میں نے چار پانچ آیات اوپر کوٹ کی ہیں) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ ہر ایک سے علم الغیب کی نفی کی ہے، ان کا مفہوم ہم کیا بیان کریں گے؟ کیا وہ اپنے مفہوم میں قطعی الدلالہ اور صریح آیات قرآن کریم کی نہیں؟ کیا وہ آیات کریمہ ہم سب کیلئے حجت نہیں؟
اللہ تعالیٰ ہمارے عقائد کی اصلاح فرمائیں!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما​
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا خیال ہے کہ نہیں!!
کیونکہ اس عبارت میں اللہ تعالیٰ کی لا محدود صفت ’علم الغیب‘ کا اثبات نبی کریمﷺ - جو سید الانبیاء والمرسلین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلوق ہیں - کیلئے محدود طور پر کیا گیا ہے۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما​
السلام علیکم،
انس بھائی! آپ کی توجہ شاید اس طرف نہیں گئی ورنہ مندرجہ بالا اقتباس کے بعد طویل بحث کر کے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے اس کی طرف پہلے ہی اشارہ کیا جا چکا ہے
اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
ہم آپ کے لئے بس دعاء ہی کرسکتے ہیں اللہ آپ کو ہدایت دے ۔
اللہ ہدایت دے ۔
السلام علیکم،
آپکی دعائیں اس ناچیز پر احسان ہیں۔ قبولیت دعا کے اوقات میں میرے لیے ہدایت کی خصوصی دعا کیا کیجیے۔
والسلام علیکم
 
Top