مصبور صدیقی
مبتدی
- شمولیت
- مارچ 08، 2018
- پیغامات
- 36
- ری ایکشن اسکور
- 0
- پوائنٹ
- 12
جھوٹ بولنے سے پہلے تھوڑا شرم کر لیا کریں اس کس عالم نے کہا ہے؟کا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے کسی طور پر پیچھے اور کم نظر نہیں آتا۔ ک
اہلسنت بریلوی اور دیابنہ کا عقیدہ یہی ہے سلفیوں کا مجھے پتا نہیںالسلام علیکم، کل پیر کرم شاہ صاحب الازہری کی تفسیر ضیاء القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے مسئلہ علم الغیب کی توضیح میں یہ عبارت ملی ہے:
"اللہ تعالیٰ کی دوسری تمام صفات کی طرح اس کی یہ صفت بھی قدیم ہے، ذاتی ہے اور غیر متناہی ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے، اس کی عین حیات میں بھی، اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے۔ نیز اس کا یہ علم اس کا اپنا ہے۔ کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے نیز اس کے علم کی نہ کوئی حد ہے، نہ نہایت۔ اگر کوئی شخص کمٓا یا کیفا یعنی مقدار اور کیفیت کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا کسی کے لیے اثبات کرے تو وہ ہمارے نزدیک شرک کا مرتکب ہو گا۔
نہ تو آپ کا علم ذاتی ہے نا ہی آپ ذاتی طور پر پڑھتے ہیں نہ ہی آپ ذاتی طور لکھتے ہیں تو کیوں نہ اس قاعدے کے رو سے میں آپ کو جاہل تسلیم کر لوں؟عطائی تسلیم کیا جائے یا نہ۔ کیونکہ جب موصوف کا اپنا وجود ہی ذاتی نہ ہو تو پھر اس کی کسی
اگر علم سکھا دینے سے علم، علم نہیں ریتا تو آپ کو سچ میں کچھ علم نہیں سراپا جہالت ہی جہالت ہے.
جب علم غیب بتانے والی ذات خود غیب ہے وحی بھی غیب ہے، جبریل بھی بعض اوقات غیبی صورت میں آتے تھے اب یہ کہنا کہ علم غیب بتانے یا سکھانے سے غیب نہیں ریتا یہ فقط جہالت ہے، کئی خبریں حضور صلی الله تعالی عليه وآله وسلم جانتے ہیں جو ہمارے لئے غیب ہے اس پر انہیں عالم غیب کہہ دینے میں کیا حرج؟ کہنے والا نبی کے علم غیب کو رب کا عطا کیا ہوا اور محدود مناتا ہے.ثابت کیا ہے کہ کسی کے عطاء کرنے یعنی بتانے سے جو خبر حاصل ہو اسے علم غیب نہیں کہا جا سکتا ، البتہ اسے خبر غیب کہا جاسکتا ہے
امام جلال الدین سیوطی :
وعلمك مالم تکن تعلم، وکان فضل الله علیك عظیما
اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے. (سورۃ النساء، 113)
اس آیت کے تحت تفسیر جلالین میں امام جلال الدین سیوطیفرماتے ہیں،
من الحکام والغیب، یعنی احکام اور غیب
ابن حجر قسطلانی رحمة الله عليه :
قد اشتھر وانتشر امرہ صلی الله تعالی علیه وسلم بین اصحابه بالاطلاع علی الغیوب
بے شک صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا کہ نبی ﷺ کو غیبوں کا علم ہے۔
( المواہب اللدنیة ،المقصد الثامن، الفصل الثالث، ۳ /۵۵۴)
النبوأۃ ماخوذۃ من النباء وھو الخبر ای ان ﷲ تعالٰی اطلعه علٰی غیبه
حضور کو نبی اس لیے کہا جاتا ہے کہ ﷲ تعالٰی نے حضور کو اپنے غیب کا علم دیا۔
( المواہب اللدنیہ ،المقصد الثانی، ۲ /۴۵ و ۴۶)
قاضی عیاض رحمة الله علیه
( ھذہ المعجزۃ) فی اطلاعه صلی الله تعالی علیہ وسلم علی الغیب ( المعلومة علی القطع) بحیث لایمکن انکارھا او التردد فیہا لا حدٍ من العقلاء ( لکثرۃ رواتھا واتفاق معانیھا علی الاطلاع علی الغیب) وھذا لا ینافی الاٰیات الدالة علی انه لایعلم الغیب الا ﷲ وقوله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر فان المنفی علمه من غیر واسطة وامّا اطلاعه صلی ﷲ تعالٰی علیه وسلم علیہ با علام ﷲ تعالٰی له فامر متحقق بقوله تعالٰی فلا یظھر علٰی غیبہ احداً الّا من ارتضٰی من رسول._
رسول الله صلی الله تعالی عليه وسلم کا معجزہ علم غیب یقیناً ثابت ہے جس میں کسی عاقل کو انکار یا تردّد کی گنجائش نہیں کہ اس میں احادیث بکثرت آئیں اور ان سب سے بالاتفاق حضور کا علم غیب ثابت ہے اور یہ ان آیتوں کے کچھ منافی نہیں جو بتاتی ہیں کہ ﷲ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا اور یہ کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس کہنے کا حکم ہوا کہ میں غیب جانتا تو اپنے لیے بہت خیر جمع کرلیتا ، اس لیے کہ آیتوں میں نفی اس علم کی ہے جو بغیر خدا کے بتائے ہو اور ﷲ تعالٰی کے بتائے سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو علم غیب ملنا تو قرآن عظیم سے ثابت ہے، کہ ﷲ اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوا اپنے پسندیدہ رسول کے۔
(نسیم الریاض شرح الشفا للقاضی عیاض، ومن ذٰلک ما اطلع علیه من الغیوب ۳ /۱۵۰)
امام زرقانی رحمة الله علیه :
اصحابه صلی الله عليه وسلم جازمون ليش علی الغیب
صحابہ کرام یقین کے ساتھ حکم لگاتے تھے کہ رسول ﷲ صلی الله تعالی عليه وسلم کو غیب کا علم ہے۔
(شرح الزرقانی، علی المواہب الدنیة، الفصل الثالث، ۷ /۲۰۰)
امام ابن حجر مکی رحمة الله تعالى علیه :
انه تعالی اختص به لکن من حیث الاحاطة فلا ینافی ذلک اطلاع الله تعالی لبعض خواصه علی کثیر من المغیبات حتی من الخمس التی قال صلی الله تعالى علیه وسلم فیھن خمس لا یعلمھن الا الله
غیب ﷲ کے لیے خاص ہے مگر بمعنی احاطہ تو اس کے منافی نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے اپنے بعض خاصوں کو بہت سے غیبوں کا علم دیا یہاں تک کہ ان پانچ میں سے جن کو نبی صلی الله تعالی علیه وسلم نے فرمایا کہ ان کو ﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
(افضل القراء القراء ام القرٰی، تحت شعرلک ذات العلوم ۴۴ ۔ ۱۴۳)
ابوعبدالله شیرازی رحمة الله علیه :
مولٰنا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوۃ شریف میں کتاب عقائد تالیف حضرت شیخ ابوعبدﷲ شیرازی سے نقل فرماتے ہیں :
نعتقدان العبدینقل فی الاحوال حتی یصیر الی نعت الروحانية فیعلم الغیب
ہمارا عقیدہ ہے کہ بندہ ترقیِ مقامات پا کر صفتِ روحانی تک پہنچتا ہے اس وقت اسے علمِ غیب حاصل ہوتا ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الایمان الفصل الاول، تحت حدیث ۲، ۱ /۱۲۸)
ملا علی قاری رحمة الله علیه :
تجلی کل شیئ وعرفت
ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے پہچان لی
(جامع سنن الترمذی، حدیث ۳۲۴۶)
علمه صلی الله تعالی علیه وسلم حاو لفنون العلم (الٰی ان قال) ومنہا علمه بالامور الغیبیة
رسول الله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم کا علم اقسام علم کو حاوی ہے غیبوں کا علم بھی علمِ حضور کی شاخوں سے ایک شاخ ہے۔ (الزبدۃ العمدۃ ص ۵۷)
علامہ شامی رحمة الله تعالى علیه :
الخواص یجوزان ان یعلموا الغیب فی قضیة اوقضایا کما وقع لکثیر منھم و اشتھر
جائز ہے کہ اولیاء کو کسی واقعے یا وقائع میں علم غیب ملے جیسا کہ ان میں بہت کے لیے واقع ہو کر مشتہر ہوا۔
(الاعلام بقواطع الاسلام، ص۳۵۹)
امام ابن جریر طبری رحمة الله تعالى علیه :
قال انّک لن تستطیع معی صبرا، وکان رجلا یعلم علم الغیب قد علم ذٰلک
حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے موسٰی علیہ السلام سے کہا : آپ میرے ساتھ نہ ٹھہر سکیں گے۔ خضر علمِ غیب جانتے تھے انہیں علم غیب دیا گیا تھا۔
(جامع البیان، تحت آیة ۱۸/ ۶۷، ۱۵ /۳۲۳)
امام بوصیری رحمة الله تعالى علیه :
فان من جودک الدنیا وضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
یارسول ﷲ ! دنیا و آخرت دونوں حضور کی بخشش سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کا علم، حضور کے علوم سے ایک ٹکڑا ہے۔(مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)
امام نیسابوری رحمة الله تعالى علیه :
ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتے ہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے.
(غرائب القرآن، تحت آلایة ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)
تفسیر انموذج جلیل میں ہے :
معناہ لایعلم الغیب بلادلیل الا ﷲ اوبلا تعلیم الا ﷲ اوجمیع الغیب الاﷲ
آیت کے یہ معنی ہیں کہ غیب کو بلادلیل و بلا تعلیم جاننا یا جمیع غیب کو محیط ہونا یہ اﷲ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے۔
تفسیر غرائب القرآن و رغائب الفرقان میں ہے :
لم ینف الاالدرایۃ من قبل نفسہ وما نفی الدرایۃ من جھۃ الوحی
رسول ﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی ذات سے جاننے کی نفی فرمائی ہے خدا کے بتائے سے جاننے کی نفی نہیں فرمائی۔ (غرائب القرآن (تفسیر النیساپوری) تحت آیۃ ۴۶ /۹ ، ۸ /۲۶ )
تفسیر عنایۃ القاضی میں ہے :
وعندہ مفاتیح الغیب وجہ اختصا صھا بہ تعالٰی انہ لایعلمھا کما ھی ابتداءً الاّ ھو
یہ جو آیت میں فرمایا کہ غیب کی کنجیاں ﷲ ہی کے پاس ہیں اُس کے سوا انہیں کوئی نہیں جانتا اس خصوصیت کے یہ معنی ہیں کہ ابتداء ً بغیر بتائے ان کی حقیقت دوسرے پر نہیں کھلتی۔ (عنایۃ القاضی علٰی تفسیر البیضاوی ،تحت آیتہ ۶ /۵۸، ۴ /۷۳)
تفسیر علامہ نیشاپوری میں ہے
( قل لا اقول لکم ) لم یقل لیس عندی خزائن ﷲ لیعلم ان خزائن ﷲ وھی العلم بحقائق الاشیاء وما ھیاتھا عندہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باستجابۃ دعاء ہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی قولہ ارنا الا شیاء کما ھی ولکنہ یکلم الناس علٰی قدر عقولھم (ولا اعلم الغیب) ای لا اقول لکم ھذا مع انہ قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علمت ماکان وما سیکون
یعنی ارشاد ہوا کہ اے نبی ! فرمادو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالٰی کے خزانے ہیں، یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے خزانے میرے پاس نہیں۔ بلکہ یہ فرمایا کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اللہ کے خزانے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس ہیں مگر حضور لوگوں سے انکی سمجھ کے قابل باتیں فرماتے ہیں، اور وہ خزانے کیا ہیں، تمام اشیاء کی حقیقت و ماہیت کا علم حضور نے اسی کے ملنے کی دعا کی اور اللہ عزوجل نے قبول فرمائی پھر فرمایا : میں نہیں جانتا یعنی تم سے نہیں کہتا کہ مجھے غیب کا علم ہے، ورنہ حضور تو خود فرماتےہیں مجھے ماکان و مایکون کا علم ملا یعنی جو کچھ ہو گزرا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے
(غرائب القرآن تحت آلایۃ ۶ /۵۰، ۷ /۱۱۲)
ذکرناہ فی الاٰیۃ صرح بہ النووی رحمۃ ﷲ تعالٰی فی فتاواہ فقال معناھا لایعلم ذٰلک استقلا لاً وعلم احاطۃ بکل المعلومات الاّ ﷲ تعالی
یعنی ہم نے جو آیاتِ کی تفسیر کی امام نووی رحمۃ ﷲ تعالٰی نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تصریح کی، فرماتے ہیں آیت کے معنٰی یہ ہیں کہ غیب کا ایسا علم صرف خدا کو ہے جو بذاتِ خود ہو اور جمیع معلومات کو محیط ہو۔ ( فتاوٰی حدیثیہ ابن حجر مکی ،مطلب فی حکم مااذا.. الخ، ص ۲۲۸)
تفسیر کبیر میں ہے :
قولہ ولا اعلم الغیب یدل علی اعترافہ بانہ غیر عالم بکل المعلومات
یعنی آیت میں جو نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ کو ارشاد ہوا تم فرمادو میں غیب نہیں جانتا، اس کے یہ معنی ہیں کہ میرا علم جمیع معلومات الہٰیہ کو حاوی نہیں۔ (مفاتح الغیب)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :
پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں
چنانچہ میں (حضور ﷺ) نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی
(اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ ۱ /۳۳۳)
ابن حجر قسطلانی فرماتے ہیں،
ولا شک ان ﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین
اور کچھ شک نہیں کہ ﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا
(المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب ۳ /۵۶۰)