﴿ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ ﴾ ... سورة القلم
آگے کی آیات بھی لکھ دیجئے جناب۔ (مولانا مودودی کے ترجمے سے شکریے کے ساتھ)
- یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں
- ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے
- طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے
- بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے
- اور اَن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے
- اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے
- جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں
آخری آیت کو چھوڑ کر بتائیں کہ یہ ساری "عملی بیماریاں" مسلمانوں کے کس طبقے میں موجود نہیں ہیں؟؟
تمام ہی طبقوں میں یہ بیماریاں پائی جاتی ہیں ، تو پھر کیا تمام طبقے کسی ایک معاملے پر اتحاد و اتفاق کرنا بند کر دیں؟
اور پھر آخری آیت واضح کر دیتی ہے کہ ان آیات میں تخاطب مسلمان سے نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی مسلمان آیات ربانی کو "اگلے وقتوں کے افسانے" بالکل نہیں کہتا۔
آیات مقدسہ کی من مانی شرح سے قطع نظر ، سیدھی سی بات آپ لوگ یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ آپ کا گروہ کسی بھی قسم کی مفاہمت کا قائل نہیں۔ ورنہ تفسیر و تشریح کا اختلاف تو خیر القرون سے بھی ثابت ہے۔