اس لیے حضور پرنور امام الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم کا علم مبارک خداوند کریم کے علم کی طرح قدیم نہیں بلکہ حادث ہے یعنی پہلے نہیں تھا، بعد میں اللہ تعالیٰ کے تعلیم کرنے سے حاصل ہوا۔ خداوند کریم کے علم کی طرح غیر متناہی اور محدود نہیں بلکہ متناہی اور محدود ہے۔ اور اللہ تعالٰ کے علم محیط کے ساتھ حضور فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے علم کی نسبت اتنی بھی نہیں جتنی پانی کے ایک قطرہ کو دنیا بھر کے سمندروں سے ہے۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،
عبداللہ حیدر بھائی جان،
یہ عبارت اگر اسی طرح سے بطور عقیدہ تسلیم کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ میرا بطور متبع کتاب و سنت بھی یہی عقیدہ ہے جو ان سطور میں بیان ہوا۔ باقی باریک باتیں تو اہل علم ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ بس یہ ہے کہ علم غیب کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ہی درست نہیں۔ عطائی تسلیم کیا جائے یا نہ۔ کیونکہ جب موصوف کا اپنا وجود ہی ذاتی نہ ہو تو پھر اس کی کسی صفت میں یہ احتمال کیسے پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ بھی بالذات ہو سکتی ہے۔ یا مثال کے طور پر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطائی طور پر معبود سمجھ لیا جائے کہ بالذات تو اللہ تعالیٰ ہی معبود ہے لیکن اللہ کے عطا کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی معبود ہو گئے ہیں۔ اور یہ صفت معبودیت عطائی، حادث، متناہی اور محدود بھی ہے۔ تو کیا ایسی صفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ماننا شرک ہو جائے گا کہ نہیں؟ لہٰذا جو صفت قرآن نے صرف اللہ تعالیٰ کے لئے بیان کی ہے اور دوسروں سے نفی بھی کی ہے یعنی علم غیب اور صفت معبودیت۔ ان کو ایسی صفات پر قیاس کرنا جن میں غیر اللہ سے نفی ثابت نہیں ، بدیہی طور پر باطل ہے۔اور ایسی اللہ کیلئے خاص صفات میں دوسروں کو عطائی، غیر مستقل ، متناہی اور حادث تسلیم کرنا بھی شرک کے درجہ تک لے جاتا ہے۔
نیز میں نے جو تھوڑا سا مطالعہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں اس عبارت کی تشریح میں اصل اختلاف ہے۔ یعنی بریلوی احباب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ علم غیب اگرچہ عطائی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ قدرت ان کی ذات میں ودیعت کر دی ہے کہ وہ جب چاہیں کسی چیز کو معلوم کر لیں اور ایک مرتبہ یہ علم عطا کر دئے جانے یا یہ صفت ودیعت ہونے کے بعد اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں افعال اختیاریہ کی طرح تصرف کرنے میں مستقل ہیں ۔۔ اور جزئی اشیاء میں وہ اس کے محتاج نہیں ہیں کہ فیضان الٰہی ہو تو ہی انہیں کچھ علم ہو۔۔ جب کہ درست عقیدہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی بہت سی باتیں بتائی گئیں۔ لیکن وہ ان غیب کی باتوں میں وحی الٰہی کے محتاج ہوا کرتے تھے ۔
ہاں اتنا فرق ضرور ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ حادث، عطائی اور محدود علم اتنا محدود نہیں جتنا بعض حضرات نے سمجھ رکھا ہے۔
اب جب یہ حضرات اس محدود علم غیب کے حدود کی تشریح پر اترتے ہیں تو ’اولین و آخرین‘ ، ’جمیع علم ماکان ومایکون‘ ، ’ علم ما فی السّمٰوٰت وما فی الارض‘ کا اثبات کر گزرتے ہیں۔ جبکہ حق بات یہ ہے کہ جمیع ماکان ومایکون کا علم تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم
الا بما شاء میں داخل ہے۔
اور تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس عطائی، محدود، متناہی اور حادث علم کی ان کے نزدیک ایسی اہمیت ہے کہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عالم غیب کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں اور دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم غیب ہونے سے انکار پر کفر کا فتویٰ ہے کہ منکر علم غیب منکر نبی ہے۔
آخری بات یہ کہ چلیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بعض علم غیب پر مطلع ہونے پر اتفاق ہو بھی جائے ، تو بھی بریلوی احباب کے لئے تو یہ نکتہ آغاز ہے۔وہ ان کے لئے علم غیب ثابت کرتے ہیں تو پھر تمام اولیاءاللہ، بزرگان دین، صوفیاء کے لئے بھی لازم سمجھتے ہیں۔ اور کسی کو عالم غیب سمجھے بغیر ولی سمجھنے کا غالباً وہاں کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا۔
مختصراً یہ کہ اس عبارت میں الفاظ خوب احتیاط سے استعمال کئے گئے ہیں۔ اور بے شک یہ عبارت حق ہے لیکن اس سے مراد لیا جانے والا مفہوم جو کہ بریلوی علماء و عوام میں رائج ہے، باطل ہے۔