قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلہ میں قراء ات کو ایک اہم ماخذکی حیثیت حاصل ہے،خاص طورپرمتواتر قراء ات کونظراندازکرناقرآن کے ایک حصہ کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔نیز دومتواترقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں،ان میں سے کسی ایک قراء ت کاانکارقرآن کی آیت کاانکارہے۔اگر دومتواترقراء توں میں تعارض آجائے توان میں سے ایک کوناسخ دوسری کومنسوخ قراردیناممکن نہیں ہے۔اس لئے کہ یہاں نزول میں تقدم یاتاخر معلوم کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔لہٰذا دونوںمیں تطبیق کی صورت نکالناضروری ہوگا۔البتہ شاذقراء ت اگرکسی متواتر قراء ت کے معارض ہوتو اس کوردکردیاجائے گا۔قراء تیں زیادہ ہونا’اختلاف تعدد ‘ہے ۔ ’اختلاف تضاد‘نہیں۔کوئی متواتر قراء ت ایسی نہیں جس سے تضاد لازم آتاہو۔اگرظاہری تعارض ہوتووہ دراصل ’اختلاف تعدد‘ ہے،تاکہ اختصارکے ساتھ ایک ہی آیت کی دوقراء توں سے دومختلف اَحکام ثابت ہوسکیں۔
تفسیر میں قراء ات ِمتواترہ کی قبولیت میں جمہور علماء میں سے کسی کا اختلاف نہیں ملتا۔ البتہ دومختلف المعنی قراء توں میں معنی کی تطبیق کے لحاظ سے ترجیح وغیرہ کارجحان پایاجاتاہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک قابل قبول معنی ہی کسی قراء ت کے قبول ہونے کامعیارہے۔جیساکہ امام ابن جریرطبری(م۳۱۰ھ)کاطرزعمل رہاہے،لیکن جمہور مفسرین نے اس طرزعمل کو ناپسندکیاہے۔بعض علماء نے امام طبری کواس اعتبارسے معذور ماناہے کہ قراء اتِ متواترہ کی تدوین کازمانہ امام طبری کے بعد کاہے ؛لہٰذا امام طبری کے سامنے متواتر وغیرمتواترمیں امتیازکے وہ معیارات نہیں تھے ،جوائمہ قراء ات نے متعین کئے تھے،لیکن بعد کے ادوار میں جب متواتراورغیرمتواترکافرق بالکل ظاہر ہوگیاتوپھر متواترکوشاذکے ساتھ خلط ملط کرکے رد کرنا یااس میں تشکیک پیداکرناعدم علم اورنا واقفیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔