توجیہ ومعنی قراء ات
بعض علماء نے کہا ہے کہ اس جگہ استطاعت سے مراد حکمت وارادہ کا تقاضا ہو سکتا ہے ۔قدرت رکھنے کا مفہوم وارد نہیں ہے۔اللہ کی قدرت میں تو حواریوں کو شک نہیں تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی حکمت وارادہ بھی ایساہو سکتا ہے یا نہیں ،کہ آسمانوں سے خوان نازل فرمادے ۔
بعض علماء نے کہا کہ کلام کا وہی مطلب ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہورہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایمان تھا ، اس وقت تک ان کے دلوں میں معرفت کا استحکام نہیں ہوا تھاکیونکہ جاہلیت اور کفر کا زنامہ ماضی قریب ہی میں ختم ہوا تھا ۔
اور امام کسائی کی قراء ت میں ھل تَسْتَطِیعُ ربَّک آیا ہے ۔یہ عیسیٰ کو خطاب ہے اور ربک مفعول ہے یعنی اے عیسیٰ کیا آپ اپنے رب سے یہ درخواست کردیں گے ؟اور آپ کے لئے یہ دعا کرنے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے؟ اور کیا آپ کا رب آ پ کی یہ درخواست قبول کرے گا ؟
جیساکہ تفسیرمظہری میں ہے:
’’استطاعت کا معنی ( یہاں ) اطاعت ہے ،مان لینا یعنی درخواست کے مطابق کردینا۔‘‘ (تفسیر مظہری :۴؍۹۰،۱)
حضرت علی،حضرت عائشہ،حضرت عبداللہ بن عباس کی بھی یہی قر اء ت ہے(معجم القراء ات القرآنیۃ،۲؍۲۳۸)
اس قراء ت کو اختیارکرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حواری اللہ ( کے رتبہ ) سے خوب واقف تھے ۔(ثناء اللہ پانی پتی :حوالہ مذکور)
اسی لئے حضرت عیسیٰ نے ان کے قول کوبڑی گستاخی قراردیتے ہوئے فرمایا :
’’اِتَّقُوْااللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ‘‘
’’یعنی اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو(اللہ کی قدرت میں شک نہ کرو)۔‘‘ (ایضا)
حضرت تھانویاس کامعنی لکھتے ہیں :
’’ہل تستطیع أن تسأل ربَّک‘‘۔( القرآن،۳؍۷۳)
’’کیاآپ اپنے رب سے سوال کرسکتے ہیں‘‘۔