• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جرح کے بھی چھ مراتب ہیں جن کے الفاظ کی ترتیب درج ذیل ہے:

۱۔ فیہِ مَقَالٌ :
ایسے الفاظ جرح جن میں نرمی ہو یہ ضعف کی انتہائی ہلکی مگر تعدیل کے قریب کی صورت ہے۔جیسے: فِیہِ مَقَال : اس کے بارے میں کچھ اقوال ہیں۔یا فُلَانٌ لَیِّنُ الْحَدیثِ۔ فلان حدیث میں نرم ہے۔یا غَیرُہُ أَوْثَقُ مِنْہُ: دوسرا اس سے زیادہ ثقہ ہے۔متابعت یا شاہد میں اسے تسلیم کیا جاتا ہے اور اگر منفرد ہو تو پھرنہیں۔

۲۔ فُلانٌ لَا یُکْتَبُ حَدیثُہُ:
ایسے الفاظ جو راوی کی عدم کتابت حدیث کی صراحت کردیں۔ جیسے: فُلانٌ لَا یُکْتَبُ حَدیثُہُ۔ فلان سے حدیث نہیں لکھی جاتی۔یا لَا تَحُلُّ الرِّوایةُ عَنْہُ۔ فلاں سے روایت جائز نہیں۔ یا واہٍ بِمَرّةۃٍ۔ وہ تو بہت ہی واہی ہے۔

۳۔ رَدُّوا حَدیثَہُ:
ایسے الفاظ جن میں راوی کے ناقابل حجت ہونے کی صراحت ہو یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ہوں جن سے راوی کا شدید ضعف سامنے آتا ہو۔ جیسے: رَدُّوا حَدِیثَہُ اس کی حدیث علماء نے رد کردی۔ ضَعِیفٌ جِدًا: بہت ہی ضعیف۔یا لَہُ مَنَاکِیْرُ: اس کی بہت سی منکر روایات ہیں۔

۴۔ مُتَّھَمٌ بِالْکَذِبِ:
وہ الفاظ جن کے ذریعے علماء نقد نے راوی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا جیسے: مُتَّھَمٌ بِالکِذْبِ: جھوٹ میں وہ متہم ہے۔ اتَّھَمُوہُ: اسے علماء نے متہم کیا ہے۔ یَسْرُقُ الْحَدیثَ: وہ حدیث چوری کرتا ہے۔یا سَاقِطٌ، مَترُوكٌ، لَیْسَ بِثِقَةٍ وغیرہ۔

۵۔ کَذَّابٌ:
ایسے الفاظ جو راوی کے جھوٹا ہونے کو مبالغہ کی حد تک بتاتے ہوں جیسے: کَذَّابٌ بہت ہی زیادہ جھوٹا، وَضَّاعٌ بہت ہی زیادہ گھڑنے والا۔ یَضَعُ الحدیثَ : وہ حدیث گھڑتا ہے۔یا دَجَّالٌ سب سے زیادہ دھوکہ دینے والا۔

۶۔ أکْذَبُ النَّاسِ:
وہ الفاظ جو راوی کے عادۃ ً جھوٹا ہونے کے بارے میں آگاہ کریں۔ یہ جرح کی انتہائی اعلی قسم ہے۔ جیسے: أکْذَبُ النَّاسِ۔ لوگوں میں سب سے زیادہ جھوٹا۔ رُکْنُ الْکِذْبِ: جھوٹ کا ستون۔یا إِلَیہِ الْمُنْتَھَی فِی الْکِذْبِ۔ جھوٹ کی انتہاء اسی تک ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعارض جرح وتعدیل:
اس کامطلب ہے کہ نقاد محدثین میں سے کچھ نے راوی کی تعدیل کی اور کہا: إنہ ثقة: کہ وہ بلاشبہ ثقہ ہے۔جبکہ کچھ یہ کہہ دیں: إِنَّہُ ضَعِیفٌ: وہ بلاشبہ ضعیف ہے۔

نوٹ:یہ تعارض اس فقہی یا اجتہادی مسئلے کے تعارض سے کم تر ہے جس میں فقہاء کرام عِنْدَہُ، عِنْدَھُمَا کہتے ہیں۔مثلاً: ومُدَّةُ الرَّضَاعَةِ عِنْدَ أَبِی حَنِیفَةَ ثَلٰثُونَ شَھرًا وِعِنْدَھُمَا سَنَتَانِ: مدت رضاعت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک تیس ماہ ہے جبکہ امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک دوسال ہے۔کیونکہ فقہ یا اجتہاد میں قوی دلیل کی ترجیح ہوتی ہے جب کہ جرح وتعدیل میں قوی وضاحت راجح ہوتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعارض کی صورتیں:
علماء نے اس کی چار صورتیں بیان فرمائی ہیں۔
پہلی صورت:
راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل مبہم سی ہو۔یعنی نہ جرح کا سبب بتایا گیا ہو اور نہ ہی تعدیل کا۔اگر کوئی مبہم جرح کو قبول کرنے کا سوچتا ہے تو مبہم تعدیل کو بھی اصولاً وہ رد نہیں کرسکتا۔ ایسے ابہام میں راجح کو قبول کرنا ہی زیادہ مناسب ہے۔مثلاً راوی کو عادل کہنے والا کون ہے اور اس پر جرح کرنے والا کون؟ راوی کی ذاتی معلومات کسی اور سے مل جائیں یا جرح وتعدیل کے اسباب کا علم ہوجائے یا کثرت کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ ابہام دور ہوسکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری صورت:
جرح اور تعدیل دونوں مفسر ہوں ۔یعنی ا ن کے بارے میں جرح اور تعدیل کے اسباب مفصل بیان شدہ ہوں۔ ایسی صورت میں جرح کو قبول کیا جائے گا اس لئے کہ جارح کے پاس علم زیادہ ہے۔ ہاں اگر معدل یہ کہہ دے : مجھے اس جرح کا سبب بھی معلوم ہے مگر وہ اب زائل ہوچکی ہے تو پھر معدل کا قول لیا جائے گا ۔ امام خطیب بغدادی(الکفایۃ: ۱۲۳) میں فرماتے ہیں:
اتَّفَقَ أَھْلُ الْعِلْمِ عَلَی أَنَّ مَنْ جَرَّحَہُ الْوَاحِدُ أَوِ الإِثْنَانِ، وَعَدَّلَہُ مِثْلَ عَدَدِ مَنْ جَرَّحَہُ، فَإِنَّ الْجَرْحَ أَوْلٰی بِہِ۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ جس راوی کو ایک یا دو علماء حدیث جرح کردیں اور اسی طرح اس کی ایک یا دو علماء تعدیل کردیں تو جرح ، تعدیل کی نسبت زیادہ اولیت رکھے گی۔
اس کی علت اور وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وَالْعِلَّةُ فِی ذَلِكَ: أَنَّ الْجَارِحَ یُخْبِرُ عَنْ أَمْرٍ بَاطِنٍ قَدْ عَلِمَہُ، وَیُصَدِّقُ الْمُعَدِّلَ، وَیقولُ لُہُ: قَدْ عَلِمْتُ مِنْ حَالِہِ الظَّاھِرَۃ مَا عَلِمْتَھَا، وَتَفَرَّدْتُّ بِعِلْمٍ لَمْ تَعْلَمْہُ مِنْ اخْتِبَارِ أَمْرِہِ، وَإِخْبارُ الْمُعَدِّلِ عَنِ الْعَدَالَةِ الظَّاھِرَ لَا یَنْفِیْ صِدْقَ قَولِ الْجَارِحِ فِیْمَا أَخْبَرَ بِہِ، فَوَجَبَ لِذَلِكَ أَنْ یَکُونَ الْجَرْحُ أَوْلٰی مِنَ التَّعْدِیْلِ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جارح ایک اندرونی معاملے کی خبر دے رہا ہوتا ہے اور معدل کی تصدیق کررہا ہوتا ہے۔اور گویا وہ اسے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ تم نے اس کے بظاہر حال کو جانا اور کہا اور میں نے اس کے بارے میں وہ جانا جو تم نہ جان سکے۔ معدل کی اس ظاہری عدالت کی خبر کا یہ مطلب نہیں کہ وہ جارح کی معلومات کی نفی کررہا ہے۔ اس لئے جرح ، تعدیل سے اولی ہوگی۔

علمائے حدیث اس مبہم جرح کو قبول کرنے سے گریزاں ہیں جو تعدیل سے متعارض ہو۔ ہاں جب جرح، مفسر اور سبب کو واضح کرے تو پھروہ تعدیل پر اسے مقدم رکھتے ہیںکیونکہ جارح مجروح کے اس حال کی خبر دے رہا ہوتا ہے جو وہ جانتا ہے اور یہ بلاشبہ معدل کے قول سے زائد ایک علم ہے۔ علماء حدیث بعض اوقات راویوں پر ایسی جرح کردیتے ہیں جو اصولاً ان کی روایت کو رد نہیں کرتی اس لئے جرح کا مفسر قبول کرنا اولی ہے۔ ابنؒ الصلاح(مقدمہ علم الحدیث: ۱۰۶) میں لکھتے ہیں:
وأمَّا الْجَرْحُ فَإِنَّہُ لَا یُقْبَلُ إِلَّا مُفَسَّرًا أَو مُبَیِّنَ السَّبَبِ، لِأَن َّالنَّاسَ یَخْتَلِفُونَ فِیْمَا یُجَرَّحُ، فَیُطْلِقُ أَحَدُھُمْ الْجَرْحَ بِنَاءً عَلَی أَمْرٍ اعْتَقَدَہُ جَرْحًا، وَلَیْسَ بِجَرْحٍ فِی نَفْسِ الاَمْرِ، فَلَا بُدَّ مِنْ بَیَانِ سَبَبِہِ، لِیَنْظُرَ فِیہِ أَھُوَ جَرْحٌ أَمْ لَا؟ رہی جرح، تو وہ مفسر اور سبب کو بیان کرنے والی ہی قبول کی جائے گی۔کیونکہ علماء جرح کرنے میں مختلف ہیں ان میں سے کوئی ایسی چیز کے بارے میں جرح کردیتا ہے جو اس کے نزدیک تو جرح ہے مگر حقیقت میں وہ جرح نہیں ہوتی۔اس لئے یہ جاننا کہ آیا یہ جرح بھی ہے یا نہیں؟ سبب کی وضاحت ہونا ضروری ہے۔
مثال: امام شعبہؒ نے ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس کی روایت یہ کہتے ہوئے ترک کردی کہ وہ اچھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔اور جو کتاب ہشیم ؒنے ان سے سنی تھی شعبہ ؒنے اسے بھی پھاڑ ڈالا تھا۔اور اپنے شاگرد رشید سوید بن عبدالعزیز کو منع کردیا کہ ان سے حدیث اخذکریں۔امام طیالسیؒ نے شعبہ ؒسے روایت کرتے ہوئے لکھا ہے: دنیا میں اس سے بہتر کچھ نہ لگتا تھا کہ میں ابوالزبیر سے سوال کروں۔ میں اس غرض کے لئے مکہ آیا۔ میں بیٹھا ہوا تھا کہ محمدکے پاس ایک شخص آیا ۔ اس نے کچھ پوچھا ۔محمد نے جو جواب دیا تو اس میں خوامخواہ کا الزام بھی لگا دیا۔ کسی نے کہا: ابو الزبیر! کیا تم ایک مسلمان پر الزام لگاتے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا: اس نے مجھے غصہ جو دلایا۔ شعبہؒ کہتے ہیں تومیں نے اس پر انہیں کہا: کیا مطلب جو آپ کو غصہ دلائے آپ اس پر الزام لگادیں گے؟ میں تو آپ سے کچھ بھی روایت نہیں کروں گا۔
نوٹ: علماء حدیث کا کہنا ہے کہ شعبہؒ نے جو جرح کی وہ کسی خاص وجہ سے تھی جب کہ ابو الزبیر کا ضبط ایک دوسری شے ہے جس کا انکار کسی کو بھی نہیں۔مزید علماء نے ان کی تعدیل فرمائی ہے اور شیخین نے ابو الزبیر کی احادیث کو روایت کیا ہے۔ پھر دوسری طرف امام شعبہ ؒ نے جابر بن یزید جعفی جیسے رافضی کی توثیق کی ہے: صَدُوقٌ فِی الْحَدیثِ۔ اور کبھی کہا : إِذَا قَالَ حَدَّثَنَا فَھُوَ أَوْثَقُ النَّاسِ۔ جب کہ اس کے بارے سب جانتے ہیں کہ وہ واہی تباہی انسان تھا، جھوٹ بولتا تھا، یہ جرح مفسر باور کراتی ہے کہ ان علماء کو جعفی کے عقائد وعدالت اور اس کے ضبط کے بارے میں جو کچھ علم ہوسکا وہ امام شعبہ کو نہیں ہوسکا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری صورت:
تعدیل مبہم اور جرح مفسر ہو۔ ایسی صورت میں جرح قبول کرلی جائے گی وجہ یہ ہے کہ جارح کے پاس معدل سے زائد علم ہے۔

چوتھی صورت:
جرح مبہم ہو اور تعدیل مفسر۔ یہاں تعدیل کو لے لیں گے اور جرح کو رہنے دیں گے۔

نوٹ: ان چار صورتوں کے بعد بھی ایک یہ صورت ہوسکتی ہے کہ جب ایک راوی کے بارے میں جرح مفسر اورتعدیل میں تعارض ہو تو کسی ایک کو دوسرے پربالکل ترجیح نہ دی جائے بلکہ ایسی صورت میں معدل اور جارح کے مقام ومرتبہ، تجربہ ومہارت کو پرکھا جائے ۔ پھر ان حالات وواقعات اور الفاظ واسباب پر غور کیا جائے جن کی بناء پر ان حضرات سے راوی کے بارے میں ایسے تنقیدی الفاظ ادا ہوئے۔ ورنہ احتیاطاً ترجیح، جرح کو ہی دی جائے۔ الغرض ایک راوی کے بارے میں اگر تعدیل وتجریح میں تعارض ہو تو علماء کے اس بارے میں تین اقوال ہیں:

۱۔ جرح کو تعدیل پر مقدم کریں گے خواہ معدلین کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ (الکفایۃ: ۱۷۷، ارشاد الفحول:۶۸)
۲۔ اگر معدلین زیادہ ہوں تو تعدیل کو جرح پر مقدم کیا جائے گا۔ یہ قول ضعیف ہے۔(الکفایۃ:۱۷۷، المحصول: ۴،۴۱۱)
۳۔ جرح وتعدیل میں ایسا تعارض ہو کہ کسی کو بھی دوسرے پر مرجح کے بغیر ترجیح نہ دی جاسکے۔(شرح الفیۃ العراقی: ۱، ۳۱۲)
جس راوی کے بارے میں کوئی جرح یا تعدیل صادر نہ ہوئی ہو مگر شیخین یا ان میں سے کسی ایک نے اس سے احتجاج کیا ہو تو ایسا راوی ثقہ ہوگا۔

ایسی جرح کو قبول کرنے میں توقف کیا جائے جس کا سبب عقیدہ میں اختلاف ہو یا معاصرین کی باہمی منافست ہو۔

رہی یہ بات کہ ایک ہی راوی کے بارے میں ایک ہی امام حدیث کے اقوال میں تعارض ہو اس وقت کیا کرنا چاہئے؟ اس کے لئے ہم اوپر لکھ آئے ہیں اور مزید تفصیل کے لئے فتح المغیث اور قواعد فی التحدیث کا مطالعہ کرنا ہوگا ۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مصادر کتاب

۱۔ الباعث الحثیث از امام ابن کثیرؒ
۲۔ تدریب الراوی از امام سیوطیؒ
۳۔ میزان الاعتدال از امام ذہبیؒ
۴۔ تذکرۃ الحفاظ از امام الذہبی
۵۔ سِیَرُ أَعْلامِ النُّبَلَاءِ از امام ذہبی
۶۔ کفایۃ الحفظۃ شرح المقدمۃ الموقظۃ از ابو اسامۃ الہلالی
 
Top