• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
علماء اور کتب:
اس علم میں جو علماء مشہور ہوئے وہ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں اس لئے کہ یہ علم ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اس علم کو انتہاء تک پہنچانے والے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ( م: ۲۴۱ھ) تھے۔ الحمد للہ امت تک افراد کے بارے میں ایک نصیحت آمیز گفتگو اور پیمانہ پہنچانے کا حق قرون اولی کی ان سعید روحوں نے ادا کردیا۔ جَزَاھُمُ اللہُ عَنَّا أَحْسَنَ الْجَزَاءِ۔ آمین۔ چند علماء جرح وتعدیل کے نام درج ذیل ہیں:

امام سفیان ثوری ، امام مالک(م: ۱۷۹ھ)،
عبد اللہ بن المبارک(م: ۱۸۱ھ)،
سفیان بن عیینہ(م: ۱۹۷)،
عبد الرحمن بن مہدی(م: ۱۹۸ھ)،
علی بن المدینی(م: ۲۳۴ھ)،
امام بخاری(م: ۲۵۶ھ)،
ابوزرعہ الرازی(م: ۲۶۴ھ)،
امام نسائی(م:۳۰۳ھ)،
ابن ابی حاتم الرازی(م: ۳۲۷ھ)،
دارقطنی(م: ۳۸۵ھ)،
ابوالحجاج المزی(م: ۷۴۳ھ)
امام ذہبی(م: ۷۴۸ھ)
اور ابن حجر(م: ۸۵۲ھ) رحمہم اللہ

٭…ان میں اکثر بزرگوں کی کتب بھی مطبوع ہیں۔ مگر ان سب کا تفصیلی اور تنقیدی خلاصہ دو چارمؤلفین کی کتب میں سمو دیا گیا ہے۔جن میں بطور خاص امام بخاریؒ کی کتب : التاریخ الکبیر، الوسیط اور الصغیر میں، ابنؒ ابی حاتم کی: تقدمۃ الجرح والتعدیل میں، الو الحجاج المزی کی کتاب: تھذیب الکمال ۳۵مجلد میں، امام ذہبیؒ کی کتب: سیر اعلام النبلاء، تذکرۃ الحفاظ اور میزان الاعتدال میں، امام ابن حجر عسقلانیؒ کی کتب: تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب اور امام ذہبیؒ کی کتاب میزان پر ان کا استدراک بہ نام: لسان المیزان میں۔ یہ سب کتب علم جرح وتعدیل کے اساسی مصادر اور مراجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جرح:
عربی میں عیب یا خرابی کو یا زخم کے نشان کو کہتے ہیں۔جراح بھی اسی سے ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں جرح: راوی کی ایسے الفاظ سے تنقید کرنا کہ اس کی شخصیت سے عدالت اور ضبط کا پہلوگم نظرآئے۔ ایسے الفاظ سے اس کی روایت رد ہوجاتی ہے مثلاً یہ کہا جائے: ھُوَ کَذَّابٌ۔ وہ جھوٹا ہے۔ أَو فَاسِقٌ: یا وہ فاسق ہے۔یا لَیْسَ بِثِقَةٍ، وہ ثقہ نہیں ہے۔ لَا یُعْتَبَرُ قابل اعتبار نہیں۔ لَا یُکْتَبُ حَدِیثُہُ اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جارح:
ایک ماہر ، منصف اور بے لاگ بات کرنے والا محدث جو کسی راوی کی علمی ، بدعملی، اور اس کی عدالت وضبط کی کمزوری کو بخوبی جان کر اسے ناقابل قبول قرار دے،جارح کہلاتا ہے۔یہ تین قسم کے ہیں:
۱۔ متشدد ۲۔معتدل ۳۔ متساہل
۱۔متشدد:
بہت ہی سختی کرنے والے علماء میں امام یحییٰ بن سعید القطان، شعبہ بن الحجاج، سفیان ثوری، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ تھے۔ ان کی مجبوری یہ تھی کہ ان کے دور میں مفتون ومبتدع قسم کے لوگ اپنی بدعقیدگی سمیت میدان روایت حدیث میں گھس رہے تھے۔اس لئے انہوں نے بغیر کسی رو رعایت کے ان کے معائب اور خرافات کا پردہ چاک کرکے انہیں نااہل قرار دیا۔

۲۔ معتدل:
ان علماء میں عبد الرحمن بن مہدی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری ؒ جیسے زیرک علماء تھے۔ ان کے دور میں جن مفتون ومبتدع اور نااہل حضرات نے میدان حدیث کا رخ کیا تو انہوں نے بہت ہی مختصر ومعتدل مگر جامع اور دھیمے الفاظ میں جرح کی جو سخت ترین نقدوجرح سمجھی گئی۔

۳۔ متساہل:
علماء میں ابن حبان، اور امام حاکم جیسے علماء کو شامل کیا گیا ہے گو ان کا تساہل بہت کم رواۃ واحادیث میں ملتا ہے۔ چونکہ وہ نقطہ اعتدال سے ذرا ہٹ گئے تھے اس لئے ضعیف راوی کے حق میں ان کی توثیق قبول نہیں کی گئی۔

ان تینوں علماء کی جرح وتعدیل میں کس طرح امتیاز کیا جائے؟ اس کے لئے قاعدہ یہ بنایا گیا کہ اگر متشدد کی نقد کی تائید کوئی معتدل کرتا ہے تو سرآنکھوں پر ورنہ معتدل کی جرح ہی مقبول ہوگی ۔ رہے متساہل ان کے ساتھ بھی معاملہ اسی طرح کا ہے کہ اگر متساہل سے معتدل موافقت نہیں کررہا تو معتدل کی جرح ہی قبول ہوگی نہ کہ متساہل کی۔ توثیق راوی میں بھی یہی قاعدہ چلے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقسام:
جرح دو قسم کی ہوتی ہے مطلق اور مقید

مطلق:
راوی پر کسی پابندی کے بغیر آزاد جرح ہو۔جو راوی کی بہر حال ایک برائی بن جاتی ہے۔

مقید:
راوی پر جرح کسی معین شے کی ہو۔ مثلاً کسی شیخ یا گروہ کی طرف نسبت کی وجہ سے۔ ایسی جرح اس کے خلاف ایک برائی تصور ہوتی ہے۔جیسے: تقریب میں امام ابن حجر رحمہ اللہ کا زید بن الحباب کے بارے میں یہ کہنا: صَدُوقٌ یُخْطِئُ فِی حَدِیثِ الثَّورِیِّ۔ یہ سچے ہیں مگر امام ثوریؒ کی روایت میں خطا کرجاتے ہیں۔ جب کہ ان سے امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم میں روایت کی ہے۔اسی طرح الخلاصة کے مصنف کا اسماعیل بن عیاش کے بارے یہ کہنا:

وَثَّقَہُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَعِینٍ وَالْبُخاریُّ فِی أَھلِ الشّامِ، وَضَعَّفُوہُ فیِ الْحِجَازِیِّیْنَ، فَیَکُونُ ضَعیفًا فِی حَدیثِہِ عَنِ الْحِجَازِیِّیْنَ دُونَ أَھْلِ الشامِ، وَمِثْلُ ذَلِكَ إذَا ِقیلَ ھُوَ ضَعیفٌ فِی أَحادیثِ الصِّفاتِ مَثَلًا قَد یکُونُ ضَعِیفًا فِی رِوایةِ غَیرِھَا۔ امام احمد، ابن معین اور بخاری نے اہل شام میں انہیں ثقہ گردانا ہے اور اہل حجاز میں ضعیف۔ لہٰذا وہ اہل حجاز سے روایت کردہ حدیث میں ضعیف ہوں گے نہ کہ اہل شام سے۔اسی طرح مثلاً جب یہ کہا جائے: احادیث صفات میں وہ ضعیف ہیں۔ تو کسی اور روایت میں بھی وہ ضعیف ہوسکتے ہیں۔

مگر جب مقید جرح کا مقصد یہ ہو کہ اس سے راوی کی توثیق کے دعوی کو اسی مقید جرح کے ذریعے غلط ثابت کیا جائے تو پھر وہ راوی کسی اور روایت میں ضروری نہیں کہ ثقہ ہو بلکہ وہاں بھی ضعیف ہو سکتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جارح کے لئے شروط:
جرح کرنے والے کے لئے پانچ شرطیں عائد کی جاتی ہیں:

۱۔ جرح ایک عادل شخص کی طرف سے ہو۔فاسق جارح کی جرح قبول نہ ہوگی۔
۲۔ جرح ایسے شخص کی طرف سے ہو جو بیدار مغز ہو نہ کہ غفلت کا شکار ۔ اس کی جرح قبول نہ ہوگی۔
۳۔جو عالم جرح کے اسباب کو جانتا ہو اس کی یہ جرح ہو۔ مگرجو خرابیوں کو نہ جانتا ہو اس کی جرح ناقابل قبول ہوگی۔
۴۔ جرح کرنے والا جرح کا سبب بھی بیان کرے۔ مبہم جرح قبول نہ ہوگی۔ مثلاً صرف وہ یہ کہہ دے: ھُوَ ضَعیفٌ: وہ ضعیف راوی ہے یا یُرَدُّ حَدِیثُہُ: اس کی حدیث رد کی جاتی ہے کیونکہ یہ سبب بتائے بغیرکی جرح ہے۔اس لئے کہ ہوسکتا ہے وہ اسے ایسے سبب کی بناء پر جرح کررہا ہو جو جرح کاتقاضا ہی نہ کرتا ہو۔محدثین کے ہاں یہی قاعدہ مشہور ومعروف ہے۔ امام ابن حجرؒ نے مبہم جرح قبول کرنے کا لکھا ہے۔ ہاں جو راوی عادل ہو تو اس پر جرح سبب جرح بیان کرنے پر ہی قبول کی جائے گی ۔یہی راجح قول ہے اورجارح بھی ائمہ جرح وتعدیل میں سے ہو۔اس لئے عمرو بن علی الفلاس کی محمد بن بشار بندار پر جرح جو بغیر سبب کے ہے قبول نہیں کی گئی۔
۵۔ یہ جرح ایسے علماء وائمہ پر نہ ہو جن کی عدالت تواتر سے اور امامت شہرت کی حد سے متجاوز ہو چکی ہو۔ جیسے: نافع، شعبہ، مالک وبخاری رحمہم اللہ پر کسی کی جرح ۔ ایسے علماء وائمہ پر جرح سورج پر تھوک پھینکنے کے مترادف ہے۔یہ جرح خواہ مفسر ہی کیوں نہ ہو بالکل قبول نہیں ہوگی۔اس کی روایت کردہ حدیث بھی صحیح درجے کی ہوگی نہ کہ حسن درجے کی۔معاصرت بھی منافرت کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے بقول امام السبکی : ابن ابی ذئب کی امام مالک پر ، ابن معین کی امام شافعی پر، نسائی کی احمد بن صالح پر جو جرح ہے وہ ناقابل التفات ہے۔یہ جرح ایک انجانی سی اطلاع کی طرح ہے۔ کیونکہ یہ سب مشہور ائمہ ہیں۔ اگر یہ جرح صحیح بھی ہو تب بھی بہت سی اور معلومات درکار ہوں گی جو نتیجۃً اس خبر کو غیر درست ہی ثابت کریں گی۔(طبقات الشافعیہ الکبری ۲؍۱۲)

اسی طرح امام ابن حزمؒ نے امام ترمذیؒ ، ابو القاسم البغویؒ، اسماعیل بن محمد الصفارؒ اور ابوالعباس الاصمؒ کو مجہول کہا ہے۔ اس جرح پر نقاد محدثین نے ابن حزم ؒ پر خاصی لے دے کی ہے۔ ان کی مزید مثالیں دیکھنا ہوں تو امام ابن حجر ؒ کے مقدمہ ہدی الساری کا مطالعہ مفید رہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعدیل:
عربی میں عدل معاملات میں اعتدال ومیانہ روی کو کہتے ہیں۔ اس کا متضاد جور ہے۔
اصطلاح میں تعدیل : راوی کی شخصیت کا ایک تزکیہ ہے کہ وہ ایک عادل وضابط راوی ہے۔یہ تزکیہ تحقیق حال کے بعددیا جاتا ہے۔
مثلاً : ضَابِطٌ، ثِقَةٌ، مُتْقِنٌ، یا أَوْثَقُ النَّاسِ وغیرہ۔ ان الفاظ میں راوی کے ضبط کے صحیح ہونے یا اس کی عدالت میں استقامت کی خوبی کو بیان کیا گیا ہے۔یہی اس کی تعدیل ہے۔ یوں توثیق کے بعدایسے راوی کی روایت مقبول ہوجاتی ہے۔ یہ توثیق راوی کے تمام احوال جاننے کے بعد ایک محدث کبیر کرتا ہے تاکہ راوی کی روایت قبول کی جائے۔اسے حجت بنایا جائے اور اسے روایت بھی کیا جائے۔

عدالت ، سے مراد عدل کو لازم کرنا ہے۔ جو فرض کی ادائیگی، حرام سے اجتناب اور اپنی روایت کو بخوبی یاد رکھنا کو کہتے ہیں۔ذیل کی چند خوبیاں راوی میں عدل کو ثابت کرتی ہیں:

اسلام:
راوی مومن صادق ہو، منافق، مشرک، کافر نہ ہو یا برے عقیدے وعمل کی وجہ سے کافر نہ قرار دیا گیا ہو۔

عقل:
راوی میں جنون نہ ہو، دہ بہکی بہکی باتیں کرنے والا نہ ہو۔بلکہ اس کی عقل سلامت ہو۔

بلوغ:
راوی ایسا بچہ نہ ہو جو تمیز نہ کرسکے۔ اور بالغ بھی ہو۔

صدق:
اپنے لہجے میں بھی سچا ہو اور امین ہو۔ حدیث رسول میں یا لوگوں کے ساتھ باتوں میں وہ جھوٹا نہ ہو۔

تقوی:
راوی خداخوفی سے ہر وقت سرشار ہو۔اخلاق حسنہ اور عادات جمیلہ سے مزین ہو۔فاسق کی صفات سے وہ بری ہو۔

شہرت:
طلب حدیث اور اس کی روایت میں معروف ہو۔ اس کے ایسے ثقہ مشایخ ہوں جنہوں نے اس کی توثیق کی ہو۔اور ایسے شاگرد ہوں جو اس سے روایت میں بھی جانے پہچانے ہوں۔ راوی مجہول العین ہو نہ مجہول الحال۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
معدل کی شروط:
معدل کے لئے درج ذیل شروط لکھی گئی ہیں:

۱۔ معدل خود عادل ہو۔ فاسق نہ ہو۔ ورنہ اس کی تعدیل قبول نہ ہوگی۔
۲۔ معدل خود بیدار مغز ہو ، اگر غافل ہے تو راوی کے ظاہری حالات سے دھوکہ کھا سکتا ہے۔
۳۔ معدل اسباب تعدیل کی معرفت رکھتا ہو۔جو صفات قبول ورد کو نہ جانتا ہو اس کی تعدیل صحیح نہیں۔
۴۔ متقی اور پر ہیز گار ہو۔ ورنہ وہ تعصب اور خواہشات نفس سے باز نہیں رہے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جرح وتعدیل کے قاعدے:

۱۔ تمام صحابہ عادل ہیں۔اس لئے ان پر جرح نہیں ہوگی۔اس لئے کہ وہ سب اللہ تعالی کی طرف سے{اُولٰىِٕكَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ}کا اعزازپانے کے بعدعادل ہیں۔
۲۔ جس راوی کی تعدیل وتوثیق پر اجماع ہوچکا ہے اس پر کسی قسم کی جرح قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسے امام مالک، امام شافعی، امام احمد ، اور امام بخاری ومسلم رحمہم اللہ کی ذات ہے۔
۳۔ ثقہ، متقن اور اسباب جرح وتعدیل کی صحیح معرفت رکھنے والے کی جرح یا تعدیل قبول کی جائے گی۔
۴۔ راوی کے تزکیہ دینے والوں کی معین تعدادشرط نہیں بلکہ ایک مزکی بھی اس کے عادل ہونے کی شہادت دے سکتا ہے۔ یہ واضح رہے کہ شہادت دینے اور روایت کرنے میں اور ان دونوں کی شرائط میں فرق ہے۔
۵۔ محض کسی ثقہ راوی سے کسی راوی کا روایت کرنا اس راوی کے عادل ہونے کی دلیل نہیں۔
۶۔ جرح بغیر ذکر سبب قبول کی جاسکتی ہے بشرطیکہ جارح خود ایک ثقہ، پسندیدہ اور اسباب جرح کی معرفت رکھتا ہو۔کچھ علماء کے ہاں جرح بغیر سبب بتائے قبول نہیں ہوسکتی۔
اس کی دو صورتیں ہیں:
أ۔راوی کا ایک عیب بیان کردینا ہی کافی ہے جو مشکل کام نہیں۔ جب کہ کسی کے مناقب بیان کرنے میں تفصیلات درکار ہوتی ہیں۔
ب۔اسباب جرح مختلف لوگوں کے ہاں مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس لئے جارح صرف وہی سبب بیان کرے جو راوی کو مجروح بناتا ہو۔اس طرح اسے ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ جلد اور بآسانی ہوسکے گا۔
۷۔کسی حدیث کے موافق کسی عالم کا عمل یا اس کا فتوی حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں اور نہ ہی اس کے راوی کی توثیق ہوا کرتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مراتب جرح وتعدیل:

متقدم علماء نے اپنے اپنے دور میں جرح وتعدیل کے جو مراتب قائم کئے انہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ رجال حدیث کی تحقیق وتنقید کا سلسلہ کہیں یا کسی زمانہ میں تھما نہیں بلکہ اس میں مزید تنقیح وتہذیب ہوتی رہی ہے۔ امام ابن ابی حاتم، حافظ ذہبی ؓ امام ابن الصلاح، امام نووی، حافظ عراقی وغیرہ نے اپنی رجال حدیث کے ستونوں کے تنقیدی الفاظ کو اپنی تنقیحات میں مرتب کرکے جرح وتعدیل کے معتدل میزان قائم کئے۔جنہیں امام ابن حجر رحمہ اللہ نے التقریب کے مقدمہ میں بہت احسن طریقے سے مزید نکھارا اورمرتب کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعدیل کے چھ مراتب ہیں۔ جن کی ترتیب یہ ہے:

۱۔ أوثق الناس:
توثیق راوی کے لئے ایسے لفظ کا استعمال جو انتہائی اعلی ہو۔یا افعل التفضیل ہو یعنی أفعل کے وزن پر وہ لفظ آئے۔ جیسے: أَوْثَقُ النَّاسِ لوگوں میں سب سے زیادہ ثقہ انسان۔ أَضْبَطُ الناسِ: سب سے زیادہ ضابط، فُلَانٌ إِلَیْہِ الْمُنْتَھَی فِی الَّتَثَبُتِ: فلاں راوی پر ثقاہت ختم ہے۔تعدیل کے لئے یہ الفاظ راوی کے سب سے اعلی معیار عدالت کو واضح کرتے ہیں۔اسی سے ملتے جلتے یہ الفاظ بھی ہیں: فَلانٌ لَا یُسْأَلُ عَنہُ ! فلاں ! اس کے بارے میں پوچھاہی نہیں جاسکتا۔ یا فُلانٌ لَا یُسْأَلُ عَنْ مِثْلِہِ۔ فلان! اس جیسے کے بارے میں نہیں پوچھا جاسکتا۔

۲۔ ثقة ثقة :
توثیق کے لئے ایک ہی صفت یا اس سے ملتی جلتی صفت کو دوسری بار بیان کرکے اس پر مزید زوردار اور پختہ تر کیاجاتا ہے۔ جیسے: ثِقَةٌ ثِقَةٌ ، یا ثِقَةٌ ثَبْتٌ۔

۳۔ ثقة ، حُجَّةٌ:
ایسا توثیقی لفظ جو عدالت وضبط دونوں کی گواہی دے رہا ہو مگر اس میں تاکید نہ ہو جیسے: ثقۃ، یا حجۃ وغیرہ۔ امام ابن معین اگر لا بَأسَ بِہِ کے ریمارکس کسی کے بارے میں دیں تو یہ طے شدہ امر ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ ہے۔

۴۔ صَدُوق:
ایسے الفاظ جو راوی کی تعدیل تو کریں مگر اس کے مکمل ضبط کی شہادت نہ دیں۔ جیسے: صَدُوقٌ، مَأمونٌ، لَا بَأسَ بِہِ، صَدُوقٌ إِنْ شاءَ اللہُ یا مَحَلُّہُ الصِّدْقُ وغیرہ۔اس کی حدیث حسن کہلاتی ہے۔

۵۔ فلان شیخ:
ایسے الفاظ جس میں راوی کی توثیق معلوم ہو نہ تجریح۔ جیسے: فُلَانٌ شَیْخٌ یا رَوَی عَنہُ النَّاسُ۔ ان دو (۴،۵) راویوں کو بطور اعتبار لیا جاتا ہے۔

۶۔صالح الحدیث:
وہ لفظ جو تعدیل کی بجائے جرح کے قریب کا معنی محسوس کرائے۔ جیسے: صَالِحُ الْحَدیثِ، یا یُکْتَبُ حدیثُہ۔ صُوَیْلِحٌ۔
 
Top