کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
سبق 3: حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات
حدیث کو پرکھنے کے اس طویل طریق کار پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
حدیث کی چھان بین کی ضرورت کیا ہے؟
ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اتنی چھان بین اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے اہل علم اس معاملے میں اتنے زیادہ کنزرویٹو کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا کی چیزوں کے بارے میں ہمارا عام رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے محض دو چار روپے کی کوئی چیز لینا ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہمیں چند ہزار روپے کی چیز درکار ہو تو ہم خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں ، دکاندار کی حیثیت کو اچھی طرح دیکھتے ہیں، کئی دکانداروں سے قیمت معلوم کرتے ہیں ، چیز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس پر بھی گارنٹی وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر اس چیز کی قیمت کروڑوں روپے میں ہو تو پھر تو آخری درجے کی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے ، ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت باقاعدہ قانونی معاہدے بھی کئے جاتے ہیں جس میں ہر پہلو کو تفصیل سے دیکھا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کسی بات کو منسوب کرنا ان سب چیزوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی حدیث کو آپ سے غلط طور پر منسوب کرنے کے سنگین نتائج دنیا و آخرت میں نکل سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے دین کے نام پر بہت سی گمراہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ بہت سے ایسے گمراہ کن فرقے پیدا ہوئے ہیں جو قرآن اور سنت متواترہ کے قلعے میں تو کوئی نقب نہیں لگا سکے لیکن جعلی احادیث کے ذریعے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے عقائد و نظریات کو زبردستی دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سلسلے میں انتہا درجے کی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حدیث کی چھان بین کا طریقہ مشکل اور طویل کیوں ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اتنا طویل اور مشکل پروسس ہر شخص تو نہیں اپنا سکتا۔ ایک عام آدمی اس سلسلے میں کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم احادیث کی چھان پھٹک (Evaluation) کا یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔ یہ اتنا فنی کام ہے کہ اسے اس کے ماہرین ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی عام انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میڈیکل سائنس کے ماہرین سے صرف نظر کرکے وہ خود ہی دوسروں کا علاج کرنا شروع کردے اسی طرح اس فن کے بارے میں بھی یہی اصول ہے کہ اس کے سلسلے میں ماہرین ہی پر اعتماد کیا جائے۔ کسی حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف کی صورت میں اسے قبول نہ کرنا احتیاط کے زیادہ قریب ہے۔
حدیث کو پرکھنے کے اس طویل طریق کار پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
حدیث کی چھان بین کی ضرورت کیا ہے؟
ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اتنی چھان بین اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے اہل علم اس معاملے میں اتنے زیادہ کنزرویٹو کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا کی چیزوں کے بارے میں ہمارا عام رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے محض دو چار روپے کی کوئی چیز لینا ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہمیں چند ہزار روپے کی چیز درکار ہو تو ہم خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں ، دکاندار کی حیثیت کو اچھی طرح دیکھتے ہیں، کئی دکانداروں سے قیمت معلوم کرتے ہیں ، چیز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس پر بھی گارنٹی وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر اس چیز کی قیمت کروڑوں روپے میں ہو تو پھر تو آخری درجے کی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے ، ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت باقاعدہ قانونی معاہدے بھی کئے جاتے ہیں جس میں ہر پہلو کو تفصیل سے دیکھا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کسی بات کو منسوب کرنا ان سب چیزوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی حدیث کو آپ سے غلط طور پر منسوب کرنے کے سنگین نتائج دنیا و آخرت میں نکل سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے دین کے نام پر بہت سی گمراہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ بہت سے ایسے گمراہ کن فرقے پیدا ہوئے ہیں جو قرآن اور سنت متواترہ کے قلعے میں تو کوئی نقب نہیں لگا سکے لیکن جعلی احادیث کے ذریعے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے عقائد و نظریات کو زبردستی دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سلسلے میں انتہا درجے کی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حدیث کی چھان بین کا طریقہ مشکل اور طویل کیوں ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اتنا طویل اور مشکل پروسس ہر شخص تو نہیں اپنا سکتا۔ ایک عام آدمی اس سلسلے میں کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم احادیث کی چھان پھٹک (Evaluation) کا یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔ یہ اتنا فنی کام ہے کہ اسے اس کے ماہرین ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی عام انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میڈیکل سائنس کے ماہرین سے صرف نظر کرکے وہ خود ہی دوسروں کا علاج کرنا شروع کردے اسی طرح اس فن کے بارے میں بھی یہی اصول ہے کہ اس کے سلسلے میں ماہرین ہی پر اعتماد کیا جائے۔ کسی حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف کی صورت میں اسے قبول نہ کرنا احتیاط کے زیادہ قریب ہے۔