• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علوم الحدیث: ایک تعارف

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبق 3: حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات
حدیث کو پرکھنے کے اس طویل طریق کار پر کچھ سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔
حدیث کی چھان بین کی ضرورت کیا ہے؟
ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ اتنی چھان بین اور تفصیلی تحقیق کی ضرورت کیا ہے؟ ہمارے اہل علم اس معاملے میں اتنے زیادہ کنزرویٹو کیوں ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس دنیا کی چیزوں کے بارے میں ہمارا عام رویہ کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ اگر ہم نے محض دو چار روپے کی کوئی چیز لینا ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے میں زیادہ احتیاط نہیں کرتے۔ لیکن اگر ہمیں چند ہزار روپے کی چیز درکار ہو تو ہم خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں ، دکاندار کی حیثیت کو اچھی طرح دیکھتے ہیں، کئی دکانداروں سے قیمت معلوم کرتے ہیں ، چیز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس پر بھی گارنٹی وغیرہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر اس چیز کی قیمت کروڑوں روپے میں ہو تو پھر تو آخری درجے کی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے ، ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت باقاعدہ قانونی معاہدے بھی کئے جاتے ہیں جس میں ہر پہلو کو تفصیل سے دیکھا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کسی بات کو منسوب کرنا ان سب چیزوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ کسی حدیث کو آپ سے غلط طور پر منسوب کرنے کے سنگین نتائج دنیا و آخرت میں نکل سکتے ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے دین کے نام پر بہت سی گمراہیاں پھیلائی گئی ہیں۔ بہت سے ایسے گمراہ کن فرقے پیدا ہوئے ہیں جو قرآن اور سنت متواترہ کے قلعے میں تو کوئی نقب نہیں لگا سکے لیکن جعلی احادیث کے ذریعے انہوں نے بڑے اطمینان سے اپنے عقائد و نظریات کو زبردستی دین میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم نے اس سلسلے میں انتہا درجے کی احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ حدیث کی چھان بین کا طریقہ مشکل اور طویل کیوں ہے؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اتنا طویل اور مشکل پروسس ہر شخص تو نہیں اپنا سکتا۔ ایک عام آدمی اس سلسلے میں کیا کرے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ امت کے جلیل القدر اہل علم احادیث کی چھان پھٹک (Evaluation) کا یہ کام پہلے ہی کر چکے ہیں۔ یہ اتنا فنی کام ہے کہ اسے اس کے ماہرین ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔ جس طرح کسی بھی عام انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ میڈیکل سائنس کے ماہرین سے صرف نظر کرکے وہ خود ہی دوسروں کا علاج کرنا شروع کردے اسی طرح اس فن کے بارے میں بھی یہی اصول ہے کہ اس کے سلسلے میں ماہرین ہی پر اعتماد کیا جائے۔ کسی حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف کی صورت میں اسے قبول نہ کرنا احتیاط کے زیادہ قریب ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
فن حدیث پیچیدہ کیوں ہے؟
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ فن حدیث کو اتنا زیادہ پیچیدہ کیوں بنا دیا گیا ہے۔ کسی بھی فن سے ناواقف شخص کو اس کی اصطلاحات مشکل معلوم ہوتی ہیں۔ فزکس سے ناواقف شخص کے لئے ویو لینتھ اور فریکوئنسی نئی اصطلاحات ہوں گی، اسی طرح اکاؤنٹنگ سے نابلد شخص کے لئے ڈیبٹ اور کریڈٹ کا مفہوم ہی کچھ اور ہو گا۔ اس کتاب کا نام ہی "تیسیر مصطلح الحدیث" ہے جس کا معنی ہے مصطلح الحدیث کے علم کو آسان کرنا۔
میں نے اس کتاب کے ترجمے میں بھی یہ کوشش کی ہے کہ قارئین تک فن حدیث کی اصطلاحات کو آسان اور جدید دور کی زبان میں پہنچا دیا جائے۔ امید ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے قارئین کے لئے یہ فن آسان ہو سکے گا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
احادیث کو دیر سے کیوں مدون کیا گیا؟
حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے ہی سے لکھے جانے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ چونکہ اس دور میں نہ تو پرنٹنگ پریس ایجاد ہو سکا تھا اور نہ ہی کاغذ اتنا عام نہ تھا اس وجہ سے کتابیں عام طور پر ذاتی ڈائری کی حیثیت سے لکھی جاتی تھیں۔ بعد کے دور میں احادیث کو باقاعدہ تحریری صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا۔
ہمارے پاس حدیث کی جو مستند کتابیں موجود ہیں ، انہیں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی وفات کے تقریباً ڈیڑھ سو سے تین سو سال بعد کے عرصے میں لکھی گئیں۔ ان میں سب سے زیادہ قدیم موطا امام مالک ہے جو 120-179 ہجری کے درمیانی عرصے میں لکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی چند کتب کا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہ موجودہ دور میں ناپید ہیں۔ حال ہی میں متعدد کتب کا سراغ مل گیا ہے اور کئی ایک شائع بھی ہو چکی ہیں جیسا کہ دور جدید کے جلیل القدر عالم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب (م 2002ء) نے ہمام ابن منبہ رحمۃ اللہ علیہ، جو کہ ایک تابعی بزرگ تھے کے صحیفے کو شائع کیا ہے۔ اس صحیفے کی احادیث مسند احمد بن حنبل میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب اصل صحیفے اور مسند احمد کی احادیث کا تقابلی جائزہ لیا گیا تو ان میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔
تاریخ اور قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کتب کی احادیث بہرحال حدیث کی موجودہ کتب میں شامل ہوچکی ہیں۔ ہر علم و فن اپنے ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا اپنے عروج کو پہنچتا ہے۔ اس کے ایجاد ہوتے ہی وہ فورا ہی مرتب و مدون نہیں ہو جاتا۔
اس کام میں اتنی تاخیر کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں کی زیادہ تر توجہ بیرونی فتوحات اور اندرونی بغاوتوں سے نمٹنے میں رہی۔ فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت اس وقت کی دنیا کے متمدن حصے کے تقریباً ستر فیصد علاقے پر قائم ہوگئی۔ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام سنبھالنا اور مسائل کو حل کرنا ایک بہت مشکل کام تھا۔
عرب چونکہ کسی سیاسی نظام کے عادی نہ تھے، اس لئے ان کے ہاں تفصیلی قانون سازی بھی نہ ہوسکی تھی۔ اس وقت یہ خطرہ لاحق ہو چکا تھا کہ اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر ملک کے لئے کوئی قانون نہ بنایا گیا تو مجبوراً سلطنت روما کے قانون ہی کو اپنانا پڑ جائے گا۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال تھی کہ آزادی ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان کے پاس کوئی آئین موجود نہ تھا جس کی وجہ سے ان دونوں ممالک کو انگریزوں کا آئین 1935ء نافذ کرنا پڑ گیا تھا۔
ان حالات میں امت کے ذہین ترین طبقے کے سامنے سب سے بڑ اچیلنج یہ تھا کہ مملکت اسلامیہ کے لئے قرآن و سنت کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پوری توجہ قانون اور فقہ کی تدوین پر مرکوز ہوگئی۔
دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں حدیث، فقہ اور دیگر فنون الگ بھی نہ ہوئے تھے چنانچہ اس دور کی کتب میں احادیث، اقوال صحابہ و تابعین، تفسیر، عدالتی فیصلے، ایمانیات و عقائد، زھد و تقویٰ، سیرت و تاریخ غرض ہر قسم کی روایات اور اقوال اکٹھے تھے۔
دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ان علوم و فنون کو الگ الگ کیا گیا جیسے حدیث و فقہ میں امام مالک کی موطا، سیرت میں ابن اسحاق کی کتاب، تفسیر میں سفیان ثوری کا مجموعہ، تاریخ میں ابن سعد اور ابن ابی خثیمہ کی کتب، فقہی مسائل میں امام محمد بن حسن، محمد بن ادریس شافعی اور اوزاعی کی کتب، ٹیکس کے نظام پر امام ابویوسف کی کتاب الخراج وغیرہ۔ اگر دقت نظر سے دیکھا جائے تو حدیث کی تدوین بھی ان علوم کے مقابلے میں زیادہ دیر سے وقوع پذیر نہ ہوئی تھی۔
کسی بھی علم و فن کا ارتقاء اس کی ضرورت کی شدت سے پیدا ہوتا ہے۔ پہلی صدی کے اہل علم کے سامنے احادیث میں ملاوٹ کا کوئی بڑا چیلنج نہ تھا کیونکہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تک دو یا تین راوی ہوا کرتے تھے جو بالعموم اتنے مشہور ہوتے تھے کہ ان کے بارے میں کسی تحقیق و تفتیش کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اگر اس دور میں احادیث کی تدوین کا کام بھی کر لیا جاتا تو یہ علم بہت حد تک سادہ رہتا اور تمام احادیث کو احسن انداز میں مدون کر لیا جاتا۔ احادیث گھڑنے کے فتنے کو زیادہ تر دوسری صدی میں عروج حاصل ہوا۔ چنانچہ دوسری صدی کے نصف آخر میں امت کے ذہین ترین افراد نے احادیث کی تدوین کی طرف توجہ دی اور ان کی تحقیق و تفتیش کرنے کو ہی اپنا بنیادی کام بنایا۔ تیسری صدی کے تقریباً نصف تک یہ کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوالات
• کسی قوم کے علوم کے ارتقاء کے عمل کو مختصر طور پر بیان کیجیے۔؟
• علوم حدیث کے تاریخی ارتقاء کے جو مراحل اوپر بیان ہوئے ہیں، انہیں نمبر وار نکات کی صورت میں بیان کیجیے۔؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبق 4: حدیث کی چھان بین اور تدوین پر جدید ذہن کے سوالات
کہیں ہم صحیح احادیث کو رد تو نہیں کر رہے؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ اتنے سخت معیار (Criteria) کے نتیجے میں جہاں ہم جعلی احادیث کو اصلی احادیث سے الگ کر رہے ہیں وہاں یہ بھی عین ممکن ہے کہ کچھ اصلی احادیث بھی ہمارے معیار کی سختی کی وجہ سے مسترد کر دی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا بالکل ممکن ہے اور ایسی صورتحال سے کسی صورت میں بھی چھٹکارا ممکن نہیں ہے۔ بہت سی ایسی احادیث جنہیں ہمارے اہل علم کمزور اور ضعیف قرار دے چکے ہیں ، عین ممکن ہے کہ حقیقت میں بالکل اصلی اور صحیح احادیث ہوں۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے غلط طور پر منسوب کرنے کا معاملہ اس سے سخت تر ہے کہ آپ کی کسی صحیح حدیث کو مسترد کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی صورت میں اللہ تعالی کے سامنے ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہو گا جبکہ دوسری صورت میں ہمارے پاس یہ عذر موجود ہو گا کہ حدیث ہم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دین کو سمجھنے کے لئے حدیث کا کردار کیا ہے؟
• حدیث قرآن مجید کو سمجھنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ بہت سے لوگ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قرآن کے بارے میں سوالات کیا کرتے تھے اور آپ ان کے جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ ان میں سے آپ کے جتنے ارشادات ہمیں صحیح احادیث کی صورت میں میسر آ سکے ہیں، وہ ہمارے لئے غنیمت ہیں اور ہم ان سے قرآن اور سنت متواترہ کی تفصیلی جزئیات (Minute Details) کو سمجھنے میں مدد لے سکتے ہیں۔
• رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے بھی اسی دین پر عمل فرمایا جو ہمارے لئے نازل کیا گیا۔ آپ کا یہی عمل ہمارے لئے اسوہ حسنہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ احادیث کی مدد سے ہم آپ کے اسوہ حسنہ تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
• حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا سب سے پاکیزہ اور مستند ذریعہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک ضعیف حدیث بھی عام تاریخی روایت سے زیادہ مستند ہوتی ہے کیونکہ عام تاریخی روایات میں راویوں کے نام اور حالات محفوظ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا جاتا جبکہ احادیث میں لازماً ایسا ہوتا ہے، اگرچہ مسلمانوں کے محتاط مورخین نے تاریخ میں بھی سند و روایت کا اہتمام کیا ہے۔
• بہت سی احادیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذاتی عادات و خصائل کا ذکر ہے۔ اگرچہ یہ دین کے احکام تو نہیں لیکن اہل محبت کے لئے اپنے پیارے رسول کی ہر ہر ادا سے واقفیت بہم پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔
• بہت سی احادیث مختلف مواقع پر، دینی معاملات سے ہٹ کر ، حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ارشادات و افعال کا تذکرہ ہے۔ ظاہر ہے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہمہ وقت دین ہی بیان نہ فرما رہے ہوتے تھے۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ اپنے ازدواجی، معاشی اور معاشرتی معاملات بھی دیکھا کرتے تھے۔ کبھی کسی سے مزاح فرماتے، کہیں کسی سے اظہار تعزیت فرماتے، کبھی کوئی چیز خریدتے، کبھی قرض لیتے اور کبھی اسے ادا کرتے۔ ایسی احادیث میں ضروری نہیں کہ دین کا کوئی حکم ہی بیان ہوا ہو، لیکن دنیاوی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا اسوہ حسنہ ضرور مل جاتا ہے۔ اہل محبت کے لئے یہ بھی ایک عظیم خزانہ ہے۔
• احادیث کا ایک بڑا حصہ حکمت و موعظت پر مبنی ارشادات، تزکیہ نفس ، عبادات کے فضائل، آخرت اور جنت و جہنم کی تفصیلات، مستقبل میں پیش آنے والے فتنوں اور اسی طرح کے معاملات سے متعلق ہے۔ یہ سب احادیث بھی ہمارے لئے حکمت و دانش اور معلومات کا قیمتی ذخیرہ ہیں۔ نصیحت حاصل کرنے اور برائیوں سے بچ کر اپنا تزکیہ نفس کرنے کے لئے یہ احادیث بہت مفید ہیں ۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بعد کی صدیوں میں حدیث پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا گیا؟
ایک سوال ہی بھی کیا جاتا ہے کہ بعد کی صدیوں میں حدیث پر زیادہ کام کیوں نہیں کیا جاسکا اور معاملہ صرف پڑھنے پڑھانے تک ہی محدود رہا۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ محدثین کی طرف سے ایک عظیم کام کی تکمیل کے بعد اس میں کسی اضافے کی ضرورت ہی نہ رہی تھی۔ فن رجال کے ائمہ نے، راویوں کے حالات بھی جہاں تک میسر آسکے ، تحریر کر دیے۔ محدثین کے گروہ نے مشہور کتب میں شامل احادیث کے بارے میں قبولیت اور عدم قبولیت کے فیصلے بھی کردیے۔
اس کے بعد یہی کام باقی رہ جاتا تھا کہ ان احادیث کو دین کو سمجھنے میں استعمال کیا جائے اور اس کی بنیاد پر قانون سازی کی جائے۔ یہ کام بہت پہلے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور ہی سے شروع ہوچکا تھا اگرچہ اس کا بڑا حصہ دوسری صدی کے وسط تک مکمل ہو گیا لیکن اس پر مزید کام ہوتا رہا اور یہ سلسلہ چوتھی صدی تک چلتا رہا۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سلسلہ چلتا رہتا کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے نئے مسائل کے بارے میں اجتہاد کی ضرورت تو قیامت تک پیش آتی رہے گی۔
بعض فتنوں کے باعث چوتھی صدی کے اہل علم نے یہ اعلان کیا کہ اسلاف علم و تحقیق کا جو کام کرگئے ، وہ کافی ہے اور اب کسی اور اجتہاد کی ضرورت نہیں۔ ان کے اس اعلان کو مستقل طور پر سمجھ لیا گیا اور امت بحیثیت مجموعی علمی جمود کا شکار ہوگئی۔ المیہ یہ ہوا کہ یہ علمی جمود صرف علوم دینیہ تک ہی محدود نہ رہا بلکہ مسلمانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی بھی اس کا شکار ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ایک ہزار سال تک امت مسلمہ میں ہر علم و فن میں ایسے بلند پایہ عالم بہت کم پیدا ہوئے جیسا کہ پہلی چار صدیوں میں ہوا کرتے تھے۔
دوسری طرف اہل یورپ نے اجتہادی فکر کو بیدار کرکے سائنس و ٹیکنالوجی میں بے پناہ ترقی کی اور ہم پر چڑھ دوڑے۔ موجودہ دور میں اہل مغرب کے علمی و سیاسی چیلنج نے مسلم علماء کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کی بنیاد پر از سر نو اپنے فقہی و قانونی ذخیرے کا جائزہ لیں اور عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کریں۔ دینی و دنیاوی علوم میں تحقیق کا رجحان تقریباً پورے عالم اسلام میں جنم لے چکا ہے اور امت کا یہ علمی قافلہ آہستہ آہستہ علمی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کی طرف چل پڑا ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ انشاء اللہ پندرہویں صدی ہجری اور اکیسویں صدی عیسوی کے آخر تک امت مسلمہ علمی دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام بہت حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوالات
• مسلمانوں کی موجودہ علمی حالت پر تبصرہ کیجیے۔ ہمیں اپنے اندر علمی ذہن پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا ضروری ہے۔؟
• حدیث کو سمجھنا کیوں ضروری ہے؟ کم از کم تین وجوہات بیان کیجیے۔؟
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سبق 5: دور جدید میں حدیث کی خدمت کی کچھ نئی جہتیں
دور جدید میں حدیث کی خدمت کی کچھ نئی جہتیں
جہاں تک فن رجال کا تعلق ہے تو اس باب میں بہت زیادہ تحقیق و تفتیش کی گنجائش باقی نہیں رہی کیونکہ اس کی تدوین کا کام بالکل مکمل ہوچکا ہے البتہ احادیث کے طالب علم اسے سمجھنے اور سمجھانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ انشاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔
ایسی احادیث جن کے بارے میں قدماء تحقیق نہیں کر سکے، ان کی تحقیق کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دور جدید میں علامہ ناصر الدین البانی کی تحقیق اس کی ایک مثال ہے۔ تحقیق کے میدان میں شخصیت پرستی کی کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی۔ قدیم اور جدید اہل علم بھی انسان ہیں اور ان کے کام میں غلطی کا امکان بہرحال موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے دور کے اہل علم قدیم اہل علم کے کام کا از سر نو جائزہ لیتے ہی رہتے ہیں تاکہ اس میں اگر کہیں کوئی غلطی رہ گئی ہے تو اس کی تلافی کی جا سکے۔
فن حدیث کی خدمت کی دوسری جہت انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حالیہ ترقی سے پیدا ہوئی ہے۔ دور قدیم سے احادیث کا ذخیرہ بہت سی کتابوں میں متفرق ہے جن کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ان کتب کا کوئی اسٹینڈرڈ اشاریہ (Index) اب تک ترتیب نہیں دیا جاسکا جس کی مدد سے ایک موضوع پر موجود تمام احادیث کو سامنے رکھ کر ان سے استفادہ کیا جاسکے۔ مصر کے فواد عبدالباقی کا اشاریہ بہت محنت سے ترتیب دیا ہوا ہے لیکن اس سے استفادہ کرنے کے لئے انسان کو بہت زیادہ اوراق پلٹنا پڑتے ہیں اور ایک ایک حدیث کی تلاش میں گھنٹوں صرف ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح فن رجال کی کتب بھی مواد بہت زیادہ بکھرا ہوا ہے اور اس سے استفادہ کرنا خاصا مشکل کام ہے۔
1990ء کے عشرے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ علم حدیث کے ماہرین کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ احادیث کا ایک جامع ڈیٹا بیس بنایا جائے جس میں احادیث کی تمام کتب میں موجود تمام احادیث کو درج کرلیا جائے۔ ہر حدیث کے ساتھ اس کی فنی حیثیت پر بھی بحث فراہم کی جائے اور اس کے متعلق تمام ائمہ حدیث کی آرا کو بھی میسر کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حدیث کے تمام راویوں سے متعلق معلومات اور ان کے متعلق فن رجال کے تمام ائمہ کی آرا بھی اکٹھی کی جائیں اور انہیں حدیث کی سند سے لنک کردیا جائے۔ کسی بھی نام پر کلک کرنے سے اس راوی کی مکمل تفصیلات سکرین پر ڈسپلے ہوجائیں۔ ان سب کے ساتھ ساتھ دور جدید کی ضروریات اور مسائل کے مطابق ایک تفصیلی انڈیکس تیار کیا جائے اور اس سے تمام احادیث کو لنک کردیا جائے۔
جدید ترین "سرچ انجنز" کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی بھی ایک موضوع پر کلک کرنے سے ان تمام احادیث کا ذخیرہ سامنے آجائے جن میں اس موضوع سے متعلق کسی بھی قسم کا مواد پایا جاتا ہو۔ اس کے بعد کسی بھی حدیث پر کلک کرنے سے اس کی تفصیلی سند ، متن اور اصل کتاب کا حوالہ سامنے آجائے۔ احادیث کے ساتھ قدیم و جدید علماء کی لکھی ہوئی شروح (Commentaries) کو بھی اس میں شامل کرلیا جائے۔
عرب دنیا میں پچھلے پچاس برس میں حدیث پر غیر معمولی کام ہوا ہے۔ حدیث سے متعلق ایسے کئی سافٹ وئیر وجود میں آ چکے ہیں۔ اردن کے دارالتراث الاسلامی کے موسوعۃ الحدیث، مکتبہ الفیۃ لسنۃ النبویۃ، اور مکتبہ شاملہ کے تیار کردہ سافٹ وئیر اس کی مثال ہیں۔ اسی طرح علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی کتب پر مشتمل سافٹ ویئر بھی منظر عام پر آ چکا ہے جو انٹرنیٹ پر بلاقیمت دستیاب ہے۔
یہ تمام سافٹ وئیر عربی زبان میں دستیاب ہیں کیونکہ انہیں علماء ہی استعمال کرتے ہیں جن کا عربی زبان سے واقف ہونا ضروری ہے۔ کم و بیش یہ تمام سافٹ وئیر انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ان میں سے بعض بلا معاوضہ اور بعض قیمت کی ادائیگی پر دستیاب ہیں۔
ان سافٹ وئیر میں جو مزید بہتری لائی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ احادیث کے ساتھ ساتھ ان کی شروح کو بھی لنک کر دیا جائے تاکہ براؤزنگ کرنے میں زیادہ وقت صرف نہ ہو۔ اسی طرح کتب حدیث میں احادیث کے نمبرز کو مکمل طور پر اسٹینڈرڈائز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تلاش میں دشواری نہ ہو۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوالات
• حدیث کا سافٹ ویئر کیسا ہونا چاہیے؟ اس میں کیا کیا فیچرز ہونا ضروری ہیں۔ اپنی تجاویز پیش کیجیے۔
• قدیم اہل علم نے احادیث پر جو تحقیق کی ہے، اس پر نظر ثانی کی ضرورت کیوں ہے؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top