حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
کہتے ہیں کہ عورت آدھا معاشرہ ہوتی ہے لیکن میرے خیال میں یہ آدھی حقیقت ہے!!
کچھ معاشروں میں آج کے دور میں بھی عورت کی " پیکنگ " کا کام بڑی شد ومد سے جاری وساری ہے اور اس کام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرنے والے ہر پتھر کے نیچے بیٹھے نظر آتے ہیں، انہیں عورت میں صرف ایک " گھریلو مخلوق " ہی نظر آتی ہے جس کا کام محض یہ ہے کہ وہ احکامات بجا لائے اور مرد کی روز بروز بڑھتی ہوئی خواہشات پوری کرے، وہ اس کی " انسانی قدر " کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں زندگی کی تمام خوبصورتی، محبت، قربانی اور بے پناہ طاقت پنہاں ہے.
ایسی فکر کے لوگوں کا مقصد عورت کو ایک ایسی " پراڈکٹ " بنانا ہے جو ان کی تمام خواہشات پر پوری اتر سکے چاہے اس کی قیمت اس کا وہ معصوم بچپن ہی کیوں نہ ہو جسے رونگھٹے کھڑی کرنے والی " شادی " کا نام دے کر اپنی بے لگام جنسی خواہشات کو ایک مقدس حیثیت دینے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کی لغت میں محبت، مساوات، اعتماد اور اتحاد جیسے الفاظ ہی نہیں ہیں جو شادی جیسے مقدس تعلق کے ذریعے ایک مرد کے دل کو ایک عورت کے دل سے جوڑتے ہیں، اے کاش کہ یہ لوگ سمجھ سکتے، مگر نہیں.. ان سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی، ان کے دل ودماغ پر ایسے قفل پڑے ہیں جن کی چابی شاید کبھی بنائی ہی نہیں گئی تھی.
عورت کے خطرے کا ڈر ہی انہیں ہر روز نئے نئے قوانین ایجاد کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ خود کو اس کے " مکر " سے بچا سکیں، یہ ان کی اندرونی خرابی کی دلیل ہے، جو کچھ انسان کے اندر ہوتا ہے وہ اسی کے تناظر میں ہی دوسروں کو دیکھتا ہے، چنانچہ ان کے اندر کی بدنمائی نے عورت کی خوبصورتی کو " عورہ " قرار دے کر اسے بدنما کردیا جبکہ اصل " عورہ " ان کے مریض دماغوں اور زنگ آلود دلوں میں ہے.
جب کسی معاشرے سے عورت کو غائب کردیا جاتا ہے تو زندگی بھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ آہستہ آہستہ تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس معاشرے کا تمدن بھی زندگی کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور آخر کار ایسی قوم دوسری قوموں کے لیے " آفت " بن جاتی ہے، عورت ہر معاشرے کی زندگی کی نبض ہے، جہاں عورت نہیں، وہاں معاشرہ نہیں.
کچھ معاشروں میں آج کے دور میں بھی عورت کی " پیکنگ " کا کام بڑی شد ومد سے جاری وساری ہے اور اس کام کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرنے والے ہر پتھر کے نیچے بیٹھے نظر آتے ہیں، انہیں عورت میں صرف ایک " گھریلو مخلوق " ہی نظر آتی ہے جس کا کام محض یہ ہے کہ وہ احکامات بجا لائے اور مرد کی روز بروز بڑھتی ہوئی خواہشات پوری کرے، وہ اس کی " انسانی قدر " کو نظر انداز کر دیتے ہیں جس میں زندگی کی تمام خوبصورتی، محبت، قربانی اور بے پناہ طاقت پنہاں ہے.
ایسی فکر کے لوگوں کا مقصد عورت کو ایک ایسی " پراڈکٹ " بنانا ہے جو ان کی تمام خواہشات پر پوری اتر سکے چاہے اس کی قیمت اس کا وہ معصوم بچپن ہی کیوں نہ ہو جسے رونگھٹے کھڑی کرنے والی " شادی " کا نام دے کر اپنی بے لگام جنسی خواہشات کو ایک مقدس حیثیت دینے کی کوشش کی جاتی ہے، ان کی لغت میں محبت، مساوات، اعتماد اور اتحاد جیسے الفاظ ہی نہیں ہیں جو شادی جیسے مقدس تعلق کے ذریعے ایک مرد کے دل کو ایک عورت کے دل سے جوڑتے ہیں، اے کاش کہ یہ لوگ سمجھ سکتے، مگر نہیں.. ان سے کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی، ان کے دل ودماغ پر ایسے قفل پڑے ہیں جن کی چابی شاید کبھی بنائی ہی نہیں گئی تھی.
عورت کے خطرے کا ڈر ہی انہیں ہر روز نئے نئے قوانین ایجاد کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ خود کو اس کے " مکر " سے بچا سکیں، یہ ان کی اندرونی خرابی کی دلیل ہے، جو کچھ انسان کے اندر ہوتا ہے وہ اسی کے تناظر میں ہی دوسروں کو دیکھتا ہے، چنانچہ ان کے اندر کی بدنمائی نے عورت کی خوبصورتی کو " عورہ " قرار دے کر اسے بدنما کردیا جبکہ اصل " عورہ " ان کے مریض دماغوں اور زنگ آلود دلوں میں ہے.
جب کسی معاشرے سے عورت کو غائب کردیا جاتا ہے تو زندگی بھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ آہستہ آہستہ تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس معاشرے کا تمدن بھی زندگی کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور آخر کار ایسی قوم دوسری قوموں کے لیے " آفت " بن جاتی ہے، عورت ہر معاشرے کی زندگی کی نبض ہے، جہاں عورت نہیں، وہاں معاشرہ نہیں.