باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
رفیق طاہر بھائی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ۔۔۔۔۔
عورت کی سربراہی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں - فضل الرحمان بن محمد
یہ کہنا تو ذرا زیادتی سی لگتی ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کیونکہ سامنے کی بات ہے کہ اگر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھین لیا جائے تو پھر عورتوں کے مسائل و معاملات میں ان کی رہنمائی کا فریضہ کون سی صنف ادا کرے گی؟
بالا مراسلے میں جو تین نکات بیان ہوئے ہیں ، ان تینوں سے صاف وضاحت ہو رہی ہے کہ یہاں عورت کی رہنمائی کا فریضہ عورت ہی کی طرف سے سرانجام دینے کا مسئلہ بیان ہو رہا ہے اور اس کی مشروعیت سے تو کسی ذی عقل کو انکار نہیں ہوگا۔
جبکہ ۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ ۔۔۔
"لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" والی حدیث عموماً عورت کی سربراہی کی مسئلے میں بیان کی جاتی ہے ۔۔۔ اور درج ذیل الفاظ خود بھی اس کو واضح کرتے ہیں
قوم ، معاملہ ، عورت کے سپرد
قوم میں ہر صنف شامل ہوتی ہے ۔ لہذا اس حدیث کی روشنی میں اصل سوال یہ ہے کہ :
تمام اصناف پر مشتمل ملک ، جماعت ، گروہ ، ادارہ وغیرہ وغیرہ کی سربراہی کا فریضہ کیا عورت انجام دے سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے ۔۔۔۔ یہ حدیث "لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" عموما عورت کی سربراہی کی بحث کے ذیل میں پیش کی جاتی ہے جیسا کہ اس موضوع پر ایک مفید کتاب یہ بھی ہے :رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے " لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دے
اس حدیث رسول مقبول صلى اللہ علیہ وسلم کو بنیاد بنا کر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام نہیں ہے بلکہ اسکی تخصیص کے بے شمار دلائل موجود ہیں ۔
اور خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو یہ منصب عطاء فرمایا ہے کہ وہ دینی امور میں عورتوں کی راہنمائی کریں ۔اسکی ایک ادنى سی مثال وہ واقعہ ہے کہ جب ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے طہارت کا مسئلہ دریافت کرنے آئی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا لیکن اسے سمجھ نہ آیا تو اس نے پھر استفسار کیا لیکن بار بار کی وضاحت کے باوجود جب مسئلہ اس عورت کی سمجھ سے بالا تر رہا تو ام المؤمنین نے اسے مسئلہ سمجھا دیا کہ " تتبعین بہا أثر الدم "۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :
۱۔ عورت نصوص شرعیہ کی تشریح و وضاحت اپنی خدا داد فقہات سے کرسکتی ہے ۔
۲۔ مرد مفتی وفقیہ ومجتہد بلکہ نبی کی بھی موجودگی میں ایک عورت مسئلہ کو وضاحت سے سمجھا سکتی ہے ۔
۳۔ عورتوں کے بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں مرد مفتیان عظام وعلمائے کرام حتى کہ انبیاء کرام بھی حیاء وشرم کی بناء پر واضح لفظوں میں نامحرم عورتوں کے سامنے نہیں بیان کرسکتے ۔ جبکہ عورتیں ایسے مخصوص مسائل عورتوں کے سامنے بآسانی بیان کرسکتی ہیں ۔
عورت کی سربراہی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں - فضل الرحمان بن محمد
یہ کہنا تو ذرا زیادتی سی لگتی ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کیونکہ سامنے کی بات ہے کہ اگر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھین لیا جائے تو پھر عورتوں کے مسائل و معاملات میں ان کی رہنمائی کا فریضہ کون سی صنف ادا کرے گی؟
بالا مراسلے میں جو تین نکات بیان ہوئے ہیں ، ان تینوں سے صاف وضاحت ہو رہی ہے کہ یہاں عورت کی رہنمائی کا فریضہ عورت ہی کی طرف سے سرانجام دینے کا مسئلہ بیان ہو رہا ہے اور اس کی مشروعیت سے تو کسی ذی عقل کو انکار نہیں ہوگا۔
جبکہ ۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ ۔۔۔
"لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" والی حدیث عموماً عورت کی سربراہی کی مسئلے میں بیان کی جاتی ہے ۔۔۔ اور درج ذیل الفاظ خود بھی اس کو واضح کرتے ہیں
قوم ، معاملہ ، عورت کے سپرد
قوم میں ہر صنف شامل ہوتی ہے ۔ لہذا اس حدیث کی روشنی میں اصل سوال یہ ہے کہ :
تمام اصناف پر مشتمل ملک ، جماعت ، گروہ ، ادارہ وغیرہ وغیرہ کی سربراہی کا فریضہ کیا عورت انجام دے سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟