• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عورت مجتہدہ یا فقیہ ہو سکتی ہے ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
رفیق طاہر بھائی نے یہ بھی لکھا تھا کہ ۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے " لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو اپنا معاملہ کسی عورت کے سپرد کر دے
اس حدیث رسول مقبول صلى اللہ علیہ وسلم کو بنیاد بنا کر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
جبکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان عام نہیں ہے بلکہ اسکی تخصیص کے بے شمار دلائل موجود ہیں ۔
اور خود رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو یہ منصب عطاء فرمایا ہے کہ وہ دینی امور میں عورتوں کی راہنمائی کریں ۔اسکی ایک ادنى سی مثال وہ واقعہ ہے کہ جب ایک عورت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے طہارت کا مسئلہ دریافت کرنے آئی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا لیکن اسے سمجھ نہ آیا تو اس نے پھر استفسار کیا لیکن بار بار کی وضاحت کے باوجود جب مسئلہ اس عورت کی سمجھ سے بالا تر رہا تو ام المؤمنین نے اسے مسئلہ سمجھا دیا کہ " تتبعین بہا أثر الدم "۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ :
۱۔ عورت نصوص شرعیہ کی تشریح و وضاحت اپنی خدا داد فقہات سے کرسکتی ہے ۔
۲۔ مرد مفتی وفقیہ ومجتہد بلکہ نبی کی بھی موجودگی میں ایک عورت مسئلہ کو وضاحت سے سمجھا سکتی ہے ۔
۳۔ عورتوں کے بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں جنہیں مرد مفتیان عظام وعلمائے کرام حتى کہ انبیاء کرام بھی حیاء وشرم کی بناء پر واضح لفظوں میں نامحرم عورتوں کے سامنے نہیں بیان کرسکتے ۔ جبکہ عورتیں ایسے مخصوص مسائل عورتوں کے سامنے بآسانی بیان کرسکتی ہیں ۔
جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے ۔۔۔۔ یہ حدیث "لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" عموما عورت کی سربراہی کی بحث کے ذیل میں پیش کی جاتی ہے جیسا کہ اس موضوع پر ایک مفید کتاب یہ بھی ہے :
عورت کی سربراہی کا اسلام میں کوئی تصور نہیں - فضل الرحمان بن محمد
یہ کہنا تو ذرا زیادتی سی لگتی ہے کہ اس حدیث کی بنیاد پر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کیونکہ سامنے کی بات ہے کہ اگر عورت سے فقہ واجتہاد اور علم وعرفان کا حق چھین لیا جائے تو پھر عورتوں کے مسائل و معاملات میں ان کی رہنمائی کا فریضہ کون سی صنف ادا کرے گی؟
بالا مراسلے میں جو تین نکات بیان ہوئے ہیں ، ان تینوں سے صاف وضاحت ہو رہی ہے کہ یہاں عورت کی رہنمائی کا فریضہ عورت ہی کی طرف سے سرانجام دینے کا مسئلہ بیان ہو رہا ہے اور اس کی مشروعیت سے تو کسی ذی عقل کو انکار نہیں ہوگا۔

جبکہ ۔۔۔۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ ۔۔۔
"لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" والی حدیث عموماً عورت کی سربراہی کی مسئلے میں بیان کی جاتی ہے ۔۔۔ اور درج ذیل الفاظ خود بھی اس کو واضح کرتے ہیں
قوم ، معاملہ ، عورت کے سپرد
قوم میں ہر صنف شامل ہوتی ہے ۔ لہذا اس حدیث کی روشنی میں اصل سوال یہ ہے کہ :
تمام اصناف پر مشتمل ملک ، جماعت ، گروہ ، ادارہ وغیرہ وغیرہ کی سربراہی کا فریضہ کیا عورت انجام دے سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
چلو باذوق بھائی کے ذوق نے یہ تو سمجھ لیا کہ یہ حدیث عورت کی سربراہی سے متعلق ہے
جہاں تک میرا ناقص مطالعہ ہے ۔۔۔۔ یہ حدیث "لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" عموما عورت کی سربراہی کی بحث کے ذیل میں پیش کی جاتی ہے
لہذا باقی ساری باتیں بے ذوق ہیں کیونکہ ہم یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ کوئی " عورت" کسی " قوم" کی سربراہ نہیں ہوسکتی !
اور قوم میں مردو زن دونوں شامل ہیں ۔ لیکن جب صرف عورتیں ہی رہ جائیں تو اسے لفظ قوم سے نہیں بلکہ دیگر الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں امہات المؤمنین سے سے انصار ومہاجر خواتین مسائل دریافت کرنے کے لیے آیا کرتی تھیں
اسکی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں ۔
جو عورت کے مفتیہ ہونے پر شرعی دلیل ہیں ۔
اور دوسر بات کہ محترم باذوق صاحب نے جسے کلی قاعدہ بنا کر پھر استثناء ثابت کرنے کے کوشش کی ہے وہ قاعدہ ہی ثابت نہیں ہے
کیونکہ اسکی بنیاد ایک موقوف روایت ہے جو کہ دین میں حجت نہیں !
فتدبر !
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,982
پوائنٹ
323
"لن یفلح قوم ولوا أمرہم امرأۃ" والی حدیث عموماً عورت کی سربراہی کی مسئلے میں بیان کی جاتی ہے ۔۔۔ اور درج ذیل الفاظ خود بھی اس کو واضح کرتے ہیں
قوم ، معاملہ ، عورت کے سپرد
قوم میں ہر صنف شامل ہوتی ہے ۔ لہذا اس حدیث کی روشنی میں اصل سوال یہ ہے کہ :
تمام اصناف پر مشتمل ملک ، جماعت ، گروہ ، ادارہ وغیرہ وغیرہ کی سربراہی کا فریضہ کیا عورت انجام دے سکتی ہے؟ اگر ہاں تو کس دلیل سے اور اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
یہی بات میں نے گزشتہ مراسلہ میں بیان کر دی ہے کہ قوم میں مردو زن دونوں شامل ہیں لہذا مردو زن پر مشتمل قوم کی سربراہی عورت کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے اور اسکی دلیل یہی حدیث ہے جسے مسلسل پیش کیا جار ہا ہے ۔
ااور آپکے ذوق کی ضیافت طبع کے لیے عرض ہے کہ یہ تھریڈ عورت کی سربراہی کی بحث کے لیے نہیں عورت کے فقیہہ و مفتیہ ہونے پر بحث کرنے کے لیے شروع کیا گیا ہے ۔
لہذا ذوق سلیم کا مظاہرہ فرماتے ہوئے خارجی گفتگو سے اجتناب فرما کر باذوق ہونے کا ثبوت فراہم کریں !
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
2. جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اجتہاد کا عمل علمی صلاحیتوں متقاضی ہے نہ کہ جنسی خصوصیت اور جسمانی قوتوں کا ۔ لہذا کسی جنس کے لیے اجتہاد کے جواز پر دلیل طلب کرنا ہی فضول ہے ۔
اس سوال کے فالتو ہونے کےلیے یہی بات کافی ہے کہ ہم اس جیسے کچھ اور سوال پیش کردیں ۔
لنگڑے کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
عجمی کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
عنین یا مخنث کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
سانولے کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
شاعر کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
۸ فٹ لمبے آدمی کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
اجتہاد علمی نہیں عقلی صلاحیت کا دوسرا نام ہے۔ میرا ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ یہاں کتاب وسنت ویب سائیٹ پر موجود ہے کہ جس میں، میں نے امام شافعی سے لے کر شیخ قرضاوی تک اجتہاد کی ایک صد تعریفات کا تجزیہ کیا ہے۔ اجتہاد فقہ الاحکام کو فقہ الواقع پر لاگو کرنے کا نام ہے یا اجتہاد آسان الفاظ میں قرآن و سنت کی وسعتوں اور گہرائیوں سے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کا نام ہے۔ اجتہاد اور ذہنی جدوجہد لازم و ملزوم ہے۔ ذہنی جدوجہد کے بغیر اجتہاد ممکن نہیں ہے۔ پس اجتہاد کا خاصہ ذہنی جدوجہد ہے۔ پس آپ اپنے سوال کو یوں درست کر لیں کہ
آپ کو یہ سوال بھی کرنا چاہیے تھا :
ناقص عقل کے مجتہد یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔

اسے دلیل کی دنیا میں سقراط کا طریق کار کہتے ہیں کیونکہ سقراط کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ مکالمہ یا ڈائیلاگ میں جواب نہیں دیتا تھا بلکہ صرف فریق مخالف کا سوال درست کر دیتا تھا اور اس سے اس کے نزدیک مقصود فرق مخالف کے علم میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کے تجزیہ کرنے کی صلاحیت کو بھی جلا بخشنا ہوتا تھا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کے مستحسن ہونے پر امت کااجماع ہے جبکہ رضیہ سلطانہ کی سلطنت کے بطلان پر امت کی اکثریت کا اتفاق۔
آپ کو اجماع کی عربی تعریف خوب یاد ہو گی۔ بھائی ! ایک جنرل بات کر رہا ہوں کہ
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ علم حافظے کا دوسرا نام بن گیا ہے جسے جتنے متون یاد ہیں، وہ اتنا بڑا عالم دین ہے۔ رہی بات کسی ٹیکسٹ کو سمجھنے میں اپنے آپ کو ایگزاسٹ کر دینا تو یہ رویہ تقریبا ختم ہونے کے قریب ہے۔ اجماع کی تعریف میں یہ بات جوہری عنصر کے طور شامل ہے کہ اجماع کسی شرعی حکم پر ہوتا ہے نہ کہ تاریخی واقعہ یا تاریخی حقیقت یا تاریخی وقوعہ پر۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
عورت چیف آف آرمی یا چیف جسٹس وغیرہ اس لیے نہیں بن سکتی کیونکہ اسلام عورت کے زندگی گذارنے کے لیے جو دائرہ متعین کرتا ہے ان عہدوں کی ذمہ داریاں ان کو اس دائرہ سے باہر لے جاتی ہیں ۔ اگر کسی عورت کے فقیہ یا مجتہد ہونے اسے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہورہی ہوتو اس کے لیے مجتہد یا فقیہ بننا بھی ناجائز قرار دیا جائے گا۔
بھئی یہی تو میرا سوال ہے کہ وہ دائرہ کیا ہے، اس کی حدود کیا ہیں اور اس دائرے کی دلیل کیا ہے؟۔ آپ پہلے دائرے کو اس کی حدود کے ساتھ بیان کریں، پھر دیکھتے ہیں کہ مجتہدہ اور فقیہ اس دائرے کے اندر داخل ہے یا باہر، اور اس دائرے کی حدود کے دلائل بھی برائے مہربانی نقل کر دیجیے گا۔ اگر عورت نقاب پہن پر ٹیلی ویژن پر درسقرآن دے سکتی ہے، ٹیلی ویژن پر شرعی رہنمائی کر سکتی ہے تو نقاب پہن کر سپریم کورٹ میں بیٹھ کر فیصلے کیوں نہیں کر سکتی ہے؟ اور نقاب پہن کر چیف آف آرمی سٹاف کیوں نہیں بن سکتی؟ کیا امت مسلمہ کی تاریخی میں صحابیات میدان جنگ میں اپنی خدمات پیش نہیں کرتی رہی ہیں؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں امہات المؤمنین سے سے انصار ومہاجر خواتین مسائل دریافت کرنے کے لیے آیا کرتی تھیں
اسکی بے شمار مثالیں کتب احادیث میں موجود ہیں ۔
جو عورت کے مفتیہ ہونے پر شرعی دلیل ہیں ۔
بھائی! آپ کے حق میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو حافظے کے ساتھ ساتھ ایسی تجزیاتی صلاحیت بھی عطا فرمائے کہ آپ فریق مخالف کا موقف سمجھ سکیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مساوات مرد و زن عصر حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے کہ جس سے مغربی معاشروں کی طرح مسلمان معاشرے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اسلام اور اس دنیا کی تاریخ میں عورت کبھی بھی مرد کے برابر نہیں رہی ہے اور نہ ہی آ سکتی ہے، بلکہ ہمیشہ اس کے ماتحت رہی ہے جس کے لیے اسسٹنٹ یعنی ماتحت معاون کا لفظ زیادہ بہتر ہے۔ عورت کا سکینڈری مخلوق ہونا اس کا مقدر ہے اور اس تقدیر سے لڑنے والے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ پس کسی بھی شعبہ زندگی کے معاملات اس طرح عورت کے سپرد کر دینا کہ اس میں مرد اس کے ماتحت ہوں یا وہ مردوں کے برابر ہو تو اسلام اور تقدیر کے خلاف ایسی جنگ ہے کہ جس میں مخالفین کی شکست مقدر ہے۔ باقی رہا مسئلہ عورتوں کا عورتوں کی رہنمائی کرنا یا عورتوں کا بعض جزوی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار کرنا یا عورتوں کا کتاب و سنت کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا تو یہ محل نزاع نہیں ہے۔

یہاں اپنی بات کی وضاحت کے لیے دو مثالیں عرض کروں گا کہ کیا عورت کسی مستقل مکتب فکر کی بانی ہو سکتی ہے؟ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام ابن تیمیہ، امام ابن جریر طبری، امام ابن حزم کی طرح کا مجتہد یا فقیہ بننا دین اسلام میں عورت سے مطلوب ہے کہ جس میں لاکھوں مرد اس کے فتاوی یا شرعی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوں؟

کیا کسی عورت سے دین اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ وہ حافظ محمد گوندلوی، عبد اللہ محدث روپڑی، مولانا ثناء اللہ امرتسری یا علامہ احسان الہی ظہیر بنے ؟ اگر جائز ہے تو ذرا یہ تجربہ کر لینے میں کیا حرج ہے کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی طرح کی دس بارہ عالمہ فاضلہ عورتیں تو موجود ہی ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ایسے حالات اور مواقع مل گئے کہ وہ معروف زیادہ ہو گئیں، جماعت اہل حدیث کی شرعی رہنمائی کا فریضہ ان عورتوں کو سونپ دینا چاہیے؟
 

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
ہم یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ کوئی " عورت" کسی " قوم" کی سربراہ نہیں ہوسکتی !
شکریہ۔ گمان تھا کہ شاید اس معاملے پر آپ کا کوئی دوسرا موقف ہو مگر اتنی صاف وضاحت کے بعد کوئی دوسرا گمان بالکل نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں یہ ضرور دریافت کیا جا سکتا ہے کہ "سربراہ" یا "سربراہی" کے دائرہ کار کیا ہیں اور ذمہ داریاں کیا کیا ہیں؟ مگر خیر یہ موضوع کسی علیحدہ تھریڈ کا متقاضی ہے۔
اور دوسر بات کہ محترم باذوق صاحب نے جسے کلی قاعدہ بنا کر پھر استثناء ثابت کرنے کے کوشش کی ہے وہ قاعدہ ہی ثابت نہیں ہے
کیونکہ اسکی بنیاد ایک موقوف روایت ہے جو کہ دین میں حجت نہیں !
آپ کے اور دیگر بھائیوں (بشکریہ کفایت اللہ بھائی کی تحقیق) کے کہنے سے یہ مان لینے میں بالکل کوئی قباحت نہیں کہ یہ روایت :
(أخروهن حيث أخرهن الله)
بے اصل ہے اور دین میں حجت نہیں!
لیکن ۔۔۔ پھر تو دو میں سے ایک بات ممکن ہے :
  • عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ (بااستثنائے عورت کے مخصوص شعبہ جات) میں مردوں سے پیچھے رکھنا چاہیے
  • عورتوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں مردوں کے شانہ بشانہ رکھنا چاہیے یا اگر وہ چاہیں تو مردوں سے برتر بھی ہو سکتی ہیں
اور یہ دوسری بات بالکل وہی ہے جو موجودہ دور کا روشن خیال مسلم طبقہ تسلسل سے الاپتا رہا ہے۔ کیا آپ کا اس معاملے پر ان سے اتفاق ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کن بنیادوں پر؟
یہ کہا گیا تھا کہ :
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اجتہاد کے مستحسن ہونے پر امت کااجماع ہے
تو اسی طرح کے تاریخی وقوعے یا تاریخی حقیقت کے حوالے سے یہ بھی تو ثابت ہے کہ ۔۔۔۔ (بقول ابوالحسن علوی بھائی)
  • عورت کسی مستقل مکتب فکر کی بانی نہیں ہوئی
  • پچھلے سو دو سال کے عرصے میں 'قوم' کی رہنمائی کی خاطر معروف محدثین ، متکلمین ، مبلغین ، مجتہدین ، محققین (بطور مثال : حافظ محمد گوندلوی، عبد اللہ محدث روپڑی، مولانا ثناء اللہ امرتسری یا علامہ احسان الہی ظہیر وغیرہم) کی اسلامی تاریخ میں کسی ایسی عورت کا نام شامل نہیں ہوا جس کی قبولیت پر اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح "امت کا اجماع" ہوا ہو
اس "غیر شمولیت" کی کوئی شرعی بنیاد ہے یا یہ محض تاریخی 'اجماعی' حقیقت ہی ہے؟
آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بار بار علمی دینی کتب میں یہ پڑھتے ہیں کہ عورت اور مرد کے علیحدہ علیحدہ دائرہ عمل شریعت نے متعین کر دئے ہیں اور عورت شمع محفل نہیں بلکہ چراغ خانہ ہے؟؟
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تعیین مبحث
مساوات مرد و زن عصر حاضر کا ایک بہت بڑا فتنہ ہے کہ جس سے مغربی معاشروں کی طرح مسلمان معاشرے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اسلام اور اس دنیا کی تاریخ میں عورت کبھی بھی مرد کے برابر نہیں رہی ہے اور نہ ہی آ سکتی ہے، بلکہ ہمیشہ اس کے ماتحت رہی ہے جس کے لیے اسسٹنٹ یعنی ماتحت معاون کا لفظ زیادہ بہتر ہے۔ عورت کا سکینڈری مخلوق ہونا اس کا مقدر ہے اور اس تقدیر سے لڑنے والے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو ضائع کر رہے ہیں۔ پس کسی بھی شعبہ زندگی کے معاملات اس طرح عورت کے سپرد کر دینا کہ اس میں مرد اس کے ماتحت ہوں یا وہ مردوں کے برابر ہو تو اسلام اور تقدیر کے خلاف ایسی جنگ ہے کہ جس میں مخالفین کی شکست مقدر ہے۔ باقی رہا مسئلہ عورتوں کا عورتوں کی رہنمائی کرنا یا عورتوں کا بعض جزوی مسائل میں اپنی رائے کا اظہار کرنا یا عورتوں کا کتاب و سنت کو سمجھ کر ان پر عمل کرنا تو یہ محل نزاع نہیں ہے۔

یہاں اپنی بات کی وضاحت کے لیے دو مثالیں عرض کروں گا کہ کیا عورت کسی مستقل مکتب فکر کی بانی ہو سکتی ہے؟ یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام ابن تیمیہ، امام ابن جریر طبری، امام ابن حزم کی طرح کا مجتہد یا فقیہ بننا دین اسلام میں عورت سے مطلوب ہے کہ جس میں لاکھوں مرد اس کے فتاوی یا شرعی رہنمائی پر اعتماد کرتے ہوں؟

کیا کسی عورت سے دین اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ وہ حافظ محمد گوندلوی، عبد اللہ محدث روپڑی، مولانا ثناء اللہ امرتسری یا علامہ احسان الہی ظہیر بنے ؟ اگر جائز ہے تو ذرا یہ تجربہ کر لینے میں کیا حرج ہے کہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ کی طرح کی دس بارہ عالمہ فاضلہ عورتیں تو موجود ہی ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ایسے حالات اور مواقع مل گئے کہ وہ معروف زیادہ ہو گئیں، جماعت اہل حدیث کی شرعی رہنمائی کا فریضہ ان عورتوں کو سونپ دینا چاہیے؟
اجتہاد نسواں کے موضو ع پر گفتگو کرتے وقت مسئلہ کے دو مختلف پہلووں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ خلط مبحث کا اندیشہ ہے ۔
1. اس مسئلہ کا ایک پہلو ہے واقعاتی اور امکانی ۔اس اعتبار سے بحث اس موضوع پر ہوگی کہ عورتوں میں فقیہ یا مجتہد بننے کی صلاحیت واقعاتی اور امکانی اعتبار سے موجود ہے یا نہیں ۔ یہ ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے کیونکہ کے موضوع کی تعیین میں علوی بھائی نے شرعی دلیل کی شرط لگائی ہے ۔
عورت کے مجتہدہ یا فقیہ ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے اور اگر کسی کے پاس ہو تو اسے نقل کر دے۔
2. اس مسئلہ کا شرعی پہلو ۔ یہاں ہماری بحث اس بات پر ہے کہ اگر کسی عورت کے اندر وہ شروط اجتہاد جن کا ذکر مختلف ائمہ نے کیا ہے متوافر ہوں اور وہ شرعی دلائل کی بنیاد پر اور فقہی اصولوں کی روشنی میں اجتہاد کرے اور فتوی صادر کرے تو کیا اس کا فتوی محض اس لیے رد کردیا جانا چاہیے کہ اس کا تعلق صنف رجال سے نہیں ؟
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top