السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اعتکاف کہاں کرے ؟ مرد کے لیے اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا اور عورت کے لیے اپنے گھر کی مخصوص جگہ میں ہی اعتکاف کرنا افضل ہے اور عورت کا گھر میںاعتکاف کرنا یہی حنفیہ کا مذہب ہے عقل انسانی کا تقاضا بھی یہ کہ جب عورت کے لیے نما زگھر میں پڑھنا افضل ہے تو پھر اعتکاف بھی گھر میں ہی کرنا افضل ہوگا۔
یہ دوسرا نکتہ نظر صرف عقل کے اٹکل پچو اور علم حدیث سے یتیم و مسکین ہونے کی بنا پر ہے۔
اگر عورت کے لیے بھی اعتکاف مسجد میں کرنا ضروری ہوتا تو اجازت کے باوجود حضورeنے اپنے اہل بیت کو مسجد میںاعتکاف کیوں نہ کرنے دیا؟اور خیمے لگ جانے کے بعد اکھاڑنے کاحکم کیوں دیا ؟اور اس نیکی پر ان کو کس نے اُبھارا ہے؟ اپنے اہل بیت کو عتاب کیوں فرمایا؟اور اپنے اعتکاف کو بھی آخر ختم کیوں کردیا؟اتنی عام فہم حدیث کے باوجو دبھی عورتوں کو مسجد میں اعتکاف کی دعوت دینا یہ ا طاعت مصطفیeنہیں بلکہ صرف اور صرف نفسانی خواہشات کی اتباع ہے اور حضورeکے عمل کی خلاف ورزی ہے ۔
اب علم الحدیث سے جہالت کا یہ عالم ہو اور معلوم ہی نہ ہو کہ ام المومنین نے مسجد میں اعتکاف کیا ہے نہ کہ گھر میں، گو کہ اس واقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ اٹھوا دیئے تھے۔ تو انسان اس جہالت کا کیا کرے!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی مخالفت یہ خود کریں، خواہ اپنی جہالت میں یا خواہ اپنی عقل پرستی میں اور الزام دوسروں کو دینا!
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُجَشِّرٍ , ثنا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ , ثنا الْقَاسِمُ بْنُ مَعْنٍ . ح وَحَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ التُّبَّعِيُّ , ثنا الْقَاسِمُ بْنُ الْحَكَمِ , ثنا الْقَاسِمُ بْنُ مَعْنٍ , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ جُرَيْجٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شِهَابٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , وَعَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُمَا , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ , ثُمَّ اعْتَكَفَهُنَّ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ , وَأَنَّ السُّنَّةَ لِلْمُعْتَكِفِ أَنْ لا يَخْرُجَ إِلا لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ , وَلا يَتْبَعُ جِنَازَةً , وَلا يَعُودُ مَرِيضًا , وَلا يَمَسُّ امْرَأَةً , وَلا يُبَاشِرُهَا , وَلا اعْتِكَافَ إِلا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ , وَيَأْمُرُ مَنِ اعْتَكَفَ أَنْ يَصُومَ " . يُقَالُ : إِنَّ قَوْلَهُ : وَأَنَّ السُّنَّةَ لِلْمُعْتَكِفِ إِلَى آخِرِهِ , لَيْسَ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنَّهُ مِنْ كَلامِ الزُّهْرِيِّ وَمَنْ أَدْرَجَهُ فِي الْحَدِيثِ فَقَدْ وَهِمَ . وَاللَّهُ أَعْلَمُ , وَهِشَامُ بْنُ سُلَيْمَانَ لَمْ يَذْكُرْهُ .
ملاحظہ فرمائیں: سنن الدارقطني » كِتَابُ الصِّيَامِ » بَابُ الاعْتِكَافِ
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ , أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنِ الاعْتِكَافِ وَكَيْفَ سُنَّتِهِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , وَعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُمَا , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ , ثُمَّ اعْتَكَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ , وَأَنَّ السُّنَّةَ فِي الْمُعْتَكِفِ أَنْ لا يَخْرُجَ إِلا لِحَاجَةِ الإِنْسَانِ , وَلا يَتْبَعُ جِنَازَةً , وَلا يَعُودُ مَرِيضًا , وَلا يَمَسُّ امْرَأَةً , وَلا يُبَاشِرُهَا , وَلا اعْتِكَافَ إِلا فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ , وَسُنَّةُ مَنِ اعْتَكَفَ أَنْ يَصُومَ " .
ملاحظہ فرمائیں: سنن الدارقطني » كِتَابُ الصِّيَامِ » بَابُ الاعْتِكَافِ
اس دوسرے نکتہ نظر کے بطلان کے لئے اتنا ہی کافی ہے!