یعنی اگر کسی کتاب کا حوالہ دیا جائے تو اس کی بھی سند پیش کرنی پڑتی ہے تو پھر آپ انوار ساطعہ کی سند پیش کرو۔ہاہاہاہاہا
رانا صاحب آپ اب تک حق کی روشنی سے بہت دور ہو ۔
ہمارے لئے حجت جو ہے وہ عرض کئے دیتا ہوں۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٣﴾
تم لوگ اس کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے (١) اور اللہ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی پیروی مت کرو تم لوگ بہت ہی کم نصیحت پکڑتے ہو۔
٣۔١ جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ ' میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں۔ ' ان دونوں کی پیروی ضروری ہے ان کے علاوہ کسے کا اتباع (پیروی) ضرور ی ٰ نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسے کہ اگلے فقرے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو۔ جس طرح زمانہء جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی تھی حتیٰ کہ حلال اور حرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔
چناچہ ہمارے خلاف حجت پیش کرنی ہے تو اسی اصول کے تحت پیش کریں امتی کی بات مانی بھی جاسکتی ہے اور چھوڑی بھی ۔