• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عیسائی رجسٹرار کے ذریعے بے دین لڑکے سے زبردستی نکاح درست ہے ؟

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
السلام علیکم ،
ایک لڑکی کا نکاح اسلامی تعلیمات سے ہٹے ہوئے مگر کلمہ گو انسان سے زبردستی اس کے والدین نے کیا اور یہ شادی بغیر نکاح کی شرائط کو پورا کئے ، انگلش لاء کے مطابق ایک عیسائی عورت نے رجسٹر کی ، اور گواہان میں کوئی مرد شامل نہیں تھا ، باقی تفصیل اٹیچ کی گئی تصویر میں ہے ،
کیا یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے ؟ یا سرے سے ایسا نکاح منعقد ہوتا ہی نہیں اور اس لڑکی کے لئے اسلام میں اب کیا حکم ہے ؟
2016-12-28_214245.jpg
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہت حساس موضوع ہے! با سند و مستند علماء کا جواب دینا مناسب ہے!
@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس شادی میں تین پہلووں سے جایزہ لیا کا سکتا ہے
ایک تو ولی اور لڑکی دونوں کی رضامندی
دوم گواہوں کی موجودگی
سوم ایجاب و قبول
ان تین پر مکمل وضاحت ہو جایے تو سوال کا جواب آسان ہو جایے گا
 

وہم

رکن
شمولیت
فروری 22، 2014
پیغامات
127
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
75
لڑکی کو پریشرائز و مجبور کیا گیا
شادی کرتے وقت دو گواہ تھے مگر دونوں عورتیں
ایجاب قبول تو میرا خیال ہر مذہب کی شادی میں کسی نے کسی اسلوب سے موجود ضرور ہوتا ہے
----
شادی عیسائی عورت نے کرائی ، یعنی مولوی وہی بنی انگلش لاء کے مطابق شادی ہوئی
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لڑکی کو پریشرائز و مجبور کیا گیا
جب لڑکی ایجاب و قبول میں شامل ہے تو ، نکاح کی شرط تو پوری ہو جاتی ہے، اور پریشرائز و مجبور کئے جانے پر فسخ نکاح کا معاملہ توہو سکتا ہے!
شادی کرتے وقت دو گواہ تھے مگر دونوں عورتیں
یہ نکتہ خاص توجہ طلب ہے، کیا اس وقت جب شادی رجسٹر کی جا رہی تھی، لڑکا لڑکی کے علاوہ صرف دو عورتیں ہی کمرے میں موجود تھیں، یا کوئی اور لوگ بھی موجود تھے، جنہوں نے ایجاب و قبول سنا ہو، جنہیں اس شادی کا گواہ تصور کیا جا سکتا ہو!
اس کی وضاحت شیوخ کو معاملہ سمجھنے میں مفید ہو گی!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ،
ایک لڑکی کا نکاح اسلامی تعلیمات سے ہٹے ہوئے مگر کلمہ گو انسان سے زبردستی اس کے والدین نے کیا اور یہ شادی بغیر نکاح کی شرائط کو پورا کئے ، انگلش لاء کے مطابق ایک عیسائی عورت نے رجسٹر کی ، اور گواہان میں کوئی مرد شامل نہیں تھا ، باقی تفصیل اٹیچ کی گئی تصویر میں ہے ،
کیا یہ نکاح منعقد ہو چکا ہے ؟ یا سرے سے ایسا نکاح منعقد ہوتا ہی نہیں اور اس لڑکی کے لئے اسلام میں اب کیا حکم ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
شریعت اسلامیہ میں نکاح کی مندرجہ ذیل شرطیں ہیں ، جن میں سے کسی شرط کے نہ پائے جانے کی صورت میں نکاح نہیں ہوگا :

شروط صحة النكاح فهي :

أولا : تعيين كل من الزوجين بالإشارة أو التسمية أو الوصف ونحو ذلك .
ثانيا : رضى كلّ من الزوجين بالآخر لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لا تُنْكَحُ الأَيِّمُ ( وهي التي فارقت زوجها بموت أو طلاق ) حَتَّى تُسْتَأْمَرَ ( أي يُطلب الأمر منها فلا بدّ من تصريحها ) وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ( أي حتى توافق بكلام أو سكوت ) قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ إِذْنُهَا ( أي لأنها تستحيي ) قَالَ أَنْ تَسْكُتَ رواه البخاري 4741

ثالثا : أن يعقد للمرأة وليّها لأنّ الله خاطب الأولياء بالنكاح فقال : ( وأَنْكِحوا الأيامى منكم ) ولقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ " رواه الترمذي 1021 وغيره وهو حديث صحيح .

رابعا : الشّهادة على عقد النكاح لقوله صلى الله عليه وسلم : ( لا نكاح إلا بوليّ وشاهدين ) رواه الطبراني وهو في صحيح الجامع 7558

ويتأكّد إعلان النّكاح لقوله صلى الله عليه وسلم : " أَعْلِنُوا النِّكَاحَ . " رواه الإمام أحمد وحسنه في صحيح الجامع 1072

فأما الولي فيُشترط فيه ما يلي : 1- العقل ۔۔ 2- البلوغ۔۔۔۔3- الحريّة

4- اتحاد الدّين فلا ولاية لكافر على مسلم ولا مسلمة وكذلك لا ولاية لمسلم على كافر أو كافرة ، وتثبت للكافر ولاية التزويج على الكافرة ولو اختلف دينهما ، ولا ولاية لمرتدّ على أحد

5- العدالة : المنافية للفسق وهي شرط عند بعض العلماء واكتفى بعضهم بالعدالة الظّاهرة وقال بعضهم يكفي أن يحصل منه النّظر في مصلحة من تولّى أمر تزويجها .

6- الذّكورة لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ وَلا تُزَوِّجُ الْمَرْأَةُ نَفْسَهَا فَإِنَّ الزَّانِيَةَ هِيَ الَّتِي تُزَوِّجُ نَفْسَهَا . " رواه ابن ماجة 1782 وهو في صحيح الجامع 7298

7- الرّشد : وهو القدرة على معرفة الكفؤ ومصالح النكاح .

وللأولياء ترتيب عند الفقهاء فلا يجوز تعدّي الولي الأقرب إلا عند فقده أو فقد شروطه . ووليّ المرأة أبوها ثمّ وصيّه فيها ثمّ جدّها لأب وإن علا ثمّ ابنها ثم بنوه وإن نزلوا ثمّ أخوها لأبوين ثم أخوها لأب ثمّ بنوهما ثمّ عمّها لأبوين ثمّ عمها لأب ثمّ بنوهما ثمّ الأقرب فالأقرب نسبا من العصبة كالإرث ، والسّلطان المسلم ( ومن ينوب عنه كالقاضي ) وليّ من لا وليّ له . والله تعالى أعلم.

ترجمہ:
شرعاً نکاح صحیح ہونے کی شروط :

اول :
زوجین کی تعیین : چاہے یہ تعیین اشارہ یا نام یا پھر صفت بیان کرکے کی جائے ۔

دوم :
خاوند اوربیوی کی دوسرے پر رضامندی :
کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( دوسری شادی کرنے والی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا ، اورکنواری عورت سے بھی نکاح کی اجازت لی جائے گی ، صحابہ کرام کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( کنواری ) کی اجازت کس طرح ہوگی ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاموشی ہی اجازت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4741 ) ۔

حدیث میں ایم کا لفظ استعمال ہوا ہے ایم اس عورت کو کہتے ہیں جو اپنے خاوند سے اس کی موت یا پھر طلاق کی وجہ سے علیحدہ ہوچکی ہو ۔
اورتستامر کا معنی ہے کہ اس سے اجازت کی جائے گی جس میں اس کی جانب سے صراحب ہونا ضروری ہے ، ۔
اورکیف اذنھا : کا معنی ہے کہ کنواری کی اجازت کس طرح کیونکہ وہ تو شرماتی ہے ۔

سوم :
عورت کا نکاح اس کا ولی کرے : کیونکہ اللہ تعالی نے عورت کے نکاح میں ولی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے :
{ اوراپنے میں سے بے نکاح عورتوں اورمردوں کا نکاح کردو } ۔
اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( جس عورت نے بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کانکاح باطل ہے ) سنن ترمذی حديث نمبر ( 1021 ) اس کے علاوہ اورمحدیثین نے بھی اسے روایت کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے ۔

چہارم :
عقد نکاح کے لیے گواہ : اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) رواہ الطبرانی ۔ دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7558 ) ۔

اورنکاح کی تاکید اوراعلان بھی ہونا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( نکاح کااعلان کرو ) مسنداحمد ، صحیح الجامع میں اسے حسن قراردیا گيا ہے دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 1072 ) ۔

ولی بننے کی شروط :
ولی میں مندرجہ ذيل شروط کا ہونا ضروری ہے :
1 – عقل ۔ یعنی عقلمند ہو بے وقوف ولی نہيں بن سکتا ۔
2 – بلوغت ۔ یعنی بالغ ہو بچہ نہ ہو
3 – حریہ : یعنی آزاد ہوغلام نہ ہو ۔
4 – دین ایک ہو ، اس لیے کافر کو مسلمان پر ولایت حاصل نہيں ہوسکتی ، اور اسی طرح مسلمان کسی کافر یا کافرہ کا ولی نہيں بن سکتا ۔
کافرمرد کو کافرہ عورت پر شادی کی ولایت مل سکتی ہے ، چاہے ان کا دین مختلف ہی ہو ، اوراسی طرح مرتد شخص کو بھی کسی پر ولایت نہیں حاصل ہوسکتی ۔

5 – عدالۃ : یعنی عادل ہونا چاہیے یہ عدل فسق کے منافی ہے ، جوبعض علماء کے ہاں تو شرط ہے اوربعض علماء ظاہری طور پر ہی عادل ہونا شرط لگاتے ہیں ، اورکچھ علماء کہتے ہیں کہ اتنا ہی کافی ہے کہ جس کی شادی کا ولی بن رہا ہے اس کی مصلحت حاصل ہونا ہی کافی ہے ۔
6 – ذکورۃ ۔ یعنی وہ مرد ہو ۔
کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( کوئي عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے ، اورنہ ہی کوئي عورت خود اپنی شادی خود کرے ، جوبھی اپنی شادی خود کرتی ہے وہ زانیہ ہوگی ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1782 ) دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7298 ) ۔

7 – رشد ، ایسی قدرت جس سے نکاح کی مصلحت اورکفوکی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔
فقھاء کرام کے ہاں تو تو ترتیب ضروری ہے اس لیے ولی کے نہ ہونے یا اس کی نااہلی کی بنا پر یا پھر اس میں شروط نہ پائے جانے ک صورت میں قریبی ولی کو چھوڑ کر دور والے کو ولی بنانا جائز نہیں ۔
عورت کا ولی اس کا والد ہے اس کے بعد جس کے بارہ میں وہ وصیت کرے ، پھر اس کا دادا ، پڑدادا اوراس کے اوپر تک ، پھر اس کے بعد عورت کا بیٹا ، اورپھر پوتا اوراس سے نيچے تک ، پھر اس کے بعد عورت کا سگا بھائی ، پھر والد کی طرف سے بھائي ، پھر ان دونوں کے بیٹے ، پھر عورت کا سگا چچا ، پھر والد کی طرف سے چچا ، پھر چچا کے بیٹے ، پھر نسب کے لحاظ کے سے قریبی شخص جو عصبہ ہو ولی بنے گا جس طرح کہ وراثت میں ہے ، اورپھر جس کا کوئي ولی نہيں اس کا ولی مسلمان حکمران یا پھر اس کا قائم مقام قاضی ولی بنے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ شرطیں پوری ہوں تو
عقدنکاح کے تین ارکان ہیں :
اول :
خاوند اوربیوی کی موجودگی جن میں مانع نکا ح نہ پایا جائے جوصحت نکاح میں مانع ہو مثلا نسب یا پھر رضاعت کی وجہ سے محرم وغیرہ ، اوراسی طرح مرد کافر ہو اورعورت مسلمان ہو ۔

دوم :
حصول ایجاب : ایجاب کے الفاظ عورت کے ولی یا پھر اس کے قائم مقام کی طرف سے اس طرح ادا ہوں کہ وہ خاوند کویہ کہے کہ میں نے تیری شادی فلاں لڑکی سے کردی یا اسی طرح کے کوئي اورالفاظ ۔

سوم :
حصول قبول : قبولیت کے الفاظ خاوند یا پھر اس کے قائم مقام سے ادا ہوں مثلا وہ یہ کہے کہ میں نے قبول کیا یا اسی طرح کے کچھ اور الفاظ ۔
واللہ اعلم
https://islamqa.info/ur/2127
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ایک لڑکی کا نکاح اسلامی تعلیمات سے ہٹے ہوئے مگر کلمہ گو انسان سے زبردستی اس کے والدین نے کیا
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال اگر صورت محررہ سچ مچ اصل واقعہ کے عین مطابق ہے تو واضح ہو کہ نکاح اور اس کے انعقاد شرعی کے لئے لڑکی کی رضا مندی اور ولی کی اجازت بلا اکراہ جبر شرعاً نہایت ضروری بلکہ اساسی شرط ہے ۔اگر یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک نہ ہو تو شرعاً نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔چنانچہ صحیح بخاری وغیرہ میں ہے :

(أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: «أَنْ تَسْكُتَ»(۱:صحیح البخاری باب لاینکح الا ب وغیرہ البکر والشیب الا برضاھا،ج۲ ص ۷۷۱)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تک بیوہ عورت سے مکمل مشورہ نہ کیا جائے اس کا نکاح نہ کیا جائے اور اس طرح جب تک کنواری عورت سے اجازت نہ لی جائے اس کا نکاح نہ پڑھا جائے۔آپ ﷺنے دو بارفرمایا :اس کا خاموش رہنا اس کی اجازت ہے
(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِيَةً بِكْرًا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ أَنَّ «أَبَاهَا زَوَّجَهَا وَهِيَ كَارِهَةٌ، فَخَيَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»(۲: رواہ احمد و ابوداؤد ابن ماجة، سبل السلام ج۳ ص ۱۲۲)
”ایک جوان لڑکی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میرےوالد نے دھکے سے میرا نکاح کر دیا ہے ،جبکہ میں اس نکاح کو پسند نہیں کرتی تو رسول اللہﷺ نے اس لڑکی کو اختیار دے دیا کہ چاہے تو بحال رکھے یا اس نکاح کو مسترد کر دے“
اگرچہ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو مرسل ،یعنی ضعیف کہا ہے ،مگر یہ جرح درست نہیں ۔ اس جرح کا جواب یہ ہے:

(وَأُجِيبَ عَنْهُ بِأَنَّهُ رَوَاهُ أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ عَنْ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَيُّوبَ مَوْصُولًا، وَكَذَلِكَ رَوَاهُ مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ عَنْ زَيْدِ بْنِ حِبَّانَ عَنْ أَيُّوبَ مَوْصُولًا، وَإِذَا اخْتَلَفَ فِي وَصْلِ الْحَدِيثِ، وَإِرْسَالِهِ فَالْحُكْمُ لِمَنْ وَصَلَهُ قَالَ الْمُصَنِّفُ: الطَّعْنُ فِي الْحَدِيثِ لَا مَعْنَى لَهُ لِأَنَّ لَهُ طُرُقًا يُقَوِّي بَعْضُهَا بَعْضً) (۱:سبل السلام ج۳ص۱۲۲)
کہ ایوب بن زید سوید اور زید بن حبان نے اس حدیث کو ایوب سے موصول بیان کیا ہے اور پھر اس کی اسناد بھی متعدد ہیں جو ایک دوسری کو تقویت دے رہی ہیں جس سے یہ حدیث حجت بن جاتی ہے ۔ان دونوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہواکہ جب تک لڑکی راضی نہ ہوتو شرعی ولی کا پڑھا ہوانکاح بھی شرعی نکاح نہیں ہوتا اور ایسی مجبور لڑکی کو اس نکاح کو بحال رکھنے یا فسخ کر دینے کا شرعاً حق حاصل ہے ۔لہٰذا صورت مسئولہ میں پڑھا گیا نکاح چونکہ دھکے اور سینہ زوری پر مشتمل ہے ۔لہٰذا یہ نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوا۔یعنی باطل ہے ۔

]فتاویٰ محمدیہ
ج1ص709
محدث فتویٰ
 
Last edited:
Top