• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ اُحد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ اور چند لمحوں میں عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں کا صفا یا کر کے مسلمانوں پر پیچھے سے ٹوٹ پڑے۔ ان کے شہسواروں نے ایک نعرہ بلند کیا جس سے شکست خوردہ مشرکین کو اس نئی تبدیلی کا علم ہوگیا۔ اور وہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ادھر قبیلہ بنو حارث کی ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے لپک کر زمین پر پڑا ہوا مشرکین کا جھنڈا اٹھا لیا ، پھر کیا تھا ، بکھرے ہوئے مشرکین اس کے گرد سمٹنے لگے اور ایک نے دوسرے کو آواز دی ، جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور جم کر لڑائی شروع کردی۔ اب مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیر ے میں آچکے تھے۔ گویا چکی کے دوپاٹوں کے بیج میں پڑگئے تھے۔
رسول اللہﷺ کا پُر خطر فیصلہ اوردلیرانہ اقدام :
اس وقت رسول اللہﷺ صرف نو صحابہؓ 1کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے 2تشریف فرماتھے اور مسلمانوں کی ماردھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑ ے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپﷺ کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائیپڑے۔ اس کے بعد آپﷺ کے سامنے دوہی راستے تھے ، یا تو آپﷺ اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے۔ یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے۔ اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔
آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہﷺ کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپﷺ نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ آپﷺ نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکار ا: اللہ کے بند و ! ادھر ... ! حالا نکہ آپﷺ جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی۔ چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ یہیں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔ اب ہم دونوں کی تفصیلات الگ الگ ذکرکررہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم (۲/۱۰۷ ) میں روایت ہے کہ آپﷺ احد کے روز صرف سات انصار اور دوقریشی صحابہؓ کے درمیان رہ گئے تھے۔
2 اس کی دلیل اللہ یہ کا ارشاد ہے:
یعنی رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں بلارہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مسلمانوں میں انتشار :
جب مسلمان نرغے میں آگئے تو ایک گروہ تو ہوش کھو بیٹھا، اسے صرف اپنی جان کی پڑی تھی۔ چنانچہ اس نے میدان ِ جنگ چھوڑ کر فرار کی راہ اختیار کی۔ اسے کچھ خبر نہ تھی کہ پیچھے کیا ہورہا ہے ؟ ان میں سے کچھ تو بھاگ کر مدینے میں جاگھسے۔ اور کچھ پہاڑ کے اُوپر چڑھ گئے۔ ایک اور گروہ پیچھے کی طرف پلٹا تو مشرکین کے ساتھ مخلوط ہوگیا۔ دونوں لشکر گڈ مڈ ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں بعض مسلمان مار ڈالے گئے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ احد کے روز (پہلے ) مشرکین کو شکست فاش ہوئی۔ اس کے بعد ابلیس نے آواز لگائی کہ اللہ کے بندو ! پیچھے ... اس پر اگلی صف پلٹی اور پچھلی صف سے گتھ گئی۔ حذیفہ نے دیکھا کہ ان کے والد یمان پر حملہ ہورہا ہے۔ وہ بولے : اللہ کے بندو ! میرے والد ہیں۔ لیکن اللہ کی قسم! لوگوں نے ان سے ہاتھ نہ روکا۔ یہاں تک کہ انہیں مار ہی ڈالا۔ حذیفہ نے کہا : اللہ آپ لوگوں کی مغفرت کرے۔ حضرت عروہ کا بیان ہے کہ واللہ حضرت حذیفہؓ میں ہمیشہ خیر کا بقیہ رہا یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملے۔1
غرض اس گروہ کی صفوں میں سخت انتشار اور بد نظمی پیدا ہوگئی تھی۔ بہت سے لوگ حیران وسرگرداں تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں۔ اسی دوران ایک پکار نے والے کی پکار سنائی پڑی کہ محمدﷺ قتل کر دیئے گئے ہیں۔ اس سے رہا سہا ہوش بھی جاتا رہا۔ اکثر لوگوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ بعض نے لڑائی سے ہاتھ روک لیا اور درماندہ ہو کر ہتھیار پھینک دیئے۔ کچھ اور لوگوں نے سوچا کہ رأس المنافقین عبد اللہ بن اُبی سے مل کر کہا جائے کہ وہ ابو سفیان سے ان کے لیے امان طلب کردے۔
چند لمحے بعد ان لوگوں کے پاس حضرت انس بن نضرؓ کا گزر ہوا۔ دیکھا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے پڑے ہیں۔ پوچھا کاہے کا انتظار ہے ؟ جواب دیا کہ رسول اللہﷺ قتل کر دیئے گئے۔ حضرت انس بن نضر نے کہا : تو اب آپﷺ کے بعد تم لوگ زندہ رہ کر کیا کرو گے ؟ اُٹھو! اور جس چیز پر رسول اللہﷺ نے جان دی اسی پر تم بھی جان دیدو۔ اس کے بعد کہا : اے اللہ ! ان لوگوں نے ـــــ یعنی مسلمانوں نے ـــــ جو کچھ کیا ہے اس پر میں تیرے حضور معذرت کرتا ہوں۔ اور ان لوگوں نے ـــــ یعنی مشرکین نے ـــــ جو کچھ کیا ہے اس سے براء ت اختیار کرتا ہوں۔ اور یہ کہہ کر آگے بڑ ھ گئے۔ آگے حضرت سعدؓ بن معاذ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا: ابو عمر ! کہاں جارہے ہو ؟ حضرت انسؓ نے جواب دیا : آہا ، جنت کی خوشبو کا کیا کہنا۔ اے سعد ! میں اسے احد کے پرے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۱/۵۳۹ ، ۲/۵۸۱ فتح الباری ۷/۳۵۱ ، ۳۶۲ ، ۳۶۳ ، بخاری کے علاوہ بعض روایات میں مذکور ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کی دیت دینی چاہی۔ لیکن حضرت حذیفہؓ نے کہا : میں نے ان کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کردی۔ اس کی وجہ سے نبیﷺ کے نزدیک حضرت حذیفہؓ کے خیر میں مزید اضافہ ہو گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
محسوس کررہاہوں۔ اس کے بعد اور آگے بڑھے اور مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ خاتمہ ٔ جنگ کے بعد انہیں پہچانا نہ جاسکا حتی ٰ کہ ان کی بہن نے انہیں محض انگلیوں کے پور سے پہچانا۔ ان کو نیزے،تلوار اور تیر کے اسی ۸۰ سے زیا دہ زخم آئے تھے۔1
اسی طرح ثابت بن دَحداحؓ نے اپنی قوم کو پکارکر کہا : اگر محمدﷺ قتل کردیئے گئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے۔ وہ تو نہیں مر سکتا۔ تم اپنے دین کے لیے لڑو۔ اللہ تمہیں فتح ومدد دے گا۔ اس پر انصار کی ایک جماعت اٹھ پڑی۔ اور حضرت ثابتؓ نے ان کی مدد سے خالد کے رسالے پر حملہ کردیا۔ اور لڑتے لڑتے حضرت خالد کے ہاتھوں نیزے سے شہید ہوگئے، انہی کی طرح ان کے رفقاء نے بھی لڑتے لڑتے جام ِ شہادت نوش کیا۔2
ایک مہاجر صحابی ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو خون میں لت پت تھے۔ مہاجر نے کہا : بھئ فلاں! آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ محمدﷺ قتل کردیئے گئے۔ انصار ی نے کہا : اگرمحمدﷺ قتل کردیئے گئے تو وہ اللہ کا دین پہنچاچکے ہیں۔ اب تمہارا کام ہے کہ اس دین کی حفاظت کے لیے لڑو۔3
اس طرح کی حوصلہ افزا اور ولولہ انگیز باتوں سے اسلامی فوج کے حوصلے بحال ہوگئے۔ اوران کے ہوش وحواس اپنی جگہ آگئے۔ چنانچہ اب انہوں نے ہتھیار ڈالنے یا ابن اُبی ّ سے مل کر طلب ِ امان کی بات سوچنے کے بجائے ہتھیار اٹھالیے۔ اور مشرکین کے تند سیلاب سے ٹکر اکر ان کا گھیرا توڑنے اور مرکز قیادت تک راستہ بنانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔ اسی دوران یہ بھی معلوم ہوگیا کہ رسول اللہﷺ کے قتل کی خبر محض جھوٹ اور گھڑنت ہے۔ اس سے ان کی قوت اور بڑھ گئی۔ اور ان کے حوصلوں اور ولولوں میں تازگی آگئی۔ چنانچہ وہ ایک سخت اور خون ریز جنگ کے بعد گھیرا توڑ کرنرغے سے نکلنے اور ایک مضبوط مرکز کے گرد جمع ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
اسلامی لشکر کا ایک تیسرا گروہ وہ تھا جسے صرف رسول اللہﷺ کی فکر تھی۔ یہ گروہ گھیراؤ کی کارروائی کا علم ہوتے ہی رسول اللہﷺ کی طرف پلٹا۔ ان میں سر ِ فہرست ابوبکر صدیق ، عمر بن الخطاب اور علی بن ابی طالب وغیرہم رضی اللہ عنہم تھے۔یہ لوگ مقاتلین کی صف ِ اول میں بھی سب سے آگے تھے لیکن جب نبیﷺ کی ذات گرامی کے لیے خطرہ پیدا ہوا تو آپﷺ کی حفاظت اور دفاع کرنے والوں میں بھی سب سے آگے آگے آگئے۔
رسول اللہﷺ کے گرد خون ریز معرکہ:
عین اس وقت جبکہ اسلامی لشکر نرغے میں آکر مشرکین کی چکی کے دوپاٹوں کے درمیان پس رہا تھا۔ رسول اللہﷺ کے گرد اگرد بھی خون ریز معرکہ آرائی جاری تھی۔ ہم بتاچکے ہیں کہ مشرکین نے گھیراؤ کی کارروائی شروع
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۹۳، ۹۶۔ صحیح بخاری ۲/۵۷۹
2 السیرۃ الحلبیہ ۲/۲۲ 3 زاد المعاد ۲/۹۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کی تورسول اللہﷺ کے ہمراہ محض نو آدمی تھے۔ اور جب آپﷺ نے مسلمانوں کو یہ کہہ کر پکار اکہ میری طرف آؤ ! میں اللہ کا رسول ہوں، تو آپ کی آواز مشرکین نے سن لی۔ اور آپﷺ کو پہچان لیا۔ (کیونکہ اس وقت وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ آ پﷺ کے قریب تھے ) چنانچہ انہوں نے جھپٹ کر آپﷺ پر حملہ کردیا اور کسی مسلمان کی آمد سے پہلے پہلے اپناپور ابوجھ ڈال دیا۔ اس فوری حملے کے نتیجے میں ان مشرکین اور وہاں پر موجود نوصحابہ کے درمیان نہایت سخت معرکہ آرائی شروع ہوگئی۔ جس میں محبت وجان سپاری اور شجاعت وجانبازی کے بڑے بڑے نادر واقعات پیش آئے۔
صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اُحد کے روز رسول اللہﷺ سات انصار اور دوقریشی صحابہ کے ہمراہ الگ تھلگ رہ گئے تھے۔ جب حملہ آور آپﷺ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو آپﷺ نے فرمایا : کون ہے جو انہیں ہم سے دفع کرے اور اس کے لیے جنت ہے ؟ یا (یہ فرمایا کہ ) وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا؟ اس کے بعد ایک انصاری صحابی آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد پھر مشرکین آپﷺ کے بالکل قریب آگئے ، اور پھر یہی ہوا۔ اس طرح باری باری ساتوں انصاری صحابی شہید ہوگئے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے اپنے دو باقی ماندہ ساتھیوں - یعنی قریشیوں- سے فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ 1
ان ساتوں میں سے آخری صحابی حضرت عمارہ بن یزید بن السکن تھے، وہ لڑتے رہے لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے۔ 2
ابن السکن کے گرنے کے بعد رسول اللہﷺ کے ہمراہ صرف دونوں قریشی صحابی رہ گئے تھے۔ چنانچہ صحیحین میں ابوعثمانؓ کا بیان مروی ہے کہ جن ایام میں آپﷺ نے معرکہ آرائیاں کیں ان میں سے ایک لڑائی میں آپﷺ کے ساتھ طلحہ بن عبید اللہ اور سعد (بن ابی وقاص )کے سوا کوئی نہ رہ گیا تھا۔ 3اور یہ لمحہ رسول اللہﷺ کی زندگی کے لیے نہایت ہی نازک ترین لمحہ تھا۔ جبکہ مشرکین کے لیے انتہائی سنہری موقع تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مشرکین نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے اپنا تابڑ توڑ حملہ نبیﷺ پر مرکوز رکھا۔ اور چاہا کہ آپﷺ کا کام تمام کردیں۔ اسی حملے میں عُتبہ بن ابی وقاص نے آپﷺ کو پتھر مارا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم باب غزوۂ احد ۲/۱۰۷
2 ایک لحظہ بعد رسول اللہﷺ کے پاس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت آگئی۔ انہوں نے کفار کو حضرت عمارہ سے پیچھے دھکیلا۔ اور انہیں رسول اللہﷺ کے قریب لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پاؤں پر ٹیک لیا۔ اور انہوں نے اس حالت میں دم توڑ دیا۔ کہ ان کے رخسار رسول اللہﷺ کے پاؤں پر تھا۔ (ابن ہشام ۲/۸۱) گویا یہ آرزو حقیقت بن گئی ؎
نکل جائے دم تیرے قدموں کے ''اوپر '' یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
3 صحیح بخاری ۱/۵۲۷ ، ۵۸۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جس سے آپﷺ پہلو کے بل گر گئے۔ آپﷺ کا داہنا نچلا رباعی1 دانت ٹوٹ گیا۔ اور آپﷺ کا نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبد اللہ بن شہاب زہری نے آگے بڑھ کر آپﷺ کی پیشانی زخمی کردی۔ ایک اور اڑیل سوار عبداللہ بن قمئہ نے لپک کر آپﷺ کے کندھے پر ایسی سخت تلوار ماری کہ آپﷺ ایک مہینے سے زیادہ عرصے اس کی تکلیف محسوس کرتے رہے۔ البتہ آپﷺ کی دوہری زِرہ نہ کٹ سکی۔ اس کے بعد اس نے پہلے ہی کی طرح پھرایک زور دار تلوار ماری جوآنکھ سے نیچے کی اُبھری ہوئی ہڈی پر لگی اور اس کی وجہ سے خود 2کی دوکڑیاں چہرے کے اندر دھنس گئیں۔ ساتھ ہی اس نے کہا : اسے لے ، میں قمئہ (توڑنے والے ) کا بیٹا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے چہرے سے خون پونچھتے ہوئے فرمایا : اللہ تجھے توڑ ڈالے۔ 3
صحیح بخاری میں مروی ہے کہ آپﷺ کا رباعی دانت توڑ دیا گیا اور سر زخمی کردیا گیا۔ اس وقت آپﷺ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جارہے تھے ، اور کہتے جارہے تھے ، وہ قوم کیسے کامیاب ہوسکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرے کو زخمی کردیا۔ اور اس کا دانت توڑ دیا۔ حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دے رہاتھا۔ اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :
(۳: ۱۲۸)''آپ کو کوئی اختیار نہیں اللہ چاہے توانہیں توبہ کی توفیق دے اور چاہے تو عذاب دے کہ وہ ظالم ہیں ۔''4
طبرانی کی روایت ہے کہ آپﷺ نے اس روزفرمایا :اس قوم پر اللہ کا سخت عذاب ہو جس نے اپنے پیغمبر کا چہرہ خون آلود کر دیا۔ پھر تھوڑی دیر رک کر فرمایا :
(( اللہم اغفر لقومي فإنہم لا یعلمون۔ )) 5
''اے اللہ! میری قوم کو بخش دے ،وہ نہیں جانتی ۔''
صحیح مسلم کی روایت میں بھی یہی ہے کہ آپﷺ باربار کہہ رہے تھے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 منہ کے بالکل بیچوں بیچ نیچے اُوپر کے دودو دانت ثنایا کہلاتے ہیں۔ اور ان کے دائیں بائیں ، نیچے اوپر کے ایک ایک دانت رباعی کہلاتے ہیں۔ جو کچلی کے نو کیلے دانت سے پہلے ہوتے ہیں۔
2 لوہے یا پتھر کی ٹوپی جسے جنگ میں سراور چہرے کی حفاظت کے لیے اوڑھا جاتا ہے۔
3 اللہ نے آپﷺ کی یہ دعاسن۔ لی چنانچہ ابن عائذ سے روایت ہے کہ ابن قمئہ جنگ سے گھر واپس جانے کے بعد اپنی بکریاں دیکھنے کے لیے نکلا تو یہ بکریاں پہاڑ کی چوٹی پر ملیں۔ یہ شخص وہاں پہنچا تو ایک پہاڑی بکرے نے حملہ کردیا۔ اور سینگ مارمار کر پہاڑ کی بلندی سے نیچے لڑھکا دیا۔ (فتح الباری ۷/۳۷۳)اور طبرانی کی روایت ہے کہ اللہ نے اس پر ایک پہاڑی بکرا مسلط کردیا ، جس نے سینگ مارمار کر اسے ٹکڑ ے ٹکڑے کر دیا۔ (فتح الباری ۷/۳۶۶)
4 صحیح بخاری ۲/۵۸۲۔ صحیح مسلم ۲/۱۰۸
5 فتح الباری ۷/۳۷۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
(( رب اغفر لقومی فإنہم لا یعلمون ۔)) 1
''اے پروردگار ! میری قوم کو بخش دے وہ نہیں جانتی ۔''
قاضی عیاض کی شفا میں یہ الفاظ ہیں :
(( اللہم اہد قومي فإنہم لا یعلمون ۔ )) 2
''اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے۔ وہ نہیں جانتی ۔''
اس میں شبہ نہیں کہ مشرکین آپﷺ کاکام تمام کردینا چاہتے تھے مگر دونوں قریشی صحابہ، یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما نے نادر الوجود جانبازی اور بے مثال بہادر ی سے کام لے کر صرف دوہوتے ہوئے مشرکین کی کامیابی ناممکن بنادی۔ یہ دونوں عرب کے ماہر ترین تیر انداز تھے۔ انہوں نے تیر مارمار کر مشرکین حملہ آوروں کو رسول اللہﷺ سے پرے رکھا۔
جہاں تک سعد بن ابی وقاصؓ کا تعلق ہے تو رسول اللہﷺ نے اپنے ترکش کے سارے تیر ان کے لیے بکھیر دیئے۔ اور فرمایا: چلا ؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔3 ان کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کے سوا کسی اور کے لیے ماں باپ کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔4
اور جہاں تک حضرت طلحہؓ کا تعلق ہے تو ان کے کارنامے کا اندازہ نسائی کی ایک روایت سے لگا یا جاسکتا ہے۔ جس میں حضرت جابرؓ نے رسول اللہﷺ پر مشرکین کے اس وقت کے حملے کا ذکر کیا ہے۔جب آپﷺ انصار کی ذرا سی نفری کے ہمراہ تشریف فرماتھے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ مشرکین نے رسول اللہﷺ کو جالیا تو آپﷺ نے فرمایا : کون ہے جو ان سے نمٹے ؟حضر ت طلحہؓ نے کہا : میں۔ اس کے بعد حضرت جابرؓ نے انصار کے آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے شہید ہونے کی تفصیل ذکر کی ہے جسے ہم صحیح مسلم کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ سب شہید ہوگئے تو حضرت طلحہؓ آگے بڑھے۔ اور گیارہ آدمیوں کے برابر تنہا لڑائی کی۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر تلوار کی ایک ایسی ضرب لگی جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ اس پر ان کے منہ سے آواز نکلی حس (سی)۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر تم بسم اللہ کہتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے اور لوگ دیکھتے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ پھر اللہ نے مشرکین کو پلٹادیا۔5
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم ، باب غزوۂ احد ۲/۱۰۸
2 کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ۱/۸۱
3 ، 4 صحیح بخاری ۱/۴۰۷ ، ۲/۵۸۰ ، ۵۸۱
5 فتح الباری ۷/۳۶۱سنن النسائی ۲/۵۲، ۵۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اکلیل میں حاکم کی روایت ہے ا نہیں اُحد کے روز انتالیس تا پینتیس زخم آئے۔ اور ان کی بچلی اور شہادت کی انگلیاں شل ہوگئیں۔1
امام بخاری نے قیس بن ابی حازم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے حضرت طلحہؓ کا ہاتھ دیکھا کہ وہ شل تھا۔ اس سے اُحد کے دن انہوں نے نبیﷺ کو بچایا تھا۔2
ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں اس روز فرمایا: جو شخص کسی شہید کو روئے زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہے وہ طلحہؓ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔3
اور ابوداؤد طیالسی نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ابو بکرؓ جب جنگ ِاحد کا تذکرہ فرماتے تو کہتے کہ یہ جنگ کل کی کل طلحہؓ کے لیے تھی۔ 4(یعنی اس میں نبیﷺ کے تحفظ کا اصل کا رنامہ انہیں نے انجام دیا تھا) حضرت ابو بکرؓ نے ان کے بارے میں یہ بھی کہا :
یا طلحۃ بن عبید اللہ قد وجبت
لک الجنان وبوأت المہا العینا 5
''اے طلحہ بن عبید اللہ تمہارے لیے جنتیں واجب ہوگئیں۔ اور تم نے اپنے یہاں حورعین کا ٹھکا نا بنا لیا ۔''
اسی نازک ترین لمحہ اور مشکل ترین وقت میں اللہ نے غیب سے اپنی مدد نازل فرمائی۔چنانچہ صحیحین میں حضرت سعدؓ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اُحد کے روز دیکھا آپﷺ کے ساتھ دوآدمی تھے۔ سفید کپڑے پہنے ہوئے۔ یہ دونوں آپﷺ کی طرف سے انتہائی زوردار لڑائی لڑرہے تھے۔ میں نے اس پہلے اور اس کے بعد ان دونوں کو کبھی نہیں دیکھا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ یہ دونوں حضرت جبریل وحضرت میکائیل تھے۔6
رسول اللہﷺ کے پاس صحابہ کے اکٹھا ہونے کی ابتدا:
یہ سارا حادثہ چند لمحات کے اندر اندر بالکل اچانک اور نہایت تیز رفتاری سے پیش آگیا۔ ورنہ نبیﷺ کے منتخب صحابہ کرام جو لڑائی کے دوران صفِ اوّل میں تھے، جنگ کی صورت ِ حال بدلتے ہی یا نبیﷺ کی آواز سنتے ہی آپ کی طرف بے تحاشا دوڑ کر آئے کہ کہیں آپﷺ کو کوئی ناگوار حادثہ پیش نہ آجائے۔ مگر یہ لوگ پہنچے تو رسول اللہﷺ زخمی ہوچکے تھے۔ چھ انصاری شہید ہوچکے تھے ساتویں زخمی ہوکر گر چکے تھے۔ اور حضرت سعدؓ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 فتح الباری ۷/۳۶۱ 2 صحیح البخاری ۱/۵۲۷، ۵۸۱
3 ترمذی : مناقب ، حدیث نمبر ۳۷۴۰، ابن ماجہ :مقدمہ حدیث نمبر ۱۲۵
4 فتح الباری ۷/۳۶۱ 5 مختصر تاریخ دمشق ۷/۸۲
6 صحیح بخاری ۲/۵۸۰ ، مسلم : فضائل حدیث نمبر ۴۶ ، ۴۷ (۴/۱۸۰۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور حضرت طلحہؓ جان توڑ کر مدافعت کررہے تھے۔ ان لوگوں نے پہنچتے ہی اپنے جسموں اور ہتھیاروں سے نبیﷺ کے گرد ایک باڑھ تیار کردی۔ اور دشمن کے تابڑ توڑ حملے روکنے میں انتہائی بہادری سے کام لیا۔ لڑائی کی صف سے آپﷺ کے پاس پلٹ کر آنے والے سب سے پہلے صحابی آپﷺ کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔
ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ ابو بکرؓ نے فرمایا : اُحد کے دن سارے لوگ نبیﷺ سے پلٹ گئے تھے۔ (یعنی محافظین کے سوا تمام صحابہ آپﷺ کو آپ کی قیام گاہ میں چھوڑ کر لڑائی کے لیے اگلی صفوں میں چلے گئے تھے۔ پھر گھیراؤ کے حادثے کے بعد ) میں پہلا شخص تھا جو نبیﷺ کے پاس پلٹ کر آیا۔ دیکھا تو آپ کے سامنے ایک آدمی تھا۔ جو آپﷺ کی طرف سے لڑرہا تھا۔ اور آپﷺ کو بچا رہا تھا۔ میں نے (جی ہی جی میں ) کہا:تم طلحہؓ ہو ؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ تم طلحہ ہوؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ (چونکہ مجھ سے یہ لمحہ فوت ہو گیا تھا، اس لیے میں نے کہا کہ میری قوم ایک آدمی ہو تو یہ زیادہ پسندیدہ بات ہے۔ 1اتنے میں ابو عبیدہ بن جراح میرے پاس آگئے۔ وہ اس طرح دوڑ رہے تھے۔ گویا چڑیا (اُڑ رہی ) ہے۔ یہاں تک کہ مجھ سے آملے۔ اب ہم دونوں نبیﷺ کی طرف دوڑے۔ دیکھا تو آپ کے آگے طلحہ بچھے پڑے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کو سنبھالو اس نے (جنت ) واجب کرلی۔ حضرت ابو بکرؓ کا بیان ہے کہ (ہم پہنچے تو ) نبیﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہوچکا تھا۔ اور خُود کی دوکڑیاں آنکھ کے نیچے رخسار میں دھنس چکی تھیں۔ میں نے انہیں نکالنا چاہا تو ابو عبیدہ نے کہا: اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔ اس کے بعد انہوں نے منہ سے ایک کڑی پکڑ ی۔ اور آہستہ آہستہ نکالنی شروع کی تاکہ رسول اللہﷺ کو اذیت نہ پہنچے۔ اور بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی لیکن ( اس کوشش میں ) ان کا ایک نچلا دانت گرگیا۔ اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابو عبیدہ نے پھر کہا : ابوبکر ! اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے کھینچنے دیجیے ! اس کے بعد دوسری بھی آہستہ آہستہ کھینچی۔ لیکن ان کا دوسرا نچلا دانت بھی گرگیا۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی طلحہؓ کو سنبھالو۔ (اس نے جنت ) واجب کرلی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کہتے ہیں کہ اب ہم طلحہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور انہیں سنبھالا۔ ان کو دس سے زیادہ زخم آچکے تھے۔2تہذیب تاریخ دمشق میں ہے کہ ہم ان کے پاس بعض گڑھوں میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ انہیں نیزے ، تیراور تلوار کے کم وبیش ساٹھ زخم لگے ہوئے ہیں۔ اور ان کی انگلی کٹ گئی ہے۔ ہم نے کسی قدر ان کا حال درست کیا۔3(اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت طلحہؓ نے اس دن دفاع وقتال میں کیسی جانبازی اور بے جگری سے کام لیا تھا۔)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 تہذیب تاریخ دمشق ۷/۷۷ طلحہ بن عبیدا للہ بھی حضرت ابو بکر کے قبیلہ بنو تیم سے تھے۔
2 زاد المعاد ۲/۹۵ 3 تہذیب تاریخ دمشق ۷/۷۸
پھر ان ہی نازک ترین لمحات کے دوران رسول اللہﷺ کے گرد جانباز صحابہ کی ایک جماعت بھی آن پہنچی۔ جن کے نام یہ ہیں:
ابو دجانہ ! مصعب بن عمیر
" علی بن ابی طالب 3 سہل بن حُنیف
4 مالک بن سنان(ابو سعید خدری کے والد ) 5 ام عمارہ نُسیبہ بنت کعب مازنیہ
& قتادہ بن نعمان ' عمر بن الخطاب
( حاطب بن ابی بلتعہ اور ابو طلحہ رضی اللہ عنہم اجمعین
یہ لوگ کیسے کیسے رسول اللہﷺ تک پہنچے ہوں گے ان کا ایک ہلکا سا اندازہ حضرت علیؓ کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ احد کے دن جب لوگ رسول اللہﷺ سے منہزم ہوگئے تو میں نے مقتولین میں دیکھا۔ رسول اللہﷺ نظر نہ آئے۔ میں نے جی میں کہا: واللہ! آپ بھا گ نہیں سکتے۔ اور مقتولین میں آپ کو دیکھ نہیں رہا ہوں ، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے اس سے اللہ نے غضبناک ہوکر اپنے نبیﷺ کو اٹھا لیا ہے۔ لہٰذامیرے لیے اس سے بہتر کوئی صورت نہیں کہ لڑتے لڑتے شہید ہوجاؤں۔ پھر کیا تھا میں نے اپنی تلوارکی میان توڑ دی اور قریش پر اس زور کا حملہ کیا کہ انہوں نے جگہ خالی کردی۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہﷺ ان کے درمیا ن (گھیرے میں ) موجودہیں۔1
مشرکین کے دباؤ میں اضافہ:
ادھر مشرکین کی تعدادبھی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان کے حملے سخت ہوتے جارہے تھے اور ان کا دباؤ بڑھتا جارہا تھا یہاں تک کہ رسول اللہﷺ ان چند گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں جاگرے۔ جنہیں ابو عامر فاسق نے اسی قسم کی شرارت کے لیے کھود رکھا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں آپﷺ کا گھُٹنا موچ کھا گیا۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے آپﷺ کا ہاتھ تھاما۔ اور طلحہ بن عبید اللہ نے ( جو خود بھی زخموں سے چُور تھے) آپﷺ کو آغوش میں لیا۔ تب آپﷺ برابر کھڑے ہوسکے۔
نافع بن جبیر کہتے ہیں: میں نے ایک مہاجر صحابی کو سنا فرمارہے تھے : میں جنگ اُحد میں حاضر تھا۔ میں نے دیکھا کہ ہر جانب سے رسول اللہﷺ پر تیر برس رہے ہیں۔ اور آپﷺ تیروں کے بیچ میں ہیں لیکن سارے تیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھیر دیے جاتے ہیں۔ (یعنی آگے گھیرا ڈالے ہوئے صحابہ انہیں روک لیتے تھے۔ ) اور میں نے دیکھا کہ عبد اللہ بن شہاب زہری کہہ رہا تھا: مجھے بتاؤ محمد کہاں ہے ؟ اب یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ حالانکہ رسول اللہﷺ اس کے بازو میں تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نکل گیا۔ اس پر صفوان نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند ابی یعلی ۱/۴۱۶ حدیث نمبر ۵۴۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اسے ملامت کی۔ جواب میں اس نے کہا: واللہ ! میں نے اسے دیکھا ہی نہیں۔ اللہ کی قسم! وہ ہم سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہم چار آدمی یہ عہد وپیمان کر کے نکلے کہ انہیں قتل کردیں گے لیکن ان تک پہنچ نہ سکے۔1
نادرۂ روزگار جانبازی:
بہرحال اس موقع پر مسلمانوں نے ایسی نادرۂ روزگار جانبازی اور تابناک قربانیوں سے کام لیا جس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ ابو طلحہؓ نے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے آگے سپربنا لیا۔ وہ اپنا سینہ اوپر اٹھا لیا کرتے تھے تاکہ آپﷺ کو دشمن کے تیروں سے محفوظ رکھ سکیں۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ اُحد کے روز لوگ (یعنی عام مسلمان) شکست کھاکر رسول اللہﷺ کے پاس (آنے کے بجائے اِدھر اُدھر )بھاگ گئے۔ اور ابوطلحہؓ آپﷺ کے آگے اپنی ایک ڈھال لے کر سپر بن گئے۔ وہ ماہر تیر انداز تھے ، بہت کھینچ کر تیر چلاتے تھے۔ چنانچہ اس دن دویاتین کمانیں توڑ ڈالیں۔ نبیﷺ کے پاس سے کوئی آدمی تیروں کا ترکش لیے گزرتا تو آپ فرماتے کہ انہیں ابو طلحہ کے لیے بکھیر دو۔ اور نبیﷺ قوم کی طرف سر اٹھا کر دیکھتے تو ابو طلحہ کہتے : میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر نہ جھانکیں۔ آپ کوقوم کا کوئی تیر نہ لگ جائے ، میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے ہے۔2
حضرت انسؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ حضرت ابو طلحہؓ نبیﷺ سمیت ایک ہی ڈھال سے بچاؤ کررہے تھے اور ابو طلحہ بہت اچھے تیر انداز تھے۔ جب وہ تیر چلاتے تو نبیﷺ گردن اٹھا کر دیکھتے کہ ان کا تیر کہاں گرا۔3
حضرت ابو دجانہ نبیﷺ کے آگے کھڑے ہوگئے۔ اور اپنی پیٹھ کو آپﷺ کے لیے ڈھال بنادیا۔ ان پر تیر پڑ رہے تھے لیکن وہ ہلتے نہ تھے۔
حضرت حاطب بن ابی بلتعہ نے عُتبہ بن وقاص کا پیچھا کیا۔ جس نے نبیﷺ کا دندان مبارک شہید کیا تھا۔ اور اسے اس زور کی تلوار ماری کہ اس کا سر چھٹک گیا۔ پھر اس کے گھوڑے اور تلوار پر قبضہ کرلیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بہت زیادہ خواہاں تھے کہ اپنے اس بھائی - عُتبہ - کو قتل کریں۔ مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ بلکہ یہ سعادت حضرت حاطبؓ کی قسمت میں تھی۔
حضرت سَہلؓ بن حُنیف بھی بڑے جانباز تیر انداز تھے۔انہوں نے رسول اللہﷺ سے موت پر بیعت کی اور اس کے بعد مشرکین کو نہایت زور شور سے دفع کیا۔
رسول اللہﷺ خود بھی تیر چلارہے تھے۔ چنانچہ حضرت قتادہ بن نعمانؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زاد المعاد ۲/۹۷ 2 صحیح بخاری ۲/۵۸۱
3 صحیح بخاری / ۴۰۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نے اپنی کمان سے اتنے تیر چلائے کہ اس کاکنارہ ٹوٹ گیا۔ پھر اس کمان کو حضرت قتادہ بن نعمانؓ نے لے لیا، اور وہ انہیں کے پاس رہی۔ اس روز یہ واقعہ بھی ہوا کہ حضرت قتادہ کی آنکھ چوٹ کھا کر چہرے پر ڈھلک آئی۔ نبیﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے پپوٹے کے اندر داخل کردی۔ اس کے بعد ان کی دونوں آنکھوں میں یہی زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔ اور اسی کی بینائی زیادہ تیز تھی۔
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے لڑتے لڑتے منہ میں چوٹ کھائی ، جس سے ان کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ اور انہیں بیس یا بیس سے زیادہ زخم آئے جن میں سے بعض زخم پاؤں میں لگے اور وہ لنگڑے ہوگئے۔
ابو سعید خدریؓ کے والد مالک بن سنانؓ نے رسول اللہﷺ کے چہرے سے خون چوس کر صاف کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے تھوک دو۔ انہوں نے کہا : واللہ اسے تو میں ہرگز نہ تھوکوں گا۔ اس کے بعد پلٹ کر لڑنے لگے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی جنتی آدمی کو دیکھنا چاہتا ہو وہ انہیں دیکھے۔ اس کے بعد وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔
ایک نادر کارنامہ خاتون صحابیہ حضرت ام عمارہ نسیبہ بنت کعب ؓ نے انجام دیا۔ وہ چند مسلمانوں کے درمیان لڑتی ہوئی ابن قمئہ کے سامنے اڑگئیں۔ ابن قمئہ نے ان کے کندھے پر ایسی تلوار ماری کہ گہرا زخم ہوگیا۔ انہوں نے بھی ابن قمئہ کو اپنی تلوار کی کئی ضرب لگائی لیکن کمبخت دوزِرہیں پہنے ہوئے تھا ، اس لیے بچ گیا۔ حضرت ام ِ عمارہ ؓ نے لڑتے بھڑتے بارہ زخم کھائے۔
حضرت مصعب بن عمیرؓ نے بھی انتہائی پامردی وجانبازی سے جنگ کی۔ وہ رسول اللہﷺ سے ابن قمئہ اور اس کے ساتھیوں کے پے در پے حملوں کا دفاع کررہے تھے۔ انہی کے ہاتھ میں اسلامی لشکر کا پھریرا تھا۔ ظالموں نے ان کے داہنے ہاتھ پر اس زور کی تلوار ماری کہ ہاتھ کٹ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے بائیں ہاتھ میں جھنڈا پکڑ لیا۔ اور کفار کے مد مقابل ڈٹے رہے بالآخر ان کا بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے جھنڈے پر گھٹنے ٹیک کر اسے سینے اور گردن کے سہارے لہرائے رکھا۔ اور اسی حالت میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ ان کا قاتل ابن قمئہ تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ محمدﷺ ہیں۔ کیونکہ حضرت مصعبؓ بن عمیر آپﷺ کے ہم شکل تھے۔ چنانچہ وہ حضرت مصعبؓ کو شہید کرکے مشرکین کی طرف واپس چلاگیا اور چلا ّچلاّ کر اعلان کیا کہ محمدﷺ قتل کر دیئے گئے۔1
نبیﷺ کی شہادت کی خبر اور معرکہ پر اس کا اثر:
اس کے اس اعلان سے نبیﷺ کی شہادت کی خبر مسلمانوں اور مشرکین دونوں میں پھیل گئی۔ اور یہی وہ نازک ترین لمحہ تھا۔ جس میں رسول اللہﷺ سے الگ تھلگ نرغے کے اندر آئے ہوئے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: ابن ہشام ۲/۷۳، ۸۰- ۸۳ زادالمعاد ۲/۹۷
 
Top