• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم غزوۂ اُحد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ان کے عزائم سرد پڑ گئے اور ان کی صفیں اتھل پتھل اور بد نظمی وانتشار کا شکار ہوگئیں۔ مگر آپﷺ کی شہادت کی یہی خبر اس حیثیت سے مفید ثابت ہوئی کہ اس کے بعد مشرکین کے پُرجوش حملوں میں کسی قدر کمی آگئی۔ کیونکہ وہ محسوس کررہے تھے کہ ان کا آخری مقصد پورا ہوچکا ہے۔ چنانچہ اب بہت سے مشرکین نے حملہ بند کرکے مسلمان شہداء کی لاشوں کا مُثلہ کرنا شروع کردیا۔
رسول اللہﷺ کی پیہم معرکہ آرائی اور حالات پر قابو:
حضرت مُصعب بن عمیرؓ کی شہادت کے بعد رسول اللہﷺ نے جھنڈا حضرت علی بن ابی طالبؓ کودیا۔ انہوں نے جم کر لڑائی کی۔ وہاں پر موجود باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بے مثال جانبازی وسرفروشی کے ساتھ دفاع اور حملہ کیا۔ جس سے بالآخر اس بات کا امکان پیدا ہوگیا کہ رسول اللہﷺ مشرکین کی صفیں چیر کر نرغے میں آئے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب راستہ بنائیں۔ چنانچہ آپﷺ نے قدم آگے بڑھایا اور صحابہ کرام کی جانب تشریف لائے۔ سب سے پہلے حضرت کعب بن مالک نے آپﷺ کو پہچانا۔ خوشی سے چیخ پڑے کہ مسلمانو! خوش ہوجاؤ۔ یہ ہیں رسول اللہﷺ ! آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ خاموش رہو - تاکہ مشرکین کو آپﷺ کی موجودگی اور مقام موجودگی کا پتہ نہ لگ سکے - مگر ان کی آواز مسلمانوں کے کان تک پہنچ چکی تھی۔ چنانچہ مسلمان آپ کی پناہ میں آنا شروع ہوگئے۔ اور رفتہ رفتہ تقریباً تیس صحابہ جمع ہوگئے۔
جب اتنی تعداد جمع ہو گئی تو رسول اللہﷺ نے پہاڑ کی گھاٹی، یعنی کیمپ کی طرف ہٹنا شروع کیا مگر چونکہ اس واپسی کے معنی یہ تھے کہ مشرکین نے مسلمانوں کو نرغے میں لینے کی جو کارروائی کی تھی وہ بے نتیجہ رہ جائے۔ اس لیے مشرکین نے اس واپسی کو ناکام بنانے کے لیے اپنے تابڑ توڑحملے جاری رکھے۔ مگر آپﷺ نے ان حملہ آوروں کا ہجوم چیر کر راستہ بناہی لیا۔ اور شیرا ن ِ اسلام کی شجاعت وشہ زوری کے سامنے ان کی ایک نہ چلی۔ چنانچہ اسی اثناء میں مشرکین کا ایک اڑیل شہسوار عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ یہ کہتے ہوئے رسول اللہﷺ کی جانب بڑھا کہ یا تو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ ادھر رسول اللہﷺ بھی دودوہاتھ کرنے کے لیے ٹھہر گئے مگر مقابلے کی نوبت نہ آئی۔ کیونکہ اس کا گھوڑا ایک گڑھے میں گر گیا۔ اور اتنے میں حارث بن صمہ نے اس کے پاس پہنچ کر اسے للکارا۔ اور اس کے پاؤں پر اس زور کی تلوار ماری کہ وہیں بٹھادیا ، پھر اس کاکام تمام کرکے اس کا ہتھیار لے لیا۔ اور رسول اللہﷺ کی خدمت میںآگئے مگر اتنے میں مکی فوج کے ایک دوسرے سوار عبد اللہ بن جابر نے پلٹ کر حضرت حارثہ بن صمہ پر حملہ کردیا اور ان کے کندھے پر تلوار مار کر زخمی کردیا۔ مگر مسلمانوں نے لپک کر انہیں اٹھا لیا۔ اور اُدھر خطرات سے کھیلنے والے مرد مجاہد حضرت ابو دجانہؓ ، جنہوں نے آج سرخ پٹی باندھ رکھی تھی ، عبداللہ بن جابر پر ٹوٹ پڑے اور اسے ایسی تلوارماری کہ اس کا سر اڑگیا۔
کرشمۂ قدرت دیکھئے کہ اسی خونریز مار دھاڑ کے دوران مسلمانوں کو نیند کی چھپکیاں بھی آرہی تھیں اور جیسا کہ قرآن نے بتلایا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے امن وطمانیت تھی۔ ابو طلحہؓ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں تھا جن پر اُحد کے روز نیند چھارہی تھی ، یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کئی بار تلوار گرگئی۔حالت یہ تھی کہ وہ گرتی تھی اور میں پکڑتا تھا ،پھر گرتی تھی اور پھر پکڑتا تھا۔1
خلاصہ یہ کہ اس طرح کی جانبازی وجان سپاری کے ساتھ یہ دستہ منظم طور سے پیچھے ہٹتا ہوا پہاڑ کی گھاٹی میں واقع کیمپ تک جاپہنچا۔ اور بقیہ لشکر کے لیے بھی اس محفوظ مقام تک پہنچنے کا راستہ بنادیا۔ چنانچہ باقی ماندہ لشکر بھی اب آپﷺ کے پاس آگیا۔ اور حضرت خالد کی فوجی عبقریت رسول اللہﷺ کی فوجی عبقریت کے سامنے ناکام ہوگئی۔
اُبی بن خلف کا قتل:
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ جب رسول اللہﷺ گھاٹی میں تشریف لاچکے تو اُبی بن خلف یہ کہتا ہوا آیا کہ محمد کہاں ہے ؟ یاتو میں رہوں گا یا وہ رہے گا۔ صحابہ نے کہا : یارسول اللہ !ہم میں سے کوئی اس پر حملہ کرے ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اسے آنے دو۔ جب قریب آیا تو رسول اللہﷺ نے حارث بن صمہ سے ایک چھوٹا سا نیزہ لیا۔ اور لینے کے بعد جھٹکا دیا تو اس طرح لوگ ادھر ادھر اڑ گئے جیسے اُونٹ اپنے بدن کو جھٹکا دیتا ہے تو مکھیاں اُڑ جاتی ہیں۔ اس کے بعد آپﷺ اس کے مد مقابل پہنچے۔ اس کی خود اور زِرہ کے درمیان حلق کے پاس تھوڑی سی جگہ کھُلی دکھائی پڑی۔ آپﷺ نے اسی پر ٹکا کر ایسا نیزہ مارا کہ وہ گھوڑے سے کئی بار لڑھک لڑھک گیا۔ جب قریش کے پاس گیا - درآں حالیکہ گردن میں کوئی بڑی خراش نہ تھی۔ البتہ خون بند تھا اور بہتا نہ تھا - توکہنے لگا : مجھے واللہ! محمد نے قتل کردیا۔لوگوں نے کہا : اللہ کی قسم ! تمہارا دل چلا گیا ہے۔ ورنہ تمہیں واللہ کوئی خاص چوٹ نہیں ہے۔ اس نے کہا : وہ مکے میں مجھ سے کہہ چکا تھا کہ میں تمہیں قتل کروں گا۔2اس لیے اللہ کی قسم! اگر وہ مجھ پرتھوک دیتا تو بھی میری جان چلی جاتی۔ بالآخر اللہ کا یہ دشمن مکہ واپس ہوتے ہوئے مقام سرف پہنچ کر مر گیا۔3 ابو الاسود نے حضرت عروہ سے روایت کی ہے کہ یہ بیل کی طرح آواز نکالتا تھا اور کہتا تھا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو تکلیف مجھے ہے اگر وہ ذی المجاز کے سارے باشندوں کوہوتی تو وہ سب کے سب مرجاتے۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۸۲
2 اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب مکے میں ابی بن خلف کی ملاقات رسول اللہﷺ سے ہوتی تو وہ آپ سے کہتا : اے محمد! میرے پاس عود نامی ایک گھوڑا ہے۔ میں اسے روزانہ تین صاع (ساڑھے سات کلو) دانہ کھلاتا ہوں۔ اسی پر بیٹھ کر تمہیں قتل کروں گا۔ جواب میں رسول اللہﷺ فرماتے تھے : بلکہ ان شاء اللہ میں تمہیں قتل کروں گا۔
3 ابن ہشام ۲/۸۴۔ زاد المعاد ۲/۹۷
4 مستدرک حاکم ۲/۳۲۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت طلحہؓ ، نبیﷺ کو اٹھاتے ہیں:
پہاڑ کی طرف نبیﷺ کی واپسی کے دوران ایک چٹان پڑگئی۔ آپﷺ نے اس پر چڑھنے کی کوشش کی مگر چڑھ نہ سکے۔ کیونکہ ایک تو آپ کا بدن بھاری ہوچکا تھا۔ دوسرے آپﷺ نے دوہری زِرہ پہن رکھی تھی۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت چوٹیں بھی آئی تھیں۔ لہٰذا حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ نیچے بیٹھ گئے۔ اورآپﷺ کو سوار کرکے کھڑے ہوگئے۔ اس طرح آپ چٹان پر پہنچ گئے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''طلحہ نے (جنت ) واجب کرلی۔ ''1
مشرکین کا آخری حملہ:
جب رسول اللہﷺ گھاٹی کے اندر اپنی قیادت گاہ میں پہنچ گئے تو مشرکین نے مسلمانوں کو زک پہنچانے کی آخری کوشش کی۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ اس اثناء میں کہ رسول اللہﷺ گھاٹی کے اندر تشریف فرماتھے۔ ابو سفیان اور خالد بن ولید کی قیادت میں مشرکین کاایک دستہ چڑھ آیا، رسول اللہﷺ نے دُعا فرمائی کہ اے اللہ ! یہ ہم سے اوپر نہ جانے پائیں۔ پھر حضرت عمرؓ بن خطاب اور مہاجرین کی ایک جماعت نے لڑکر انہیں پہاڑ سے نیچے اتار دیا۔2
مغازی اموی کا بیان ہے کہ مشرکین پہاڑ پر چڑھ آئے تو رسول اللہﷺ نے حضرت سعدؓ سے فرمایا: ان کے حوصلے پست کرو ، یعنی انہیں پیچھے دھکیل دو۔ انہوں نے کہا : میں تنہا ان کے حوصلے کیسے پست کروں؟ اس پر آپﷺ نے تین بار یہی بات دہرائی۔ بالآخر حضرت سعدؓ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکالا۔ اور ایک شخص کو مارا تو وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حضرت سعدؓ کہتے ہیں کہ میں نے پھر اپنا تیر لیا ، اسے پہچانتا تھا۔ اور اس سے دوسرے کو مار ا تو اس کا بھی کام تمام ہوگیا اس کے بعد پھر تیر لیا۔ اسے پہچانتا تھا اور اس سے ایک تیسرے کو مارا تو اس کی بھی جان جاتی رہی۔ اس کے بعد مشرکین نیچے اُتر گئے۔ میں نے کہا یہ مبارک تیر ہے۔ پھر میں نے اسے اپنے ترکش میں رکھ لیا۔ یہ تیر زندگی بھر حضرت سعدؓ کے پاس رہا۔ اور ان کے بعد ان کی اولاد کے پاس رہا۔3
شہداء کا مُثلہ:
یہ آخری حملہ تھا جو مشرکین نے نبیﷺ کے خلاف کیا تھا ، چونکہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کا صحیح علم نہ تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﷺ کی شہادت کا تقریباً یقین تھا، اس لیے انہوں نے اپنے کیمپ کی طرف پلٹ کر مکہ واپسی کی تیاری شروع کردی۔ کچھ مشرکین مرد اور عورتیں مسلمان شہداء کے مثلہ میں مشغول ہوگئے۔ یعنی شہیدوں کی شرمگاہیں اور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۸۶، ترمذی حدیث نمبر ۱۶۹۲ (جہاد) ۳۷۳۹ (مناقب ) مسند احمد ۱/۱۶۵ ، حاکم نے (۳/۳۷۴ میں )اسے صحیح کہا ہے۔ اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔
2 ابن ہشام ۲/۸۶ 3 زاد المعاد ۲/۹۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کان ، ناک وغیرہ کاٹ لیے۔ پیٹ چیر دیے۔ ہند بنت عتبہ نے حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چاک کردیا اور مُنہ میں ڈال کر چبایا اور نگلنا چاہا لیکن نگل نہ سکی تو تھوک دیا۔ اور کٹے ہوئے کانوں اور ناکوں کاپازیب اور ہار بنایا۔1
آخرتک جنگ لڑنے کے لیے مسلمانوں کی مستعدی:
پھر اس آخری وقت میں دوایسے واقعات پیش آئے جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جانبازوسرفروش مسلمان اخیر تک جنگ لڑنے کے لیے کس قدر مستعد تھے۔ اور اللہ کی راہ میں جان دینے کا کیسا ولولہ خیز جذبہ رکھتے تھے۔
حضرت کعب بن مالکؓ کا بیا ن ہے کہ میں ان مسلمانوں میں تھا جو گھاٹی سے باہر آئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ مشرکین کے ہاتھوں مسلمان شہداء کا مُثلہ کیا جارہا ہے تو رک گیا۔ پھر آگے بڑھا ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مشرک جو بھاری بھرکم زِرہ میںملبوس تھا شہیدوں کے درمیا ن سے گزررہا ہے۔ اور کہتا جارہا ہے کہ کٹی ہوئی بکریوں کی طرح ڈھیر ہوگئے۔ اور ایک مسلمان اس کی راہ تک رہا ہے۔ وہ بھی زِرہ پہنے ہوئے ہے۔ میں چند قدم اور بڑھ کر اس کے پیچھے ہولیا۔ پھر کھڑے ہوکر آنکھوں ہی آنکھوں میں مسلم اور کافر کو تولنے لگا۔ محسوس ہوا کہ کافر اپنے ڈیل ڈول اور سازوسامان دونوں لحاظ سے بہتر ہے۔ اب میں دونوں کا انتظار کرنے لگا۔ بالآخر دونوں میں ٹکر ہوگئی اور مسلمان نے کافر کو ایسی تلوار ماری کہ وہ پاؤں تک کاٹتی چلی گئی۔ مشرک دوٹکڑے ہوکر گرا، پھر مسلمان نے اپنا چہرا کھولا اور کہا : او کعب ! کیسی رہی ؟ میں ابو دجانہ ہوں۔2
خاتمۂ جنگ پر کچھ مومن عورتیں میدانِ جہاد میں پہنچیں۔ چنانچہ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکرؓ اور امِ سُلیم کو دیکھا کہ پنڈلی کے پازیب تک کپڑے چڑھائے پیٹھ پر مشک لاد لاد کر لارہی تھیں۔ اور قوم کے منہ میں انڈیل رہی تھیں۔ 3حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز حضرت اُم ِ سلیطؓ ہمارے لیے مشک بھر بھر کر لارہی تھیں۔4
ان ہی عورتوں میں حضرت امِ ایمن بھی تھیں۔ انہوں نے جب شکست خوردہ مسلمانوں کودیکھا کہ مدینے میں گھسنا چاہتے ہیں تو ان کے چہروں پر مٹی پھینکنے لگیں اور کہنے لگیں : یہ سوت کاتنے کا تکلالو اور ہمیں تلوار دو۔ 5اس کے بعد تیزی سے میدان جنگ پہنچیں اور زخمیوں کو پانی پلانے لگیں۔ ان پر حِبان بن عرقہ نے تیر چلایا ، وہ گر پڑیں۔ اور پردہ کھل گیا۔ اس پر اللہ کے اس دشمن نے بھر پور قہقہہ لگایا۔ رسول اللہﷺ پر یہ بات گراں گزری۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۹۰ 2 البدایۃ والنہایۃ ۴/۱۷
3 صحیح بخاری ۱/۴۰۳ ، ۵۸۱ 4 ایضاً ۱/۴۰۳
5 سُوت کا تنا عرب عورتوں کا خاص کام تھا۔ اس لیے سُوت کاتنے کا تکلا، یعنی پھر کی عورتوں کا ویسا ہی مخصوص سامان تھا جیسے ہمارے ملک میں چوڑی۔ اس موقعے پر مذکورہ محاورہ کا ٹھیک وہی مطلب ہے۔ جو ہماری زبان کے اس کا محاروے کا ہے کہ ''چوڑی لو۔ اورتلوار دو ۔''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اور آپﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کو ایک بے ریش تیردے کر فرمایا: اسے چلاؤ۔ حضرت سعدؓ نے چلایا تو وہ تیر حِبان کے حلق پر لگا۔ اور وہ چت گرا۔ اور اس کا پردہ کھل گیا۔ اس پر رسول اللہﷺ اس طرح ہنسے کہ جڑ کے دانت دکھائی دینے لگے۔ اورفرمایا: سعد نے اُمِ ایمن کا بدلہ چکا لیا۔ اللہ ان کی دعا قبول کرے۔1
گھاٹی میں قراریابی کے بعد:
جب رسول اللہﷺ نے گھاٹی کے اندر اپنی قیام گاہ میں ذرا قرار پالیا تو حضرت علی بن ابی طالبؓ مہر اس سے اپنی ڈھال میں پانی بھر لائے - کہا جاتا ہے مہراس پتھر میں بنا ہوا وہ گڑھا ہوتا ہے جس میں زیادہ ساپانی آسکتا ہو۔ اور کہا جاتا ہے کہ یہ احد میں ایک چشمے کا نام تھا۔ بہرحال حضرت علیؓ نے وہ پانی نبیﷺ کی خدمت میں پینے کے لیے پیش کیا۔ آپﷺ نے قدرے ناگوار بو محسوس کی اس لیے اسے پیا تو نہیں۔ البتہ اس سے چہرے کا خون دھولیا اور سر پر بھی ڈال لیا۔ اس حالت میں آپﷺ فرمارہے تھے : اس شخص پر اللہ کا غضب ہو جس نے اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو خون آلود کیا۔2
حضرت سَہلؓ فرماتے ہیں : مجھے معلوم ہے کہ رسول اللہﷺ کا زخم کس نے دھویا ؟ پانی کس نے بہایا ؟ اور علاج کس چیز سے کیا گیا ؟ آپﷺ کی لختِ جگر حضرت فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھورہی تھیں۔ اور حضرت علیؓ ڈھال سے پانی بہا رہے تھے۔ جب حضرت فاطمہؓ نے دیکھا کہ پانی کے سبب خون بڑھتا ہی جارہا ہے تو چٹائی کا ایک ٹکڑ ا لیا۔اور اسے جلا کر چپکا دیا ، جس سے خون رک گیا۔3
ادھر محمد بن مسلمہؓ شیریں اور خوش ذائقہ پانی لائے۔ نبیﷺ نے نوش فرمایا : اور دعائے خیر دی۔ 4 زخم کے اثر سے نبیﷺ نے ظہر کی نماز بیٹھے بیٹھے پڑھی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپﷺ کے پیچھے بیٹھ ہی کر نماز ادا کی۔5
ابو سفیان کی شماتت اور حضرت عمرؓ سے دودو باتیں:
مشرکین نے واپسی کی تیاری مکمل کرلی تو ابو سفیان جبل اُحد پر نمودار ہوا۔ اور بآواز بلند بو لا: کیا تم میں محمد ہیں ؟ لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس نے پھر کہا : کیا تم میں ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر ) ہیں؟ لوگوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے پھر سوال کیا : کیا تم میں عمر بن خطاب ہیں ؟ لوگوں نے اب کی مرتبہ بھی جواب نہ دیا - کیونکہ نبیﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا جواب دینے سے منع فرمادیا تھا۔ ابو سفیان نے ان تین کے سوا کسی اور کے بارے میں نہ پوچھا۔ کیونکہ اسے اور اس کی قوم کو معلوم تھا کہ اسلام کا قیام ان ہی تینوں کے ذریعے ہے۔ بہرحال
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 السیرۃ الحلبیہ ۲/۲۲ 2 ابن ہشام ۲/۸۵
3 صحیح بخاری ۲/۵۸۴ 4 السیرۃ الحلبیہ ۲/۳۰
5 ابن ہشام ۲/۸۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے کہا : چلو ان تینوں سے فرصت ہوئی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ بے قابو ہوگئے۔ اور بولے: او اللہ کے دشمن ! جن کا تو نے نام لیا ہے وہ سب زندہ ہیں۔ اور ابھی اللہ نے تیری رسوائی کا سامان باقی رکھا ہے۔اس کے بعد ابو سفیان نے کہا: تمہارے مقتولین کا مُثلہ ہوا ہے۔ لیکن میں نے نہ اس کا حکم دیا تھا اور نہ اس کا براہی منایا ہے۔ پھر نعرہ لگا یا : اُعلُ ھُبَل۔ ھبل بلند ہو۔
نبیﷺ نے فرمایا : تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ نے عرض کیا: کیا جواب دیں ؟ آپ نے فرمایا: کہو: ((اللہ أعلی وأجل۔)) ''اللہ اعلیٰ اور برتر ہے۔ ''
پھر ابو سفیان نے نعرہ لگایا : لنا عزی ولا عزی لکم۔ ''ہمارے لیے عُزیٰ ہے۔ اور تمہارے لیے عُزیٰ نہیں ۔''
نبیﷺ نے فرمایا: جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے دریافت کیا : کیا جواب دیں ؟ آپﷺ نے فرمایا :کہو: ((اللہ مولانا ولا مولی لکم۔)) ''اللہ ہمار امولیٰ ہے اور تمہاراکوئی مولیٰ نہیں ۔''
اس کے بعد ابو سفیان نے کہا : کتنا اچھا کارنامہ رہا۔ آج کا دن جنگ بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی ڈول ہے۔1
حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا : برابر نہیں۔ ہمارے مقتولین جنت میں ہیں۔ اور تمہارے مقتولین جہنم میں۔
اس کے بعد ابو سفیان نے کہا : عمر! میرے قریب آؤ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جاؤ۔ دیکھو کیا کہتا ہے ؟ وہ قریب آئے تو ابو سفیان نے کہا : عمر ! میں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کیا ہم نے محمد کو قتل کردیا ہے ؟حضرت عمرؓ نے کہا: واللہ ! نہیں۔ بلکہ اس وقت وہ تمہاری باتیں سن رہے ہیں۔ ابو سفیان نے کہا : تم میرے نزدیک ابن قمئہ سے زیادہ سچے اور راست باز ہو۔2
بدر میں ایک اور جنگ لڑنے کا عہد وپیمان:
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ابوسفیان اور اس کے رُفقاء واپس ہونے لگے تو ابو سفیان نے کہا : آئندہ سال بدر میں پھر لڑنے کا وعدہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا : کہہ دو ٹھیک ہے۔ اب یہ بات ہمارے اور تمہارے درمیا ن طے رہی۔3
مشرکین کے موقف کی تحقیق:
اس کے بعد رسول اللہﷺ نے حضرت علی بن ابی طالبؓ کو روانہ کیا۔ اور فرمایا: قوم (مشرکین ) کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ اور دیکھو وہ کیا کررہے ہیں ؟ اور ان کاارادہ کیا ہے ؟ اگر انہوں نے گھوڑے پہلو میں رکھے ہوں اور اونٹوں پر سوارہوں تو ان کا ارادہ مکہ کا ہے۔ اور اگر گھوڑوں پر سوار ہوں ، اور اونٹ ہانک کر لے جائیں تو مدینے کا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یعنی کبھی ایک فریق غالب آتا ہے اور کبھی دوسرا ، جیسے ڈول کبھی کوئی کھینچتا ہے کبھی کوئی۔
2 ابن ہشام ۲/۹۳، ۹۴ زاد المعاد ۲/۹۴ صحیح بخاری ۲/۵۷۹
3 ابن ہشام ۲/۹۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ارادہ ہے۔ پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر انہوں نے مدینے کا ارادہ کیا تو میں مدینے جاکر ان سے دودوہاتھ کروں گا۔ حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ اس کے بعد میں ان کے پیچھے نکلا تو دیکھا کہ انہوں نے گھوڑے پہلو میں کررکھے ہیں۔ اونٹوں پر سوار ہیں۔ اور مکے کا رُخ ہے۔1
شہیدوں اور زخمیوں کی خبر گیری:
قریش کی واپسی کے بعد مسلمان اپنے شہیدوں اور زخمیوں کی کھوج خبر لینے کے لیے فارغ ہوگئے۔ حضرت زیدبن ثابتؓ کا بیان ہے کہ احد کے روز رسول اللہﷺ نے مجھے بھیجا کہ میں سعد بن الربیع کو تلاش کروں اور فرمایا کہ اگر وہ دکھائی پڑجائیں تو انہیں میرا سلام کہنا۔ اور یہ کہنا کہ رسول اللہﷺ دریافت کررہے ہیں کہ تم اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو؟ حضرت زیدؓ کہتے ہیں کہ میں مقتولین کے درمیان چکر لگاتے ہوئے ان کے پاس پہنچا تو ان کی آخری سانس آجارہی تھی۔ انہیں نیزے ، تلوار اور تیر کے ستر سے زیادہ زخم آئے تھے۔ میں نے کہا: اے سعد ! اللہ کے رسول آپ کو سلام کہتے ہیں اور دریافت فرمارہے ہیں کہ مجھے بتاؤ اپنے آپ کو کیسا پارہے ہو ؟ انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ کو سلا م۔ آپ سے عرض کرو کہ یارسول اللہ ! جنت کی خوشبو پارہا ہوں۔ اور میری قوم انصار سے کہو کہ اگر تم میں سے ایک آنکھ بھی ہلتی رہی ، اور دشمن رسول اللہﷺ تک پہنچ گیا تو تمہارے لیے اللہ کے نزدیک کوئی عذر نہ ہوگا۔ اور اسی وقت ان کی روح پرواز کر گئی۔2
لوگوں نے زخمیوں میں اُصیرم کو بھی پایا۔ جن کا نام عمرو بن ثابت تھا۔ ان میں تھوڑی سی رمق باقی تھی۔ اس سے قبل انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی مگر وہ قبول نہیں کرتے تھے۔ اس لیے لوگوں نے (حیرت سے ) کہا: یہ اصیرم کیسے آیا ہے ؟ اسے تو ہم نے اس حالت میں چھوڑا تھا کہ وہ اس دین کا انکاری تھا۔ چنانچہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہیں یہاں کیا چیز لے آئی ؟ قوم کی حمایت کا جوش ؟ یا اسلام کی رغبت ؟ انہوں نے کہا : اسلام کی رغبت۔ درحقیقت میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا۔ اور اس کے بعد رسول اللہﷺ کی حمایت میں شریک ِ جنگ ہوا۔ یہاں تک کہ اب اس حالت سے دوچار ہوں جو آپ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اور اسی وقت ان کا انتقال ہوگیا۔ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: وہ جنتیوں میں سے ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ حالانکہ اس نے اللہ کے لیے ایک وقت کی بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔3 (کیونکہ اسلام لانے کے بعد ابھی کسی نماز کا وقت آیا ہی نہ تھا کہ شہید ہوگئے )
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۹۴ حافظ ابن حجر نے فتح الباری (۷/۳۴۷) میں لکھا ہے کہ مشرکین کے عزائم کا پتہ لگانے کے لیے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تشریف لے گئے تھے۔
2 زاد المعاد ۲/۹۶
3 ایضا ۲/۹۴، ابن ہشام ۲/۹۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ان ہی زخمیوں میں قُزمان بھی ملا۔ اس نے جنگ میں خوب خوب داد ِ شجاعت دی تھی۔ اور تنہا سات یا آٹھ مشرکین کو تہ تیغ کیا تھا۔ وہ جب ملا تو زخموں سے چور تھا ، لوگ اسے اٹھا کر بنو ظفر کے محلے میں لے گئے۔ اور مسلمانوں نے خوشخبری سنائی۔ کہنے لگا : واللہ! میری جنگ تو محض اپنی قوم کے ناموس کے لیے تھی۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں لڑائی ہی نہ کرتا۔ اس کے بعد جب اس کے زخموں نے شدت اختیار کی تو اس نے اپنے آپ کو ذبح کر کے خودکشی کرلی۔ ادھر رسول اللہﷺ سے اس کا جب بھی ذکر کیا جاتا تھا تو فرماتے تھے کہ وہ جہنمی ہے۔1 (اور اس واقعے نے آپﷺ کی پیشین گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی) حقیقت یہ ہے کہ اِعلائِ کلمۃُ اللہ کے بجائے وطنیت یا کسی بھی دوسری راہ میں لڑنے والوں کا انجام یہی ہے۔ چاہے وہ اسلام کے جھنڈے تلے بلکہ رسول اور صحابہ کے لشکر ہی میں شریک ہوکر کیوں نہ لڑرہے ہوں۔
اس کے بالکل بر عکس مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا۔ اس نے اس وقت جبکہ جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ، اپنی قوم سے کہا : اے جماعت یہود ! اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ محمد کی مدد تم پر فرض ہے۔ یہود نے کہا : مگر آج سَبت (سنیچر ) کا دن ہے۔ اس نے کہا: تمہارے لیے کوئی سبت نہیں ، پھر اس نے اپنی تلوار لی۔ ساز وسامان اٹھا یا۔ اور بولا: اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد(ﷺ ) کے لیے ہے۔ وہ اس میں جو چاہیں گے کریں گے۔ اس کے بعد میدانِ جنگ میں گیا اور لڑتے بھِڑتے مارا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مُخیریق بہترین یہودی تھا۔2
شہداء کی جمع و تدفین:
اس موقعے پر رسول اللہﷺ نے خود بھی شہداء کا معائنہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہ رہوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے۔ اسے اللہ قیامت کے روز اس حالت میں اٹھائے گا کہ اس کے زخم سے خون بہہ رہا ہو گا۔ رنگ تو خون ہی کا ہوگا لیکن خوشبو مشک کی خوشبو ہوگی۔3
کچھ صحابہؓ نے اپنے شہداء کو مدینہ منتقل کرلیا تھا۔ آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے شہیدوں کو واپس لاکر ان کی شہادت گاہوں میں دفن کریں، نیز شہداء کے ہتھیار اور پوستین کے لباس اتار لیے جائیں ،پھر انہیں غسل دیئے بغیر جس حالت میں ہوں اسی حالت میں دفن کردیا جائے۔ آپﷺ دودوتین تین شہیدوں کو ایک ہی قبر میں دفن فرمارہے تھے۔ اور دودوآدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں اکٹھا لپیٹ دیتے تھے۔ اور دریافت فرماتے تھے کہ ان میں سے کس کو قرآن زیادہ یاد ہے۔ لوگ جس کی طرف اشارہ کرتے اسے لحد میں آگے کرتے اور فرماتے کہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زادا لمعاد ۲/۹۷ ، ۹۸۔ ابن ہشام ۲/۸۸
2 ابن ہشام ۲/۸۸، ۸۹
3 ایضاً ۲/۹۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
میں قیامت کے روز ان لوگوں کے بارے میں گواہی دوں گا1عبد اللہ بن عمرو بن حرام اور عمرو بن جموحؓ ایک ہی قبر میں دفن کیے گئے ، کیونکہ ان دونوں میں دوستی تھی۔2
حضرت حنظلہؓ کی لاش غائب تھی۔ تلاش کے بعد ایک جگہ اس حالت میں ملی کہ زمین سے اوپر تھی اور اس سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بتلایا کہ فرشتے انہیں غسل دے رہے ہیں۔ پھر فرمایا: ان کی بیوی سے پوچھو کیا معاملہ ہے ؟ ان کی بیوی سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے واقعہ بتلایا۔ یہیں سے حضرت حنظلہ کا نام غَسیل الملائکہ۔ (فرشتوں کے غسل دیے ہوئے ) پڑگیا۔3
رسول اللہﷺ نے اپنے چچا حضرت حمزہ کا حال دیکھا تو سخت غمگین ہوئے۔ آپ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ تشریف لائیں ، وہ بھی اپنے بھائی حضرت حمزہؓ کو دیکھنا چاہتی تھیں۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے کہا کہ انہیں واپس لے جائیں۔ وہ اپنے بھائی کا حال دیکھ نہ لیں مگر حضرت صفیہؓ نے کہا : آخر ایسا کیوں ؟ مجھے معلوم ہوچکاہے کہ میرے بھائی کا مثلہ کیا گیا ہے۔ لیکن یہ اللہ کی راہ میں ہے اس لیے جو کچھ ہوا ہم اس پر پوری طرح راضی ہیں۔ میں ثواب سمجھتے ہوئے ان شاء اللہ ضرور صبر کروں گی۔ اس کے بعد وہ حضرت حمزہؓ کے پاس آئیں۔ انہیں دیکھا۔ ان کے لیے دعا کی۔ إنا للہ پڑھی اور اللہ سے مغفرت مانگی۔ پھر رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ انہیں حضرت عبد اللہ بن جحشؓ کے ساتھ دفن کردیا جائے۔ وہ حضرت حمزہؓ کے بھانجے بھی تھے اور رضاعی بھائی بھی۔
حضرت ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ حضرت حمزہؓ بن عبد المطلب پر جس طرح روئے اس سے بڑھ کر روتے ہوئے ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے انہیں قبلے کی طرف رکھا۔ پھر ان کے جنازے پر کھڑے ہوئے اور اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔4
درحقیقت شہداء کا منظر تھا ہی بڑا دلدوز اورزہرہ گزار۔ چنانچہ حضرت خباب بن ارتؓ کا بیان ہے کہ حضرت حمزہؓ کے لیے ایک سیاہ دھاریوں والی چادر کے سوا کوئی کفن نہ مل سکا۔ یہ چادر سر پر ڈالی جاتی تو پاؤں کھُل جاتے۔ اور پاؤںپر ڈالی جاتی تو سر کھُل جاتا۔ بالآخر چادر سے سر ڈھک دیا گیا اور پاؤں پر اذخر5گھاس ڈال دی گئی۔6
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری مع فتح الباری ۳/۲۴۸ حدیث نمبر ۱۳۴۳، ۱۳۴۶، ۱۳۴۷، ۱۳۴۸، ۱۳۵۳، ۴۰۷۹
2 صحیح بخاری ۲/۵۸۴ زاد المعاد ۲/۹۸ 3 زاد المعاد ۲/۹۴
4 یہ ابن شاذان کی روایت ہے۔ دیکھئے: مختصر السیرۃ للشیخ عبدا للہ ص ۲۵۵
5 یہ بالکل موج کے ہم شکل ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ بہت سے مقامات پر چائے میں ڈال کر پکائی جاتی ہے۔ عرب میں اس کا پودا ہاتھ ڈیڑھ ہاتھ سے لمبا نہیں ہوتا۔ جبکہ ہندوستان میں ایک میٹر سے بھی لمبا ہوتا ہے۔
6 مسند احمد ، مشکوٰۃ ۱/۱۴۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا بیان ہے کہ مُصعب بن عُمیرؓ کی شہادت واقع ہوئی - اور وہ مجھ سے بہتر تھے - تو انہیں ایک چادر کے اندر کفنایا گیا۔ حالت یہ تھی کہ اگر ان کا سر ڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے۔ اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ ان کی یہی کیفیت حضرت خبابؓ نے بھی بیان کی ہے اور اتنا مزید اضافہ فرمایا ہے کہ (اس کیفیت کو دیکھ کر ) نبیﷺ نے ہم سے فرمایا کہ چادر سے ان کا سر ڈھانک دو اور پاؤں پر اِذخر ڈال دو۔1
رسول اللہﷺ اللہ عزوجل کی حمد وثنا کرتے اور اس سے دعافرماتے ہیں:
امام احمد کی روایت ہے کہ احد کے روز جب مشرکین واپس چلے گئے تو رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : برابر ہوجاؤ۔ ذرا میں اپنے رب عزوجل کی ثناء کروں۔ اس حکم پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے پیچھے صفیں باندھ لیں۔ اور آپﷺ نے یوں فرمایا :
''اے اللہ !تیرے ہی لیے ساری حمد ہے۔ اے اللہ ! جس چیز کو تو کشادہ کردے اسے کوئی تنگ نہیں کرسکتا۔ اور جس چیز کو تو تنگ کردے اسے کوئی کشادہ نہیں کرسکتا۔ جس شخص کو تو گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور جس شخص کو تو ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا۔ جس چیز کو توروک دے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ اور جو چیز تو دے دے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جس چیز کو تو دور کردے اسے کوئی قریب نہیں کرسکتا۔ اورجس چیز کو تو قریب کردے اسے کوئی دور نہیں کرسکتا۔اے اللہ ! ہمارے اوپر اپنی برکتیں رحمتیں اور فضل ورزق پھیلا دے۔
اے اللہ ! میں تجھ سے برقرار رہنے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں۔ جو نہ ٹلے اور نہ ختم ہو۔ اے اللہ! میں تجھ سے فقر کے دن مددکا اور خوف کے دن امن کا سوال کرتا ہوں۔ اے اللہ ! جو کچھ تونے ہمیں دیا ہے اس کے شر سے اور جو کچھ نہیں دیا ہے اس کے بھی شر سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ اے اللہ! ہمارے نزدیک ایما ن کو محبوب کردے۔ اور اسے ہمارے دلوں میں خوشنما بنا دے۔ اور کفر ، فسق اور نافرمانی کو ناگوار بنادے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں کردے۔ اے اللہ ! ہمیں مسلمان رکھتے ہوئے وفات دے اور مسلمان ہی رکھتے ہوئے زندہ رکھ۔ اور رسوائی اور فتنے سے دوچار کیے بغیر صالحین میں شامل فرما۔ اے اللہ ! تو ان کا فروں کو مار اور ان پر سختی اور عذاب کر جو تیرے پیغمبروں کو جھٹلاتے اور تیری راہ سے روکتے ہیں۔ اے اللہ ! ان کافروں کو بھی مار جنہیں کتاب دی گئی۔ یا الٰہ الحق ! ''2
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری ۲/۵۷۹،۵۸۴ مع فتح الباری ۳/۱۷۰ حدیث نمبر ۱۲۷۶ ، ۳۸۹۷ ، ۳۹۱۳، ۳۹۱۴ ، ۴۰۴۷ ، ۴۰۸۲ ، ۶۴۳۲، ۶۴۴۸
2 بخاری ، الادب المفرد ، مسند احمد ۳/۳۲۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مدینے کوواپسی اور محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات:
شہداء کی تدفین اور اللہ عزوجل کی ثناء ودعا سے فارغ ہوکر رسول اللہﷺ نے مدینے کا رخ فرمایا۔ جس طرح دورانِ کارزار اہلِ ایمان صحابہ سے محبت وجاں سپاری کے نادر واقعات کا ظہور ہوا تھا اسی طرح اثناء راہ میں اہل ِ ایمان صحابیات سے صدق وجاں سپاری کے عجیب عجیب واقعات ظہور میں آئے۔
چنانچہ راستے میں آنحضورﷺ کی ملاقات حضرت حَمنہ بنت جحشؓ سے ہوئی۔ انہیں ان کے بھائی عبد اللہ بن جحشؓ کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ پھر ان کے ماموں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی شہادت کی خبر دی گئی۔ انہوں نے پھر انا للہ پڑھی اور دعائے مغفرت کی۔ اس کے بعد ان کے شوہر حضرت مصعب بن عمیرؓ کی شہادت کی خبر دی گئی تو تڑپ کر چیخ اٹھیں۔ اور دھاڑ مار کررونے لگیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ',عورت کا شوہر اس کے یہاں ایک خصوصی درجہ رکھتا ہے۔''1
اسی طرح آپ کا گزر بنودینار کی ایک خاتون کے پاس سے ہوا۔ جس کے شوہر ، بھائی ، اور والد تینوں خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوچکے تھے۔ جب انہیں ان لوگوں کی شہادت کی خبردی گئی تو کہنے لگیں کہ رسول اللہﷺ کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا : ام فلاں ! حضور صلی اللہ علیہ وسلم بخیر ہیں۔ اور بحمد للہ جیسا تم چاہتی ویسے ہی ہیں۔ خاتون نے کہا : ذرا مجھے دکھلادو۔ میں بھی آپﷺ کا وجود مبارک دیکھ لوں۔ لوگوں نے انہیں اشارے سے بتلایا۔ جب ان کی نظر آپﷺ پر پڑی تو بے ساختہ پکار اٹھیں: کل مصیبۃ بعدک جلل '' آپ کے بعد ہر مصیبت ہیچ ہے۔''2
اثناء راہ ہی میں حضرت سعد بن معاذؓ کی والدہ آپ کے پاس دوڑتی ہوئی آئیں۔ اس وقت حضرت سعدبن معاذ رسول اللہﷺ کے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے تھے۔ کہنے لگے : یا رسول اللہﷺ میری والدہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: انہیں مرحبا ہو۔ اس کے بعد ان کے استقبال کے لیے رک گئے۔ جب وہ قریب آگئیں تو آپﷺ نے ان کے صاحبزادے عمرو بن معاذ کی شہادت پر کلمات ِ تعزیت کہتے ہوئے انہیں تسلی دی اور صبر کی تلقین فرمائی۔ کہنے لگیں: جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہ سلامت دیکھ لیا تو میرے لیے ہر مصیبت ہیچ ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے شہداء اُحد کے لیے دعا فرمائی۔ اور فرمایا : اے اُمِ سعد ! تم خوش ہوجاؤ۔ اور شہداء کے گھروالوں کو خوش خبری سنادو کہ ان کے شہداء سب کے سب ایک ساتھ جنت میں ہیں اور اپنے گھروالوں کے بارے میں ان سب کی شفاعت قبول کرلی گئی ہے۔
کہنے لگیں : اے اللہ کے رسول ! ان کے پسماندگان کے لیے بھی دعا فرمادیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! ان کے دلوں کاغم دور کر۔ ان کی مصیبت کا بدل عطا فرما۔ اور باقی ماندگان کی بہترین دیکھ بھال فرما۔3
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۹۸ 2 ایضا ۲/۹۹
3 السیرۃ الحلبیہ ۲/ ۴۷
 
Top