- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,751
- پوائنٹ
- 1,207
موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نہایت تیزی سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر کی پشت پر جاپہنچے۔ اور چند لمحوں میں عبداللہؓ بن جبیر اور ان کے ساتھیوں کا صفا یا کر کے مسلمانوں پر پیچھے سے ٹوٹ پڑے۔ ان کے شہسواروں نے ایک نعرہ بلند کیا جس سے شکست خوردہ مشرکین کو اس نئی تبدیلی کا علم ہوگیا۔ اور وہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ادھر قبیلہ بنو حارث کی ایک عورت عمرہ بنت علقمہ نے لپک کر زمین پر پڑا ہوا مشرکین کا جھنڈا اٹھا لیا ، پھر کیا تھا ، بکھرے ہوئے مشرکین اس کے گرد سمٹنے لگے اور ایک نے دوسرے کو آواز دی ، جس کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کے خلاف اکٹھے ہوگئے اور جم کر لڑائی شروع کردی۔ اب مسلمان آگے اور پیچھے دونوں طرف سے گھیر ے میں آچکے تھے۔ گویا چکی کے دوپاٹوں کے بیج میں پڑگئے تھے۔
رسول اللہﷺ کا پُر خطر فیصلہ اوردلیرانہ اقدام :
اس وقت رسول اللہﷺ صرف نو صحابہؓ 1کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے 2تشریف فرماتھے اور مسلمانوں کی ماردھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑ ے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپﷺ کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائیپڑے۔ اس کے بعد آپﷺ کے سامنے دوہی راستے تھے ، یا تو آپﷺ اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے۔ یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے۔ اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔
آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہﷺ کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپﷺ نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ آپﷺ نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکار ا: اللہ کے بند و ! ادھر ... ! حالا نکہ آپﷺ جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی۔ چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ یہیں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔ اب ہم دونوں کی تفصیلات الگ الگ ذکرکررہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم (۲/۱۰۷ ) میں روایت ہے کہ آپﷺ احد کے روز صرف سات انصار اور دوقریشی صحابہؓ کے درمیان رہ گئے تھے۔
2 اس کی دلیل اللہ یہ کا ارشاد ہے:
یعنی رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں بلارہے تھے۔
رسول اللہﷺ کا پُر خطر فیصلہ اوردلیرانہ اقدام :
اس وقت رسول اللہﷺ صرف نو صحابہؓ 1کی ذرا سی نفری کے ہمراہ پیچھے 2تشریف فرماتھے اور مسلمانوں کی ماردھاڑ اور مشرکین کے کھدیڑ ے جانے کا منظر دیکھ رہے تھے کہ آپﷺ کو ایک دم اچانک خالد بن ولید کے شہسوار دکھائیپڑے۔ اس کے بعد آپﷺ کے سامنے دوہی راستے تھے ، یا تو آپﷺ اپنے نو رفقاء سمیت بھاگ کر کسی محفوظ جگہ چلے جاتے اور اپنے لشکر کو جو اب نرغے میں آیا ہی چاہتا تھا اس کی قسمت پر چھوڑ دیتے۔ یا اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے صحابہ کو بلاتے۔ اور ان کی معتد بہ تعداد اپنے پاس جمع کرکے ایک مضبوط محاذ تشکیل دیتے اور اس کے ذریعے مشرکین کا گھیرا توڑ کر اپنے لشکر کے لیے احد کی بلندی کی طرف جانے کا راستہ بناتے۔
آزمائش کے اس نازک ترین موقع پر رسول اللہﷺ کی عبقریت اور بے نظیر شجاعت نمایاں ہوئی کیونکہ آپﷺ نے جان بچاکر بھاگنے کے بجائے اپنی جان خطرہ میں ڈال کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جان بچانے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ آپﷺ نے خالد بن ولید کے شہسواروں کو دیکھتے ہی نہایت بلند آواز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پکار ا: اللہ کے بند و ! ادھر ... ! حالا نکہ آپﷺ جانتے تھے کہ یہ آواز مسلمانوں سے پہلے مشرکین تک پہنچ جائے گی۔ اور یہی ہوا بھی۔ چنانچہ یہ آواز سن کر مشرکین کو معلوم ہو گیا کہ آپﷺ یہیں موجود ہیں۔ لہٰذا ان کا ایک دستہ مسلمانوں سے پہلے آپﷺ کے پاس پہنچ گیا۔ اور باقی شہسواروں نے تیزی کے ساتھ مسلمانوں کو گھیرنا شروع کردیا۔ اب ہم دونوں کی تفصیلات الگ الگ ذکرکررہے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم (۲/۱۰۷ ) میں روایت ہے کہ آپﷺ احد کے روز صرف سات انصار اور دوقریشی صحابہؓ کے درمیان رہ گئے تھے۔
2 اس کی دلیل اللہ یہ کا ارشاد ہے:
یعنی رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں بلارہے تھے۔