lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
طبرانی کتاب الکبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ ح وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ثوبان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے دو گروہ ہیں جن کو الله اگ سے بچائے گا ایک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا
ثوبان المتوفی ٥٤ ھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضی الله عنہ کہا جاتا ہے- یہ شام میں رملہ میں مقیم رہے کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.
اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہیں یہ الرَّمْلَةَ میں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہیں گئے اور یہ یمنی تھے
تاریخ الکبیر از امام بخاری کے مطابق ثوبان رضی الله عنہ سے سننے کا دعوی کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہیں جو ١٠٤ ھ میں فوت ہوئے ہیں – ان کی توثیق متقدمین میں سے صرف ابن حبان نے کی ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى یا الأوصابى المتوفی ١٢٠ ھ ہیں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہیں يكتب حديثه ان کی حدیث لکھ لی جائے – عموما یہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہیں جب راوی کی توثیق اور ضیف ہونے پر کوئی رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفی ١٤٩ ھ ہیں جو ثقہ ہیں- لب لباب یہ ہے کہ اس کی سند بہت مظبوط نہیں اور ایسی حدیث پر دلیل نہیں لی جاتی ان کو لکھا جاتا ہے حتی کہ اس کا کوئی شواہد مل جائے
کتاب الفتن از نعیم بن حماد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ اللَّهُ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»
بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدین کو فتح عطا کرے گا حتی کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور الله ان کی مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے- ابو بریرہ نے کہا اگر میں نے اس جنگ کو پایا تو نیا، پرانا مال سب بیچ کر اس میں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو میں عیسیٰ کو شام میں پاؤں گا اس پر میں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ میں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل
بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہیں جو ضعیف اور مجھول راویوں سے روایت کرنے پر بدنام ہیں اس میں بھی عن سے روایت کرتے ہیں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہیں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہیں جس سے یہ سن کر بتا رہے ہیں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہیں لیتے
ایسی روایت پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے
غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے
اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور
روایات میں ہند سے مراد آج کل کا ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں سندھ ، پنجاب اور موجودہ ہنوستان کو ہند کہا جاتا تھا- سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور راجہ پورس کو شکست دی تو یہ سب موجودہ پاکستان میں ہی ہوا تھا سکندر اپنی زندگی میں موجودہ بھارت میں داخل بھی نہیں ہوا- یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
حوالہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ ح وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ثوبان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے دو گروہ ہیں جن کو الله اگ سے بچائے گا ایک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا
ثوبان المتوفی ٥٤ ھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضی الله عنہ کہا جاتا ہے- یہ شام میں رملہ میں مقیم رہے کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق
وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.
اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہیں یہ الرَّمْلَةَ میں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہیں گئے اور یہ یمنی تھے
تاریخ الکبیر از امام بخاری کے مطابق ثوبان رضی الله عنہ سے سننے کا دعوی کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہیں جو ١٠٤ ھ میں فوت ہوئے ہیں – ان کی توثیق متقدمین میں سے صرف ابن حبان نے کی ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى یا الأوصابى المتوفی ١٢٠ ھ ہیں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہیں يكتب حديثه ان کی حدیث لکھ لی جائے – عموما یہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہیں جب راوی کی توثیق اور ضیف ہونے پر کوئی رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفی ١٤٩ ھ ہیں جو ثقہ ہیں- لب لباب یہ ہے کہ اس کی سند بہت مظبوط نہیں اور ایسی حدیث پر دلیل نہیں لی جاتی ان کو لکھا جاتا ہے حتی کہ اس کا کوئی شواہد مل جائے
کتاب الفتن از نعیم بن حماد کی روایت ہے
حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ اللَّهُ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»
بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدین کو فتح عطا کرے گا حتی کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور الله ان کی مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے- ابو بریرہ نے کہا اگر میں نے اس جنگ کو پایا تو نیا، پرانا مال سب بیچ کر اس میں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو میں عیسیٰ کو شام میں پاؤں گا اس پر میں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ میں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل
بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہیں جو ضعیف اور مجھول راویوں سے روایت کرنے پر بدنام ہیں اس میں بھی عن سے روایت کرتے ہیں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہیں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہیں جس سے یہ سن کر بتا رہے ہیں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہیں لیتے
ایسی روایت پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے
غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے
اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور
روایات میں ہند سے مراد آج کل کا ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں سندھ ، پنجاب اور موجودہ ہنوستان کو ہند کہا جاتا تھا- سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور راجہ پورس کو شکست دی تو یہ سب موجودہ پاکستان میں ہی ہوا تھا سکندر اپنی زندگی میں موجودہ بھارت میں داخل بھی نہیں ہوا- یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
حوالہ