• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غزوہ ہند والی روایات

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
طبرانی کتاب الکبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي زُرْعَةَ الدِّمَشْقِيُّ، ثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ ح وَحَدَّثَنَا خَيْرُ بْنُ عَرَفَةَ، ثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، حَدَّثَنِي لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ الْبَهْرَانِيُّ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللَّهُ مِنَ النَّارِ: عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ، وَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ثوبان رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کے دو گروہ ہیں جن کو الله اگ سے بچائے گا ایک وہ جو ہند سے لڑے گا اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہو گا


ثوبان المتوفی ٥٤ ھ نبی صلی الله علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے ، ان کو ثوبان النَّبَوِيُّ رضی الله عنہ کہا جاتا ہے- یہ شام میں رملہ میں مقیم رہے کتاب سیر الاعلام النبلاء کے مطابق

وَقَالَ مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ: سَكَنَ الرَّمْلَةَ، وَلَهُ بِهَا دَارٌ، وَلَمْ يُعْقِبْ، وَكَانَ مِنْ نَاحِيَةِ اليَمَنِ.


اور مُصْعَبٌ الزُّبَيْرِيُّ کہتے ہیں یہ الرَّمْلَةَ میں رہے جہاں ان کا گھر تھا اور واپس نہیں گئے اور یہ یمنی تھے


تاریخ الکبیر از امام بخاری کے مطابق ثوبان رضی الله عنہ سے سننے کا دعوی کرنے والے عَبد الأَعلى بْنُ عَدِي، البَهرانِيّ، قَاضِي حِمص ہیں جو ١٠٤ ھ میں فوت ہوئے ہیں – ان کی توثیق متقدمین میں سے صرف ابن حبان نے کی ہے ان سے سننے والے لقمان بن عامر الوصابى یا الأوصابى المتوفی ١٢٠ ھ ہیں ان کا درجہ صدوق کا جو ثقاہت کا ادنی درجہ ہے- ہے اور أبو حاتم کہتے ہیں يكتب حديثه ان کی حدیث لکھ لی جائے – عموما یہ الفاظ اس وقت بولے جاتے ہیں جب راوی کی توثیق اور ضیف ہونے پر کوئی رائے نہ ہو اور ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہے – ان سے سنے والے مُحَمَّد بْن الوليد الزُّبَيْدِيُّ المتوفی ١٤٩ ھ ہیں جو ثقہ ہیں- لب لباب یہ ہے کہ اس کی سند بہت مظبوط نہیں اور ایسی حدیث پر دلیل نہیں لی جاتی ان کو لکھا جاتا ہے حتی کہ اس کا کوئی شواہد مل جائے

کتاب الفتن از نعیم بن حماد کی روایت ہے

حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ صَفْوَانَ، عَنْ بَعْضِ الْمَشْيَخَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ الْهِنْدَ، فَقَالَ: «لَيَغْزُوَنَّ الْهِنْدَ لَكُمْ جَيْشٌ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ حَتَّى يَأْتُوا بِمُلُوكِهِمْ مُغَلَّلِينَ بِالسَّلَاسِلِ، يَغْفِرُ اللَّهُ ذُنُوبَهُمْ، فَيَنْصَرِفُونَ حِينَ يَنْصَرِفُونَ فَيَجِدُونَ ابْنَ مَرْيَمَ بِالشَّامِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنْ أَنَا أَدْرَكْتُ تِلْكَ الْغَزْوَةَ بِعْتُ كُلَّ طَارِفٍ لِي وَتَالِدٍ وَغَزَوْتُهَا، فَإِذَا فَتْحَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَانْصَرَفْنَا فَأَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ الْمُحَرِّرُ، يَقْدَمُ الشَّامَ فَيَجِدُ فِيهَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَلَأَحْرِصَنَّ أَنْ أَدْنُوَ مِنْهُ فَأُخْبِرُهُ أَنِّي قَدْ صَحِبْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَحِكَ، ثُمَّ قَالَ: «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ»


بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيد ، صَفْوَانَ سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ

ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا الله ان مجاہدین کو فتح عطا کرے گا حتی کہ وہ ان ہندووں کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور الله ان کی مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے- ابو بریرہ نے کہا اگر میں نے اس جنگ کو پایا تو نیا، پرانا مال سب بیچ کر اس میں شامل ہوں گا پس جب الله فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو میں عیسیٰ کو شام میں پاؤں گا اس پر میں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ میں اے رسول الله آپ کے ساتھ تھا- اس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسکرائے اور ہنسے اور کہا بہت مشکل مشکل


بقية بن الوليد بن صائد مدلس ہیں جو ضعیف اور مجھول راویوں سے روایت کرنے پر بدنام ہیں اس میں بھی عن سے روایت کرتے ہیں اور کتاب المدلسن کے مطابق تدليس التسوية تک کرتے ہیں یعنی استاد کے استاد تک کو ہڑپ کر جاتے ہیں صَفْوَانَ کا اتا پتا نہیں جس سے یہ سن کر بتا رہے ہیں اور وہ اپنے مشائخ کا نام تک نہیں لیتے

ایسی روایت پر اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے

غزوہ ہند کی روایت نہایت کمزور ہیں اور اگر یہ صحیح بھی ہوں تو یہ غزوہ محمد بن قاسم رحمہ الله علیہ کی سربراہی میں ہو چکا ہے

اسی طرح کا مغالطہ ترکوں کو بھی ہوا اور کئی سو سال تک ترک بخاری کی قیصر کے شہر پر حملہ والی روایت کو اپنے خلفاء پر ثبت کرتے رہے جبکہ وہ لشکر جس نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا وہ یزید بن معاویہ رحمہ الله علیہ کا لشکر تھا نہ کہ کوئی اور

روایات میں ہند سے مراد آج کل کا ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں سندھ ، پنجاب اور موجودہ ہنوستان کو ہند کہا جاتا تھا- سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور راجہ پورس کو شکست دی تو یہ سب موجودہ پاکستان میں ہی ہوا تھا سکندر اپنی زندگی میں موجودہ بھارت میں داخل بھی نہیں ہوا- یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا

حوالہ
 

فہد ظفر

رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
193
ری ایکشن اسکور
243
پوائنٹ
95
روایات میں ہند سے مراد آج کل کا ہندوستان نہیں بلکہ پاکستان ہے کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں سندھ ، پنجاب اور موجودہ ہنوستان کو ہند کہا جاتا تھا- سکندر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا اور راجہ پورس کو شکست دی تو یہ سب موجودہ پاکستان میں ہی ہوا تھا سکندر اپنی زندگی میں موجودہ بھارت میں داخل بھی نہیں ہوا- یونانی لوگوں نے اندر سے منسوب اندر ندی کو انڈس ندی کہا اور وقت کے ساتھ عربوں میں یہی مقام ہند کہلایا
تو پھر جماعت الدعوه کا کیا ہوگا جبکہ یہ جماعت تو صرف موجودہ ہندوستان سے ہی جہاد کے لئے بنائی گئی ہے ( سوچنے والا آئیکن)
 
Last edited:

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
غزوہ ہند والی روایت کو علامہ البانی نے صحیح جبکہ حافظ زبیر علی زئی رحمھمااللہ نے حسن کہاھے اور جناب اگر چاھیں تو غزوہ ہند کی تعبیر کے بارے میں ڈاکٹر عصمت اللہ کی کتاب غزوہ ھند کا مطالعہ فرما لیں. باقی پاکستان کو اسکی تعبیر کہنا محض تکلف اور بے علمی ھے پاکستان میں خروج کرنا ھی سلف صالحین کے نزدیک حرام ھے کیونکہ مسلمان حکمرانوں کے ظلم وفسق کو برداشت کرنے کا حکم ھے دعوت واصلاح کے ساتھ نہ کہ خروج کیونکہ اسکے نتیجے میں جو فساد رونما ھوتا ھے وہ اس سے کئی گنا ذیادہ ھوتا ھے جس کو ختم کرنے کے لیے یہ خروج کیا جاتا ھے. البتہ پاکستان میں خروج کرنے والوں کو صحیح احادیث کی روشنی میں خوارج کہا جا سکتا ھے. اور موجودہ دور میں بھی کوئی ایک معروف علماء میں سے اس خروج کی تائید کرنے والا دکھائی نھیں دیتا.باقی رھا جماعۃ الدعوۃ کا غزوہ ھند تو وہ کفار کے خلاف ھے ناکہ مسلمانوں کے خلاف اور اس غزوہ کے حق ھونے پر یقین بھی ھے panther صاحب کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نھیں ھے.
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
جناب منتظر صاحب اپنے لکھا ہے کہ پاکستان کے خلاف خروج کرنا سلف صالحین کے نزدیک حرام ہے جناب من جب سلف صالحین کے دور میں پاکستان کا وجود ہی نہیں تھا تو پھر انکے نزدیک حرام کیسے ہوگیا ۔ اور ہندستان میں آپکے پاکستان سے زیادہ اذان کے کلمات سنائی دیتے ہیں ،اسی ظرح دعوتی کام دیگر ملکوں کی بنسبت ہندستان میں زیادہ ہوتا ہے ۔ بکثرت ہندو بھی مسلمان ہوتے ہیں اسی ظرح دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر کے افراد کثرت کے ساتھ منہج سلف قبول کرتے ہیں ایسے ملک کے خلاف آپ کس بنیاد پر جہاد کریں گے اسی طرح حدیث کا کام جتنا ہندستان میں ہواہے اتنا پوری دنیا میں نہیں ہوا۔ ۔پہلے حدیث سمجھئے کہ یہ حدیث کس موقع پر کہی گئی تھی اور اس کا اطلاق کب تک ہوگا اس کے بعد کسی ملک پر حکم لگائے اسی ظرح اپنے گھر کا بھی تفصیلی جایزہ لیجیے ۔
 

muntazirrehmani

مبتدی
شمولیت
فروری 24، 2015
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
20
پوائنٹ
18
مجھے معلوم تھا کہ آپ یہ نکتہ ضرور اٹھائیں گے کہ پاکستان تو سلف صالحین کے دور میں تھا ھی نھیں تو جناب حضور میرا مطلب یہ تھا کہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف خروج جائز نھیں میں نے نیچے وضاحت بھی کر دی تھی جو شاید آپکی نظر مبارک سے اوجھل رھی. کیا آپ پاکستان کے حکمرانوں کو مسلمان نھیں سمجھتے ؟ اور آپ نے جو ہندستان کی تعریف کی ھے کہ وھاں اذان دعوت وغیرہ کی سہولیات ھیں تو جناب شاید آپ کو ہندوؤں کے ظلم کی تاریخ معلوم نھیں یا پھر آپ ھند نواز بننے کی کوشش میں ھیں. پاکستان بنتے وقت دو لاکھ مسلمان کس نے شہید کیے.گجرات فسادات میں مسلمانوں کی جان ومال وآبرو کو کس نے پامال کیا یہاں تک کہ آج وہی مسلمان جو گجرات میں کروڑ پتی ھوا کرتے تھے جونپڑیوں میں رھنے پر مجبور ھیں. اور بابری مسجد کس نے شہید کی. اور آج بھی,, گھر واپسی کے نام پر آر ایس ایس مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنائے ھوئے ھے اور مسلمانوں کو زبردستی ھندو بنانے پر کوششیں ہو رھی ھیں اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے ساتھ اسلام کی وجہ سے ھو رھا ھے. اور رھی ازان کی بات تو,,ملا کو ھے ھند میں جو ازاں کی اجازت. نادان یہ سمجھتا ھے کہ اسلام ھے آذاد... اور جو دعوت کی بات ھے تو اسکی وجہ سے جہاد ساقط نھیں ھو جائے گا دعوت وجہاد کا جھولی دامن کا ساتھ ھے..باقی جب سلف صالحین کے دور میں پاکستان نھیں تھا تو پاکستان میں لڑنا غزوہ ھند کیسے ھو گیا ؟ھند اس وقت جو معروف تھا اسی پر ھند کا اطلاق ھو گا. باقی میری آپ کو ایک نصیحت ھیکہ آپکو شاید پاکستان میں رھنا راس نھیں آرھا اسلیے ھندستان کی شہریت لے لیجیے پھر کبھی گھر واپسی کا راؤنڈ آپکی طرف لگے گا پھر ہم سے بات کرنا.اور جناب پاکستان میں آپکو دعوت کے لیے کون سی رکاوٹیں ھیں.. آپ کے انداز تحریر سے لگتا ھیکہ آپ ھندستانی ھیں اسی لیے مجھے میرے گھر کا طعنہ دیا ھے تو جناب والا ھندستان جو ظلم ھند میں بالخصوص کشمیر کر رھا ھے اسے سننے کے لیے دل گردے کی ضرورت ھے یہی وجہ ھے کہ عرب علماء نے جہاد کشمیر کو جو ھندستان کے خلاف ھے فرض قرار دیا ھے ۔
 

اٹیچمنٹس

Last edited by a moderator:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام و علیکم رحمت الله -

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے دین کی آڑ لے لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے احادیث نبوی میں موجود پیشن گویوں کو اپنے مقاصد کو حق ثابت کرنے کے لئے غلط طریقے سے استمعال کرتے ہیں - اب چاہے وہ قیامت کی علامات سے متعلق احادیث نبوی ہوں ،یا امام مہدی کے خروج کا معامله ہو یا پھر خوارج سے متعلق کوئی روایت یا پھر غزوہ ہند سے متعلق کوئی خبر ہو وغیرہ - ہر کوئی حدیث رسول کے تناظر میں صرف اپنے مطلب کو حق ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے-جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان احادیث نبوی کے ذریے دی گئی پیشن گویوں کے صحیح وقت اور اس سے متعلق شخصیات کا تعین کرنا کوئی آسان کام نہیں- اپنے موقف پر احدیث میں بیان کی گئیں پیشن گویوں کے تناظر میں کوئی حتمی راے پیش کرنا عقلمندی یا دین کی کوئی خدمت نہیں بلکہ گمراہی ہے- اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ورنہ فتنوں پر فتنے نمودار ہوتے ہیں اور نوبت خون ریزی تک پہنچ جاتی ہے -

غزوہ ہند سے متعلق روایات کو غور سے پڑھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزوہ دجال کے خروج اور حضرت عیسی علیہ سلام کے نزول کے زمانے کے دوران یا اس زمانے کے انتہائی نزدیک پیش آے گا - جیسا کہ مسند اسحاق کی ایک روایت میں ہے کہ :

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما الهند فقال ليغزون جيش لكم الهند فيفتح الله عليهم حتى يأتوا بملوك السند مغلغلين في السلاسل فيغفر الله لهم ذنوبهم فينصرفون حين ينصرفون فيجدون المسيح بن مريم -
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہندوستان کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ ایک لشکر ہندوستان میں جہاد کرے گا اور اللہ انہیں فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ ، سندھ کے بادشاہوں کو وہ زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ ان کے گناہ معاف فرما دے گا، پھر وہ پلٹیں گے تو شام میں حضرت عیسی علیہ السلام کو پائیں گے۔

بظاھر ایسا لگتا ہے کہ اس زمانے میں پاکستان ، ہندوستان اور افغانستان کا پورا کے پورا علاقہ ایک مملکت "ہند" ہو گا - نا کہ آج کل کی طرح جیسے ہندوستان کو ایک الگ ریاست کے طور پر ہند کہا جاتا ہے - جب کہ روایت سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غزوہ ہند آخری زمانے میں ہو گا جب حضرت عیسی علیہ سلام یا تو اس دنیا میں تشریف لا چکے ہونے گے یا تشریف لانے والے ہونگے -٠ لہذا آجکل کے جو پاکستانی فوجی یا جہادی تنظیمیں ہندوستان کے ساتھ جہاد کو "غزہ ہند" سے تعبیر کرتی ہیں وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں- مزید یہ کہ اوپر دی گئی روایت میں سندھ کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لانے کا ذکر ہے- اور یہ عقل و فہم سے آری تنظیمیں اور پاکستانی فوجی یہ نہیں سمجھتے کہ سندھ پاکستان کا علاقہ ہے نا کہ ہندوستان کا - اس کا مطلب ہے کہ کسی زمانے میں یہ پورا ہند سندھ کے علاقہ ہیں میں ہی شمار ہو گا -اور اور اہل عرب و حجاز اس علاقے کو فتح کرکے یہاں کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر اپنے ساتھ لے جائیں گے (واللہ اعلم)-

الله ہم کو اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ہمارے ہاں اکثر لوگوں کا یہ المیہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے دین کی آڑ لے لیتے ہیں اور اپنی مرضی سے احادیث نبوی میں موجود پیشن گویوں کو اپنے مقاصد کو حق ثابت کرنے کے لئے غلط طریقے سے استمعال کرتے ہیں - اب چاہے وہ قیامت کی علامات سے متعلق احادیث نبوی ہوں ،یا امام مہدی کے خروج کا معامله ہو یا پھر خوارج سے متعلق کوئی روایت یا پھر غزوہ ہند سے متعلق کوئی خبر ہو وغیرہ - ہر کوئی حدیث رسول کے تناظر میں صرف اپنے مطلب کو حق ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے-جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان احادیث نبوی کے ذریے دی گئی پیشن گویوں کے صحیح وقت اور اس سے متعلق شخصیات کا تعین کرنا کوئی آسان کام نہیں-
آپ نے بالکل صحیح فرمایا،،،،،جزاک اللہ خیراً
ان احادیث کو کیش کروانے والے بڑی جرات سے مصروف عمل ہیں ؛؛
اور ان کے اس رویہ سے منکرین حدیث اور لبرل طبقہ سرے سے ایسی احادیث کا انکار کردیتا ہے
 
Top