آپ نے اپنے اصول سے دلیل پیش کرنی ھے ھمارے نہیی اگر تم بھی مقلد ہو تو پھر ہمارے اصول سے دلیل پیش کریی
اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کو حدیث کہا:
{ومَنْ أصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیْثاً}۔ اللہ تعالیٰ کی بات سے بڑھ کر کون سچا ہوسکتا ہے۔(ا لنساء:۸۷)
٭…قرآن مجید کو حدیث نام دیا:
{ فَبِأیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ}۔(المرسلات:۵۰) مراد یہ کہ اس زمانے کے گمراہ لوگوں کے باطل عقائد کے مقابلہ میں قرآن مجید میں نئی بات یعنی نئے عقائد پیش کئے گئے تھے۔ اسلاف محدثین أہل الحدیث کہلواتے کہ ایسے نام میں جامعیت تھی۔یعنی اس میں قرآن اور حدیث دونوں کے معنی جمتے تھے اوران کا مسلک ومشن ہی یہی تھا کہ صرف صحیح حدیث پر عمل کیا جائے اسی کی دعوت دی جائے اور ضعیف وموضوع ومراسیل روایات کو اورآراء رجال کو ترک کردیا جائے۔
تاریخی واقعہ کو قرآن پاک نے حدیث کانام دیا اس لئے کہ عرب بھی اپنے تاریخی واقعات کو احادیث کہا کرتے۔
{وَہَلْ أتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی} کیا آپ کے پاس موسیٰ علیہ السلام کی خبر پہنچی۔
عام گفتگو کے لئے بھی یہ لفظ بولا گیا:
{۔۔۔فَأعْرِضْ عَنْہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہِ} (الأنعام:۶۸)پس ان سے اعراض کیجیے یہاں تک کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائیں۔
قصۂ پارینہ : گرد سے اٹے ماضی کے واقعات کے لئے بھی لفظ حدیث استعمال ہوا مثلاً:
{فَجَعَلْنَاہُمْ أحَادِیْثَ} ہم نے انہیں کہانیاں بنادیا۔
آپ ﷺ کا عمل ، قول اور خاموش رضامندی بھی حدیث۔ قرآن مجید میں ہے:
{وَإذْ أسَرَّ النَّبِیُّ إلٰی بَعْضِ أزْوَاجِہِ حَدِیْثًا} اور جب نبی نے اپنی کسی بیوی سے رازدارانہ بات کی۔
عربوں اور مسلمانوں کے لئے لفظ حدیث کوئی اجنبی نہیں تھا۔بلکہ وہ اس سے مانوس تھے جس طرح آج بھی قرآن کریم کا قاری اس سے مانوس ہے۔
٭…آپ ﷺ نے خود بھی اپنی بات یا عمل کو حدیث قرار دیا:
اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ رسول اکرم ﷺ کے اقوال واعمال کو بھی حدیث سے تعبیر کیا جائے گا اس لئے اگریہ لفظ قرآن مجید میں استعمال ہو تو کسی کے لئے اجنبی نہ ہو۔حدیث میں ہے کہ صحابیٔ رسول سیدنا ابو ہریرہؓ نے آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ قیامت کے روز آپﷺ کی شفاعت کا سب سے زیادہ مستحق خوش نصیب کون ہوگا ۔آپﷺ نے فرمایا:
لَقَدْ ظَنَنْتُ یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ أَنْ لاَّیَسْأَلَنِیْ عَنْ ہٰذَا الْحَدِیْثِ أَحَدٌ أَوَّلَ مِنْکَ لِمَا رَأَیْتُ مِنْ حِرْصِکَ عَلیَ الْحَدِیْثِ۔(صحیح بخاری۔ کتا ب العلم (۹۹، ۶۵۰) )ابو ہریرہ مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی شخص مجھ سے اس حدیث کے بارے میں سوال نہیں کرے گا۔کیوں کہ تم طلب حدیث کے بہت حریص ہو ۔
صحابہ کرامؓ نے بھی آپﷺ کے اقوال اور اعمال وغیرہ کو حدیث نام دیا:
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں :
إِنَّہُ لَیَمْنَعُنِیْ أَنْ اُْحَدِّثَکُمْ حَدِیْثاً کَثِیْراً ، أَنَّ النَّبِیَّﷺ قَالَ: مَنْ تَعَمَّدَ عَلَیَّ کَذِباً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ (صحیح بخاری کتاب العلم ۱۰۸) مجھے یہ خیال روکتا ہے کہ میں تمہیں بہ کثرت احادیث بیان کروں ۔ جبکہ آپ کا ارشاد ہے کہ جو شخص عمداً میری طرف جھوٹ منسوب کرے اسے اپنا ٹھکانہ دوزخ بنالینا چاہیے۔
لفظ حدیث کا مادہ ح د ث ہے جس کا معنی ہے کہ ایک شے جو پہلے نہیں تھی اب ہے۔ جیسے لفظ حادثہ۔ ہرنئے واقعے کے لئے بولا جاتا ہے۔حدیث بھی نیا کلام ہے جس کے حروف والفاظ پہلے نہیں تھے اب ہیں۔
لغت میں لفظ حدیث، قدیم کی ضد بھی ہے۔احادیث اس کی جمع تکسیر ہے ۔ جس سے مراد خبر، کہانی، قصہ پارینہ، گفتگویا اطلاع دیناہے۔ یاہر وہ کلام، حدیث ہے جو انسان بولتا ہے، اسے آگے نقل کرتا ہے اوراس کے کانوں تک سوتے یا جاگتی حالت میں پہنچتا ہے۔ قرآن کریم میں لفظ حدیث، قول، عمل ، تقریر اور اخلاق وکردار سبھی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
۔ہ صحابہ كرام اور تابعين عظام ميں سے جس نے بھى كوئى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنائى تو اس كى وہ خبر اور حديث قبول كى گئى اور اسے سنت ثابت كيا، اور تابعين كے بعد والے لوگوں نے بھى ايسے ہى كيا، اور جن سے ہم ملے وہ سب احاديث كو ثابت كرتے اور اسے سنت قرار ديتے، اور اس كى اتباع كرنے والے كى تعريف كرتے اور مخالفت كرنے والے پر عيب لگاتے.
لہذا جو كوئى بھى اس مذہب كو چھوڑے ہمارے نزديك وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ اور ان كے بعد آج تك كے اہل علم كى راہ كو چھوڑنے والا اور جاہل لوگوں ميں سے ہو گا "