موضوع کو سمجھنے کے لئے مختصر تعارف:
کسی علاقے میں چاند کے نکل آنے اور نیا مہینہ شروع ہو جانے کے لئے ہمارے پاس تین ذریعے ہیں
پہلا ذریعہ یہ ہے کہ سائنسی یا علم فلکیات کے مطابق چاند کی پوزیشن کو متعین کر کے نیا مہینہ شروع ہونے کا اعلان کیا جائے مگر اس بات پر تقریبا سب متفق ہیں کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا
دوسرا یہ ہے کہ خود چاند دیکھ کر نیا مہینہ شروع ہو جانے کا اعلان کیا جائے اور حدیث میں اسکی تائید ہوتی ہے پس اس میں سلفی علماء میں کوئی اختلاف نہیں
تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ خود تو چاند نہ دیکھا ہو مگر کسی اور مسلمان نے دیکھا ہو اور اسکی گواہی کی بنیاد پر نیا مہینہ شروع ہونے کا اعلان کیا جائے تو حدیث میں اسکی تائید موجود ہے اور اس مسئلہ پر کسی کو اختلاف نہیں کہ اس طرح کسی کی گواہی کو بنیاد بنا کر چاند کی روئیت کا اعلان کیا جا سکتا ہے
تو پھر سوال ابھرتا ہے کہ جب یہ تین ہی ذریعے ہیں اور ان میں پہلے کے غلط ہونے پر اتفاق ہے اور باقی دو کے درست ہونے پر اتفاق ہے تو پھر مزید اختلاف کیوں پیدا ہوتا ہے
تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ اصل اختلاف تیسرے ذریعے کی وضاحت سے شروع ہوتا ہے جس میں سب علماء اتنی بات پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ روئیت کے لئے ایک مسلمان کی گواہی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے مگر کیا ہر مسلمان (چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو اور کیسا ہی اسکا عقیدہ ہو) کی گواہی کو بنیاد بنایا جا سکتا ہے
اس سلسلے میں دو خصوصیات بتائی جاتی ہیں جن کے حاملین کی گواہی کو ہی چاند کے اعلان کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے ان دو خصوصیات کی وضاحت مندرجہ ذیل ہے
1 ۔ گواہی دینے والے کا عقیدہ توحید پر ہونا
ابن عباس رضى الله عنھما کی حدیث: “جَاءَ أَعْرَابِىٌّ إِلَى النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ إِنِّى رَأَيْتُ الْهِلاَلَ فَقَالَ : أَتَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ؟. قَالَ نَعَمْ. قَالَ : أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ ؟. قَالَ : نَعَمْ. قَالَ:يَا بِلاَلُ أَذِّنْ فِى النَّاسِ فَلْيَصُومُوا غَدًا
(سنن أبي داود محقق وبتعليق الألباني : 2/ 274 , سنن الترمذي : 3/ 74 , سنن النسائي بأحكام الألباني : 4/ 132 وصححه ابن خزيمه وابن حبان والحاکم)
ایک اعرابی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا میں نے چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ (مشکل کشا و حاجت روا) نہیں ہے تو اسنے کہا کہ جی ہاں (میں گواہی دیتا ہوں) آپ سلی اللہ علیہ وسلم نے (مزید) کہا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اسنے کہا جی ہاں (میں اسکی بھی گواہی دیتا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں
ایک اہل حدیث کی بنیاد ہی عقیدہ توحید پر ہوتی ہے تو کسی بھی اہل حدیث عالم کے ہاں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مشرک کے پیچھے نماز پڑھے یا اسکو اپنی بیٹی دے تو وہ کیسے کسی مشرک کی گواہی کو قبول کر سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث بھی موجود ہو کہ مشرک کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی جیسا کہ اوپر عقیدے کے اختلاف میں اعرابی کی حدیث کا ذکر ہے اس میں کیونکہ اعرابی مجہول الحال تھا پس اس اعرابی سے پہلے یہ گواہی لی گئی کہ کیا تو اللہ کے الہ (مبعنی مشکل کشا حاجت روا) ہونے کی گواہی دیتا ہے یہاں الہ کا معنی کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کیونکہ یہاں خالی کسی سے مجرد کلمہ پڑھوانا مقصود نہیں بلکہ اسکی عقیدے کا پتا کرنا مقصود ہے پس آج جب معاشرے کے اندر شرک کرنے والے کو کوئی اہل حدیث غیراللہ کی عبادت کرنے سے منع کرتا ہے تو وہ مشرک جواب دیتا ہے کہ ہم تو کلمہ لاالہ الا اللہ پڑھتے ہوئے جب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں تو ہم کیسے غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں تو اہل حدیث کہتا ہے کہ آپ الہ کے معنی کو مشکل کشا یا حاجت روا سمجھ کر کلمہ نہیں پڑھتے پس وہ اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ آپ اس طرح کہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ بمعنی مشکل کشا و حاجت روا نہیں تو وہ مشرک ایسا ترجمہ کے ساتھ کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیتا ہے
پس اس پر تمام سلفی علماء کا اتفاق ہے کہ کسی مشرک کی گواہی قابل قبول نہیں ہوتی
2۔ گواہی دینے والے اور قبول کرنے والے کا مطلع ایک ہونا
اس میں علماء میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ مطلع کے مختلف ہونے میں میں کسی عالم کو اختلاف نہیں ہے کیونکہ مطلع مختلف ہوتے ہیں مگر کیا مطلع کا اعتبار کیا جائے گا یعنی اس کے مختلف ہونے پر گواہی کو رد کر دیا جائے گا اس پر علماء کا اختلاف موجود ہے جس میں دونوں طرف بڑے بڑے علماء اور سلف صالحین شامل ہیں مثلا ناصر الدین البانی رحمہ اللہ وغیرہ پوری دنیا میں سے گواہی قبول کرنے کو درست سمجھتے ہیں جبکہ مطلع کے مختلف ہونے پر گواہی رد کرنے کو درست سمجھتے ہیں
اس اختلاف کو مختصرا سمجھتے ہیں
مطلع کے اختلاف کے ذکر کے بغیر مطلقا کسی بھی مسلمان کی گواہی پر چاند کی روئیت کا اعتبار کرنے پرصحیح، مرفوع اور صریح احادیث موجود ہیں کہ تم کسی کی بھی گواہی پر چاند دیکھنے کا اعلان کر سکتے ہو جبکہ ان احادیث کے عموم کو مقید کرنے کے لئے ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو حدیث کریب کے نام سے مشہور ہے جس میں ابن عباس نے مکہ میں رہتے ہوئے اہل شام کی روئیت کو قبول نہ کرنے کا فتوی دیا ہے اور اپنے اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتے ہوئے کہا کہ
ھٰکذا أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمیعنی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ اس طرح روئیت کو قبول نہ کرنا اس سے اگرچہ حدیث صحیح مرفوع ہو جاتی ہے مگر صریح نہیں ہے کیونکہ یہاں ھکذا کا اشارہ کس چیز کی طرف ہے یہ واضح نہیں ہے پس یہ حدیث صحیح اور مرفوع تو ہے مگر صریح نہیں ہے جبکہ یہ اس حدیث کی تخصیص نہیں کر سکتی جس میں کسی کی بھی گواہی پر روزہ رکھنے کا کہا گیا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جب رفع یدین کا مناظرہ ہوتا ہے تو اس میں یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ رفع یدین منسوخ ہونے کی کوئی صحیح مرفوع اور صریح حدیث دکھائیں کیونکہ دوسری حدیث کو منسوخ یا اس میں تخصیص کرنے کے لئے حدیث کو صریح بھی ہونا چاہئے یعنی اس میں ایک سے زیادہ احتمال نہ ہوں
اب یہاں یہ حدیث مطلع کے اختلاف کے معتبر ہونے کے سلسلے میں غیر صریح ہے کیونکہ یہاں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ تو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یہ روئیت قبول نہیں مگر یہ نہیں کہا کہ مطلع کے اختلاف کی وجہ سے انکی گواہی کو قبول نہیں کیا جا رہا بلکہ کچھ بھی وجہ بیان نہیں کی اسی لئے بعد میں محدثین نے اسکی مختلف علتیں نکالیں جن میں ایک بڑی علت مطلع کا اختلاف بھی نکالی گئی ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ دوسری علتیں بھی نکالی گئی ہیں مثلا چونکہ یہ خبر مہینہ کے آخر پر پہنچی تو اب رمضان کے اختتام پر اسکو قبول کرنا درست نہیں تھا اسی طرح کچھ محدثین نے یہ علت بھی نکالی ہے کہ افطار کے لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں دو گواہیوں کے لینے کا حکم ہے پس کریب کی ایک گواہی چونکہ افطار کرنے کا سبب بن رہی تھی تو قبول نہیں کی گئی
یہی بات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں ذکر فرمائی ہے
:"وَقَدْ أَجَابَ أَصْحَابُنَا بِأَنَّهُ إنَّمَا لَمْ يُفْطِرْ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ عِنْدَهُ إلَّا بِقَوْلٍ وَاحِدٍ فَلَا يُفْطِرُ بِهِ"
"ہمارے اصحاب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ دراصل ابن عباس رضی اللہ عنہ نے افطار (رمضان کا اختتام) اسلئے نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ رویت صرف ایک راوی کے قول سے ثابت ہورہی تھی جو کہ افطار کیلئے کافی نہ تھی" (مجموع الفتاوى جلد ۲۵ صفحہ ۱۰۸)اسی ضمن میں امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
: "فأما حديث كريب فإنما دل على أنهم لا يفطرون بقول كريب وحده"
"جہاں تک حدیث کریب کا تعلق ہےتو دراصل وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں (ابن عباس اور اہل مدینہ) نے اکیلے کریب کی گواہی پر افطار (رمضان کا اختتام) نہیں کیا"(المغني جزء رابع کتاب الصیام صفحہ ۳۲۹ طبع دار عالم الکتب ریاض)
اسی طرح کچھ کہتے ہیں کہ یہاں ھکذا کا اشارہ رسول اللہ کے اس حکم کی طرف ہے جس میں غیر واضح ہونے کی صورت میں تیس پورے کرنے کا حکم ہے
پس کچھ فقہاء کے ہاں جب یہاں ایک سے زیادہ علتوں کا احتمال ہے تو پھراس ظنی معاملہ سے ایک قطعی معاملہ کی تخصیص نہیں کی جا سکتی لیکن اسکے برعکس جمہور اسلاف اس حدیث کریب کو مطلع کے اختلاف پر ہی محمول کرتے چلے آئے ہیں
پس درست موقف یہ ہے کہ مطلع کے اختلاف پر ہر فریق دلائل کو دیکھ کر راجح مرجوح کی حد تک تو اپنا نظریہ رکھ سکتا ہے مگر دوسرے کی نیت پر شک کرنے یا اسکو گمراہ سمجھنے کی بجائے اسکو اجتہادی غلطی پر تصور کیا جا سکتا ہے واللہ اعلم