حبیب زدران
رکن
- شمولیت
- دسمبر 28، 2011
- پیغامات
- 153
- ری ایکشن اسکور
- 420
- پوائنٹ
- 57
منکرین حدیث اور غیر مقلدین میں تعلق معروف بات ہے۔ سچ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث غیر مقلدین کے بطن سے ہی پھوٹا ہے۔ ان قریبی عزیزوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ایک باریک فرق یہ ہے کہ منکرین حدیث جملہ ذخیرہ احادیث کے منکر ہیں اور انکے آباء غیر مقلدین احادیث مبارکہ کے قلیل حصے کو مانتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا دیدہ دلیری سے انکار کرتا ہے۔ بنیادی طور پر احادیث دو قسم پر مشتمل ہے۔
١۔ وہ جو واقعی میں حدیث رسول ہے اور دوسری
٢۔ وہ جو لوگوں نے خود سے گھڑ کر نبی علیہ سلام سے منسوب کردی
وضاحت کیلئے حدیث کی تعریف پیش خدمت ہے۔ عام طور پر حدیث کی غلط تعریف اس طرح کر دی جاتی ہے
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔ آئیں اسے خود ملاحظہ کریں
خیر اندیش
ابن جوزی الپشاوری
١۔ وہ جو واقعی میں حدیث رسول ہے اور دوسری
٢۔ وہ جو لوگوں نے خود سے گھڑ کر نبی علیہ سلام سے منسوب کردی
وضاحت کیلئے حدیث کی تعریف پیش خدمت ہے۔ عام طور پر حدیث کی غلط تعریف اس طرح کر دی جاتی ہے
اگر حدیث کی مذکورہ بالا تعریف غلط ہے تو پھر صحیح تعریف کیا ہے؟ آیئے عالم کی زبانی سنئےحدیث کسے کہتے ہیں اس سلسلے میں عموما لوگوں کا جواب یہ ہوتاہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات کو ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ جواب غلط ہے اوراسی غلط جواب کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر اس بات پر حیرانی ظا ہر کرتے لگتے ہیں کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ضعیف کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔
حدیث کی مذکورہ صحیح تعریف سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ١۔جن احادیث کی نسبت ثابت ہے وہ احادیث رسول ہیں۔٢۔ او ر جن کی نسبت ثابت نہیں وہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔حدیث کی صحیح تعریف ملاحظہ ہو:
ہروہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے وہ ’’حدیث ‘‘ ہے۔
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے منسوب کیا جائے ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف لازمی طور پر آپ ہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ بلکہ کسی کا بھی ہو لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا تو محض نسبت سے وہ حدیث ہوجائے گا قطع نظر اس کے کہ یہ نسبت صحیح ہے یا غلط۔
اب اگر نسبت ثابت ہے تو حدیث مقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث رسول ہے اوراگرنسبت ثابت نہیں توحدیث مردود ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث تو ہے لیکن حدیث رسول نہیں ہے ، اس لئے مردود ہے۔
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔ آئیں اسے خود ملاحظہ کریں
ثابت ہوا کہ غیر مقلدین منکرین حدیث کے بعد حدیث کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ میری تمام معتدل غیر مقلدوں شاکر صاحب اور عادل سہیل صاحب ،مجتھد غیر مقلدوں شاہد نذیر اور حضر حیات صاحب اور مقلدین غیر مقلدوں ارسلان صاحب اور گڈ مسلم و ہا بیل صاحبان سے گذارش ہے کہ اپنے مولویوں کے دھوکوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں انکارحدیث کی سنگینی سے ٓاگاہ و حبرداررکھئے۔معلوم ہوا کہ حدیث کا مفہوم یہ کہ جو قول یا فعل یا تقریر یا وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یا نہ اگر ثابت ہے تو قابل قبول کیونکہ ایسی صورت میں وہ حدیث رسول ہے اور اگر ثابت نہیں یعنی ضعیف ہے تو وہ حدیث تو ہے مگر حدیث رسول نہیں اس لئے مردود ہے۔
خیر اندیش
ابن جوزی الپشاوری