• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مقلدین منکرین حدیث کی ڈگر پر ۔ انکار حدیث کے چور دروازے

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
منکرین حدیث اور غیر مقلدین میں تعلق معروف بات ہے۔ سچ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث غیر مقلدین کے بطن سے ہی پھوٹا ہے۔ ان قریبی عزیزوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ایک باریک فرق یہ ہے کہ منکرین حدیث جملہ ذخیرہ احادیث کے منکر ہیں اور انکے آباء غیر مقلدین احادیث مبارکہ کے قلیل حصے کو مانتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا دیدہ دلیری سے انکار کرتا ہے۔ بنیادی طور پر احادیث دو قسم پر مشتمل ہے۔
١۔ وہ جو واقعی میں حدیث رسول ہے اور دوسری
٢۔ وہ جو لوگوں نے خود سے گھڑ کر نبی علیہ سلام سے منسوب کردی
وضاحت کیلئے حدیث کی تعریف پیش خدمت ہے۔ عام طور پر حدیث کی غلط تعریف اس طرح کر دی جاتی ہے
حدیث کسے کہتے ہیں‌ اس سلسلے میں عموما لوگوں کا جواب یہ ہوتاہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات کو ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ جواب غلط ہے اوراسی غلط جواب کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر اس بات پر حیرانی ظا ہر کرتے لگتے ہیں‌ کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث‌ ضعیف کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔
اگر حدیث کی مذکورہ بالا تعریف غلط ہے تو پھر صحیح تعریف کیا ہے؟ آیئے عالم کی زبانی سنئے
حدیث‌ کی صحیح تعریف ملاحظہ ہو:
ہروہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے وہ ’’حدیث‌ ‘‘ ہے۔
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے منسوب کیا جائے ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف لازمی طور پر آپ ہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ بلکہ کسی کا بھی ہو لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا تو محض نسبت سے وہ حدیث ہوجائے گا قطع نظر اس کے کہ یہ نسبت صحیح‌ ہے یا غلط۔

اب اگر نسبت ثابت ہے تو حدیث مقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث‌ رسول ہے اوراگرنسبت ثابت نہیں توحدیث‌ مردود ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں‌ یہ حدیث‌ تو ہے لیکن حدیث‌ رسول نہیں‌ ہے ، اس لئے مردود ہے۔
حدیث کی مذکورہ صحیح تعریف سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ١۔جن احادیث کی نسبت ثابت ہے وہ احادیث رسول ہیں۔٢۔ او ر جن کی نسبت ثابت نہیں وہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔ آئیں اسے خود ملاحظہ کریں

معلوم ہوا کہ حدیث کا مفہوم یہ کہ جو قول یا فعل یا تقریر یا وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یا نہ اگر ثابت ہے تو قابل قبول کیونکہ ایسی صورت میں وہ حدیث‌ رسول ہے اور اگر ثابت نہیں یعنی ضعیف ہے تو وہ حدیث‌ تو ہے مگر حدیث‌ رسول نہیں اس لئے مردود ہے۔
ثابت ہوا کہ غیر مقلدین منکرین حدیث کے بعد حدیث کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ میری تمام معتدل غیر مقلدوں شاکر صاحب اور عادل سہیل صاحب ،مجتھد غیر مقلدوں شاہد نذیر اور حضر حیات صاحب اور مقلدین غیر مقلدوں ارسلان صاحب اور گڈ مسلم و ہا بیل صاحبان سے گذارش ہے کہ اپنے مولویوں کے دھوکوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں انکارحدیث کی سنگینی سے ٓاگاہ و حبرداررکھئے۔
خیر اندیش
ابن جوزی الپشاوری
 

Hasan

مبتدی
شمولیت
جون 02، 2012
پیغامات
103
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
0
جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔
ابن الجوزی البشاوی بھائی آپ شاذ ،معلول اور متروک احادیث کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث سجھنے پر اپنے علماء سے کوئی عبارت دکھا سکتے ہیں ؟ اپنے شیوخ اکاڑوی، گھمن جیسوں کے علاوہ ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
غیر مقلدین(١) منکرین حدیث (٢) کی ڈگر پر(٣) ۔ انکار حدیث(٤) کے چور دروازے -
منکرین حدیث اور غیر مقلدین میں تعلق معروف بات ہے۔(٥) سچ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث غیر مقلدین کے بطن سے ہی پھوٹا ہے۔ ان قریبی عزیزوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ایک باریک فرق یہ ہے کہ منکرین حدیث جملہ ذخیرہ احادیث کے منکر ہیں اور انکے آباء غیر مقلدین احادیث مبارکہ کے قلیل حصے کو مانتا ہے(٦) اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا دیدہ دلیری سے انکار کرتا ہے۔(٧) بنیادی طور پر احادیث دو قسم پر مشتمل ہے۔
١۔ وہ جو واقعی میں حدیث رسول ہے اور دوسری
٢۔ وہ جو لوگوں نے خود سے گھڑ کر نبی علیہ سلام سے منسوب کردی
وضاحت کیلئے حدیث کی تعریف پیش خدمت ہے۔ عام طور پر حدیث کی غلط تعریف اس طرح کر دی جاتی ہے

حدیث کسے کہتے ہیں‌ اس سلسلے میں عموما لوگوں کا جواب یہ ہوتاہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تقریرات کو ’’حدیث‘‘ کہتے ہیں۔
لیکن یہ جواب غلط ہے اوراسی غلط جواب کی وجہ سے بہت سارے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر اس بات پر حیرانی ظا ہر کرتے لگتے ہیں‌ کہ ’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث‌ ضعیف کیسے ہوسکتی ہے‘‘۔
اگر حدیث کی مذکورہ بالا تعریف غلط ہے تو پھر صحیح تعریف کیا ہے؟ آیئے عالم کی زبانی سنئے

حدیث‌ کی صحیح تعریف ملاحظہ ہو:
ہروہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے وہ ’’حدیث‌ ‘‘ ہے۔
ملون اورخط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے منسوب کیا جائے ۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ قول یا فعل یا تقریر یا وصف لازمی طور پر آپ ہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔ بلکہ کسی کا بھی ہو لیکن اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا گیا تو محض نسبت سے وہ حدیث ہوجائے گا قطع نظر اس کے کہ یہ نسبت صحیح‌ ہے یا غلط۔

اب اگر نسبت ثابت ہے تو حدیث مقبول ہے کیونکہ ایسی صورت میں یہ حدیث‌ رسول ہے اوراگرنسبت ثابت نہیں توحدیث‌ مردود ہے۔ کیونکہ ایسی صورت میں‌ یہ حدیث‌ تو ہے لیکن حدیث‌ رسول نہیں‌ ہے ، اس لئے مردود ہے۔
حدیث کی مذکورہ صحیح تعریف سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ١۔جن احادیث کی نسبت ثابت ہے وہ احادیث رسول ہیں۔٢۔ او ر جن کی نسبت ثابت نہیں وہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے(٨)۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔(٩) یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے(١٠) ۔ آئیں اسے خود ملاحظہ کریں

معلوم ہوا کہ حدیث کا مفہوم یہ کہ جو قول یا فعل یا تقریر یا وصف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو یا نہ اگر ثابت ہے تو قابل قبول کیونکہ ایسی صورت میں وہ حدیث‌ رسول ہے اور اگر ثابت نہیں یعنی ضعیف ہے تو وہ حدیث‌ تو ہے مگر حدیث‌ رسول نہیں اس لئے مردود ہے۔
ثابت ہوا کہ غیر مقلدین منکرین حدیث کے بعد حدیث کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔(١١) میری تمام معتدل غیر مقلدوں شاکر صاحب اور عادل سہیل صاحب ،مجتھد غیر مقلدوں شاہد نذیر اور حضر حیات صاحب اور مقلدین غیر مقلدوں ارسلان صاحب اور گڈ مسلم و ہا بیل صاحبان (١٢)سے گذارش ہے کہ اپنے مولویوں کے دھوکوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں انکارحدیث کی سنگینی سے ٓاگاہ و حبرداررکھئے۔
خیر اندیش
ابن جوزی الپشاوری
(١) تقلید کی بیماری صدیوں بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔ خود جن کی تقلید کی جاتی ہے وہ بھی آپ کی اصطلاح میں غیر مقلد ہی تھے ۔ اس لحاظ سے انکار حدیث کو عدم تقلید سے جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟
(٢) منکرین حدیث میں مقلدین بھی آجاتے ہیں کیونکہ امام صاحب کے قول کےمقابلے میں حدیث کا رد کر دیتے ہیں ۔ تو اس طرح آپ کی عبارت یوں ہو گی کہ غیر مقلدین مقلدین کی ڈگر پر ۔۔۔ کیا آپ اس سے راضی ہیں ؟ یقینا نہیں ! کیوں ؟
(٣) یہ جو آپ نے ’’ ڈگر پر ‘‘ کے الفاظ بولے ہیں کیا آپ اس سے یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ منکرین حدیث اور اہل حدیث کی(آپ کے زعم کے مطابق ) حدیث کو رد کرنے کی بنیاد ایک ہی ہے ؟
اگر آپ کی مراد یہی ہے تو بالکل غلط کیوں کہ منکرین حدیث حدیث کو عقل کی بنیاد پر رد کرتے ہیں جبکہ اہل حدیث جہاں حدیث کو رد کرتے ہیں تو وہ اس کا پایہ ثبوت تک نہ پہنچنا ہے (یعنی حدیث ضعیف ہونا ) مثال کے طور آپ نے معلول یا مدلس وغیرہ کی مثال دی ہے ۔ یہاں حدیث کو رد کرنےکی وجہ اس میں علت قادحہ ہونا ہے ۔ اس میں عقل کے معیار پر پورا اترنا یانہ اتر نا نہیں ہے ۔
البتہ منکر حدیث اور مقلد کے درمیان حدیث کو رد کرنے کے اصول میں قدر مشترک یہ ہے کہ جس طرح منکر حدیث ، حدیث کے قبول یا عدم قبول کا معیار اپنی عقل کو قرار دیتا ہے اسی طرح مقلد بھی حدیث کو اپنے امام کی فقہ ( عقل ، قیاس ) کے مطابق پرکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور یہ بات اس شخص کے لیے سمجھنا کوئی مشکل نہیں جو فقہ کے اصول و قوانین کی تقعید کےحوالے سے مختلف مذاہب کی تاریخ جانتا ہے ۔ مثلا ایک اصول ہے کہ خبر واحد اس وقت رد کردی جائے گی جب وہ قیاس کے مخالف ہوگی ۔ اب یہاں سند میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں ہے لیکن مصیبت صرف یہ ہےکہ یہ عقل کے خلاف ہے اس وجہ سے قابل قبول نہیں ۔
(٤) حدیث رسول کو غیروں کے اقوال سے منزہ و منقح کرنا یہ انکا رحدیث ہےہی نہیں چہ جائیکہ اس کو چور دروازہ قرار دیا جائے ۔ کیونکہ محدثین نےجو اصول و قوانین بنائےہیں وہ حدیث رسول کی حفاظت کے لیےہیں نہ کہ اس کا انکار کرنےکےلیے فن مصطلح الحدیث کی کوئی بھی کتاب اگر آپ کے پاس موجود ہے تو اس میں شروع میں فن مصطلح الحدیث کی غرض و غایت پڑھیں اور اپنی سوچ پر نظر ثانی کر یں ۔
اور اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کو انکارحدیث سے تعبیر کرنےپر مصر ہیں تو پھر آپ کو حدیث (سنت ) کی
تعریف میں تبدیلی کرنی چاہیے کہ حدیث سے مراد یہاں رسول اور غیر رسول سب کے اقوال اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ اصول حدیث سے حدیث رسول کا انکا رنہیں ہوتا بلکہ غیر رسول کی بات کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اور ہر قول کی نسبت اس کےقائل کی طرف متعین کی جاتی ہے ۔ کیا اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتےہیں ؟
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ متعصب مقلدین کی اس طرح کی احادیث :
ابو حنیفہ نامی شخص میری امت کے لیے سورج کی مانند ہے جبکہ محمد بن ادریس الشافعی میری امت کے لیے شیطان سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔
کو حدیث رسول قرار دے دیا جائے ؟ اگر اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتے ہیں تو یہ عین مطلوب ہے ۔
یقینا آپ اس کو انکار حدیث نہیں سمجھتے کیونکہ آپ کے نزدیک بھی موضوع حدیث کا انکار کرنا انکار حدیث نہیں ۔ تو گزارش یہ ہےکہ موضوع حدیث کا انکار کرنا جن محدثین کا فیصلہ ہے انہیں کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث ضعیف کی دیگر قسموں مثلا متروک و معلول اور شاذ وغیرہ کو رد کیا جائےگا۔ آپ کے پاس اس بے تکے فرق کی کیا دلیل ہے ؟
(٥) اگر اس تعلقداری کو ثابت کرنے کی وجہ انکار حدیث ہےتو پھر اس کو معروف سمجھنا جہالت کی وجہ سےہی ہو سکتا ہے ۔ بلکہ اس اعتبار سے مقلدین اور منکرین حدیث میں قدر مشترک پائی جاتی ہے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے ۔
(٦) قلیل حصےکو اس وجہ سےمانتے ہیں کیونکہ احادیث صحیحہ کی تعداد ضعیفہ کے مقابلے میں کم ہے ۔ اس سلسلےمیں آپ علماء کے اقوال کا مطالعہ کریں آپ کو یہ حقیقت معلوم ہو جائیگی ۔ کیونکہ امام احمد بن حنبل کے بارےمیں کہا جاتا ہے کہ انہیں سات لاکھ احادیث یاد تھیں ، امام بخاری کو تین لاکھ سے زائد احادیث یاد تھیں ۔ حالانکہ آپ حدیث کی کتب میں موجود احادیث صحیحہ کی گنتی کر لیں آپ کو ایک لاکھ احادیث بھی نہیں ملیں گی ۔ تو ان آئمہ کا اتنی تعداد میں احادیث یاد کرنے کا دعوی کی ایک تأویل یہ بھی ہے کہ اس میں ضعیف احادیث بھی شمار کی جاتی ہیں ۔( اگرچہ کچھ اور وجوہات بھی ہیں )
بہر صورت آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ہم احادیث کے ایک قلیل حصے کو مانتے ہیں اور یہ وہی ہیں جو بسند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
(٧) آپ کا یہ دعوی تو بلادلیل ہے البتہ اس بہتان کی ایک توجیہ ایک عربی محاورے سے سمجھی جا سکتی ہے کہ الطیور تقع علی أشکالہا ۔
یہاں ایک اور بات ذکر کرنا مناسب ہے کہ آپ کے’’ زید مجدہم ‘‘ یہاں فورم پر بار بار یہ سوال اٹھاتے بلکہ چلاتے ہوئےنظر آتے ہیں کہ مخالفت حدیث کی تعریف کیا ہے ؟ اس کی حدود کیا ہیں ؟ اس کا انطباق کب ہو گأ ؟ کسی کو مخالف حدیث یا منکر حدیث قرار دینے کے لیے ان باتوں کی وضاحت از حد ضروری ہے ۔
کیا آپ نے اہل حدیث پر مخالفت حدیث یا انکار حدیث کا الزام لگأنے سے پہلے ان سے یہ سنہری قواعد حاصل کر لیے ہیں ؟
(٨) بات کو خلط ملط کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ حدیث کی تقسیم اس طرح ہے :
حدیث صحیح اور حدیث ضعیف ۔ پہلی کی پھر دو قسمیں ہیں صحیح اور حسن ۔
جبکہ ضعیف کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ خفیف الضعف ، شدید الضعف ۔
صحیح (لذاتہ و لغیرہ ) اور حسن (لذاتہ ) بغیر کسی اضافی شرط کے مقبول ہے جبکہ خفیف الضعف حدیث اگر اس کے ایک سےزیادہ طرق ہوں تو یہ متابعت (جس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں ) کی وجہ سے حسن ( لغیرہ )کے درجہ کو پہنچ کر مقبول ہو جاتی ہے ۔
جبکہ شدید الضعف ہمیشہ ضعیف ہی رہتی ہے ۔
گویا اس اعتبار سے اب آپ حدیث کی دو بنیادی قسمیں بنا سکتے ہیں
پہلی قسم : حدیث مقبول جس میں صحیح لذاتہ و لغیرہ ، حسن لذاتہ آتی ہیں اور اسی طرح حسن لغیرہ یعنی خفیف الضعف عند تعدد الطرق ۔
دوسری قسم : حدیث مردود جس میں خفیف الضعف عند عدم المتابعۃ اور شدید الضعف کی ساری صورتیں آجاتی ہیں مثلا کذا ب ، متہم بالکذب ، متروک وغیرہ راویوں کی روایات جن میں سے بعض کو موضوع اور بعض کے مخصوص القاب ہیں ۔ لہذا آپ کا حدیث مردود کو صرف موضوع کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے۔
(٩) شاذ ،معلول، معنعن، متروک مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل وغیرہم۔ ان سب کو بغیر کسی تفصیل کے احادیث صحیحہ ثابتہ میں شمار کرنا اصول حدیث سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اصلا یہ سب ضعیف ہیں لیکن کچھ خفیف الضعف اور کچھ شدید الضعف مثال کے طور پر متروک کی حدیث شدید الضعف ہے جو کسی حالت میں بھی قبول نہیں ھوگی ۔ جبکہ مرسل اور مدلس وغیرہ میں تفصیل ہے بعض حالات میں مقبول اور بعض حالات میں غیر مقبول جیساکہ مصطلح کی کتابوں میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔ سب کچھ یہاں تفصیل سےلکھنا میرے لیے ناممکن ہے کیوں کہ ان میں سے ہر قسم پر مفصل اور مستقل کتب موجود ہیں ۔
(١٠) آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن حدیث مقبول و مردود کی مذکورہ وضاحت کو ساتھ شامل کر کے ۔ لہذا س طرح یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ہم صحیح لذتہ و لغیرہ و حسن لذاتہ ولغیرہ کو حدیث صحیح یعنی مقبول سمجھتے ہیں جبکہ حدیث ضعیف خفیف الضعف عندعدم المتابعۃ اور حدیث ضعیف شدید الضعف کو ضعیف یعنی مردود سمحھتے ہیں ۔ جب یہ مذکور تفصیل آپ کے ذہن میں موجود ہوگی تو آپ مقبول کی تمام اقسام کو صحیح کہہ سکتے ہیں جبکہ مردود کی تمام اقسام کو ضعیف کہہ سکتے ہیں ۔ اور اسی تناظر میں یہ بھی کہنا ٹھیک ہے حدیث ضعیف ہوتی ہی وہ ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ثابت نہ ہو ۔
(١١) چونکہ آپ کا ’’ ثابت ہوا کہ ‘‘ یعنی مقدمہ ہی غیر صحیح اور باطل ہے اس لیے اعتراف کر لیں کہ نتیجہ نکالنے میں بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے ۔ البتہ ضد کا کوئی علاج بھی دستیاب نہیں ہے میرے علم کی حد تک ۔
(١٢) معتدل ، مجتہد اور مقلد وغیرہ کی بے تکی تراکیب سے بالکل بھی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے مقلدین بھائیوں کے ہاں ایسے شوشے بڑے پرانے ہیں مثال کے طور پر مجتہد مطلق ، مجتہد فی المذہب ، اصحاب الترجیح اور پتہ نہیں کیا کیا ۔ البتہ میں ان کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں جانتا تھا کہ اس ترتیب یاتفاوت درجات کی بنیاد کیا ہے لیکن آج اعتدال ، اجتہاد اور تقلید کے حسین امتزاج سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں صرف درجات بنائے جاتے ہیں تقسیم کا معقول ہونا شرط نہیں ہے ۔
خلاصہ کلام​
ابن جوزی صاحب نے اہل حدیث پر انکار حدیث کا الزام لگانے کی بنیاد حدیث ضعیف کے انکار کوبنایا ہے ۔ جبکہ ہمارےنزدیک حدیث ضعیف کا مذکورہ تفصیل کے ساتھ انکار حفاظت حدیث ہے نہ کہ انکار حدیث ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس کو ہم ضعیف کہتے ہیں وہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ اصول حدیث کے مطابق صحیح کیا ہے اور ضعیف کیا ہے ؟
یہاں سے ہمارے اس فعل کو منکرین حدیث کے فعل کے ساتھ تشبیہ دینا بھی مشبہ کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے وہاں انکار کسی اور چیز کا ہے یہاں انکار کسی اور چیز کا ہے وہاں بنیاد کچھ اور ہے اور یہاں بنیاد کچھ اور ہے ۔ واللہ اعلم۔
آخر میں ایک گزارش :

ابن جوزی صاحب آپ کا یہاں دوبارہ تشریف نہ لانا اس بات کی دلیل ہوسکتی ہے کہ ہنوز آپ کا نظام غور و فکر صحیح طرح سےکام نہیں کر رہا ۔ بہر صورت حسن ظن رکھتے ہوئےکہ شاید کوئی اور وجہ ہو ایک دفعہ یہاں پھر قسمت آزما رہا ہوں امید ہے آپ سنجیدگی سے بات آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے اور توفیق سے نوازے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔
اب انہیں ایسے مفصل و مدلل جوابات دیں گے تو پھر آپ کو ان کی غیر حاضری کی شکایت تو رہے گی۔ ابتسامہ۔

ویسے ابن جوزی صاحب، عید کے دن کا ہی احترام کرتے ہوئے کوئی ایسی پوسٹ کر دینی چاہئے تھی کہ جس سے اصلاح مقصود ہوتی۔ ضرور اختلاف کو ہی بڑھاوا دے کر اپنی تذلیل کروانی تھی؟ یہ بھی اندازہ ہوا کہ جن کا مذہب ہی ضعیف احادیث کی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو، وہ ضعیف احادیث کا دفاع نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔ اللہ ہی سے ہدایت و استقامت کا سوال ہے۔
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
منکرین حدیث اور غیر مقلدین میں تعلق معروف بات ہے۔ سچ یہ ہے کہ فتنہ انکار حدیث غیر مقلدین کے بطن سے ہی پھوٹا ہے۔ ان قریبی عزیزوں میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ ایک باریک فرق یہ ہے کہ منکرین حدیث جملہ ذخیرہ احادیث کے منکر ہیں اور انکے آباء غیر مقلدین احادیث مبارکہ کے قلیل حصے کو مانتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا دیدہ دلیری سے انکار کرتا ہے۔ بنیادی طور پر احادیث دو قسم پر مشتمل ہے۔
١۔ وہ جو واقعی میں حدیث رسول ہے اور دوسری
٢۔ وہ جو لوگوں نے خود سے گھڑ کر نبی علیہ سلام سے منسوب کردی
وضاحت کیلئے حدیث کی تعریف پیش خدمت ہے۔ عام طور پر حدیث کی غلط تعریف اس طرح کر دی جاتی ہے

اگر حدیث کی مذکورہ بالا تعریف غلط ہے تو پھر صحیح تعریف کیا ہے؟ آیئے عالم کی زبانی سنئے

حدیث کی مذکورہ صحیح تعریف سے یہ بات واضح ہوئی کہ: ١۔جن احادیث کی نسبت ثابت ہے وہ احادیث رسول ہیں۔٢۔ او ر جن کی نسبت ثابت نہیں وہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔ آئیں اسے خود ملاحظہ کریں


ثابت ہوا کہ غیر مقلدین منکرین حدیث کے بعد حدیث کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ میری تمام معتدل غیر مقلدوں شاکر صاحب اور عادل سہیل صاحب ،مجتھد غیر مقلدوں شاہد نذیر اور حضر حیات صاحب اور مقلدین غیر مقلدوں ارسلان صاحب اور گڈ مسلم و ہا بیل صاحبان سے گذارش ہے کہ اپنے مولویوں کے دھوکوں سے ہوشیار رہیں اور انہیں انکارحدیث کی سنگینی سے ٓاگاہ و حبرداررکھئے۔
خیر اندیش
ابن جوزی الپشاوری
ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ھے
مجنوں نظر آتی ھے لیلی نظر آتا ھے۔
اے اللہ ہمارے دل اور دماغ کو درست سمت پر رکھ۔
 
شمولیت
اگست 05، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
57
من گھڑت احادیث کو اصطلاح میں موضوع احادیث کہتے ہیں۔ اہل سنت و الجماعت کے یہاں موضوع حدیث مردود ہے۔ جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث مقبول ہیں۔ ثابت شدہ احادیث اپنے مدارج کے مطابق لائق احتجاج ہوتی ہیں اور ان میں سے کسی کا انکار کرکے انہیں مردود نہیں کہا جاتا۔ ان ثابت شدہ احادیث کی بہت سی قسمیں ہیں۔ مثلاً صحیح، حسن، شاذ ،معلول، معنعن، متروک، عزیز، مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل، موقوف وغیرہم۔ یہاں آکر غیر مقلدین اپنا راستہ اہل سنت و الجماعت سے کاٹ لیتے ہیں اور صرف صحیح حدیث کو چھوڑ کر باقی تمام احادیث کا انکار کر لیتے ہیں۔ باقی کی احادیث کو یہ ضعیف کہہ کر مرود سمجھتے ہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ضعیف حدیث کو حدیث رسول ہی نہیں سمجھتے ۔
درج بالا پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی صاحب کے ہاں صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث بھی مقبول ہیں، انہیں عقیدہ وعمل میں دلیل بنایا جا سکتا ہے، اور جو غیر صحیح احادیث کو نہ مانے وہ منکر حدیث ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ ابن الجوزی صاحب کی ذاتی جہالت ہے یا وہ احناف کی طرف سے یہ بات کہہ رہے ہیں۔ ابن جوزی صاحب سے گزارش ہے کہ وہ واضح کریں کہ ان کے نزدیک غیر صحیح احادیث میں سے کن احادیث کو عقیدہ وعمل کیلئے دلیل وبنیاد بنایا جا سکتا ہے؟؟؟ تاکہ بات دوٹوک آگے بڑھ سکے۔

فورم پر موجود دیگر حنفی حضرات کو اس اس سلسلے میں اپنا موقف واضح کرنا چاہئے کہ کیا وہ بھی ابن جوزی سے اتفاق کرتے ہیں؟؟؟
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ابن الجوزی البشاوی بھائی آپ شاذ ،معلول اور متروک احادیث کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شدہ احادیث سجھنے پر اپنے علماء سے کوئی عبارت دکھا سکتے ہیں ؟ اپنے شیوخ اکاڑوی، گھمن جیسوں کے علاوہ ؟
محترم حسن بھائی آپکی مشارکت میں ٣ نکات خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔
١۔ میرے بنیادی مقدمے کی آپ نے کوئی تردید نہیں فرمائی۔ جس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ محترم کفائت اللہ مولوی صاحب کے اقتباسات کے حوالوں سے ہمارے مقدمے سے آپکو اتفاق ہے۔
٢۔ آپکی بالا اقتباس سے ہماری بات کی تائید ہو رہی ہے۔اس لئےحدیث کی مذکورہ اقسام کوآپ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مان رہے۔ یہی بات غیر مقلدوں کے حوالے ہم نے ثابت کی ہے۔ آپکی تحریر سے ہمارے مقدمے کو تقویت ملی ہے۔
٣۔ شاذ ، معلول و متروک ہمارے علم کے مطابق کسی دیوبندی عالم کے نزدیک غیر ثابت شدہ یعنی موضوع و من گھڑت نہیں۔ اس لئے ان صفات کے ساتھ ثابت شدہ احادیث ہیں۔ اور اسی پر آپ کی پوسٹ ٦ دال ہے۔ دیکھئے مولانا خیر محمد جالندھری رحمہ اللہ انکے احادیث رسول ہونے کی نفی نہیں فر ما رہے ۔

یہ بھی اندازہ ہوا کہ جن کا مذہب ہی ضعیف احادیث کی کمزور بنیادوں پر کھڑا ہو، وہ ضعیف احادیث کا دفاع نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا۔
شا کر بھائی اللہ شاہد ہے کہ یہ موضوع ہم نے بغرض اصلاح ہی شروع کی ہے۔ آپ خود دیکھ سکتے ہیں حدیث حدیث کا دم بھرنے والے اور خود کو اہل حدیث سمجھنے والوں کا حقیقتا حدیث رسول سے کیسا دم گھٹ رہا ہے۔ آپ نے ہماری بنیادی بات تسلیم کی ہے اس پر میں آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس لئے کہ آپ جیسے حضرات سے ہماری ترید تو درکنار تائیدی جملے کا آنا ہمارے لئے باعث اطمینان ہے کہ ہم اپنی بات میں سوئے ظن کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس حقیقت سے آپ حضرات بھی متفق ہیں۔ ویسے صحیح حدیث کے علاوہ جوثابت شدہ احادیث ہیں جن کو آپ ضعیف سمجھتے ہیں ایسے ثابت شدہ احادیث کے دفاع پر آپ کا ہمیں طعنہ دینا اس بات کی غماز ہے کہ اصلی اہل حدیث ہم احناف ہی ہیں۔ اور آپکے دعویٰ اہل حدیث کے بطلان کیلئے بھی کا و شافی ہے۔ فتدبر

درج بالا پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی صاحب کے ہاں صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث بھی مقبول ہیں
یعنی ابو مالک بھائی کے نزدیک صحیح حدیث کے علاوہ دیگر احادیث مردود ہیں۔ اور یہی بات میں اپنے قارئین کو سمجھا رہا ہوں۔ حضر حیات بھائی کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آرہی۔
نوٹ: خارج از موضوع باتوں سے احتراز کرتے ہوئےصرف ان نکات کا جواب دینے کی کو شش کی ہے جو خاص زیر بحث موضوع کے دائرہ کی چیزیں ہیں۔ موضوع سے باہر کی باتیں الگ تھریڈ میں شروع کی جا سکتی ہیں۔ اس بحث کے احتتام پر میں ان کی طرف توجہ دے پا وگا۔ حضر حیات کی پوسٹ کا جائزہ الگ پوسٹ میں دینے کی کو شش کرونگا۔
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
محترم خضر حیات نے ہمارے مضمون کے جواب جن نکات پر تنقید و سوالات اٹھائے ہیں ان تاثراتی نکات کا حقیقت پسندانہ جائزہ موضوع کے دائرہ میں رہتے ہوئے پیش کرتے ہیں۔
عنوان کے الفاظ پر اعتراضات

(١) تقلید کی بیماری صدیوں بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔ خود جن کی تقلید کی جاتی ہے وہ بھی آپ کی اصطلاح میں غیر مقلد ہی تھے ۔ اس لحاظ سے انکار حدیث کو عدم تقلید سے جوڑنا مناسب نہیں ہے ۔ کیا خیال ہے آپ کا ؟
حضر صاحب کا پہلا اعتراض انکے لئے لفظ غیر مقلد کے استعمال پر ہے۔
١۔تقلید شفاء ہے، ٢۔ تقلید کی بنی نوع انسانیت کو اولین دور سے ہر میدان میں ناگزیرضرورت رہی ہے۔ ٣۔ فقہی میدان میں جن کی تقلید کی جاتی ہے ہماری اصطلاح میں بالاتفاق انہیں مجتھد کہا جاتا ہے۔ ٤ ۔آپ کا خیال غلط ہے
اصولی بات: پہلے اعتراض میں پیش کئے گئے نکات موضوع خارج ہیں اور یہ تھریڈ ان غیر ضروری الجھاو کا متحمل نہیں۔ بہر حال اگر آپکو اس حوالے سے بحث کرنی ہو تو الگ تھریڈ بنالیں۔

(٢) منکرین حدیث میں مقلدین بھی آجاتے ہیں کیونکہ امام صاحب کے قول کےمقابلے میں حدیث کا رد کر دیتے ہیں ۔ تو اس طرح آپ کی عبارت یوں ہو گی کہ غیر مقلدین مقلدین کی ڈگر پر ۔۔۔ کیا آپ اس سے راضی ہیں ؟ یقینا نہیں ! کیوں ؟
١۔ جی ہاں غیر مقلد غیر مجتھد علماء کے مقلدین بھی منکرین حدیث میں آجاتے ہیں
٢۔اگر امام سے آپ کی مراد امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں۔ تو آپکا یہ قیاس مردود ہے۔ اس لئے کہ امام صاحب اجتھاد فرماتے ہیں اور انکی بنیاد پر احادیث میں سے سنت پر عمل راجح قرار دیتے ہیں۔
اصولی بات:
آپکا پیش فرمودہ یہ نکتہ بھی خارج از موضوع ہے۔ جواب اس لئے دے رہا ہوں تاکہ آپ حسب سابق جواب نہ دینے کا رونا نا روئیں۔ امید کرتا ہوں آئندہ موضوعیت تک محدود رہیں گے۔
(٣) یہ جو آپ نے ’’ ڈگر پر ‘‘ کے الفاظ بولے ہیں کیا آپ اس سے یہ تأثر دینا چاہتے ہیں کہ منکرین حدیث اور اہل حدیث کی(آپ کے زعم کے مطابق ) حدیث کو رد کرنے کی بنیاد ایک ہی ہے ؟
دونوں کا وطیرہ انکار حدیث کا ہے اس لئے دونوں ایک ہی راہ کے راہی ہیں۔ گرچہ دونوں کے حیلے مختلف ہیں

(٤) حدیث رسول کو غیروں کے اقوال سے منزہ و منقح کرنا یہ انکا رحدیث ہےہی نہیں چہ جائیکہ اس کو چور دروازہ قرار دیا جائے ۔ کیونکہ محدثین نےجو اصول و قوانین بنائےہیں وہ حدیث رسول کی حفاظت کے لیےہیں نہ کہ اس کا انکار کرنےکےلیے فن مصطلح الحدیث کی کوئی بھی کتاب اگر آپ کے پاس موجود ہے تو اس میں شروع میں فن مصطلح الحدیث کی غرض و غایت پڑھیں اور اپنی سوچ پر نظر ثانی کر یں ۔
اور اس کے باوجود بھی اگر آپ اس کو انکارحدیث سے تعبیر کرنےپر مصر ہیں تو پھر آپ کو حدیث (سنت ) کی
تعریف میں تبدیلی کرنی چاہیے کہ حدیث سے مراد یہاں رسول اور غیر رسول سب کے اقوال اس میں شامل ہیں۔ کیونکہ اصول حدیث سے حدیث رسول کا انکا رنہیں ہوتا بلکہ غیر رسول کی بات کی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا انکار کیا جاتا ہے ۔ اور ہر قول کی نسبت اس کےقائل کی طرف متعین کی جاتی ہے ۔ کیا اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتےہیں ؟
کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ متعصب مقلدین کی اس طرح کی احادیث :
ابو حنیفہ نامی شخص میری امت کے لیے سورج کی مانند ہے جبکہ محمد بن ادریس الشافعی میری امت کے لیے شیطان سے زیادہ نقصان دہ ہے ۔
کو حدیث رسول قرار دے دیا جائے ؟ اگر اسی بات کو آپ انکار حدیث سمجھتے ہیں تو یہ عین مطلوب ہے ۔
یقینا آپ اس کو انکار حدیث نہیں سمجھتے کیونکہ آپ کے نزدیک بھی موضوع حدیث کا انکار کرنا انکار حدیث نہیں ۔ تو گزارش یہ ہےکہ موضوع حدیث کا انکار کرنا جن محدثین کا فیصلہ ہے انہیں کا یہ فیصلہ ہے کہ حدیث ضعیف کی دیگر قسموں مثلا متروک و معلول اور شاذ وغیرہ کو رد کیا جائےگا۔ آپ کے پاس اس بے تکے فرق کی کیا دلیل ہے ؟
ہم نے آئمہ حدیث کے اصول و اقوال کو انکار حدیث کا چور دروازہ نہیں کہا۔ آپ ہمارے بارے سوئے ظن سے کام لے رہے ہیں۔ نا ہم انکے اقوال و اصولوں کو زیر بحث لائے ہیں۔ بلکہ ہم نے غیر مقلدوں کے ایک چال کے طرف عنوان میں اشارہ کیا ہے اور اصل مضمون میں کفائت اللہ مولوی صاحب کے اقوال پیش کر کے اسے ثابت بھی کیا ہے
اصل مضمون کے چنیدہ حصوں پر اعتراضات کا جائزہ

(٥) اگر اس تعلقداری کو ثابت کرنے کی وجہ انکار حدیث ہےتو پھر اس کو معروف سمجھنا جہالت کی وجہ سےہی ہو سکتا ہے ۔ بلکہ اس اعتبار سے مقلدین اور منکرین حدیث میں قدر مشترک پائی جاتی ہے جیساکہ وضاحت کی جاچکی ہے ۔
منکرین حدیث کے سرخیل سر سید احمد خان، چکڑالوی و جیراج پوری کہاں کی پود ہے؟ یہ ہے کہ منکرین حدیث تمام ذخیرہ کا علی اعلان انکار کرتے ہیں جبکہ غیر مقلدیں صحیح کے علاوہ تمام کا ڈھکے چھپے و کھبی کھل کر اعلان کرتے ہو۔ اس لحاظ سے انہوں نے ایک منزل مزید طے کرلی ہے۔
(٦) قلیل حصےکو اس وجہ سےمانتے ہیں کیونکہ احادیث صحیحہ کی تعداد ضعیفہ کے مقابلے میں کم ہے ۔
بہر صورت آپ کی بات بالکل درست ہے کہ ہم احادیث کے ایک قلیل حصے کو مانتے ہیں اور یہ وہی ہیں جو بسند صحیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
یہا بات میں نے کہی ہے کہ آپ صرف صحیح حدیث کو مانتے ہو باقی کا انکار کرتے ہو۔ احادیث کے قلیل حصے کو مانتے ہو باقی ذخیرہ احادیث کو نہیں مانتے ہو۔ جبکہ ہم اہل سنت والجماعت موضوع و من گھڑت احادیث کو نہیں مانتے باقی تمام ثابت شدہ احادیث کو مانتے ہیں۔ بوجود اس سب کے آپکو اہل الحدیث ہونے کے متضاد دعوے کیا زیب دیتے ہیں؟
(٧) آپ کا یہ دعوی تو بلادلیل ہے البتہ اس بہتان کی ایک توجیہ ایک عربی محاورے سے سمجھی جا سکتی ہے کہ الطیور تقع علی أشکالہا ۔
یہاں ایک اور بات ذکر کرنا مناسب ہے کہ آپ کے’’ زید مجدہم ‘‘ یہاں فورم پر بار بار یہ سوال اٹھاتے بلکہ چلاتے ہوئےنظر آتے ہیں کہ مخالفت حدیث کی تعریف کیا ہے ؟ اس کی حدود کیا ہیں ؟ اس کا انطباق کب ہو گأ ؟ کسی کو مخالف حدیث یا منکر حدیث قرار دینے کے لیے ان باتوں کی وضاحت از حد ضروری ہے ۔
کیا آپ نے اہل حدیث پر مخالفت حدیث یا انکار حدیث کا الزام لگأنے سے پہلے ان سے یہ سنہری قواعد حاصل کر لیے ہیں ؟
ہمارا یہ دعوٰی بالکل بھی بلا دلیل نہیں۔ اس پر ہم آپکے شیخ کفایت اللہ کے اقتباسات بظور دلیل پہلے نقل کر چکے ہیں۔ جبکہ نکتہ نمبر٦ میں آپ بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اور دیگر غیر مقلدمشارکین بھی!
(٨) بات کو خلط ملط کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ حدیث کی تقسیم اس طرح ہے :
حدیث صحیح اور حدیث ضعیف ۔ پہلی کی پھر دو قسمیں ہیں صحیح اور حسن ۔
جبکہ ضعیف کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ خفیف الضعف ، شدید الضعف ۔
صحیح (لذاتہ و لغیرہ ) اور حسن (لذاتہ ) بغیر کسی اضافی شرط کے مقبول ہے جبکہ خفیف الضعف حدیث اگر اس کے ایک سےزیادہ طرق ہوں تو یہ متابعت (جس کے اپنے اصول و ضوابط ہیں ) کی وجہ سے حسن ( لغیرہ )کے درجہ کو پہنچ کر مقبول ہو جاتی ہے ۔
جبکہ شدید الضعف ہمیشہ ضعیف ہی رہتی ہے ۔
گویا اس اعتبار سے اب آپ حدیث کی دو بنیادی قسمیں بنا سکتے ہیں
پہلی قسم : حدیث مقبول جس میں صحیح لذاتہ و لغیرہ ، حسن لذاتہ آتی ہیں اور اسی طرح حسن لغیرہ یعنی خفیف الضعف عند تعدد الطرق ۔
دوسری قسم : حدیث مردود جس میں خفیف الضعف عند عدم المتابعۃ اور شدید الضعف کی ساری صورتیں آجاتی ہیں مثلا کذا ب ، متہم بالکذب ، متروک وغیرہ راویوں کی روایات جن میں سے بعض کو موضوع اور بعض کے مخصوص القاب ہیں ۔ لہذا آپ کا حدیث مردود کو صرف موضوع کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے۔
جیسا کہ میں پہلے آپکو غیر مقلدمیں مجتھد قرار دے چکا ہوں۔ یہاں بھی آپ نے اپنے اجتھادات پیش فرمائے ہیں۔ صحیح حدیث چھوڑ کر مقبول حدیث والا نظریہ پیش فرمانے کی سعی کر رہے ہیں۔ لیکن غیر مقلدوں میں آپکے اس اجتہاد کو تفرد کا مقام تو دیا جاسکتا ہے۔ غیر مقلدوں کا اصول نہیں۔ غیر مقلدین کا اصول وہی ہے جو سب غیر مقلد پیش کرتے آرہے ہوتے ہیں کہ سندآ صحیح حدیث ہی حدیث رسول ہے اسکے مقابلے میں دیگر اقسام ضعیف، لہٰذا مردود۔ جو کہ بقول کفایت اللہ صاحب احادیث رسول ہی نہیں۔ کیا اس طرز استدلال کو انکار حدیث سے تعبیر کرنا غلط ہے؟
(٩) شاذ ،معلول، معنعن، متروک مدلس کی حدیث، مدرج، مرسل وغیرہم۔ ان سب کو بغیر کسی تفصیل کے احادیث صحیحہ ثابتہ میں شمار کرنا اصول حدیث سے ناواقفیت کی بین دلیل ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اصلا یہ سب ضعیف ہیں لیکن کچھ خفیف الضعف اور کچھ شدید الضعف مثال کے طور پر متروک کی حدیث شدید الضعف ہے جو کسی حالت میں بھی قبول نہیں ھوگی ۔ جبکہ مرسل اور مدلس وغیرہ میں تفصیل ہے بعض حالات میں مقبول اور بعض حالات میں غیر مقبول جیساکہ مصطلح کی کتابوں میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔ سب کچھ یہاں تفصیل سےلکھنا میرے لیے ناممکن ہے کیوں کہ ان میں سے ہر قسم پر مفصل اور مستقل کتب موجود ہیں ۔
غیر مقلدوں میں بن بازئے اس قسم کے تفردات کے قائل ہیں۔ لیکن عملآ وہ بھی ہر معنعن، مدلس کی حدیث،حسن لذاتہ و لغیرہ جرح غیر مفسر چاہے وہ کسی ایک شخص ہی کی طرف سے ہو وغیرہ وغیرہ بنیادوں پر نا صرف مذکورہ بالا بلکہ ایسی تمام صحیح احادیث کا انکار کر دیتے ہیں جو انکے متعین مفہوم کے بر عکس ہو
(١٠) آپ کی بات ٹھیک ہے لیکن حدیث مقبول و مردود کی مذکورہ وضاحت کو ساتھ شامل کر کے ۔ لہذا س طرح یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ہم صحیح لذتہ و لغیرہ و حسن لذاتہ ولغیرہ کو حدیث صحیح یعنی مقبول سمجھتے ہیں جبکہ حدیث ضعیف خفیف الضعف عندعدم المتابعۃ اور حدیث ضعیف شدید الضعف کو ضعیف یعنی مردود سمحھتے ہیں ۔ جب یہ مذکور تفصیل آپ کے ذہن میں موجود ہوگی تو آپ مقبول کی تمام اقسام کو صحیح کہہ سکتے ہیں جبکہ مردود کی تمام اقسام کو ضعیف کہہ سکتے ہیں ۔ اور اسی تناظر میں یہ بھی کہنا ٹھیک ہے حدیث ضعیف ہوتی ہی وہ ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ثابت نہ ہو ۔
اوپر ان کا جواب ہو چکا۔ ان نکات کی روشنی میں سمجھ لیں
(١١) چونکہ آپ کا ’’ ثابت ہوا کہ ‘‘ یعنی مقدمہ ہی غیر صحیح اور باطل ہے اس لیے اعتراف کر لیں کہ نتیجہ نکالنے میں بھی آپ سے غلطی ہوئی ہے ۔ البتہ ضد کا کوئی علاج بھی دستیاب نہیں ہے میرے علم کی حد تک ۔
ہمارا مقدمہ دلیل سے ثابت ہے۔ آپ کا یہ اعلان باطل ہے
(١٢) معتدل ، مجتہد اور مقلد وغیرہ کی بے تکی تراکیب سے بالکل بھی حیرانگی نہیں ہوئی کیونکہ ہمارے مقلدین بھائیوں کے ہاں ایسے شوشے بڑے پرانے ہیں مثال کے طور پر مجتہد مطلق ، مجتہد فی المذہب ، اصحاب الترجیح اور پتہ نہیں کیا کیا ۔ البتہ میں ان کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں جانتا تھا کہ اس ترتیب یاتفاوت درجات کی بنیاد کیا ہے لیکن آج اعتدال ، اجتہاد اور تقلید کے حسین امتزاج سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں صرف درجات بنائے جاتے ہیں تقسیم کا معقول ہونا شرط نہیں ہے ۔
غیر متعلق بحث۔ معذرت
خلاصہ کلام​
ابن جوزی صاحب نے اہل حدیث پر انکار حدیث کا الزام لگانے کی بنیاد حدیث ضعیف کے انکار کوبنایا ہے ۔ جبکہ ہمارےنزدیک حدیث ضعیف کا مذکورہ تفصیل کے ساتھ انکار حفاظت حدیث ہے نہ کہ انکار حدیث ۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس کو ہم ضعیف کہتے ہیں وہ ان کو صحیح سمجھتے ہیں ۔ اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ اصول حدیث کے مطابق صحیح کیا ہے اور ضعیف کیا ہے ؟
خلاصہ کے تعین میں آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ ایک اس لئے کہ ہم نے الزام نہیں لگایا ثابت بھی کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارا مقدمہ ضعیف حدیث کی بجائے ثابت شدہ احادیث سے بحث کرتا ہے۔ جن میں صحیح کے علاوہ کے غیر مقلدین منکر ہیں
 
Top