• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فتنۂ تکفیر اور منہج اعتدال (خطبہ جمعہ امام کعبہ فضیلة الشیخ سعود الشریم)

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
لوگو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ عز و جل کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت و تاکید کرتا ھوں ۔ اللہ آپ پر رحم فرماۓ ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو کیونکہ یہ تقوی ایک ڈھال ہے جس سے بچاؤ کرنے والے اپنا بچاؤ کرتے ہیں ۔ اور اللہ کا خوف و خشیت ایک مضبوط آہنی کنڈا ہے جسے پکڑنے والے تھامتے ہیں اور فرائض کی ادائيگی اور حرام اشیاء و امور سے اجتناب کرنے کا وہ اعلی وسیلہ ہے جسے تلاش کرنے والے لۓ لوگ اپنے لۓ وسیلہ بناتے ہیں ۔

مقاصد شریعت :

مسلمانو ! جو شخص عبادات و معاملات ، آداب و اخلاق اور اوامر و نواہی میں پاۓ جانے والے مقاصد شریعت پر غور و فکر کرے ۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑا مقصد اور ایک بلند علم یہ آتا ہے کہ ان سے مقصد باھمی اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ، دلوں میں محبت کی تخم ریزی کرنا ، الفتوں کے بیج بونا ، افراد امت میں پیار و محبت کو پھیلانا ، باھمی مدد و نصرت پر آمادہ کرنا ، عداوت و دشمنی کے اسباب سے دور رہنا ، نفرت پر اکسانے والے جذبات سے بچانا اور دلوں میں حقد و بغض اور میل پیدا کرنے سے دور ہٹانا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان عبادات وغیرہ کے مقاصد میں سے ہی ایک اھم مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنے ، انھیں عیب دینے ، اشاروں کنایوں کے ذریعے ان کی ذلت و سبکی کرنے اور ان کے بھیدوں کو آشکارا کرنے ، رازوں کو افشاء کرنے ، ان کی پوشیدہ کوتاہیوں کو ٹٹولنے اور ننگا کرنے ، ان سے بدظنی رکھنے اور انھیں بدعت ، کفر ، نفاق ، فسق و ظلم اور جہالت جیسے بہتان لگانے سے سختی کے ساتھ خبردار کرنا ہے ۔

اتحاد کی برکات :

مسلمانو ! مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اللہ کی شریعت کو قائم و نافذ کرنے ، اسلام کے شعائر اور شعار کا اظہار کرنے ، بر و تقوی کے کام میں باھمی تعاون کرنے ، نیکیوں کا حکم دینے ، برائیوں سے روکنے اور ہر مسلمان کے ساتھ مشفقانہ خیر و خواہی کرنے کا وسیلہ و ذریعہ ہے ۔ اور مسلمانوں میں اس وقت تک قوت پیدا نہیں ھو سکتی ، نہ ان کی بات کا اثر و نفوذ ھو سکتا ہے اور نہ ہی ان کا دفاع مضبوط ھو سکتا ہے جب تک کہ ان میں باھمی مدد و نصرت اور تعاون نہ ھو ۔

ملت کفر کا چھپٹ پڑنا :

برادران اسلام ! نیرنگی زمان ، فتنوں کی گمراہیاں ، دشمنوں کا باھمی گٹھ جوڑ اور غیر مسلم قوموں کا بھوکوں کے کھانے پر چھپٹ پڑنے کا موجودہ انداز اپنے بھائیوں کے خیرخواہ اور اپنی امت کے تمام غیور مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ دانستہ یا نا دانستہ دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا اور آلۂ کار نہ بنیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو گالیاں نہ دیں ، کسی کی تحقیر و تذلیل نہ کریں ، کسی میں عیب و نقص نہ نکالیں ، کس کو بدعتی اور کسی کو کافر قرار نہ دیں اور اس حد کو نہ جا لیں کہ شائد کوئی کافر تو اس کی بدزبان سے بچ جاۓ مگر مسلمان کوئی نہ بچنے پاۓ ۔

فتنۂ تکفیر :

اللہ کے بندو ! اللہ آپ کی حفاظت فرماۓ آج ھم ایک خطرناک فتنے کی طرف توجہ دلانے کے لۓ آپ کو دعوت دینے جا رہے ہیں جس فتنے نے بعض ملکوں اور جماعتوں میں سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ تمام اھل علم و ایمان اھل فضل و صلاح ، اھل دین اور غیرت مند مسلمانوں کے لے لازمی ہے کہ وہ اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور دوسروں کو اس سے خبردار کریں ، اور خود بھی اس سے بچ کر رہیں ۔

سلف صالحین امت نے اس فتنے سے خبردار کیا ، اس کے خطرات و نقصانات کو واضح کیا اور یہ فتنہ ہے ” مسئلہ تکفیر ” یعنی ایک مسلمان کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر قرار دینا ۔ کسی مسلمان کے بارے میں ظالمانہ فتوی صادر کر دینا کہ وہ ملت اسلام سے خارج ھو گیا ہے اور اسے اھل کفر و شرک میں سے شمار کرنا اور پورے جزم کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ قطعی جہنمی ہے جس میں وہ ھمیشہ رہے گا ۔

۔۔ عیاذ باللہ و لا حول و لا قوﺓ الا باللہ العلی العظیم ۔۔

مسئلہ تکفیر بہت بڑے مسائل اور عظیم قضایا میں سے ہے اور اس کے بہت برے اثرات رونما ھوتے ہیں ۔ لھذا کسی مسلمان کے لۓ یہ حلال و روا نہیں کہ وہ اس فعل تکفیر کا ارتکاب کرے سواۓ اس کے کہ اس کے پاس اللہ کی کتاب سے کوئی دلیل وہ ھو جو دلالت میں دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ روشن و واضح ھو ۔ علماء سلف اور علماء خلف سبھی نے اس مسئلے کی خطرناکی پر متنبہ کیا ہے ۔

اور اسکے کیا کیا اثرات مرتب ھوتے ہیں اور دنیا و آخرت میں اس کے کیا کیا نتائج نکلتے ہیں ان سب چیزوں کو اہل علم نے خوب بیان کیا ہے ۔

(1) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة الله عليه :

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

” یہ بات بخوبی ذھن نشین کر لیں کہ مسائل تکفیر و تفسیق ، ان مسائل اسماء و احکام میں سے ہیں جن سے دارآخرت میں وعدہ و وعید کا تعلق ہے اور انہی مسائل سے کسی سے محبت و عداوت کا تعلق ہے ایسے ہی انہی سے کسی کے قتل یا اس کے خون کے معصوم و حرمت والا ھونے کا بھی واسطہ ہے اور اس دنیا کے کئي دیگر معاملات کا بھی انہی سے علاقہ ہے ۔

اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ جنت واجب کی ہے اور کافروں کے لۓ جنت حرام قرار دی ہے اور یہ کلی احکام ہر وقت اور ہر جگہ کے لۓ یکساں ہیں ۔

(2) امام ابن الوزیر رحمة الله عليه :

مسلمانوں کی جماعتوں اور اسلام کی طرف منسوب علماء کے گروھوں کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دینے اور انھیں کافر سمجھنے میں اور انھیں اسلام میں داخل ماننے ، ان کے ذریعے اسلام کی مدد و نصرت کرنے ، ان کے تعاون سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانے اور انکے دست و باز کو مضبوط کرنے اور اسلام کو تقویت دینے میں کتنا فرق ہے ۔ انھیں کافر قرار دینے کی کوشش کرنا حلال و جائز نہیں اور وہ بھی ان دلائل سے جو کہ دوسرے ان دلائل سے معارض و مخالف ہیں جو کہ ان سے زیادہ قوی یا کم از کم انہی کے درجہ کے ہیں اور ان دلائل سے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کو بھی مدد ملتی ہے ، وہ اسلام کی تقویت کا باعث بھی ہیں ، ان کی بدولت خونریزی کا خاتمہ ھوتا ہے اور فتنوں کی آنچ دھیمی پڑتی ہے ۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :

[ خارجیوں کو سخت سزائیں دی گئيں اور ان کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ انھوں نے گناہگاروں مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا تھا ۔ خود دوسروں کو کافر قرار دینے والے بھی کسی ایسے فعل کا ارتکاب کر سکتے ہیں جس فعل پر وہ دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دین میں انتہائی خطرناک اقدام ہے لھذا اس سے سخت پرہیز کرنا چاہیۓ ۔

(3)شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب رحمة الله عليہ:

شیخ الاسلام امام الدعوﺓ کے بیٹے شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں :

" مختصر یہ کہ جو شخص اپنے نفس کا خیر خواہ ھو اسے چاہیۓ کہ وہ اللہ کی طرف سے علم و برھان کے بغیر اس مسئلہ پر زبان نہ کھولے اور کسی مسلمان کو محض اپنے فہم اور عقلی استحسان کی بناء پر اسلام سے خارج نہ کر دے ۔ کسی کو اسلام سے خارج کر دینا امور دین میں سے ایک بہت بڑا اقدام ہے " ۔

(3) امام شوکانی رحمة الله عليه :

امام شوکانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں :

" یہ بات ذھن میں بٹھا لیں کہ کسی مسلمان آدمی کے بارے میں یہ حکم و فتوی صادر کر دینا کہ وہ دین اسلام سے خارج اور کفر میں داخل ھو چکا ہے ۔ یہ بات کسی بھی اللہ پر ایمان رکھنے اور روز قیامت پر یقین والے شخص کے لۓ روا نہیں سوا‎ۓ اس کے کہ اس بات پر دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ واضح روشن دلیل و برھان قائم ھو جاۓ ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

[ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے کہا : اے کافر ! تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اسی نام کا مستحق ھو جاۓ گا ] ۔ جبکہ ایک دوسری روایت میں یوں ہے :

[جس نے کسی مسلمان کو کفر کے ساتھ مخاطب کیا اسے کہا : اے اللہ کے دشمن اور وہ ایسا نہ ھوا تو یہ نام خود کہنے والے پر لوٹ آئیں گے ] ۔

ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :

[ جس نے کسی مومن کو کافر قرار دیا ، اس نے اسے گویا قتل کر دیا ] ۔

(4) امام ابن دقیق العید رحمة الله عليه :

مذکورہ احادیث کی تشریح بیان کرتے ھوۓ امام ابن دقیق العید کہتے ہیں :

” کسی مسلمان کو کافر قرار دینے والے کے لۓ یہ بڑی سخت وعید ہے جبکہ وہ ایسا نہ ھو ” ۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں :

” یہ ایسی دلدل ہے کہ علماء کرام کی بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ھو چکی ہے ۔ انھوں نے عقائد میں باھم اختلاف کیا اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے دیا ” ۔

تکفیر : حق الہی :

مسلمانو ! کسی کو کافر قرار دینا یا کسی کا کافر ھونا ایک شرعی حکم و امر ہے ۔ کافر وہ ہے جسے اللہ تعالی یا اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافر قرار دیں ۔ کافر قرار دینا کسی دوسرے کا حق نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ تعالی کا حق ہے ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ھوۓ شیخ الاسلام امام ابن تیمییہ رحمة الله عليه لکھتے ہیں :

” یہی وجہ ہے کہ اھل علم اور اھل سنت اپنے مخالف کو کافر نہیں کہا کرتے تھے اگر چہ وہ مخالف انھیں کافر قرار دیا کرتا تھا ۔ اپنے مخالف کا انہی کلمات میں رد کرے یا بدلہ لے جیسے اگر آپ پر کوئی جھوٹ بولے تو بدلہ میں آپ اس پر جھوٹ نہیں بولیں گے ۔ کیونکہ جھوٹ اللہ کی طرف سے حرام ہے ، اسی طرح ہی تکفیر بھی اللہ کا حق ہے لھذا ایسے کسی شخص کو کافر نہیں قرار دیا جاۓ گا جسے اللہ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافر قرار نہ دیا ھو ۔ اور آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :

” دین سے نکل جانے والے خوارج جن سے جنگ کرنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ و تابعین میں سے دوسرے آئمہ دین نے ان سے جنگ کی اور ان خوارج کی گمراہی کتاب و سنت سے ثابت ھو چکی ہے لیکن اس کے باوجود آئمہ میں سے کسی نے انھیں کافر قرار نہیں دیا البتہ ان سے جنگ کی گئي جو کہ ان کے باغیانہ رویہ اور سرکشی کی وجہ سے تھی ۔ لھذا ایسے گروہ یا جماعتیں جنھوں نے باھم اختلاف کیا اور بعض مسائل میں ان پر حق مخفی و مشتبہ رہ گیا اور ان سے بھی بڑے اھل علم گروہ نے اس میں غلطی کی ۔ ایسے میں کسی جماعت کو حق نہیں کہ وہ دوسرے گروہ کو کافر کہے اور نہ ہی اس کا مال یا جان حلال سمجھے ۔

اس سے آگے جا کر وہ تحریر فرماتے ہیں :

” جہمیہ کو کافر قرار دینا سلف صالحین امت کے نزدیک معروف ہے لیکن وہ انھیں نام بنام کافر قرار نہیں دیا کرتے تھے بلکہ جو شخص کسی بات کی طرف دعوت دیتا ہے وہ اس شخص سےبڑھ کر ھوتا ہے جو اس کا قائل ہے اور جو شخص مخالف کا رد کرتا اور اسے سزا دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ھوتا ہے جو کہ اس کی طرف محض دعوت دیتا ہے ۔اور جو شخص اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے جو کہ اسے محض سزا دیتا اور اس کا رد کرتا ہے ۔ اور اس سب کچھ کے باوجود بعض حکمران جو کہ جہمیہ کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے اور یہ نظریہ رکھتے تھے کہ :

” آخر میں بھی اللہ کا دیدار نہ ھو گا ” ۔ اور لوگوں کو اس بات کا اقرار کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔ انھیں آزمائش و امتحان میں ڈالتے اور اگر کوئي اس بات کو قبول نہ کرتا تو انھیں سزائيں دیتے تھے اور جو ان کی بات نہ مانتا اسے وہ کافر بھی قرار دیا کرتے تھے ۔اس سب کچھ کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے ان کے لۓ رحم کی دعائيں کیں اور ان کے لۓ اللہ سے مغفرت و بخشش طلب کی اور یہ اس لۓ کہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب نہیں کی بلکہ انھوں نے تاویل کی مگر اس میں غلطی کر گۓ اور ایسا کہنے والوں کی تقلید میں لگ گۓ ” ۔

بلکہ شیخ الاسلام نے تو اس سے آگے چل کر یہ بھی فرمایا ہے :

” امام احمدبن حنبل رحمة الله عليه نے جہمیوں کےپیچھے نمازیں بھی پڑھیں جبکہ انھوں نے لوگوں کو اپنے نظریات کی طرف دعوت دی ۔ لوگوں کو امتحان میں مبتلا کیا اور جن لوگوں نے ان کی موافقت نہ کی انھیں سخت سزائيں دیں ۔ امام احمد اور ان جیسے دیگر اساطین علم نے انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔ بلکہ وہ انھیں اھل ایمان سمجھتے ، ان کی امامت کا اعتراف کرتے ، ان کے لۓ دعائيں کرتے اور ان کا اہتمام کرنا مناسب سمجھتے تھے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ، ان کے ساتھ حج کرنے اور ان کے پہلو بہ پہلو جہاد کرنے کو ضروری سمجھتے تھے اور ان کی حکومت کی بغاوت کرنے کو ناجائز سمجھتے اور اس سے منع کیا کرتے تھے ۔ وہ اور دیگر آئمہ دین ان جہمیوں کے اقوال باطل کا انکار کرتے تھے جو کہ کفر عظیم پر مبنی تھے ۔ اگر چہ وہ لوگ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کے وہ اقوال انہتائی کفریہ ہیں ۔ امام صاحب ان کا انکار کرتے اور انھیں رد کرنے کے لۓ حسب استطاعت کوشش کرتے تھے اور اس طرح وہ اظہار حق اور غلبۂ دین و سنت کے لۓ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور ملحد جہمیوں کی پیدا کردہ بدعات کے انکار و رد اور افراد امت و آئمہ مؤمنین کے حقوق کا خیال رکھنے جیسی تمام صفات کو یکجا کر لیتے تھے اگر چہ کہ وہ جہمیہ جاھل ، اھل بدعت ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے ” ۔

مسلمانو ! صورت احوال جب ایسی ہے تو اس بات کا علم ھونا چاہیۓ کہ ایمان و کفر کا مقام دل ہے اور دلوں کے بھیدوں کی اطلاع اللہ کے سوا کسی کو نہیں ھوتی ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :

” جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے ، وہ نہیں جو ( کفر پر زبردستی ) مجبور کیا جاۓ اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ھو بلکہ و ہ ( دل سے اور ) دل کھول کر کفر کرے ۔ تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور انکو بڑا سخت عذاب ھو گا ] ۔ ( النحل : ؟؟ )

اصل کفر اور غیر ارادی کفریہ کلمات :

اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے ۔ کافر وہ ہے جس نے کفر کے لۓ اپنے دل کو کھول دیا ۔ لھذا کافر ھونے کے لۓ کفر پر شرح صدر اور دل کا اطمینان ضروری ہے اور یہ کہ اس کا دل اس پر خوب پر سکون ھو ۔ لھذا شرعی عقائد میں واقع ھونے والے محض اضطرابات اور بے قراری کی کیفیت کا اعتبار نہیں ھوتا ۔ خصوصا جب ایسی اضطراری کیفیت لاعلمی پر مبنی ھو اور اہل اسلام کی مخالفت کا پورے جزم سے جزبہ بھی نہ رکھے ۔ اگر ایسے کسی شخص سے کوئی ایسی بات سرزد ھو جاۓ جس سے وہ شخص اسلام سے خروج و ملت کفر میں داخل ھونے کا ارادہ نہ رکھتا ھو تو ایسے کسی لفظ کا اعتبار نہ کیا جاۓ گا جو کسی مسلمان کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل جاۓ اور وہ لفظ کفر پر دلالت کرتا ھو مگر وہ اس کے معنی کا اعتقاد نہ رکھتا ھو ۔ اگر چہ یہ سارے امور ہی انتہائي قابل نکیر ، حرام اور ممنوع ہیں ۔ اور ایسے کسی بھی لفظ کو ادا کرنے والے شخص پر نکیر کرنی چاہیۓ اور اسے ایسے الفاظ سے خوب پرہیز کرنا چاہیۓ اور اس سلسلہ میں حق بات کی وصیت کرنی چاہیۓ لیکن اس شخص کے کافر ھو جانے کا حکم و فتوی اور جزم و یقین نہیں کرنا چاہیۓ ۔

لرزشیں :

مسلمانو ! مسئلہ تکفیر میں بڑوں بڑوں کے قدموں میں لرزش آ گئی ہے جو نہیں آنی چاہیۓ تھی ۔ بڑے بڑے اہل فہم و فراست بہک گۓ ہیں جنھیں کہ نہیں بہکنا چاہتے تھا ۔ زبانیں اور قلمیں بلاعلم و برہان ہی اس رو میں بہہ گۓ ہیں جبکہ اس معاملہ میں خوب احتیاط و پرہیز کی ضرورت اور انھیں ان امور سے بچانا ضروری ہے جس کا مقابلہ کوئي چیز نہیں کر سکتی ، اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیۓ کیونکہ تفریق ، نفرت اور نااتفاقی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شخص اپنی راۓ پر اڑ جاتا ہے ، ہر شخص صرف اپنے آپ کو ہی درجۂ کمال پر براجمان سمجھتا ہے ، ہر شخص اپنے ہی مذھب و مسلک کو پسند کرتا ہے اور وہ صرف اپنی ذات اور صرف اپنے اھل و عیال کے سلسلہ میں ہی غیرت کھانے لگتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ان کے مسلک کو بیکار جانتا ہے اور ان کی گرد غبار اڑاتا اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے ۔ ایسے میں دلوں میں نفرت بھر جاتی ہے اور ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی نوبت آ جاتی ہے اور دعوت الی اللہ کا کام کمزوری میں مبتلا ھو جاتا ہے ، اور علم کا فائدہ کم پڑ جاتا ہے اور دعوت و تبلیغ کی قبولیت ماند پڑ جاتی ہے ۔ دشمن زور کر جاتا ہے اور قسم ہے اللہ کی دشمن یہی ( تفرقہ و تنافر بین المسلمین ) ہی تو چاہتے ہیں ۔۔۔ فلا حول و لا قوﺓ الا باللہ ۔۔۔

ارشاد الہی ہے :

[ اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لۓ باھر ) نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ھو ، اور اس سے تمھاری غرض یہ ھو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اٹھاؤ ، سو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں ۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے ۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو ( آئندہ ) تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ھو اللہ کو سب کی خبر ہے ] ۔

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ۔ ۔ ۔ :

مسلمانو ! جب تکفیر کی خطرناکی ، اس کا ایک بہت بڑا اقدام ھونے اور قول تکفیر کے بہت ہی شدید ھونے کی بات طے کی جا رہی ھو تو اس کا یہ معنی بھی ہر گز نہیں ھوتا کہ مسائل کے سلسلہ میں تساہل و سستی کا مظاہرہ کیا جاۓ اور اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔۔ ارتداد کا دروازہ ہی بند کر دیا جاۓ ۔ اور جو شخص دلیل و برھان کے ساتھ کافر ثابت ھو جاۓ اس کے بھی ایمان دار ھونے کا فیصلہ صادر کر دیا جاۓ ۔ اور کفر کے لۓ جسے شرح صدر حاصل ھو اور سر کشی پر اترا ھوا ھو اسے بھی مومن ہی مانا جاۓ ۔ ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل مقصود اس مسئلے کی خطرناکی کو بیان کرنا اور اس کے ابواب میں گھسنے سے اور اس کا فتوی دینے کی جرٲت و جسارت سے گریز کیا جاۓ ۔ یہاں تک کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے :

” اگر آپ مر جائیں اور آپ نے فرعون کے بارے میں کوئي لفظ بھی نہ کہا ھو تو قیامت کے دن اللہ آپ کو اس بات پر نہیں پکڑے گا ” ۔ اللہ آپ پر رحم فرماۓ ۔۔۔

اہل علم کے نزدیک تکفیر بڑا ہی خطرناک مسئلہ ہے ۔ اس کی کئی شرطیں اور موانع ہیں جنھیں اہل علم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ھو سکتا ہے کہ ایک شخص کو وہ نصوص نہیں پہنچیں جو کہ حق کی معرفت حاصل کرنے کو واجب قرار دیتی ہیں ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ اس کے پاس وہ نصوص تو ھوں مگر وہ اس کے یہاں ثابت نہ ھوں یا وہ انھیں سمجھ نہ پایا ھو ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ وہ بعض شکوک و شبہات میں مبتلا ھو جن کی بناء پر اللہ اسے معذور قرار دے دے ۔

جو شخص اہل ایمان میں سے ھو اور طلب و تلاش حق کے لۓ اجتہاد و کوشش کرے مگر غلطی کر جا‎‎ۓ تو اللہ اس کی وہ غلطی بخش دے گا وہ شخص چاہے کوئي بھی کیوں نہ ھو اور وہ مسئلہ نظری و اعتقادی ھو یا عملی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، جمہور آئمہ اسلام اور اہل علم کی یہی راۓ ہے ۔ وہ کبھی کسی کام کے کفر ھونے کا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ اس بات کا فیصلہ نہیں دیتے کہ جو بھی اس کام میں واقع ھو گیا وہ ملت اسلامیہ سے خارج ( کافر ) ھو گیا ہے ۔ کیونکہ اس کے کافر قرار دیۓ جانے کے لۓ شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی قابل قبول عذر ( سوء فہم ، غلط فہمی یا شبہ وغیرہ ) نہ ھو ۔

اللہ تعالی آپ پر رحم فرماۓ ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنی زبانوں کو کنڑول میں رکھو ۔ شیطان تمھیں کسی کی دشمنی پر آمادہ نہ کر دے اور تم حق پر متحد و متفق رھو ، ارشاد الہی ہے :

” اور نیکی و پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ، اور گناہ و ظلم کی باتوں میں باھم مدد و تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رھو ، بیشک اللہ بڑے سخت عذاب والا ہے ” ۔

( المائدہ : 3) و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین

سبحان ربك رب العزﺓ عما یصفون و سلام علی المرسلین

و الحمد للہ رب العالمین

بتاریخ 22/ 7 / 1424 ھ 19 / 9/ 2003 ء
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
تکفیر اللہ کا حکم ہے

تکفیر اﷲکا حکم ہے
عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر حفظہ اللہ
الحمد للّٰہ وحدہ والصلاۃ والسلام علی من لانبی بعدہ وبعد.
عمان میں حلبی ،حلالی اور نصر جیسے فریب کاروں اور ارجاء کے علمبرداروں نے یہ آوازبلند کی کہ تمام (اسلامی)ممالک کو سب سے بڑی پریشانی یا مشکل کاجو سامنا ہے وہ ہے تکفیر اور تکفیر بیّن کو قابوکرنا ۔حالانکہ یہ فریب کار حلالی ،حلبی ونصر یہودیت میں داخل ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں بچھڑے کے پجاریوں (یہودیوں)کے ساتھ ان کی دوستی ہے ان کی تعریف کرتے ہیں ان کی طرف دعوت دیتے ہیں لگتا ہے عنقریب یہ بھی ان میں شامل ہوجائیں گے ۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی حکمران (مسلم ممالک یا عمان کا)اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے ضروری ہے کہ سب تکفیر اور تکفیریوں سے مقابلے کے لیے متحد ہوجائیں ان کے نظریات وعقائد اور ان کی سرگرمیوں کی سرکوبی کریں تب یہ سکون واطمینان سے حکومت کرسکیں گے۔ان کے خیال میں امت کی مشکلات کا حل یہی ہے۔اور اب عملاً عمان کے عیش پرست (حکمرانوں )کو ان کی دعوت نے متاثر کیا ہے جو خواہشات کے پیرو اور طاغوت کے حکم کو ماننے والے ہیں اب وہ اس بات پر اپنی حکومتوں کو آمادہ کررہے ہیں کہ تکفیر کی ثقافت سے جنگ کریں ۔ان کے نظریات وعقائد کے خلاف کاروائیاں کریں بلکہ اس کام کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھیں ۔بعض لوگ اب یہ کوشش کررہے ہیں کہ یہ عیش پرست) حکمران اور ان کے حاشیہ نشیں مذہبی طبقہ (توحید وجہاد سے سرشار جوانوں اور جو بھی تکفیر کا حامل ہے ان پرکفر کے فتوے لگائیں اور انہیں ملت سے خارج قراردیں ۔ہم ان طاغوت پرستوں اور ان کے دوستوں وہمدردوں کویہ بتانا چاہتے ہیں کہ ثقافۃ تکفیر،عقیدہ تکفیر تو قرآنی ونبوی عقیدہ ہے اس پر قرآن وسنت کے سینکڑوں نصوص موجود ہیں میں نے جب کلمہ’’ کفر‘‘اور اس کے مشتقات پر غور کیا تو اسے میں نے قرآنی آیات میں تین سو سے زیادہ مقامات پرمستعمل پایا ۔ان آیات اور ان کے مدلولات کا آپ کیا جواب دیں گے ؟جب تم لوگ تکفیر کی ثقافت اور عقیدہ کا مقابلہ کرنا اس سے لڑنا چاہتے ہو توکیا تم اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا چاہتے ہو ؟کتاب وسنت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو؟حالانکہ تم سب کچھ جانتے بوجھتے ہو؟اس بات کا تمہارے پاس کیا جواب ہے اگر ایک آدمی زناکرتا ہے تو اسے زانی کہتے ہیں چوری کرنے والے کوچور کہتے ہو سود کھانے والے کو سود خور کہتے ہو مگر جب کوئی شخص صریح اوربلاتاویل کفر کرتا ہے تو اسے کافر نہیں کہتے ؟اگر تم چاہتے ہو کہ اور اس چاہت میں سچے ہو کہ تم کافر نہ بنو اور نہ تمہیں کوئی کافر کہے نہ تمہارے بارے میں اس قسم کی بحث کرے تو تم کفر سے علیحدہ ہوجاؤ۔اس کاارتکاب مت کرو۔اس سے براءت کا اعلان کرو۔اور مکمل طور پر اسلام میں داخل ہوجاؤ۔اور اگر تم تمام قسم کی برائیوں میں ملوث ۔کفر صریح کے مرتکب ہو اور اﷲورسول کے دشمنوں کی مدد کرتے رہو ۔امت مسلمہ کے خلاف ان کے دست وبازو بنے رہو ۔مومنوں میں فحاشی پھیلاتے رہو ان کو دین سے برگشتہ کرتے رہو ۔اور پھر بھی یہ امید رکھو خواہش رکھوکہ تمہیں کوئی کافرنہ کہے ؟تمہاری مذمت وتردید نہ کرے ؟اس طرح ہونا تو شرعاًوعقلاًناممکن ہے ۔ایسے کرتوتوں کے ارتکاب کے بعد تو قابل ملامت ومذمت تم ہو نہ وہ کہ جو تمہیں کافر کہتے ہیں اور تم پر وہی حکم لاگو کرتے ہیں جو اﷲنے کیا ہے ۔اور جس کے تم مستحق ہو ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ صرف ایک اﷲکے اختیار میں ہے ۔اگر اﷲنے کسی عمل یا صفت کی وجہ سے کسی کوکافرکہا ہے تو ہم بھی اس پرکفر کا حکم لگائیں گے ۔جسے اﷲنے فاسق اور ظالم کہا ہے ہم بھی اس پر وہی حکم لگائیں گے اس سے تجاوز نہیں کریں گے ۔مسلمان کا فریضہ ہے کہ وہ اﷲکے حکم کے مطابق چلتا رہے وہ اسے جہاں اور جس طرف لے جائے ۔اس کے علاوہ مسلمان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے ۔اب اگر ایک شخص صریح کفر کا مرتکب ہوتا ہے ایسا کفر کہ جس میں تاویل کی یا اور کوئی گنجائش نہیں ہے اب اگر کوئی شخص اس کو کافر قرار دے رہا ہے ۔کافر کو مؤمن مسلم بنارہا ہے ۔ایسا کرنا بھی بذاتہ کفر ہے جیساکہ اہل علم نے ثابت کیا ہے ۔شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے متفقہ نواقضِ اسلام کا جہاں ذکر کیا ہے ان نواقض میں سے یہ بھی ہے کہ ’’جس نے مشرکین کو کافرنہیں سمجھا یا ان کے کفر میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح کہا تویہ شخص بالاجماع کافر ہے‘‘ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ تکفیر کا عقیدہ اور عقیدۂ الولاء والبراء یہ دونوں عقیدے باہم لازم وملزوم ہیں ان میں سے ہرایک دوسرے کے وجود کاذریعہ ہے ۔دونوں میں سے کسی ایک کے خاتمہ سے دوسرا بھی ختم ہوجائے گا ۔الولاء والبراء کے عقیدے پرعمل کرنے کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس آدمی کو کافر کہا جائے جو اس کا مستحق ہو (یعنی جس کا کفر ثابت ہو بلاتاویل)ورنہ ہم کافروں اور ان کے کفر سے براء ت کااعلان کیسے کریں گے جبکہ ہمیں اس کے کفر کا علم ہی نہ ہو اور نہ ہی ہم اس کے کفر پرکفر کا حکم نہیں لگائیں گے؟کس طرح ہم مؤمنوں مسلموں کو دوستی کے لئے خاص کریں گے ۔ہم ان میں اور مشرکین کافرین میں تمیز نہیں کریں گے ؟جو آدمی کافر کوکافر مشرک کو مشرک نہیں کہتا تو وہ شرعی الولاء والبراء پرحقیقی طور پر عمل نہیں کررہا ۔اس لیے کہ تکفیر براء ت کی ہی ایک صورت ہے ۔جیسا کہ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ اِنَّا بُرَءٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةُ وَ الْبَغْضَآءُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہ۔
تمہارے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھی بہترین نمونہ ہیں جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہم تم سے اوراﷲکے علاوہ تمہارے معبودوں سے براءت کا اعلان کرتے ہیں ہم تمہارے (عمل)کا انکارکرتے ہیں ۔ہمارے اور تمہارے درمیان عداوت ونفرت ظاہر ہوگئی ہمیشہ کے لئے جب تک کہ تم ایک اﷲپرایمان نہ لے آؤ ۔ (الممتحنۃ:۴)
فرمان باری تعالیٰ ہے۔
قُلْ یٰآَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَo لَا اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْن
کہدو اے کافرو!میں تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کرتا ۔ (الکافرون:۱-۲)
اگر کوئی شخص عقیدۂ تکفیر کی مخالفت کرتا ہے تو وہ الولاء والبراء کی بھی مخالفت کرتا ہے اس طرح وہ عقیدہ جہاد کی بھی تردید کررہا ہے ۔اور جب امت میں براء والولاء اور جہاد نہ رہے تو پھر اسے زیرنگیں کرنا شکست دینا آسان ہوجاتا ہے ۔
ہم کہتے ہیں تم لوگ حقیقی تکفیر سے منع کرتے ہو خود بھی رک جاتے ہومگر باطل وغلط تکفیر میں مبتلا ہوگئے ہو ۔طاغوت کے کفر وظلم کے پیروکاروں کی تکفیر سے انکار کرتے ہواور جہاد کرنے والے موحد نوجوانوں کو صرف اپنے طاغوتی حکمرانوں اور سرپرستوں کی دلجوئی کے لئے کافر قراردیتے ہو ۔اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ان میں سے ایک ثبوت حلبی کا خطبہ ہے جو اس نے مسجد ہاشمیہ میں دیا اور دیگر شہروں میں بھی اس کی تشہیر کی تھی اس کا عنوان انہوں نے رکھا ہے :الخطبة السلفیة فی سحق التکفیریة اس خطبہ میں وہ کہتا ہے :’’یہ بے وقوف دین سے خارج جاہل لوگ ہیں شکوک وشبہات پیدا کرنے والے ہیں ان کے دل کی سیاہی ان کی زبانوں پرآگئی ہے یہ لوگ پوری امت یا اکثر امت کو گمراہ قراردیتے ہیں اور امت کے حکمرانوں کوکافر کہتے ہیں‘‘۔ اگر یہی باتیں ان کے بارے میں کی جائیں کہ یہ خود ایسے ہیں تو ان کے پاس جواب نہیں ہوگا ‘‘۔اس کو ان لوگوں کی تکفیر پرغصہ آتا ہے جو طاغوت کے حمایتی ہیں اور ان اہل توحید کو کافر قراردینے میں تأمل نہیں کرتا جو ظالم طاغوتوں کی کفر کی بات کرتے ہیں ۔اہل توحید اور توحید کی طرف دعوت دینے والوں کوکافر قراردیتے ہیں اور طاغوتوں اور یہود کے پیروکاروں کی تکفیر میں تردد کرتے ہیں ۔ہم نے اگر یہ بات کی ہے کہ یہ عیش پرست دنیا کے پجاری طاغوتوں سے امیدیں رکھنے والے موحدین کے لیے خوارج سے بھی زیادہ سخت ہیں تویہ ہم نے کوئی غلط بات نہیں کی تھی ۔اس کاہی ایک ہم نوا الہلالی اپنے اسی طرح کے ایک خطبہ میں کہتے ہیں ’’ہم خود بھی چوکنے ہیں اور دوسروں کو بھی متنبہ کرچکے ہیں اورکرتے رہیں گے کہ تکفیری فکر بہت بڑا خطرہ ہے ۔یہ لوگ پورے معاشرے کو عوام اورحکمرانوں دونوں کو کافر کہتے ہیں اقوام وافراد کو کافر کہتے ہیں اور اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے وہ آیات پیش کرتے ہیں جو مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان آیا ت کو مسلمانوں پرمنطبق کرتے ہیں ۔ان کی سوچ کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ لوگ آیت :
وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ
جو اﷲکے نازل کردہ(دین)کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں
اس آیت کے مدنظر یہ لوگ مسلم حکمرانو ں کے بارے میں کہتے ہیں کہ چونکہ یہ حکمران امریکی وبرطانوی قانون کے تحت حکومت کررہے ہیں اپنے ممالک میں انہی قوانین کو نافذ کرچکے ہیں اس لیے یہ سب حکمران کافر ہیں ۔یہ لوگ اس آیت کا معنی ومفہوم سمجھ نہیں پائے نہ ہی اس میں تدبر کیا ہے حالانکہ یہ آیت یہود ونصاریٰ کے بارے میں نازل ہوئی ہے مائدہ کی تینوں آیات انہی کے بارے میں ہیں ۔یہ خوارج اور ان کے متبعین وپیروکار بدترین مخلوق ہیں اسی لیے ہم ان پر ہمیشہ تنقید کرتے رہتے ہیں ان سے مناظرے مباحثے کرتے ہیں انہیں سمجھاتے ہیں کہ صرف حکم بغیر ماانزل اﷲایسا کفر نہیں ہے جو ملت سے خارج کرنے والا ہو ۔ملت سے انسان تب خارج ہوتا ہے جب حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھ کر اس کاارتکاب کرے ۔اور یہ عمل استحلال ایساہے جو قلبی امر ہے اﷲکے علاوہ اسے کوئی نہیں جانتا ‘‘۔اگر ہلالی کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے اور قلبی امر قرار دے کر نظر انداز کیا جائے تو پھر روئے زمین پرایسا کوئی حکمران نہیں ہوگا جسے کافر کہا جاسکے اگرچہ وہ کتنا ہی اﷲکے احکام سے اعراض کرنے والاہو اور بغیر ماانزل اﷲپرفیصلے کوجائز بھی سمجھتا ہواس کی مخالفت کرتا ہو۔
ان سب باتوں کے باوجود کچھ لوگ ان بد لوگوں کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ (ہلالی ۔حلبی وغیرہ )مرجئہ نہیں ہیں بلکہ یہ سنت اور سلفیت کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔اس نے کہا ہے کہ (توحید وجہاد کی طرف بلانے والے نوجوان)قوموں اورمعاشروں کوکافر قراردیتے ہیں تو یہ بات سراسر جھوٹ ہے یہ جھوٹ اس نے صرف اس لیے بولا ہے کہ یہ اپنے دوستوں کے دفاع کا جواز پیش کرنا چاہتا ہے وہ دوست جو طاغوت حکمران ۔کافر ظالم ہیں اگر یہ اپنے مخالفین کے بارے میں صرف اتنا کہتا کہ یہ کافر ظالم اور طاغوتی حکمرانوں کو کافر کہتے ہیں تو پھر اس کی بات سامعین کو متاثر نہیں کرسکتی تھی بلکہ وہی سامعین اس کی مخالفت پر اتر آتے کہ )جو نوجوان ظالم کافر طاغوتی حکمرانوں کو کافر کہتے ہیں تو وہ صحیح کررہے ہیں(ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ جو بات ان لوگوں کے غصے کاسبب ہے اور جو تکفیر کا ثبوت ہے وہ عبادہ بن صامت کی روایت ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ :
ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا ہم سے بیعت لی اس بیعت میں یہ عہدہم سے لیا کہ ہم حکمرانوں سے اختیارات یا حکومت نہیں چھینیں گے الایہ کہ تم انہیں ایسا صریح کفر کرتا دیکھ لو تمہارے پاس اﷲکی طرف سے اس پرکوئی دلیل ہو ۔
اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے اور دیگر نصوص شرعیہ کومدنظر رکھ کر اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ حاکم جب واضح کفر کا اظہار وارتکاب کرے اور ارتداد میں پڑجائے تو امت پر اسے ہٹانا اس کے خلاف بغاوت کرنا اس کی اطاعت کو چھوڑدینا واجب ہے ۔ان لوگوں کی اور ان کے سرپرستوں کی حقیقی مشکل تو اس نبی eکی بات ہے جس نے اپنی امت پر طاغوتی حکمرانوں کے خلاف خروج واجب کردیا ہے (جب وہ کفر بواح کا ارتکاب کریں )ان کی مشکل تکفیری نہیں ہیں۔یہ تو وہ قوم ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی مول لی ہے انہیں کامیابی کیسے حاصل ہوسکتی ہے ؟ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نہ توخود تکفیر میں غلوکرتے ہیں نہ اس کوپسند کرتے ہیں تکفیر میں غلو ایک اور چیز ہے اور تکفیر الگ چیز ہے ۔تکفیر اﷲکا حکم ہے اﷲکی شریعت کا حصہ ہے ۔جبکہ تکفیر میں غلو کرنا قابل مذمت عمل ہے ۔یہ تفریط اور ارجاء وجہمیت کا حصہ ہے ۔اﷲکے فضل سے ہم غلو اور غلوکرنے والوں کے خلاف ہیں جس طرح کہ ہم جہمیت ۔ارجائین اور تفریط کے خلاف ہیں یہ دونوں چیزیں )غلو اور غلو کرنے والے (امت کے لیے نقصان دہ ہیں ہم اس سے متنبہ کرتے رہیں گے ۔ان کے طور طریقوں سے لوگوں کو اجتناب کرنے کی دعوت دیں گے ۔ہم اﷲکاشکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اس صحیح اور معتدل منہج کی طرف رہنمائی کی ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط نہ غلو ہے نہ ارجاء نہ جفاء ۔
واخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
محترم براء بن مالک بھائی،
آپ اور آپ کی فکر کے حامل دیگر حضرات آخر حکمرانوں ہی کی تکفیر کے پیچھے کیوں ہیں؟ مثال کے طور پر پاکستانی حکمران بمعہ صدر و وزیر اعظم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ق، اے این پی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف وغیرہ آپ کے نزدیک کافر اور فوج بھی پوری کی پوری کافر۔
سوال یہ ہے کہ آیا باقی بچ جانے والی عوام کیا مسلمان ہے؟ جن کے لئے اسلامی شریعت لانے کی خاطر آپ فوج پر حملوں ، دھماکوں کی حمایت کرتے ہیں؟ اور حکمرانوں کی معین تکفیر اور بلاشرائط خروج کے حامی ہیں؟
صرف پاکستان کی بات کریں تو ننانوے فیصدی عوام تو ویسے ہی بے نمازی ہے۔ اس میں بھی پچانوے فیصدی لوگ کفریہ و شرکیہ عقائد کے حامل ہوں گے کیونکہ وہ حنفی و اہل تشیع ہیں۔ باقی چار فیصدی اہلحدیث ہیں، جن میں سے غالباً تین اعشاریہ نو نو نو نو نو فیصدی حضرات بشمول علماء آپ کے نظریہ جہاد اور تکفیری فتووں کے حامی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایک ایسے ملک میں جس کی عظیم ترین اکثریت آپ کے پیمانے پر کافر ہے۔ اور اٹھارہ انیس کروڑ لوگوں میں سے چند سو یا شاید ہزار دو ہزار لوگ ہی مسلمان ہیں، وہاں حکمرانوں کے خلاف تکفیری بوچھاڑ اور خروج کی بجائے کم سے کم عوام الناس کو پہلے ’مسلمان‘ کر لینا ضروری نہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ موجودہ حالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں اور بس اب ایک ہلہ بول کر عوامی حمایت سے حکمرانوں کو معزول کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے؟
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
محترم براء بن مالک بھائی،
آپ اور آپ کی فکر کے حامل دیگر حضرات آخر حکمرانوں ہی کی تکفیر کے پیچھے کیوں ہیں؟ مثال کے طور پر پاکستانی حکمران بمعہ صدر و وزیر اعظم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، ق، اے این پی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف وغیرہ آپ کے نزدیک کافر اور فوج بھی پوری کی پوری کافر۔
سوال یہ ہے کہ آیا باقی بچ جانے والی عوام کیا مسلمان ہے؟ جن کے لئے اسلامی شریعت لانے کی خاطر آپ فوج پر حملوں ، دھماکوں کی حمایت کرتے ہیں؟ اور حکمرانوں کی معین تکفیر اور بلاشرائط خروج کے حامی ہیں؟
صرف پاکستان کی بات کریں تو ننانوے فیصدی عوام تو ویسے ہی بے نمازی ہے۔ اس میں بھی پچانوے فیصدی لوگ کفریہ و شرکیہ عقائد کے حامل ہوں گے کیونکہ وہ حنفی و اہل تشیع ہیں۔ باقی چار فیصدی اہلحدیث ہیں، جن میں سے غالباً تین اعشاریہ نو نو نو نو نو فیصدی حضرات بشمول علماء آپ کے نظریہ جہاد اور تکفیری فتووں کے حامی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایک ایسے ملک میں جس کی عظیم ترین اکثریت آپ کے پیمانے پر کافر ہے۔ اور اٹھارہ انیس کروڑ لوگوں میں سے چند سو یا شاید ہزار دو ہزار لوگ ہی مسلمان ہیں، وہاں حکمرانوں کے خلاف تکفیری بوچھاڑ اور خروج کی بجائے کم سے کم عوام الناس کو پہلے ’مسلمان‘ کر لینا ضروری نہیں؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ موجودہ حالات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی سے مطابقت رکھتے ہیں اور بس اب ایک ہلہ بول کر عوامی حمایت سے حکمرانوں کو معزول کر کے انقلاب لایا جا سکتا ہے؟
برادر محترم راجا صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
برادر ہم نے تو ایک اصول بیان کیا ھے ۔ ہم نے کسی پر تکفیر کا فتویٰ نہیں لگایا ھے ۔ اس اصول میں قرآنی آیات اور احادیث بیان کی گئی ہیں ۔ اب اس کی زد میں کون کون آتا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر ۔ کہ جو شخص بھی اس میں غور وفکر کرتا ہے ۔ اور اگر وہ اپنے آپ کو اس میں ملوث پاتا ھے تو اس کو چاہیے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کی طرف رجوع کرے ۔ بس یہی اس پوسٹ میں پیغام ھے ۔ اھل حق کے لیے ۔ کسی کی کوئی تکفیر نہیں بیان کی گئی کہ کسی شخص کو خاص کرلیا گیا ہو۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
ہم نے تو ایک اصول بیان کیا ھے ۔ ہم نے کسی پر تکفیر کا فتویٰ نہیں لگایا ھے. کسی کی کوئی تکفیر نہیں بیان کی گئی کہ کسی شخص کو خاص کرلیا گیا ہو۔
میرے بھائی اگر یہی بات ہے تو اس بات سے کیا امام کعبہ نے اختلاف کیا ہے کہ کفر بواح کا مرتکب اسلام سے خارج ہے؟ جو کہ آپ کو طرطوسی صاحب کا مضمون "تکفیر اللہ کا حکم ہے" پیش کرنا پڑا۔ جبکہ طرطوسی صاحب کا یہ مضمون بھی اصول تکفیر پر نہیں بلکہ ان لوگوں پر رد ہے جو خاص طور پر معین کر کے حکمرانوں کو کافر نہیں کہتے۔ نیز یہ طرطوسی صاحب نام لے لے کر سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ جس پر ان کی دیگر کتب و رسائل گواہ ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ہم نے طرطوسی صاحب کا کلام پیش کر کے کسی پر تکفیر کا فتویٰ نہیں لگایا یا تو لا علمی ہے یا مغالطہ۔
عبدالمنعم حلیمہ المعروف ابوالبصیر طرطوسی نے اس مضمون میں لکھا:
ثقافۃ تکفیر،عقیدہ تکفیر تو قرآنی ونبوی عقیدہ ہے اس پر قرآن وسنت کے سینکڑوں نصوص موجود ہیں میں نے جب کلمہ’’ کفر‘‘اور اس کے مشتقات پر غور کیا تو اسے میں نے قرآنی آیات میں تین سو سے زیادہ مقامات پرمستعمل پایا ۔ان آیات اور ان کے مدلولات کا آپ کیا جواب دیں گے ؟جب تم لوگ تکفیر کی ثقافت اور عقیدہ کا مقابلہ کرنا اس سے لڑنا چاہتے ہو توکیا تم اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا چاہتے ہو ؟کتاب وسنت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو؟ حالانکہ تم سب کچھ جانتے بوجھتے ہو؟
ایسے لوگوں کا کیا علاج ہے۔۔۔۔؟ مجھے تو ان لوگوں کی سمجھ نہیں آتی جو ایسے مشتعل جذباتی شخص کو آج کے دور کا سب سے بڑا سلفی عالم بنائے پھرتے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ قرآن کی جن آیات میں تین سو سے زائد مقامات پر کلمہ کفر پایا گیا ہے کیا وہاں تکفیر معین کا بیان ہے کہ فلاں فلاں کو کافر کہو۔۔۔۔؟
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے ہم نشین میرے بارے میں اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سب لوگوں سے زیادہ اس بات سے منع کرتا ہوں کہ کسی معین شخص کی کفر، فسق یا معصیت کی جانب نسبت کی جائے الا یہ کہ معلوم ہو جائے کہ اس پر ایسی حجت قائم ہو گئی جس کی مخالفت کرنے والا کبھی کافر، کبھی فاسق اور کبھی نافرمان ہوتا ہے۔
مزید فرمایا:
میں یہ بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ سلف اور آئمہ سے جو یہ منقول ہے کہ جو شخص یہ یہ کہے وہ کافر ہے تو یہ بھی حق ہے لیکن اطلاق اور تعین میں فرق کرنا واجب ہے۔
(مجموع الفتاویٰ:ج3ص229)
اب جو ان لوگوں کو تکفیر معین سے روکے یا تکفیر کے شرائط و ضوابط کا لحاظ رکھنے کی تلقین کرے یہ فرمائیں گے:
کیا تم اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنا چاہتے ہو ؟کتاب وسنت کا مقابلہ کرنا چاہتے ہو؟حالانکہ تم سب کچھ جانتے بوجھتے ہو؟
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
عبدالمنعم صاحب لکھتے ہیں:
اگر ایک آدمی زناکرتا ہے تو اسے زانی کہتے ہیں چوری کرنے والے کوچور کہتے ہو سود کھانے والے کو سود خور کہتے ہو مگر جب کوئی شخص صریح اوربلاتاویل کفر کرتا ہے تو اسے کافر نہیں کہتے؟
صرف ایک یہی بات ان لوگوں کی جہالت اور ان کی خارجی ذہنیت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان لوگوں نے گناہوں کو اور کفر کو ایک پلڑے میں سجا رکھا ہے۔ پھر میں کہتا ہوں کہ ایک آدمی زنا کرتا ہو تو شریعت مجھے ہرگز اسے زانی کہنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ اگر میں اسے زانی کہوں اور شرعی گواہ پیش نہ کر سکوں تو الٹا مجھے حد قذف جاری کرتی ہے۔ او لوگو! کچھ تو غور کرو جب ہماری شریعت کسی زنا کرنے والے پر بھی شرعی اصول و ضوابط کے بغیر نہ کسی الزام کی اجازت دیتی ہے اور نہ کسی حد نافذ کرنے کی تو کیا کسی کو کافر کہنا اتنا ہی آسان ہے کہ جس کو چاہے کافر کہو اور پھر اس پر حد ارتداد جاری کرنے کے فتوے دیتے پھرو۔ اللہ ہی سے ہدایت کا سوال ہے۔
پھر جو لوگ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص صریح اور بلاتاویل کفر کرتا ہے تو اسے کیوں کافر نہیں کہتے؟ تو ہم کہتے ہیں کہ تکفیر کے شرعی اصول و ضوابط و موانع تکفیر کے لحاظ کی وجہ سے۔ کیا تم لوگ ان اصول و ضوابط اور موانع تکفیر کا انکار کرتے ہو تو پھر تم شریعت سے جاہل ہو اور اگر اقرار کرتے ہو تو پھر یہ جاہلانہ طعنہ کیوں کہ جب کوئی شخص صریح اور بلاتاویل کفر کرتا ہے تو اسے کافر کیوں نہیں کہتے؟ پھر اس طعنہ میں بلا تاویل کفر کی شرط بھی ان لوگوں کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا اس شرط سے ثابت نہیں ہوتا کہ ان لوگوں کے نزدیک بھی کسی تاویل کی وجہ سے صریح کفر کرنے والا کافر نہیں۔۔۔۔؟
عبدالمنعم حلیمہ لکھتے ہیں:
اب اگر ایک شخص صریح کفر کا مرتکب ہوتا ہے ایسا کفر کہ جس میں تاویل کی یا اور کوئی گنجائش نہیں ہے اب اگر کوئی شخص اس کو کافر قرار (نہیں) دے رہا ہے ۔کافر کو مؤمن مسلم بنارہا ہے ۔ایسا کرنا بھی بذاتہ کفر ہے جیساکہ اہل علم نے ثابت کیا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں منافقین کا ایک گروہ موجود تھا جن کے کفر پر بلکہ کافروں سے بدتر ہونے کی قرآن نے گواہی دی۔ اس گروہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا اور آپ نے سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ کو اس گروہ کے افراد کی خبر بھی دی تھی۔ مگر دیگر مسلمان ان سے بے خبر تھے اور ان کو مسلمان ہی شمار کرتے تھے۔ "تکفیر اللہ کا حکم" کے عنوان سے مضمون لکھنے والے بتائیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ منافقین پر اللہ کے اس حکم کو صرف سیدنا خذیفہ تک کیوں محدود کر دیا اور اللہ کا یہ حکم عام کیوں نہ کیا۔۔۔۔؟ نیز جو مسلمان ان کافر منافقین کو مسلمان سمجھتا رہا ان کا حکم ان کے نزدیک کیا ہے۔۔۔۔؟ اگر کوئی کہے کہ وہ ان کے کفر سے واقف نہیں تھے یا ان تک اس کا ثبوت پختہ نہیں تھا تو ہم کہتے ہیں کہ پھر یہی بات تم ان لوگوں کے لئے کیوں نہیں کہتے جن کو تم "کافر کو مؤمن مسلم بنارہا ہے ۔ایسا کرنا بھی بذاتہ کفر ہے" کے ڈراوے دیتے ہو کہ وہ تمھارے کافر قرار دیے حکمران کو کافر نہیں کہتے۔ کچھ تو اللہ کا خوف کرو۔
یاد رہے کہ ان منافقین مدینہ میں ایسے بھی تھے جن کا کفر بارہا ظاہر بھی ہو چکا تھا اور جن کے لئے اس مفہوم کی آیات تک اتر چکی تھیں کہ بہانے مت بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔ نیز وہ بھی کہ جن کی کفار و مشرکین مکہ سے درپردہ خفیہ امداد و تعاون کے پختہ ثبوت موجود تھے آج کے مجاہدین کے خلاف بھی نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے خلاف۔ اللہ سمجھنے کی توفیق دے۔
عبدالمنعم نے لکھا:
شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے متفقہ نواقضِ اسلام کا جہاں ذکر کیا ہے ان نواقض میں سے یہ بھی ہے کہ ’’جس نے مشرکین کو کافرنہیں سمجھا یا ان کے کفر میں شک کیا یا ان کے مذہب کو صحیح کہا تویہ شخص بالاجماع کافر ہے‘‘
ہم کہتے ہیں کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا یہ اصول بالکل درست ہے مگر اس سے تم لوگوں کا استدلال بالکل باطل ہے۔ جو شخص کسی کافر و مشرک کو کافر نہیں سمجھتا وہ کافر ہے لیکن اس سے مراد وہ ہے جس کے کفر پر نص موجود ہو یا اجماع ہو جیسے عیسائی، یہودی، ہندو، قادیانی وغیرہ۔ نیز اگر اس سے مراد دیگر کفریات کا حامل لیا جائے تو پھر اس اصول سے کوئی فرد خاص مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ جو اصولی طور پر گستاخ رسول کو کافر ہی نہ سمجھے وہ خود بھی کفر کا مرتکب، اسی طرح جو اللہ کے بندوں میں حلول کے قائل کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کفر کا مرتکب وغیرہ۔ اس اصول میں ہرگز وہ فرد خاص داخل نہیں جس کے کفر میں اختلاف ہو۔ بڑی مثال صوفیوں کا شیخ اکبر ابن عربی ہے جس کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سمیت علماء کی ایک تعداد کافر قرار دیتی ہے مگر امام سیوطی سمیت کئی ایک علماء اس کو کافر قرار نہیں دیتے۔ اب یہ حضرات کیا ابن عربی کو کافر نہ کہنے والوں کو کافر یا کفر کا مرتکب سمجھنے کے لئے تیار ہیں۔۔۔۔؟ ابن عربی کی تکفیر الگ معاملہ ہے اور اس کو کافر قرار نہ دینے والوں کا معاملہ الگ ہے۔ اگر کوئی کہے کہ ابن عربی کو کافر قرار نہ دینے والوں کے شبہات تھے، ثبوت میں شک کرتے تھے، عبارتوں میں تاویل کرتے تھے اور جب تک ان پر ابن عربی کے کفر بواح کا ثبوت پختہ نہ کر دیا جاتا، نیز ان کے شبہات اور تاویلات کا باطل ہونا پیش نہ کر دیا جاتا ان پر کوئی حکم نہیں بلکہ معذور ہیں تو یہی بات ہم سمجھانا چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ اچھی طرح سمجھ لیا جائے "جو کافر کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر" کے اصول میں پہلے کافر سے مراد کوئی متعین شخص یا فرد خاص ہرگز نہیں۔
عبدالمنعم نے لکھا:
تکفیر میں غلو کرنا قابل مذمت عمل ہے۔
اللہ تم لوگوں کو اس بات کی سمجھ دے کہ تکفیر میں غلو یہی ہے کہ اس کے اصول و ضوابط اور موانع تکفیر کا لحاظ کئے بغیر تکفیر کی جائے۔ ثبوت اور حجت قویہ کے فقدان کی وجہ سے تکفیر نہ کرنے والوں کو گمراہ سمجھا جائے اور ان پر ارجاء کی تہمتیں لگائی جائیں اور یہ غلو یقیناً قابل مذمت ہے اور ہم اسی لئے اس کی مذمت پر مجبور ہیں۔ اللہ ہمیں حق بات کو سمجھنے کی توفیق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
 

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
یہ محترم عبدالمنعم مصطفیٰ حلیمہ ابوبصیر صاحب کیا لندن میں رہائش پذیر نہیں؟؟؟؟؟؟ کافروں کی گود میں بیٹھ کر مسلمانوں کو کافر بنانے کی فیکٹری لگاناکہاں کا انصاف ہے۔۔۔۔؟؟
خوارج کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور بت پرستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔
محمد بن عرعرہ شعبہ حکم مجاہد حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پچھوا ہو اسے میری مدد ہوئی اور پروا ہوا سے عاد ہلاک ہوئے ابن کثیر سفیان ان کے والد ابن ابونعیم حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ سونا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا اقرع بن حابس حنظلی ثم المجاشعی عیینہ بن بدر فزاری زید طائیجو بعد میں بنو نبہاں میں شامل ہو گئے اور علقمہ بن علاثہ عامری جو بعد میں بنو کلاب سے متعلق ہو گئے تو قریش و انصار اس پر ناراض ہو گئے اور کہنے لگے کہ یہ اہل نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں ہمیں نہیں دیتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ان کی تالیف کرتا ہوں پھر ایک شخص سامنے آیا جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی اور رخسار ابھرے ہوئے تھے پیشانی اونچی داڑھی گھنی اور سر منڈا ہوا تھا اس نے کہا اے محمد! خدا سے ڈرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہی خدا کی نا فرمانی کرنے لگوں تو پھر اس کی اطاعت کون کرے گا اللہ نے تو مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے شاید وہ خالد بن ولید تھے اس کے قتل کرنے کی اجازت مانگی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کر دیا جب وہ شخص واپس چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل میں یا فرمایا کہ اس کے بعد کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اہل اسلام کو تو قتل کریں گے لیکن بت پرستوں کو ہاتھ بھی نہ لگائیں گے اگر میں انہیں پاتا تو عاد کی طرح انہیں قتل کر دیتا۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 579 47 - انبیاء علیہم السلام کا بیان : (585)
فرمان خداوندی اور رہے عاد تو انہیں بہت تیز اور سخت ہوا سے برباد کر دیا گیا
 

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں تکفیر ایک شرعی حکم ہے لیکن عام حالات میں تکفیر کی عمومی تحریکیں چلانا ایک تخریبی عمل ہے نہ کہ تعمیری۔
بلاشبہ 'نقض توحید(فعل) کفر وشرک ہے' لیکن ہر ناقض توحید(فاعل) کو کافر ومشرک حقیقی قراردینا، دین سے خارج کر دینا، دین اسلام کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔
اگر ہر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید اسماء وصفات کے ناقض معتزلہ، اشاعرہ یعنی شافعیہ اور مالکیہ، ماتریدیہ یعنی حنفیہ کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے۔
اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید الوہیت کے ناقض بریلوی اور وحدت الوجود کے قائل صوفیااور ان کے سلاسل اربعہ ، دیوبندی مکتبہ فکر میں وحدت الوجود کے قائل دیوبندی علماء کافر قرار پاتے۔
اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا توسلفیہ کے نزدیک توحید حاکمیت کے ناقض مسلمان حکمران، ان کی اسمبلیاں، ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام، ان کی عدالتیں اور ان عدالتوں میں مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا، ان وکلا کو تعلیم دینے والے کالجز اور یونیورسٹیاں، ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبااور تعلیم دینے والے اساتذہ، ان عدالتوں سے فیصلہ کروانے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' کے تحت کافر قرار پاتے ہیں۔
اگر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہے تو سلفیہ کے نزدیک 'اتخذوا أحبارھم ورھبانھم أربابا من دون اللہ' کے تحت توحید ربوبیت کے ناقض مقلدین یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے ہیں۔بس اگر یہی قاعدہ ہے کہ ہر ناقض توحید مخرج عن الملۃ ہے تو بتائیے بچا کوئی مسلمان زمین پر ۔؟؟؟
نقض توحید کا قاعدہ تو بعد کی بات ہے لوگوں کو اگر کافر بنانا ہی مقصود ہے تو
'تارک صلوة' کے کافر حقیقی ہونے کے بارے کبار سعودی سلفی علماء کا فتوی ہی کافی ہے۔ ٩٨ فی صد عوام بے نماز ہونے کی وجہ سے ویسے ہی کافر ہو جائے گی لہذا لوگوں کو کافر بنانے کے لیے کسی توحید حاکمیت وغیرہ کے اصول کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
علمی دیانت کاتقاضا یہ ہے کہ جو سلفی توحید حاکمیت کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کے قائل ہیں انہیں تکفیر کی ان تمام صورتوں میں یکساں طور پر تکفیر کا حکم لگانا چاہیے اور حکمرانوں کے ساتھ عوام اور مقلدین کی بھی تکفیر کرنی چاہیے اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی طرح ان بریلویوں، دیوبندیوں، مقلدوں، وجودیوں، صوفیوں، اشاعرة ، ماتریدیہ اور طاغوتوں کو مباح الدم قرار دیتے ہوئے ان سب سے قتال کرنا چاہے تاکہ ان کی اپنے نظریہ توحید میں صداقت واضح ہو سکے۔
اور غور کریں تو 'جماعة المسلمین' نے یہی تو کام کیا ہے اور آج یہی'جماعت المسلین' چار دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہاہے۔
یہی حال اس وقت عالم عرب اور یورپ میں سلفیہ کا بھی ہے اور پاکستان میں بھی انکی پیدائش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔توحید حاکمیت کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے مسئلے میں یہ سلفی گروپس دوسرے سلفی لوگوں اور علماء کی بھی تکفیر کر رہے ہیں جو انکے موقف کے قائل نہیں۔۔ اور بڑے بڑے سلفی محققین ما شاء اللہ تکفیر کی یہ دینی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
مولانا ابو الکلام آزار رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ١٤ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے اس ایک صدی میں کافر بنا دیے ہیں۔یہ وصف ہمارے لیے فخر کا باعث ہے یا ندامت وشرمندگی کا؟ اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک نے خود کرنا ہے۔
یعنی اللہ تعالی مجھ سے قیامت کے دن یہ سوال کرے کہ میرے بندے دنیا میں میرے دین کی کیا خدمت کی ہے؟ تو میں جواب دوں:یا اللہ! تیرے اتنے بندوں کو کافر بنا کے آیا ہے!!!
ہمارے خیال میں فی زمانہ تکفیر سے زیادہ معاشرے کی اصلاح کے لیے دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہے جبکہ حکمرانوں کے ظلم وستم کے خلاف پرامن آئینی، قانونی، تحریکی اور احتجاجی جدوجہد (کلمہ حق کہنے )کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں اس دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی میں ظلم کو ظلم ،فسق کو فسق، کفر کو کفر اور شرک کو شرک ہر حال میں کہنا چاہیے اور اس پر کوئی مداہنت نہ ہو۔ اسی طرح اپنی دعوت میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے کفر اور شرک کے مرتکبین کو مجازاً کافر اور مشرک کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ہم کسی کو اپنی زبان میں 'بے ایمان' کہہ دیتے ہیں حالانکہ 'بے ایمان' کہنے سے ہماری مراد اس کی تکفیر ہر گز نہیں ہوتی ہے۔ جہاں تک ایسی تکفیر کا معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی مخصوص مسلمان فرد گروہ یا جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا مقصود ہو توایسی تکفیر راقم کی رائے میں اسی صورت درست ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اس تکفیر پر اتفاق ہو جائے۔
باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کی طرح بے ڈھنگ و بے ھنگم اور انتقامی کاروایئ کے طور پرنہیں بلکہ دلائل،قوائد و ظوابط اور اصولوں میں تفقہ کے التزام کے بعد! آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔
آج ایسا تفقہ، خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟
باقی رہی قرآن وسنت کی نصوص، تو ان میں کسی متعین شخص یا جماعت کی تکفیر نہیں کی گئی ہے بلکہ ان میں اطلاق ہے اور ان نصوص کی تطبیق (application) کر کے ہی کسی شخص یا جماعت کی تکفیر ممکن ہے اور قرآن وسنت کی نصوص کاتطبیق کا نام ہی' اجتہاد' ہے اور اجتہاد سے حاصل شدہ علم ظنی ہوتا ہے الا یہ کہ اس اجتہاد پر اجماع ہو جائے۔ آج اگر کوئی علم وفضل اور تقوی وللہیت میں ان جیسا ہے تو اسے تکفیر کر لینی چاہیے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس مسلمان معاشرے میں اصلاح باطن ، تزکیہ نفس، دعوت الی اللہ اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا کام نبوی اخلاص،جذبے،منہج، ایثار وقربانی اور محنت و مشقت کے ساتھ ہو رہا ہو اس معاشرے میں تکفیر کی کبھی سوچ اور خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔
آخر میں اس بات پر خاتمہ کرتا ہوں،
حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا:

ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔
میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔
یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین !
وما توفیقی الا با للہ
 
شمولیت
اگست 16، 2011
پیغامات
58
ری ایکشن اسکور
317
پوائنٹ
0
تکفیر کے حکم اللہ ہونے کے بارے میں آپ الجھن کا شکار ہیں

مخصوص، استثنائی اور ناگزیر حالات میں تکفیر ایک شرعی حکم ہے لیکن عام حالات میں تکفیر کی عمومی تحریکیں چلانا ایک تخریبی عمل ہے نہ کہ تعمیری۔ بلاشبہ 'نقض توحید(فعل) کفر وشرک ہے' لیکن ہر ناقض توحید(فاعل) کو کافر ومشرک حقیقی قراردینا، دین سے خارج کر دینا، دین اسلام کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید اسماء وصفات کے ناقض معتزلہ، اشاعرہ یعنی شافعیہ اور مالکیہ، ماتریدیہ یعنی حنفیہ کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید الوہیت کے ناقض بریلوی اور وحدت الوجود کے قائل صوفیااور ان کے سلاسل اربعہ ، دیوبندی مکتبہ فکر میں وحدت الوجود کے قائل دیوبندی علماء کافر قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا توسلفیہ کے نزدیک توحید حاکمیت کے ناقض مسلمان حکمران، ان کی اسمبلیاں، ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام، ان کی عدالتیں اور ان عدالتوں میں مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا، ان وکلا کو تعلیم دینے والے کالجز اور یونیورسٹیاں، ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبااور تعلیم دینے والے اساتذہ، ان عدالتوں سے فیصلہ کروانے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' کے تحت کافر قرار پاتے ہیں۔ اگر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہے تو سلفیہ کے نزدیک 'اتخذوا أحبارھم ورھبانھم أربابا من دون اللہ' کے تحت توحید ربوبیت کے ناقض مقلدین یعنی حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے ہیں۔بس اگر یہی قاعدہ ہے کہ ہر ناقض توحید مخرج عن الملۃ ہے تو بتائیے بچا کوئی مسلمان زمین پر ۔؟؟؟ نقض توحید کا قاعدہ تو بعد کی بات ہے لوگوں کو اگر کافر بنانا ہی مقصود ہے تو 'تارک صلوة' کے کافر حقیقی ہونے کے بارے کبار سعودی سلفی علماء کا فتوی ہی کافی ہے۔ ٩٨ فی صد عوام بے نماز ہونے کی وجہ سے ویسے ہی کافر ہو جائے گی لہذا لوگوں کو کافر بنانے کے لیے کسی توحید حاکمیت وغیرہ کے اصول کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ علمی دیانت کاتقاضا یہ ہے کہ جو سلفی توحید حاکمیت کی بنا پر حکمرانوں کی تکفیر کے قائل ہیں انہیں تکفیر کی ان تمام صورتوں میں یکساں طور پر تکفیر کا حکم لگانا چاہیے اور حکمرانوں کے ساتھ عوام اور مقلدین کی بھی تکفیر کرنی چاہیے اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی طرح ان بریلویوں، دیوبندیوں، مقلدوں، وجودیوں، صوفیوں، اشاعرة ، ماتریدیہ اور طاغوتوں کو مباح الدم قرار دیتے ہوئے ان سب سے قتال کرنا چاہے تاکہ ان کی اپنے نظریہ توحید میں صداقت واضح ہو سکے۔ اور غور کریں تو 'جماعة المسلمین' نے یہی تو کام کیا ہے اور آج یہی'جماعت المسلین' چار دھڑوں میں بٹ گئی ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکفیر کر رہاہے۔ یہی حال اس وقت عالم عرب اور یورپ میں سلفیہ کا بھی ہے اور پاکستان میں بھی انکی پیدائش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔توحید حاکمیت کی بنیاد پر حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے مسئلے میں یہ سلفی گروپس دوسرے سلفی لوگوں اور علماء کی بھی تکفیر کر رہے ہیں جو انکے موقف کے قائل نہیں۔۔ اور بڑے بڑے سلفی محققین ما شاء اللہ تکفیر کی یہ دینی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزار رحمہ اللہ نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ١٤ صدیوں میں ہم نے اتنے مسلمان نہیں بنائے جتنے اس ایک صدی میں کافر بنا دیے ہیں۔یہ وصف ہمارے لیے فخر کا باعث ہے یا ندامت وشرمندگی کا؟ اس کا فیصلہ ہم میں سے ہر ایک نے خود کرنا ہے۔ یعنی اللہ تعالی مجھ سے قیامت کے دن یہ سوال کرے کہ میرے بندے دنیا میں میرے دین کی کیا خدمت کی ہے؟ تو میں جواب دوں:یا اللہ! تیرے اتنے بندوں کو کافر بنا کے آیا ہے!!! ہمارے خیال میں فی زمانہ تکفیر سے زیادہ معاشرے کی اصلاح کے لیے دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہے جبکہ حکمرانوں کے ظلم وستم کے خلاف پرامن آئینی، قانونی، تحریکی اور احتجاجی جدوجہد (کلمہ حق کہنے )کی ضرورت ہے۔علاوہ ازیں اس دعوت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی میں ظلم کو ظلم ،فسق کو فسق، کفر کو کفر اور شرک کو شرک ہر حال میں کہنا چاہیے اور اس پر کوئی مداہنت نہ ہو۔ اسی طرح اپنی دعوت میں زور اور تاکید پیدا کرنے کے لیے کفر اور شرک کے مرتکبین کو مجازاً کافر اور مشرک کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ ہم کسی کو اپنی زبان میں 'بے ایمان' کہہ دیتے ہیں حالانکہ 'بے ایمان' کہنے سے ہماری مراد اس کی تکفیر ہر گز نہیں ہوتی ہے۔ جہاں تک ایسی تکفیر کا معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی مخصوص مسلمان فرد گروہ یا جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا مقصود ہو توایسی تکفیر راقم کی رائے میں اسی صورت درست ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اس تکفیر پر اتفاق ہو جائے۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے لیکن آج کی طرح بے ڈھنگ و بے ھنگم اور انتقامی کاروایئ کے طور پرنہیں بلکہ دلائل،قوائد و ظوابط اور اصولوں میں تفقہ کے التزام کے بعد! آج کس کے پاس ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسا علم وبصیرت یافہم وفقاہت یا تقوی وتدین یا حکمت وفراست ہے؟ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تکفیر بھی کوئی عمومی تکفیر نہیں تھی بلکہ انہوں نے بھی اصلاً کفریہ وشرکیہ افکار ونظریات کا کفر وشرک واضح کیا ہے اور اس کی وضاحت میں چند ایک افراد پر فتوی بھی لگا دیا۔اہل سنت کے اس امام کے بارے ان کے سلفی متبعین میں سے بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ کسی آیت مبارکہ کی تفسیر یا اہم رائے کے اظہار سے پہلے سینکڑوں کتب کا مطالعہ کرتے تھے اور اگرپھر بھی دل مطمئن نہ ہوتا تو صرف اسی پر اکتفا نہیں بلکہ دمشق کی ویران مساجد کی مٹی میں اپنے گالوں کو رلا دیتے تھے۔ فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سورة فاتحہ کی تکرار کے ذریعے صراط مستقیم کے طلب گار رہتے ۔ یاحی یا قیوم کہنے پر ان کی روح وجد میں آ جاتی اور اپنی جنت اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔ آج ایسا تفقہ، خوف خدا یا تقوی وتدین کس مفتی کے پاس ہے؟ باقی رہی قرآن وسنت کی نصوص، تو ان میں کسی متعین شخص یا جماعت کی تکفیر نہیں کی گئی ہے بلکہ ان میں اطلاق ہے اور ان نصوص کی تطبیق (application) کر کے ہی کسی شخص یا جماعت کی تکفیر ممکن ہے اور قرآن وسنت کی نصوص کاتطبیق کا نام ہی' اجتہاد' ہے اور اجتہاد سے حاصل شدہ علم ظنی ہوتا ہے الا یہ کہ اس اجتہاد پر اجماع ہو جائے۔ آج اگر کوئی علم وفضل اور تقوی وللہیت میں ان جیسا ہے تو اسے تکفیر کر لینی چاہیے۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جس مسلمان معاشرے میں اصلاح باطن ، تزکیہ نفس، دعوت الی اللہ اورامربالمعروف ونہی عن المنکرکا کام نبوی اخلاص،جذبے،منہج، ایثار وقربانی اور محنت و مشقت کے ساتھ ہو رہا ہو اس معاشرے میں تکفیر کی کبھی سوچ اور خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔ آخر میں اس بات پر خاتمہ کرتا ہوں، حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا تھا: ان أریدا لا الاصلاح ما استطعت۔ میرا مقصود صرف اور اصلاح ہے جس قدر میں اس کی استطاعت رکھتا ہوں۔ یا اللہ!مجھے اور ہم سب کو صراط مستقیم دکھا اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرما۔آمین ! وما توفیقی الا با للہ
ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ:
تکفیر ایک شرعی حکم ہے
دوسری طرف آپ یہ۰ کہتے ہیں کہ :
بلاشبہ 'نقض توحید(فعل) کفر وشرک ہے' لیکن ہر ناقض توحید(فاعل) کو کافر ومشرک حقیقی قراردینا، دین سے خارج کر دینا، دین اسلام کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ومشرک حقیقی ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید اسماء وصفات کے ناقض معتزلہ، اشاعرہ یعنی شافعیہ اور مالکیہ، ماتریدیہ یعنی حنفیہ کافر ومشرک حقیقی قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا تو سلفیہ کے نزدیک توحید الوہیت کے ناقض بریلوی اور وحدت الوجود کے قائل صوفیااور ان کے سلاسل اربعہ ، دیوبندی مکتبہ فکر میں وحدت الوجود کے قائل دیوبندی علماء کافر قرار پاتے۔ اگر ہر ناقض توحید کافر ہوتا توسلفیہ کے نزدیک توحید حاکمیت کے ناقض مسلمان حکمران، ان کی اسمبلیاں، ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام، ان کی عدالتیں اور ان عدالتوں میں مقدمات کا دفاع کرنے والے وکلا، ان وکلا کو تعلیم دینے والے کالجز اور یونیورسٹیاں، ان کالجز اور یونیورسٹیوں میں لاء کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبااور تعلیم دینے والے اساتذہ، ان عدالتوں سے فیصلہ کروانے والے عوام بھی 'تحاکم الی الطاغوت' کے تحت کافر قرار پاتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ناقض توحید کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں ۔ یہ عجیب تضاد ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ :
جہاں تک ایسی تکفیر کا معاملہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی مخصوص مسلمان فرد گروہ یا جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا مقصود ہو توایسی تکفیر راقم کی رائے میں اسی صورت درست ہے جبکہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کا اس تکفیر پر اتفاق ہو جائے۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تکفیر کی ہے
آپ کی تحریر سے ظاہر ہوتا ھے کہ آپ اس مسئلے میں تضاد کا شکار ہیں ۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں تکفیر شرعی حکم ہے ۔ پھر دوسری طرف آپ اپنے پوسٹ کی ہیڈنگ اس طرح قائم کرتے ہیں :فتنہ تکفیر اور منہج اعتدال ۔ جب تکفیر شرعی حکم ہوا تو وہ فتنہ کیسے ہوگیا؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ اس مسئلے میں الجھن کا شکار ہیں اور مضامین کی کاپی اور پیسٹنگ میں مصروف ہیں ۔ میری رائے ہے کہ آپ اس مسئلے میں تحقیق سے کام لیں ۔ مزید براں کسی عالم دین کی توہین کرنا علمیت کی نشان دہی نہیں کرتی ۔ میرے خیال میں ابوبصیر ایک بہترین سلفی عالم ہیں ۔ آپ کا تبصرہ ان کے بارے میں ان کی توہین کی طرف جاتا ہے ۔
 

اہل سلف

مبتدی
شمولیت
جولائی 04، 2011
پیغامات
33
ری ایکشن اسکور
143
پوائنٹ
0
ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ: دوسری طرف آپ یہ۰ کہتے ہیں کہ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ناقض توحید کی تکفیر کے قائل نہیں ہیں ۔ یہ عجیب تضاد ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ : آپ کی تحریر سے ظاہر ہوتا ھے کہ آپ اس مسئلے میں تضاد کا شکار ہیں ۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں تکفیر شرعی حکم ہے ۔ پھر دوسری طرف آپ اپنے پوسٹ کی ہیڈنگ اس طرح قائم کرتے ہیں :فتنہ تکفیر اور منہج اعتدال ۔ جب تکفیر شرعی حکم ہوا تو وہ فتنہ کیسے ہوگیا؟ لہٰذا ثابت ہوا کہ آپ اس مسئلے میں الجھن کا شکار ہیں اور مضامین کی کاپی اور پیسٹنگ میں مصروف ہیں ۔
محترم کسی بھی شرعی مسئلے میں افراط و تفریط کرنا اس کو فتنہ بنا دیتا ہے۔۔۔ تکفیر ایک شرعی مسئلہ ہے لیکن اس کے لئے منہج اعتدال سلف نے قائم کردیا آج کل کے نام نہاد کفار کی گود میں بیٹھ کر فتوے لکھنے والے علماء کا یہ کام نہیں ہے۔۔۔۔ جس تکفیر کا آپ نے علم اٹھایا ہے اور آپ جس کے علمبردار ہیں اس تکفیر کو فتنہ ہی کہا جائے گا۔۔۔ اس کی مثال اسی طرح ہیں کہ شریعت کا نفاذ مسلمانوں کے معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے لیکن جس طرح لال مسجد والوں نے شریعت کے نفاذ کے نام پر ڈرامہ رچایا۔۔۔ اور اس نازک ترین کام کو فتنہ بنادیا اور اسلام کا ناقابل تلافی نقصان کیا اور ہر دفعہ خود ذیادتی کرنے کے بعد آخر میں مظلوم بن کر آج بحریہ ٹاوٴن اسلام آباد میں بیٹھ گئے۔۔۔۔۔
مزید براں کسی عالم دین کی توہین کرنا علمیت کی نشان دہی نہیں کرتی ۔ میرے خیال میں ابوبصیر ایک بہترین سلفی عالم ہیں ۔ آپ کا تبصرہ ان کے بارے میں ان کی توہین کی طرف جاتا ہے ۔
ابو بصیر الطرطوسی صاحب کی میں نے کوئی توہین نہیں کی صرف یہ سوال اٹھایا ہے کیا جن کو آپ بہترین سلفی عالم قرار دے رہے ہیں وہ گزشتہ کئی سالوں سے لندن میں بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں۔۔۔ اس سوال کا جواب مطلوب ہے۔۔ کتمان حق سے پرہیز کرتے ہوئے زرا اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیں۔۔ شرمائیں نہ۔۔۔
 
Top