لوگو ! میں اپنے آپ کو اور آپ سب کو اللہ عز و جل کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت و تاکید کرتا ھوں ۔ اللہ آپ پر رحم فرماۓ ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو کیونکہ یہ تقوی ایک ڈھال ہے جس سے بچاؤ کرنے والے اپنا بچاؤ کرتے ہیں ۔ اور اللہ کا خوف و خشیت ایک مضبوط آہنی کنڈا ہے جسے پکڑنے والے تھامتے ہیں اور فرائض کی ادائيگی اور حرام اشیاء و امور سے اجتناب کرنے کا وہ اعلی وسیلہ ہے جسے تلاش کرنے والے لۓ لوگ اپنے لۓ وسیلہ بناتے ہیں ۔
مقاصد شریعت :
مسلمانو ! جو شخص عبادات و معاملات ، آداب و اخلاق اور اوامر و نواہی میں پاۓ جانے والے مقاصد شریعت پر غور و فکر کرے ۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑا مقصد اور ایک بلند علم یہ آتا ہے کہ ان سے مقصد باھمی اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ، دلوں میں محبت کی تخم ریزی کرنا ، الفتوں کے بیج بونا ، افراد امت میں پیار و محبت کو پھیلانا ، باھمی مدد و نصرت پر آمادہ کرنا ، عداوت و دشمنی کے اسباب سے دور رہنا ، نفرت پر اکسانے والے جذبات سے بچانا اور دلوں میں حقد و بغض اور میل پیدا کرنے سے دور ہٹانا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان عبادات وغیرہ کے مقاصد میں سے ہی ایک اھم مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنے ، انھیں عیب دینے ، اشاروں کنایوں کے ذریعے ان کی ذلت و سبکی کرنے اور ان کے بھیدوں کو آشکارا کرنے ، رازوں کو افشاء کرنے ، ان کی پوشیدہ کوتاہیوں کو ٹٹولنے اور ننگا کرنے ، ان سے بدظنی رکھنے اور انھیں بدعت ، کفر ، نفاق ، فسق و ظلم اور جہالت جیسے بہتان لگانے سے سختی کے ساتھ خبردار کرنا ہے ۔
اتحاد کی برکات :
مسلمانو ! مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اللہ کی شریعت کو قائم و نافذ کرنے ، اسلام کے شعائر اور شعار کا اظہار کرنے ، بر و تقوی کے کام میں باھمی تعاون کرنے ، نیکیوں کا حکم دینے ، برائیوں سے روکنے اور ہر مسلمان کے ساتھ مشفقانہ خیر و خواہی کرنے کا وسیلہ و ذریعہ ہے ۔ اور مسلمانوں میں اس وقت تک قوت پیدا نہیں ھو سکتی ، نہ ان کی بات کا اثر و نفوذ ھو سکتا ہے اور نہ ہی ان کا دفاع مضبوط ھو سکتا ہے جب تک کہ ان میں باھمی مدد و نصرت اور تعاون نہ ھو ۔
ملت کفر کا چھپٹ پڑنا :
برادران اسلام ! نیرنگی زمان ، فتنوں کی گمراہیاں ، دشمنوں کا باھمی گٹھ جوڑ اور غیر مسلم قوموں کا بھوکوں کے کھانے پر چھپٹ پڑنے کا موجودہ انداز اپنے بھائیوں کے خیرخواہ اور اپنی امت کے تمام غیور مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ دانستہ یا نا دانستہ دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا اور آلۂ کار نہ بنیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو گالیاں نہ دیں ، کسی کی تحقیر و تذلیل نہ کریں ، کسی میں عیب و نقص نہ نکالیں ، کس کو بدعتی اور کسی کو کافر قرار نہ دیں اور اس حد کو نہ جا لیں کہ شائد کوئی کافر تو اس کی بدزبان سے بچ جاۓ مگر مسلمان کوئی نہ بچنے پاۓ ۔
فتنۂ تکفیر :
اللہ کے بندو ! اللہ آپ کی حفاظت فرماۓ آج ھم ایک خطرناک فتنے کی طرف توجہ دلانے کے لۓ آپ کو دعوت دینے جا رہے ہیں جس فتنے نے بعض ملکوں اور جماعتوں میں سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ تمام اھل علم و ایمان اھل فضل و صلاح ، اھل دین اور غیرت مند مسلمانوں کے لے لازمی ہے کہ وہ اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور دوسروں کو اس سے خبردار کریں ، اور خود بھی اس سے بچ کر رہیں ۔
سلف صالحین امت نے اس فتنے سے خبردار کیا ، اس کے خطرات و نقصانات کو واضح کیا اور یہ فتنہ ہے ” مسئلہ تکفیر ” یعنی ایک مسلمان کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر قرار دینا ۔ کسی مسلمان کے بارے میں ظالمانہ فتوی صادر کر دینا کہ وہ ملت اسلام سے خارج ھو گیا ہے اور اسے اھل کفر و شرک میں سے شمار کرنا اور پورے جزم کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ قطعی جہنمی ہے جس میں وہ ھمیشہ رہے گا ۔
۔۔ عیاذ باللہ و لا حول و لا قوﺓ الا باللہ العلی العظیم ۔۔
مسئلہ تکفیر بہت بڑے مسائل اور عظیم قضایا میں سے ہے اور اس کے بہت برے اثرات رونما ھوتے ہیں ۔ لھذا کسی مسلمان کے لۓ یہ حلال و روا نہیں کہ وہ اس فعل تکفیر کا ارتکاب کرے سواۓ اس کے کہ اس کے پاس اللہ کی کتاب سے کوئی دلیل وہ ھو جو دلالت میں دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ روشن و واضح ھو ۔ علماء سلف اور علماء خلف سبھی نے اس مسئلے کی خطرناکی پر متنبہ کیا ہے ۔
اور اسکے کیا کیا اثرات مرتب ھوتے ہیں اور دنیا و آخرت میں اس کے کیا کیا نتائج نکلتے ہیں ان سب چیزوں کو اہل علم نے خوب بیان کیا ہے ۔
(1) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة الله عليه :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
” یہ بات بخوبی ذھن نشین کر لیں کہ مسائل تکفیر و تفسیق ، ان مسائل اسماء و احکام میں سے ہیں جن سے دارآخرت میں وعدہ و وعید کا تعلق ہے اور انہی مسائل سے کسی سے محبت و عداوت کا تعلق ہے ایسے ہی انہی سے کسی کے قتل یا اس کے خون کے معصوم و حرمت والا ھونے کا بھی واسطہ ہے اور اس دنیا کے کئي دیگر معاملات کا بھی انہی سے علاقہ ہے ۔
اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ جنت واجب کی ہے اور کافروں کے لۓ جنت حرام قرار دی ہے اور یہ کلی احکام ہر وقت اور ہر جگہ کے لۓ یکساں ہیں ۔
(2) امام ابن الوزیر رحمة الله عليه :
مسلمانوں کی جماعتوں اور اسلام کی طرف منسوب علماء کے گروھوں کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دینے اور انھیں کافر سمجھنے میں اور انھیں اسلام میں داخل ماننے ، ان کے ذریعے اسلام کی مدد و نصرت کرنے ، ان کے تعاون سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانے اور انکے دست و باز کو مضبوط کرنے اور اسلام کو تقویت دینے میں کتنا فرق ہے ۔ انھیں کافر قرار دینے کی کوشش کرنا حلال و جائز نہیں اور وہ بھی ان دلائل سے جو کہ دوسرے ان دلائل سے معارض و مخالف ہیں جو کہ ان سے زیادہ قوی یا کم از کم انہی کے درجہ کے ہیں اور ان دلائل سے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کو بھی مدد ملتی ہے ، وہ اسلام کی تقویت کا باعث بھی ہیں ، ان کی بدولت خونریزی کا خاتمہ ھوتا ہے اور فتنوں کی آنچ دھیمی پڑتی ہے ۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
[ خارجیوں کو سخت سزائیں دی گئيں اور ان کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ انھوں نے گناہگاروں مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا تھا ۔ خود دوسروں کو کافر قرار دینے والے بھی کسی ایسے فعل کا ارتکاب کر سکتے ہیں جس فعل پر وہ دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دین میں انتہائی خطرناک اقدام ہے لھذا اس سے سخت پرہیز کرنا چاہیۓ ۔
(3)شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب رحمة الله عليہ:
شیخ الاسلام امام الدعوﺓ کے بیٹے شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں :
" مختصر یہ کہ جو شخص اپنے نفس کا خیر خواہ ھو اسے چاہیۓ کہ وہ اللہ کی طرف سے علم و برھان کے بغیر اس مسئلہ پر زبان نہ کھولے اور کسی مسلمان کو محض اپنے فہم اور عقلی استحسان کی بناء پر اسلام سے خارج نہ کر دے ۔ کسی کو اسلام سے خارج کر دینا امور دین میں سے ایک بہت بڑا اقدام ہے " ۔
(3) امام شوکانی رحمة الله عليه :
امام شوکانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
" یہ بات ذھن میں بٹھا لیں کہ کسی مسلمان آدمی کے بارے میں یہ حکم و فتوی صادر کر دینا کہ وہ دین اسلام سے خارج اور کفر میں داخل ھو چکا ہے ۔ یہ بات کسی بھی اللہ پر ایمان رکھنے اور روز قیامت پر یقین والے شخص کے لۓ روا نہیں سواۓ اس کے کہ اس بات پر دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ واضح روشن دلیل و برھان قائم ھو جاۓ ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
[ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے کہا : اے کافر ! تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اسی نام کا مستحق ھو جاۓ گا ] ۔ جبکہ ایک دوسری روایت میں یوں ہے :
[جس نے کسی مسلمان کو کفر کے ساتھ مخاطب کیا اسے کہا : اے اللہ کے دشمن اور وہ ایسا نہ ھوا تو یہ نام خود کہنے والے پر لوٹ آئیں گے ] ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
[ جس نے کسی مومن کو کافر قرار دیا ، اس نے اسے گویا قتل کر دیا ] ۔
(4) امام ابن دقیق العید رحمة الله عليه :
مذکورہ احادیث کی تشریح بیان کرتے ھوۓ امام ابن دقیق العید کہتے ہیں :
” کسی مسلمان کو کافر قرار دینے والے کے لۓ یہ بڑی سخت وعید ہے جبکہ وہ ایسا نہ ھو ” ۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں :
” یہ ایسی دلدل ہے کہ علماء کرام کی بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ھو چکی ہے ۔ انھوں نے عقائد میں باھم اختلاف کیا اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے دیا ” ۔
تکفیر : حق الہی :
مسلمانو ! کسی کو کافر قرار دینا یا کسی کا کافر ھونا ایک شرعی حکم و امر ہے ۔ کافر وہ ہے جسے اللہ تعالی یا اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافر قرار دیں ۔ کافر قرار دینا کسی دوسرے کا حق نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ تعالی کا حق ہے ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ھوۓ شیخ الاسلام امام ابن تیمییہ رحمة الله عليه لکھتے ہیں :
” یہی وجہ ہے کہ اھل علم اور اھل سنت اپنے مخالف کو کافر نہیں کہا کرتے تھے اگر چہ وہ مخالف انھیں کافر قرار دیا کرتا تھا ۔ اپنے مخالف کا انہی کلمات میں رد کرے یا بدلہ لے جیسے اگر آپ پر کوئی جھوٹ بولے تو بدلہ میں آپ اس پر جھوٹ نہیں بولیں گے ۔ کیونکہ جھوٹ اللہ کی طرف سے حرام ہے ، اسی طرح ہی تکفیر بھی اللہ کا حق ہے لھذا ایسے کسی شخص کو کافر نہیں قرار دیا جاۓ گا جسے اللہ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافر قرار نہ دیا ھو ۔ اور آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
” دین سے نکل جانے والے خوارج جن سے جنگ کرنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ و تابعین میں سے دوسرے آئمہ دین نے ان سے جنگ کی اور ان خوارج کی گمراہی کتاب و سنت سے ثابت ھو چکی ہے لیکن اس کے باوجود آئمہ میں سے کسی نے انھیں کافر قرار نہیں دیا البتہ ان سے جنگ کی گئي جو کہ ان کے باغیانہ رویہ اور سرکشی کی وجہ سے تھی ۔ لھذا ایسے گروہ یا جماعتیں جنھوں نے باھم اختلاف کیا اور بعض مسائل میں ان پر حق مخفی و مشتبہ رہ گیا اور ان سے بھی بڑے اھل علم گروہ نے اس میں غلطی کی ۔ ایسے میں کسی جماعت کو حق نہیں کہ وہ دوسرے گروہ کو کافر کہے اور نہ ہی اس کا مال یا جان حلال سمجھے ۔
اس سے آگے جا کر وہ تحریر فرماتے ہیں :
” جہمیہ کو کافر قرار دینا سلف صالحین امت کے نزدیک معروف ہے لیکن وہ انھیں نام بنام کافر قرار نہیں دیا کرتے تھے بلکہ جو شخص کسی بات کی طرف دعوت دیتا ہے وہ اس شخص سےبڑھ کر ھوتا ہے جو اس کا قائل ہے اور جو شخص مخالف کا رد کرتا اور اسے سزا دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ھوتا ہے جو کہ اس کی طرف محض دعوت دیتا ہے ۔اور جو شخص اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے جو کہ اسے محض سزا دیتا اور اس کا رد کرتا ہے ۔ اور اس سب کچھ کے باوجود بعض حکمران جو کہ جہمیہ کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے اور یہ نظریہ رکھتے تھے کہ :
” آخر میں بھی اللہ کا دیدار نہ ھو گا ” ۔ اور لوگوں کو اس بات کا اقرار کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔ انھیں آزمائش و امتحان میں ڈالتے اور اگر کوئي اس بات کو قبول نہ کرتا تو انھیں سزائيں دیتے تھے اور جو ان کی بات نہ مانتا اسے وہ کافر بھی قرار دیا کرتے تھے ۔اس سب کچھ کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے ان کے لۓ رحم کی دعائيں کیں اور ان کے لۓ اللہ سے مغفرت و بخشش طلب کی اور یہ اس لۓ کہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب نہیں کی بلکہ انھوں نے تاویل کی مگر اس میں غلطی کر گۓ اور ایسا کہنے والوں کی تقلید میں لگ گۓ ” ۔
بلکہ شیخ الاسلام نے تو اس سے آگے چل کر یہ بھی فرمایا ہے :
” امام احمدبن حنبل رحمة الله عليه نے جہمیوں کےپیچھے نمازیں بھی پڑھیں جبکہ انھوں نے لوگوں کو اپنے نظریات کی طرف دعوت دی ۔ لوگوں کو امتحان میں مبتلا کیا اور جن لوگوں نے ان کی موافقت نہ کی انھیں سخت سزائيں دیں ۔ امام احمد اور ان جیسے دیگر اساطین علم نے انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔ بلکہ وہ انھیں اھل ایمان سمجھتے ، ان کی امامت کا اعتراف کرتے ، ان کے لۓ دعائيں کرتے اور ان کا اہتمام کرنا مناسب سمجھتے تھے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ، ان کے ساتھ حج کرنے اور ان کے پہلو بہ پہلو جہاد کرنے کو ضروری سمجھتے تھے اور ان کی حکومت کی بغاوت کرنے کو ناجائز سمجھتے اور اس سے منع کیا کرتے تھے ۔ وہ اور دیگر آئمہ دین ان جہمیوں کے اقوال باطل کا انکار کرتے تھے جو کہ کفر عظیم پر مبنی تھے ۔ اگر چہ وہ لوگ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کے وہ اقوال انہتائی کفریہ ہیں ۔ امام صاحب ان کا انکار کرتے اور انھیں رد کرنے کے لۓ حسب استطاعت کوشش کرتے تھے اور اس طرح وہ اظہار حق اور غلبۂ دین و سنت کے لۓ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور ملحد جہمیوں کی پیدا کردہ بدعات کے انکار و رد اور افراد امت و آئمہ مؤمنین کے حقوق کا خیال رکھنے جیسی تمام صفات کو یکجا کر لیتے تھے اگر چہ کہ وہ جہمیہ جاھل ، اھل بدعت ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے ” ۔
مسلمانو ! صورت احوال جب ایسی ہے تو اس بات کا علم ھونا چاہیۓ کہ ایمان و کفر کا مقام دل ہے اور دلوں کے بھیدوں کی اطلاع اللہ کے سوا کسی کو نہیں ھوتی ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
” جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے ، وہ نہیں جو ( کفر پر زبردستی ) مجبور کیا جاۓ اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ھو بلکہ و ہ ( دل سے اور ) دل کھول کر کفر کرے ۔ تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور انکو بڑا سخت عذاب ھو گا ] ۔ ( النحل : ؟؟ )
اصل کفر اور غیر ارادی کفریہ کلمات :
اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے ۔ کافر وہ ہے جس نے کفر کے لۓ اپنے دل کو کھول دیا ۔ لھذا کافر ھونے کے لۓ کفر پر شرح صدر اور دل کا اطمینان ضروری ہے اور یہ کہ اس کا دل اس پر خوب پر سکون ھو ۔ لھذا شرعی عقائد میں واقع ھونے والے محض اضطرابات اور بے قراری کی کیفیت کا اعتبار نہیں ھوتا ۔ خصوصا جب ایسی اضطراری کیفیت لاعلمی پر مبنی ھو اور اہل اسلام کی مخالفت کا پورے جزم سے جزبہ بھی نہ رکھے ۔ اگر ایسے کسی شخص سے کوئی ایسی بات سرزد ھو جاۓ جس سے وہ شخص اسلام سے خروج و ملت کفر میں داخل ھونے کا ارادہ نہ رکھتا ھو تو ایسے کسی لفظ کا اعتبار نہ کیا جاۓ گا جو کسی مسلمان کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل جاۓ اور وہ لفظ کفر پر دلالت کرتا ھو مگر وہ اس کے معنی کا اعتقاد نہ رکھتا ھو ۔ اگر چہ یہ سارے امور ہی انتہائي قابل نکیر ، حرام اور ممنوع ہیں ۔ اور ایسے کسی بھی لفظ کو ادا کرنے والے شخص پر نکیر کرنی چاہیۓ اور اسے ایسے الفاظ سے خوب پرہیز کرنا چاہیۓ اور اس سلسلہ میں حق بات کی وصیت کرنی چاہیۓ لیکن اس شخص کے کافر ھو جانے کا حکم و فتوی اور جزم و یقین نہیں کرنا چاہیۓ ۔
لرزشیں :
مسلمانو ! مسئلہ تکفیر میں بڑوں بڑوں کے قدموں میں لرزش آ گئی ہے جو نہیں آنی چاہیۓ تھی ۔ بڑے بڑے اہل فہم و فراست بہک گۓ ہیں جنھیں کہ نہیں بہکنا چاہتے تھا ۔ زبانیں اور قلمیں بلاعلم و برہان ہی اس رو میں بہہ گۓ ہیں جبکہ اس معاملہ میں خوب احتیاط و پرہیز کی ضرورت اور انھیں ان امور سے بچانا ضروری ہے جس کا مقابلہ کوئي چیز نہیں کر سکتی ، اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیۓ کیونکہ تفریق ، نفرت اور نااتفاقی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شخص اپنی راۓ پر اڑ جاتا ہے ، ہر شخص صرف اپنے آپ کو ہی درجۂ کمال پر براجمان سمجھتا ہے ، ہر شخص اپنے ہی مذھب و مسلک کو پسند کرتا ہے اور وہ صرف اپنی ذات اور صرف اپنے اھل و عیال کے سلسلہ میں ہی غیرت کھانے لگتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ان کے مسلک کو بیکار جانتا ہے اور ان کی گرد غبار اڑاتا اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے ۔ ایسے میں دلوں میں نفرت بھر جاتی ہے اور ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی نوبت آ جاتی ہے اور دعوت الی اللہ کا کام کمزوری میں مبتلا ھو جاتا ہے ، اور علم کا فائدہ کم پڑ جاتا ہے اور دعوت و تبلیغ کی قبولیت ماند پڑ جاتی ہے ۔ دشمن زور کر جاتا ہے اور قسم ہے اللہ کی دشمن یہی ( تفرقہ و تنافر بین المسلمین ) ہی تو چاہتے ہیں ۔۔۔ فلا حول و لا قوﺓ الا باللہ ۔۔۔
ارشاد الہی ہے :
[ اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لۓ باھر ) نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ھو ، اور اس سے تمھاری غرض یہ ھو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اٹھاؤ ، سو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں ۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے ۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو ( آئندہ ) تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ھو اللہ کو سب کی خبر ہے ] ۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ۔ ۔ ۔ :
مسلمانو ! جب تکفیر کی خطرناکی ، اس کا ایک بہت بڑا اقدام ھونے اور قول تکفیر کے بہت ہی شدید ھونے کی بات طے کی جا رہی ھو تو اس کا یہ معنی بھی ہر گز نہیں ھوتا کہ مسائل کے سلسلہ میں تساہل و سستی کا مظاہرہ کیا جاۓ اور اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔۔ ارتداد کا دروازہ ہی بند کر دیا جاۓ ۔ اور جو شخص دلیل و برھان کے ساتھ کافر ثابت ھو جاۓ اس کے بھی ایمان دار ھونے کا فیصلہ صادر کر دیا جاۓ ۔ اور کفر کے لۓ جسے شرح صدر حاصل ھو اور سر کشی پر اترا ھوا ھو اسے بھی مومن ہی مانا جاۓ ۔ ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل مقصود اس مسئلے کی خطرناکی کو بیان کرنا اور اس کے ابواب میں گھسنے سے اور اس کا فتوی دینے کی جرٲت و جسارت سے گریز کیا جاۓ ۔ یہاں تک کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے :
” اگر آپ مر جائیں اور آپ نے فرعون کے بارے میں کوئي لفظ بھی نہ کہا ھو تو قیامت کے دن اللہ آپ کو اس بات پر نہیں پکڑے گا ” ۔ اللہ آپ پر رحم فرماۓ ۔۔۔
اہل علم کے نزدیک تکفیر بڑا ہی خطرناک مسئلہ ہے ۔ اس کی کئی شرطیں اور موانع ہیں جنھیں اہل علم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ھو سکتا ہے کہ ایک شخص کو وہ نصوص نہیں پہنچیں جو کہ حق کی معرفت حاصل کرنے کو واجب قرار دیتی ہیں ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ اس کے پاس وہ نصوص تو ھوں مگر وہ اس کے یہاں ثابت نہ ھوں یا وہ انھیں سمجھ نہ پایا ھو ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ وہ بعض شکوک و شبہات میں مبتلا ھو جن کی بناء پر اللہ اسے معذور قرار دے دے ۔
جو شخص اہل ایمان میں سے ھو اور طلب و تلاش حق کے لۓ اجتہاد و کوشش کرے مگر غلطی کر جاۓ تو اللہ اس کی وہ غلطی بخش دے گا وہ شخص چاہے کوئي بھی کیوں نہ ھو اور وہ مسئلہ نظری و اعتقادی ھو یا عملی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، جمہور آئمہ اسلام اور اہل علم کی یہی راۓ ہے ۔ وہ کبھی کسی کام کے کفر ھونے کا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ اس بات کا فیصلہ نہیں دیتے کہ جو بھی اس کام میں واقع ھو گیا وہ ملت اسلامیہ سے خارج ( کافر ) ھو گیا ہے ۔ کیونکہ اس کے کافر قرار دیۓ جانے کے لۓ شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی قابل قبول عذر ( سوء فہم ، غلط فہمی یا شبہ وغیرہ ) نہ ھو ۔
اللہ تعالی آپ پر رحم فرماۓ ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنی زبانوں کو کنڑول میں رکھو ۔ شیطان تمھیں کسی کی دشمنی پر آمادہ نہ کر دے اور تم حق پر متحد و متفق رھو ، ارشاد الہی ہے :
” اور نیکی و پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ، اور گناہ و ظلم کی باتوں میں باھم مدد و تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رھو ، بیشک اللہ بڑے سخت عذاب والا ہے ” ۔
( المائدہ : 3) و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین
سبحان ربك رب العزﺓ عما یصفون و سلام علی المرسلین
و الحمد للہ رب العالمین
بتاریخ 22/ 7 / 1424 ھ 19 / 9/ 2003 ء
مقاصد شریعت :
مسلمانو ! جو شخص عبادات و معاملات ، آداب و اخلاق اور اوامر و نواہی میں پاۓ جانے والے مقاصد شریعت پر غور و فکر کرے ۔ اس کے سامنے ایک بہت بڑا مقصد اور ایک بلند علم یہ آتا ہے کہ ان سے مقصد باھمی اتحاد و اتفاق پیدا کرنا ، دلوں میں محبت کی تخم ریزی کرنا ، الفتوں کے بیج بونا ، افراد امت میں پیار و محبت کو پھیلانا ، باھمی مدد و نصرت پر آمادہ کرنا ، عداوت و دشمنی کے اسباب سے دور رہنا ، نفرت پر اکسانے والے جذبات سے بچانا اور دلوں میں حقد و بغض اور میل پیدا کرنے سے دور ہٹانا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ان عبادات وغیرہ کے مقاصد میں سے ہی ایک اھم مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے پر طعن و تشنیع کرنے ، انھیں عیب دینے ، اشاروں کنایوں کے ذریعے ان کی ذلت و سبکی کرنے اور ان کے بھیدوں کو آشکارا کرنے ، رازوں کو افشاء کرنے ، ان کی پوشیدہ کوتاہیوں کو ٹٹولنے اور ننگا کرنے ، ان سے بدظنی رکھنے اور انھیں بدعت ، کفر ، نفاق ، فسق و ظلم اور جہالت جیسے بہتان لگانے سے سختی کے ساتھ خبردار کرنا ہے ۔
اتحاد کی برکات :
مسلمانو ! مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اللہ کی شریعت کو قائم و نافذ کرنے ، اسلام کے شعائر اور شعار کا اظہار کرنے ، بر و تقوی کے کام میں باھمی تعاون کرنے ، نیکیوں کا حکم دینے ، برائیوں سے روکنے اور ہر مسلمان کے ساتھ مشفقانہ خیر و خواہی کرنے کا وسیلہ و ذریعہ ہے ۔ اور مسلمانوں میں اس وقت تک قوت پیدا نہیں ھو سکتی ، نہ ان کی بات کا اثر و نفوذ ھو سکتا ہے اور نہ ہی ان کا دفاع مضبوط ھو سکتا ہے جب تک کہ ان میں باھمی مدد و نصرت اور تعاون نہ ھو ۔
ملت کفر کا چھپٹ پڑنا :
برادران اسلام ! نیرنگی زمان ، فتنوں کی گمراہیاں ، دشمنوں کا باھمی گٹھ جوڑ اور غیر مسلم قوموں کا بھوکوں کے کھانے پر چھپٹ پڑنے کا موجودہ انداز اپنے بھائیوں کے خیرخواہ اور اپنی امت کے تمام غیور مسلمانوں کو اس بات کی دعوت دے رہا ہے کہ وہ دانستہ یا نا دانستہ دشمنوں کے ہاتھوں کا کھلونا اور آلۂ کار نہ بنیں اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو گالیاں نہ دیں ، کسی کی تحقیر و تذلیل نہ کریں ، کسی میں عیب و نقص نہ نکالیں ، کس کو بدعتی اور کسی کو کافر قرار نہ دیں اور اس حد کو نہ جا لیں کہ شائد کوئی کافر تو اس کی بدزبان سے بچ جاۓ مگر مسلمان کوئی نہ بچنے پاۓ ۔
فتنۂ تکفیر :
اللہ کے بندو ! اللہ آپ کی حفاظت فرماۓ آج ھم ایک خطرناک فتنے کی طرف توجہ دلانے کے لۓ آپ کو دعوت دینے جا رہے ہیں جس فتنے نے بعض ملکوں اور جماعتوں میں سر اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ تمام اھل علم و ایمان اھل فضل و صلاح ، اھل دین اور غیرت مند مسلمانوں کے لے لازمی ہے کہ وہ اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور دوسروں کو اس سے خبردار کریں ، اور خود بھی اس سے بچ کر رہیں ۔
سلف صالحین امت نے اس فتنے سے خبردار کیا ، اس کے خطرات و نقصانات کو واضح کیا اور یہ فتنہ ہے ” مسئلہ تکفیر ” یعنی ایک مسلمان کا اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر قرار دینا ۔ کسی مسلمان کے بارے میں ظالمانہ فتوی صادر کر دینا کہ وہ ملت اسلام سے خارج ھو گیا ہے اور اسے اھل کفر و شرک میں سے شمار کرنا اور پورے جزم کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ قطعی جہنمی ہے جس میں وہ ھمیشہ رہے گا ۔
۔۔ عیاذ باللہ و لا حول و لا قوﺓ الا باللہ العلی العظیم ۔۔
مسئلہ تکفیر بہت بڑے مسائل اور عظیم قضایا میں سے ہے اور اس کے بہت برے اثرات رونما ھوتے ہیں ۔ لھذا کسی مسلمان کے لۓ یہ حلال و روا نہیں کہ وہ اس فعل تکفیر کا ارتکاب کرے سواۓ اس کے کہ اس کے پاس اللہ کی کتاب سے کوئی دلیل وہ ھو جو دلالت میں دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ روشن و واضح ھو ۔ علماء سلف اور علماء خلف سبھی نے اس مسئلے کی خطرناکی پر متنبہ کیا ہے ۔
اور اسکے کیا کیا اثرات مرتب ھوتے ہیں اور دنیا و آخرت میں اس کے کیا کیا نتائج نکلتے ہیں ان سب چیزوں کو اہل علم نے خوب بیان کیا ہے ۔
(1) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة الله عليه :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
” یہ بات بخوبی ذھن نشین کر لیں کہ مسائل تکفیر و تفسیق ، ان مسائل اسماء و احکام میں سے ہیں جن سے دارآخرت میں وعدہ و وعید کا تعلق ہے اور انہی مسائل سے کسی سے محبت و عداوت کا تعلق ہے ایسے ہی انہی سے کسی کے قتل یا اس کے خون کے معصوم و حرمت والا ھونے کا بھی واسطہ ہے اور اس دنیا کے کئي دیگر معاملات کا بھی انہی سے علاقہ ہے ۔
اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ جنت واجب کی ہے اور کافروں کے لۓ جنت حرام قرار دی ہے اور یہ کلی احکام ہر وقت اور ہر جگہ کے لۓ یکساں ہیں ۔
(2) امام ابن الوزیر رحمة الله عليه :
مسلمانوں کی جماعتوں اور اسلام کی طرف منسوب علماء کے گروھوں کو ملت اسلامیہ سے خارج قرار دینے اور انھیں کافر سمجھنے میں اور انھیں اسلام میں داخل ماننے ، ان کے ذریعے اسلام کی مدد و نصرت کرنے ، ان کے تعاون سے مسلمانوں کی تعداد بڑھانے اور انکے دست و باز کو مضبوط کرنے اور اسلام کو تقویت دینے میں کتنا فرق ہے ۔ انھیں کافر قرار دینے کی کوشش کرنا حلال و جائز نہیں اور وہ بھی ان دلائل سے جو کہ دوسرے ان دلائل سے معارض و مخالف ہیں جو کہ ان سے زیادہ قوی یا کم از کم انہی کے درجہ کے ہیں اور ان دلائل سے مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کو بھی مدد ملتی ہے ، وہ اسلام کی تقویت کا باعث بھی ہیں ، ان کی بدولت خونریزی کا خاتمہ ھوتا ہے اور فتنوں کی آنچ دھیمی پڑتی ہے ۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
[ خارجیوں کو سخت سزائیں دی گئيں اور ان کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ انھوں نے گناہگاروں مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا تھا ۔ خود دوسروں کو کافر قرار دینے والے بھی کسی ایسے فعل کا ارتکاب کر سکتے ہیں جس فعل پر وہ دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دین میں انتہائی خطرناک اقدام ہے لھذا اس سے سخت پرہیز کرنا چاہیۓ ۔
(3)شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد الوھاب رحمة الله عليہ:
شیخ الاسلام امام الدعوﺓ کے بیٹے شیخ عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ لکھتے ہیں :
" مختصر یہ کہ جو شخص اپنے نفس کا خیر خواہ ھو اسے چاہیۓ کہ وہ اللہ کی طرف سے علم و برھان کے بغیر اس مسئلہ پر زبان نہ کھولے اور کسی مسلمان کو محض اپنے فہم اور عقلی استحسان کی بناء پر اسلام سے خارج نہ کر دے ۔ کسی کو اسلام سے خارج کر دینا امور دین میں سے ایک بہت بڑا اقدام ہے " ۔
(3) امام شوکانی رحمة الله عليه :
امام شوکانی رحمة الله عليه فرماتے ہیں :
" یہ بات ذھن میں بٹھا لیں کہ کسی مسلمان آدمی کے بارے میں یہ حکم و فتوی صادر کر دینا کہ وہ دین اسلام سے خارج اور کفر میں داخل ھو چکا ہے ۔ یہ بات کسی بھی اللہ پر ایمان رکھنے اور روز قیامت پر یقین والے شخص کے لۓ روا نہیں سواۓ اس کے کہ اس بات پر دوپہر کے سورج سے بھی زیادہ واضح روشن دلیل و برھان قائم ھو جاۓ ۔ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح احادیث میں یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
[ جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی سے کہا : اے کافر ! تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اسی نام کا مستحق ھو جاۓ گا ] ۔ جبکہ ایک دوسری روایت میں یوں ہے :
[جس نے کسی مسلمان کو کفر کے ساتھ مخاطب کیا اسے کہا : اے اللہ کے دشمن اور وہ ایسا نہ ھوا تو یہ نام خود کہنے والے پر لوٹ آئیں گے ] ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے :
[ جس نے کسی مومن کو کافر قرار دیا ، اس نے اسے گویا قتل کر دیا ] ۔
(4) امام ابن دقیق العید رحمة الله عليه :
مذکورہ احادیث کی تشریح بیان کرتے ھوۓ امام ابن دقیق العید کہتے ہیں :
” کسی مسلمان کو کافر قرار دینے والے کے لۓ یہ بڑی سخت وعید ہے جبکہ وہ ایسا نہ ھو ” ۔ اسی طرح وہ لکھتے ہیں :
” یہ ایسی دلدل ہے کہ علماء کرام کی بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ھو چکی ہے ۔ انھوں نے عقائد میں باھم اختلاف کیا اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے دیا ” ۔
تکفیر : حق الہی :
مسلمانو ! کسی کو کافر قرار دینا یا کسی کا کافر ھونا ایک شرعی حکم و امر ہے ۔ کافر وہ ہے جسے اللہ تعالی یا اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم کافر قرار دیں ۔ کافر قرار دینا کسی دوسرے کا حق نہیں ہے ۔ بلکہ یہ تو صرف اللہ تعالی کا حق ہے ۔ اس بات کی وضاحت کرتے ھوۓ شیخ الاسلام امام ابن تیمییہ رحمة الله عليه لکھتے ہیں :
” یہی وجہ ہے کہ اھل علم اور اھل سنت اپنے مخالف کو کافر نہیں کہا کرتے تھے اگر چہ وہ مخالف انھیں کافر قرار دیا کرتا تھا ۔ اپنے مخالف کا انہی کلمات میں رد کرے یا بدلہ لے جیسے اگر آپ پر کوئی جھوٹ بولے تو بدلہ میں آپ اس پر جھوٹ نہیں بولیں گے ۔ کیونکہ جھوٹ اللہ کی طرف سے حرام ہے ، اسی طرح ہی تکفیر بھی اللہ کا حق ہے لھذا ایسے کسی شخص کو کافر نہیں قرار دیا جاۓ گا جسے اللہ نے اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کافر قرار نہ دیا ھو ۔ اور آگے چل کر وہ لکھتے ہیں :
” دین سے نکل جانے والے خوارج جن سے جنگ کرنے کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ و تابعین میں سے دوسرے آئمہ دین نے ان سے جنگ کی اور ان خوارج کی گمراہی کتاب و سنت سے ثابت ھو چکی ہے لیکن اس کے باوجود آئمہ میں سے کسی نے انھیں کافر قرار نہیں دیا البتہ ان سے جنگ کی گئي جو کہ ان کے باغیانہ رویہ اور سرکشی کی وجہ سے تھی ۔ لھذا ایسے گروہ یا جماعتیں جنھوں نے باھم اختلاف کیا اور بعض مسائل میں ان پر حق مخفی و مشتبہ رہ گیا اور ان سے بھی بڑے اھل علم گروہ نے اس میں غلطی کی ۔ ایسے میں کسی جماعت کو حق نہیں کہ وہ دوسرے گروہ کو کافر کہے اور نہ ہی اس کا مال یا جان حلال سمجھے ۔
اس سے آگے جا کر وہ تحریر فرماتے ہیں :
” جہمیہ کو کافر قرار دینا سلف صالحین امت کے نزدیک معروف ہے لیکن وہ انھیں نام بنام کافر قرار نہیں دیا کرتے تھے بلکہ جو شخص کسی بات کی طرف دعوت دیتا ہے وہ اس شخص سےبڑھ کر ھوتا ہے جو اس کا قائل ہے اور جو شخص مخالف کا رد کرتا اور اسے سزا دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ھوتا ہے جو کہ اس کی طرف محض دعوت دیتا ہے ۔اور جو شخص اپنے مخالف کو کافر قرار دیتا ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے جو کہ اسے محض سزا دیتا اور اس کا رد کرتا ہے ۔ اور اس سب کچھ کے باوجود بعض حکمران جو کہ جہمیہ کا عقیدہ رکھتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے اور یہ نظریہ رکھتے تھے کہ :
” آخر میں بھی اللہ کا دیدار نہ ھو گا ” ۔ اور لوگوں کو اس بات کا اقرار کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔ انھیں آزمائش و امتحان میں ڈالتے اور اگر کوئي اس بات کو قبول نہ کرتا تو انھیں سزائيں دیتے تھے اور جو ان کی بات نہ مانتا اسے وہ کافر بھی قرار دیا کرتے تھے ۔اس سب کچھ کے باوجود امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے ان کے لۓ رحم کی دعائيں کیں اور ان کے لۓ اللہ سے مغفرت و بخشش طلب کی اور یہ اس لۓ کہ انھیں اس بات کا علم تھا کہ ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب نہیں کی بلکہ انھوں نے تاویل کی مگر اس میں غلطی کر گۓ اور ایسا کہنے والوں کی تقلید میں لگ گۓ ” ۔
بلکہ شیخ الاسلام نے تو اس سے آگے چل کر یہ بھی فرمایا ہے :
” امام احمدبن حنبل رحمة الله عليه نے جہمیوں کےپیچھے نمازیں بھی پڑھیں جبکہ انھوں نے لوگوں کو اپنے نظریات کی طرف دعوت دی ۔ لوگوں کو امتحان میں مبتلا کیا اور جن لوگوں نے ان کی موافقت نہ کی انھیں سخت سزائيں دیں ۔ امام احمد اور ان جیسے دیگر اساطین علم نے انھیں کافر قرار نہیں دیا ۔ بلکہ وہ انھیں اھل ایمان سمجھتے ، ان کی امامت کا اعتراف کرتے ، ان کے لۓ دعائيں کرتے اور ان کا اہتمام کرنا مناسب سمجھتے تھے اور ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے ، ان کے ساتھ حج کرنے اور ان کے پہلو بہ پہلو جہاد کرنے کو ضروری سمجھتے تھے اور ان کی حکومت کی بغاوت کرنے کو ناجائز سمجھتے اور اس سے منع کیا کرتے تھے ۔ وہ اور دیگر آئمہ دین ان جہمیوں کے اقوال باطل کا انکار کرتے تھے جو کہ کفر عظیم پر مبنی تھے ۔ اگر چہ وہ لوگ خود نہیں جانتے تھے کہ ان کے وہ اقوال انہتائی کفریہ ہیں ۔ امام صاحب ان کا انکار کرتے اور انھیں رد کرنے کے لۓ حسب استطاعت کوشش کرتے تھے اور اس طرح وہ اظہار حق اور غلبۂ دین و سنت کے لۓ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت اور ملحد جہمیوں کی پیدا کردہ بدعات کے انکار و رد اور افراد امت و آئمہ مؤمنین کے حقوق کا خیال رکھنے جیسی تمام صفات کو یکجا کر لیتے تھے اگر چہ کہ وہ جہمیہ جاھل ، اھل بدعت ظالم اور فاسق و فاجر لوگ تھے ” ۔
مسلمانو ! صورت احوال جب ایسی ہے تو اس بات کا علم ھونا چاہیۓ کہ ایمان و کفر کا مقام دل ہے اور دلوں کے بھیدوں کی اطلاع اللہ کے سوا کسی کو نہیں ھوتی ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
” جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے ، وہ نہیں جو ( کفر پر زبردستی ) مجبور کیا جاۓ اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ھو بلکہ و ہ ( دل سے اور ) دل کھول کر کفر کرے ۔ تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور انکو بڑا سخت عذاب ھو گا ] ۔ ( النحل : ؟؟ )
اصل کفر اور غیر ارادی کفریہ کلمات :
اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے ۔ کافر وہ ہے جس نے کفر کے لۓ اپنے دل کو کھول دیا ۔ لھذا کافر ھونے کے لۓ کفر پر شرح صدر اور دل کا اطمینان ضروری ہے اور یہ کہ اس کا دل اس پر خوب پر سکون ھو ۔ لھذا شرعی عقائد میں واقع ھونے والے محض اضطرابات اور بے قراری کی کیفیت کا اعتبار نہیں ھوتا ۔ خصوصا جب ایسی اضطراری کیفیت لاعلمی پر مبنی ھو اور اہل اسلام کی مخالفت کا پورے جزم سے جزبہ بھی نہ رکھے ۔ اگر ایسے کسی شخص سے کوئی ایسی بات سرزد ھو جاۓ جس سے وہ شخص اسلام سے خروج و ملت کفر میں داخل ھونے کا ارادہ نہ رکھتا ھو تو ایسے کسی لفظ کا اعتبار نہ کیا جاۓ گا جو کسی مسلمان کے منہ سے غیر ارادی طور پر نکل جاۓ اور وہ لفظ کفر پر دلالت کرتا ھو مگر وہ اس کے معنی کا اعتقاد نہ رکھتا ھو ۔ اگر چہ یہ سارے امور ہی انتہائي قابل نکیر ، حرام اور ممنوع ہیں ۔ اور ایسے کسی بھی لفظ کو ادا کرنے والے شخص پر نکیر کرنی چاہیۓ اور اسے ایسے الفاظ سے خوب پرہیز کرنا چاہیۓ اور اس سلسلہ میں حق بات کی وصیت کرنی چاہیۓ لیکن اس شخص کے کافر ھو جانے کا حکم و فتوی اور جزم و یقین نہیں کرنا چاہیۓ ۔
لرزشیں :
مسلمانو ! مسئلہ تکفیر میں بڑوں بڑوں کے قدموں میں لرزش آ گئی ہے جو نہیں آنی چاہیۓ تھی ۔ بڑے بڑے اہل فہم و فراست بہک گۓ ہیں جنھیں کہ نہیں بہکنا چاہتے تھا ۔ زبانیں اور قلمیں بلاعلم و برہان ہی اس رو میں بہہ گۓ ہیں جبکہ اس معاملہ میں خوب احتیاط و پرہیز کی ضرورت اور انھیں ان امور سے بچانا ضروری ہے جس کا مقابلہ کوئي چیز نہیں کر سکتی ، اسی طرح مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیۓ کیونکہ تفریق ، نفرت اور نااتفاقی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر شخص اپنی راۓ پر اڑ جاتا ہے ، ہر شخص صرف اپنے آپ کو ہی درجۂ کمال پر براجمان سمجھتا ہے ، ہر شخص اپنے ہی مذھب و مسلک کو پسند کرتا ہے اور وہ صرف اپنی ذات اور صرف اپنے اھل و عیال کے سلسلہ میں ہی غیرت کھانے لگتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائیوں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے ان کے مسلک کو بیکار جانتا ہے اور ان کی گرد غبار اڑاتا اور ان پر کیچڑ اچھالتا ہے ۔ ایسے میں دلوں میں نفرت بھر جاتی ہے اور ایک دوسرے سے قطع تعلقی کی نوبت آ جاتی ہے اور دعوت الی اللہ کا کام کمزوری میں مبتلا ھو جاتا ہے ، اور علم کا فائدہ کم پڑ جاتا ہے اور دعوت و تبلیغ کی قبولیت ماند پڑ جاتی ہے ۔ دشمن زور کر جاتا ہے اور قسم ہے اللہ کی دشمن یہی ( تفرقہ و تنافر بین المسلمین ) ہی تو چاہتے ہیں ۔۔۔ فلا حول و لا قوﺓ الا باللہ ۔۔۔
ارشاد الہی ہے :
[ اے ایمان والو ! جب تم اللہ کی راہ میں ( جہاد کے لۓ باھر ) نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ھو ، اور اس سے تمھاری غرض یہ ھو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ اٹھاؤ ، سو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں ۔ تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے ۔ پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو ( آئندہ ) تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ھو اللہ کو سب کی خبر ہے ] ۔
اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ۔ ۔ ۔ :
مسلمانو ! جب تکفیر کی خطرناکی ، اس کا ایک بہت بڑا اقدام ھونے اور قول تکفیر کے بہت ہی شدید ھونے کی بات طے کی جا رہی ھو تو اس کا یہ معنی بھی ہر گز نہیں ھوتا کہ مسائل کے سلسلہ میں تساہل و سستی کا مظاہرہ کیا جاۓ اور اللہ اپنی پناہ میں رکھے ۔۔ ارتداد کا دروازہ ہی بند کر دیا جاۓ ۔ اور جو شخص دلیل و برھان کے ساتھ کافر ثابت ھو جاۓ اس کے بھی ایمان دار ھونے کا فیصلہ صادر کر دیا جاۓ ۔ اور کفر کے لۓ جسے شرح صدر حاصل ھو اور سر کشی پر اترا ھوا ھو اسے بھی مومن ہی مانا جاۓ ۔ ہرگز نہیں ، بلکہ دراصل مقصود اس مسئلے کی خطرناکی کو بیان کرنا اور اس کے ابواب میں گھسنے سے اور اس کا فتوی دینے کی جرٲت و جسارت سے گریز کیا جاۓ ۔ یہاں تک کہ بعض اہل علم نے تو یہاں تک کہا ہے :
” اگر آپ مر جائیں اور آپ نے فرعون کے بارے میں کوئي لفظ بھی نہ کہا ھو تو قیامت کے دن اللہ آپ کو اس بات پر نہیں پکڑے گا ” ۔ اللہ آپ پر رحم فرماۓ ۔۔۔
اہل علم کے نزدیک تکفیر بڑا ہی خطرناک مسئلہ ہے ۔ اس کی کئی شرطیں اور موانع ہیں جنھیں اہل علم نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ھو سکتا ہے کہ ایک شخص کو وہ نصوص نہیں پہنچیں جو کہ حق کی معرفت حاصل کرنے کو واجب قرار دیتی ہیں ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ اس کے پاس وہ نصوص تو ھوں مگر وہ اس کے یہاں ثابت نہ ھوں یا وہ انھیں سمجھ نہ پایا ھو ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ہے کہ وہ بعض شکوک و شبہات میں مبتلا ھو جن کی بناء پر اللہ اسے معذور قرار دے دے ۔
جو شخص اہل ایمان میں سے ھو اور طلب و تلاش حق کے لۓ اجتہاد و کوشش کرے مگر غلطی کر جاۓ تو اللہ اس کی وہ غلطی بخش دے گا وہ شخص چاہے کوئي بھی کیوں نہ ھو اور وہ مسئلہ نظری و اعتقادی ھو یا عملی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، جمہور آئمہ اسلام اور اہل علم کی یہی راۓ ہے ۔ وہ کبھی کسی کام کے کفر ھونے کا فیصلہ دیتے ہیں اور وہ اس بات کا فیصلہ نہیں دیتے کہ جو بھی اس کام میں واقع ھو گیا وہ ملت اسلامیہ سے خارج ( کافر ) ھو گیا ہے ۔ کیونکہ اس کے کافر قرار دیۓ جانے کے لۓ شرط یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی قابل قبول عذر ( سوء فہم ، غلط فہمی یا شبہ وغیرہ ) نہ ھو ۔
اللہ تعالی آپ پر رحم فرماۓ ۔ اللہ کا تقوی اختیار کرو اور اپنی زبانوں کو کنڑول میں رکھو ۔ شیطان تمھیں کسی کی دشمنی پر آمادہ نہ کر دے اور تم حق پر متحد و متفق رھو ، ارشاد الہی ہے :
” اور نیکی و پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ، اور گناہ و ظلم کی باتوں میں باھم مدد و تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رھو ، بیشک اللہ بڑے سخت عذاب والا ہے ” ۔
( المائدہ : 3) و صلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ اجمعین
سبحان ربك رب العزﺓ عما یصفون و سلام علی المرسلین
و الحمد للہ رب العالمین
بتاریخ 22/ 7 / 1424 ھ 19 / 9/ 2003 ء