• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرض غسل کا صحیح طریقہ

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
غسل جنابت کا صحیح طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غسل جنابت کا صحیح طریقہ کیا ہے ؟کیا نماز والے وضو کی طرح وضو کرناہے جس میں سر کا مسح اور پاؤں پہلے دھونا بھی آتا ہے۔یا وضو جس میں سر کا مسح نہیں کرنا چاہیے اور پاؤں بعد میں دھونے چاہیے؟یا یہ دونوں طریقے صحیح ہیں اور دونوں پر عمل کر کے ثواب ملے گا اور غسل ہو جائے گا؟مجھے اس کا مطمئن جواب چاہیے میں اس مسئلے کی تحقیق جاننا چاہتا ہوں مجھے آج تک صحیح جواب نہیں مل سکا۔جزاک اللہ خیرا (محمد ارسلان)

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غسل جنابت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ استنجا کرتے ہوئے اپنی شرمگاہ کو اچھی طرح سےدھوئیں، پھر نماز والا مکمل وضوء کریں،جس میں سر کا مسح بھی کریں اور پاؤں بھی دھوئیں،اس کےبعد اپنے سرپر تین چلو پانی ڈالیں اور بالوں کو اچھی طرح رگڑیں،پھر آپ مکمل جسم پر پانی ڈال لیں،اس طرح آپ کا غسل مکمل ہو جائے گا۔
اگر آپ ایسی جگہ غسل کر رہے ہیں جہاں پانی کے چھینٹے پڑنے کا خدشہ ہو تواحتیاطاً پاؤں نہ دھوئیں،اور غسل مکمل کر لینے کے بعد آخر میں پاؤں دھولیں۔یہ آخر میں پاؤں دھونے کی وجہ چھینٹوں کا پڑنا ہے ،ورنہ آپ اپنے وضوء کے ساتھ ہی دھوئیں گے۔باقی مسح نہ کرنے والی بات بے دلیل ہے ،ایسا کوئی طریقہ ثابت نہیں ہے جس میں مسح نہ کیا جائے،آپ وضوء کرتے وقت مسح بھی ساتھ ہی کریں گے۔صرف پاؤں مجبوری کی وجہ سے بعد میں دھونے کی اجازت ہے۔
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آج یہ بحث مطالعہ کررہا تھا کہ اس بابت فیس بک پر ایک ساتھی کی وال سے ایک اقتباس نقل کیا جو کہ وضو میں سرکا مسح نہ کرنے سے متعلق ہے ۔ اسے یہاں اضافہ اور استفادہ کی غرض سے کاپی کردیتا ہوں ۔
غسل جنابت کا طریقہ :
حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ دھویا تھا، زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرا دھویا، پھر کہنیوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھرسر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا. تین بار سر پر پانی ڈالا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے. (صحیح بخاری: 249)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کسی حدیث میں غسل جنابت کا وضو کرتے وقت سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے" (فتح الباری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا. امام نسائی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے: "جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا" (نسائی: 420)
امام ابو داؤد فرماتے ہیں: "میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ جنبی جب غسل سے قبل وضو کرے تو کیا سر کا مسح بھی کرے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ مسح کس لئے کرے جبکہ وہ اپنے سر پر پانی ڈالے گا."
ماخوذ: نماز نبوي

 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
آج یہ بحث مطالعہ کررہا تھا کہ اس بابت فیس بک پر ایک ساتھی کی وال سے ایک اقتباس نقل کیا جو کہ وضو میں سرکا مسح نہ کرنے سے متعلق ہے ۔ اسے یہاں اضافہ اور استفادہ کی غرض سے کاپی کردیتا ہوں ۔
غسل جنابت کا طریقہ :
حضرت میمونہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا ارادہ فرمایا تو سب سے پہلے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر شرمگاہ کو دھویا، پھر بایاں ہاتھ، جس سے شرمگاہ دھویا تھا، زمین پر رگڑا پھر اس کو دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرا دھویا، پھر کہنیوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھرسر پر پانی ڈالا اور بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا. تین بار سر پر پانی ڈالا، پھر تمام بدن پر پانی ڈالا، پھر جہاں آپ نے غسل کیا تھا اس جگہ سے ہٹ کر پاؤں دھوئے. (صحیح بخاری: 249)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "کسی حدیث میں غسل جنابت کا وضو کرتے وقت سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے" (فتح الباری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا. امام نسائی نے اس حدیث پر باب باندھا ہے: "جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا" (نسائی: 420)
امام ابو داؤد فرماتے ہیں: "میں نے امام احمد سے سوال کیا کہ جنبی جب غسل سے قبل وضو کرے تو کیا سر کا مسح بھی کرے؟ آپ نے فرمایا کہ وہ مسح کس لئے کرے جبکہ وہ اپنے سر پر پانی ڈالے گا."
ماخوذ: نماز نبوي
السلام علیکم شیخ محترم!
آج کل کے جدید غسل خانوں میں غسل جنابت کی مندرجہ بالا ترتیب کو کیسے فالو کریں گے؟ غسل خانوں کی زمین کچی نہیں ہوتی۔ نہ ہی بالٹی وغیرہ میں موجود پانی سے غسل کیا جاتا ہے۔ جدید غسل خانوں میں تو شاور ہوتے ہیں۔ صابن یا شیمپو ہوتا ہے۔ باتھ ٹب ہوتا ہے۔ کموڈ ہوتا ہے۔ کیا دور حاضر میں موجود غسل کے لئے دستیاب تمام جدید و قدیم سہولتوں میں ان چار بنیادی ارکان کی ادائیگی سے غسل جنابت مکمل ہوجاتا ہے یا نہیں ہوتا؟
(۱) شرمگاہ کو دھونا
(۲) پورے منہ میں کلی کرنا
(۳) ناک میں پانی ڈالنا
(۴) پورے جسم کو دھونا
والسلام
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم شیخ محترم!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج کل کے جدید غسل خانوں میں غسل جنابت کی مندرجہ بالا ترتیب کو کیسے فالو کریں گے؟ غسل خانوں کی زمین کچی نہیں ہوتی۔ نہ ہی بالٹی وغیرہ میں موجود پانی سے غسل کیا جاتا ہے۔ جدید غسل خانوں میں تو شاور ہوتے ہیں۔ صابن یا شیمپو ہوتا ہے۔ باتھ ٹب ہوتا ہے۔ کموڈ ہوتا ہے۔
بہت ہی اہم نکتہ آپ نے اٹھایا ہے ، اس پہلے بھی آپ نے یہ بات رکھی ہے مگر اس طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی ۔

کیا دور حاضر میں موجود غسل کے لئے دستیاب تمام جدید و قدیم سہولتوں میں ان چار بنیادی ارکان کی ادائیگی سے غسل جنابت مکمل ہوجاتا ہے یا نہیں ہوتا؟
(۱) شرمگاہ کو دھونا
(۲) پورے منہ میں کلی کرنا
(۳) ناک میں پانی ڈالنا
(۴) پورے جسم کو دھونا
احادیث میں غسل جنابت کی جو کیفیت وارد ہے ، اسی کیفیت میں غسل کئے جانے کو غسل جنابت کہیں گے ۔ زمانہ ترقی یافتہ ہے ، اس وقت حالات کافی بدل گئے ہیں اور ترقی یافتہ حمام میں وہ ساری سہولیات موجود ہوتی ہیں جن کا آپ نے اوپر ذکر کیا ہے ۔ ان سہولیات کے ہوتے ہوئے ترقی یافتہ حمام میں غسل جنابت کی نبوی کیفیت برتنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ جہاں تک غسل کفایت کرنے کا معاملہ ہے تو بلاشبہ مذکورہ بالا صورت میں غسل طہارت کے لئے کفایت کرے گا۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
محترم شیخ صاحب!
اگر سوال کو گستاخی تصور نہ کریں تو "نبوی کیفیت" اور "کفایت" پر مزید روشنی ڈال دیجیے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوءے کہ احقر ایک عام سا لکھاری بھی ہے، جو اکثر و بیشتر علماءے کرام کی آراء کو عوام الناس کے لءے عام فہم الفاظ میں بھی بیان کرتا ہے کیونکہ ہمارے اکثر نام نہاد پڑھے لکھے قارءین علماءے کرام کے علمی انداز تحریر کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
۱۔ "نبوی کیفیت" کو اگر ہم توسیع دے کر "نبوی لاءیف اسٹاءیل" کہہ دیں تو بیشتر معمولات زندگی بشمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کا انداز، لباس، نعلین مبارک، سواری، کھانے پینے کی اشیاء، سفر کے طور طریقے کو اپنانے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں اور آج کوءی اس نبوی لاءف اسٹاءیل کو ہوبہو اپنانے کی ضرورت پر زور بھی نہیں دیتا کہ یہ اصل میں مطلوب نہیں ہیں۔
۲۔ لیکن اگر "نبوی کیفیت" کو عبادات تک بھی محدود رکھا جاءے تب بھی ہم نماز، روزے، حج و عمرہ تک بھی "نبوی کیفیت" کی نقل نہیں کرسکتے کہ آج حرمین میں بھی وہ "نبوی ماحول" دستیاب نہیں ہے۔ قدرتی آب و ہوا میں کچی زمین پر رکوع و سجود کی جو کیفیت ہوتی ہے، وہ سنگ مرمر کے اوپر بچھے قالین اور ایر کنڈیشنڈ ماحول میں کہاں دستیاب ہوسکتی ہے۔ جب آج حرم کعبہ کی نماز میں "نبوی کیفیت" کو برتنا ممکن نہیں تو محض غسل اور وضو میں "نبوی کیفیت" پر اصرار کیوں؟ اور "کفایت" کافی کیوں نہیں۔
امید ہے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی اس "ذہنی خلفشار" کو وقت ملنے پر ضرور دور فرمانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ آپ کے علم و ہنر میں برکت فرماءے۔ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے سوالا" جوابا" پوسٹس سے میں اکثر و بیشتر استفادہ بھی کرتا ہوں اور اسے آگے فارورڈ بھی کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ عموما" عام فہم اور جدید پڑھے لکھے احباب کو سمجھنے میں بہت آسان ہوتے ہیں۔
والسلام
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
محترم شیخ صاحب!
اگر سوال کو گستاخی تصور نہ کریں تو "نبوی کیفیت" اور "کفایت" پر مزید روشنی ڈال دیجیے۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوءے کہ احقر ایک عام سا لکھاری بھی ہے، جو اکثر و بیشتر علماءے کرام کی آراء کو عوام الناس کے لءے عام فہم الفاظ میں بھی بیان کرتا ہے کیونکہ ہمارے اکثر نام نہاد پڑھے لکھے قارءین علماءے کرام کے علمی انداز تحریر کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
۱۔ "نبوی کیفیت" کو اگر ہم توسیع دے کر "نبوی لاءیف اسٹاءیل" کہہ دیں تو بیشتر معمولات زندگی بشمول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کا انداز، لباس، نعلین مبارک، سواری، کھانے پینے کی اشیاء، سفر کے طور طریقے کو اپنانے سے یکسر قاصر نظر آتے ہیں اور آج کوءی اس نبوی لاءف اسٹاءیل کو ہوبہو اپنانے کی ضرورت پر زور بھی نہیں دیتا کہ یہ اصل میں مطلوب نہیں ہیں۔
۲۔ لیکن اگر "نبوی کیفیت" کو عبادات تک بھی محدود رکھا جاءے تب بھی ہم نماز، روزے، حج و عمرہ تک بھی "نبوی کیفیت" کی نقل نہیں کرسکتے کہ آج حرمین میں بھی وہ "نبوی ماحول" دستیاب نہیں ہے۔ قدرتی آب و ہوا میں کچی زمین پر رکوع و سجود کی جو کیفیت ہوتی ہے، وہ سنگ مرمر کے اوپر بچھے قالین اور ایر کنڈیشنڈ ماحول میں کہاں دستیاب ہوسکتی ہے۔ جب آج حرم کعبہ کی نماز میں "نبوی کیفیت" کو برتنا ممکن نہیں تو محض غسل اور وضو میں "نبوی کیفیت" پر اصرار کیوں؟ اور "کفایت" کافی کیوں نہیں۔
امید ہے مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی اس "ذہنی خلفشار" کو وقت ملنے پر ضرور دور فرمانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ آپ کے علم و ہنر میں برکت فرماءے۔ یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کے سوالا" جوابا" پوسٹس سے میں اکثر و بیشتر استفادہ بھی کرتا ہوں اور اسے آگے فارورڈ بھی کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ عموما" عام فہم اور جدید پڑھے لکھے احباب کو سمجھنے میں بہت آسان ہوتے ہیں۔
والسلام
اس میں گستاخی والی کوئی بات نہیں ہےبلکہ میرے لئے مسرت وشادمانی والی بات ہے۔ مسائل کی چھان بین اور ان کی تحقیق ایک اہم دینی فریضہ ہے اور کارثواب بھی ۔ الحمدللہ آپ کےرشحات قلم سے بہت سارے لوگوں فائدہ اٹھارہے ہیں ، آپ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے قلم کار ہیں ، نہ صرف عصری مسائل کو موضوع بناتے ہیں بلکہ دین کے اہم موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں ۔ اللھم زد فزد
(1)جہاں تک کیفیت اور کفایت کا مسئلہ ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ کیفیت کہتے ہیں اس انداز کو جو کسی امر سے وابستہ ہو مثلا کوئی ہم سے پوچھے کہ غسل جنابت کا طریقہ کیا ہے ؟ یا نبی ﷺ نے کس طرح جنابت کا غسل کیا؟ اور جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام عبادت کے معاملات میں نبی ﷺ کی کیفیت کو ہوبہو نقل کرتے ہیں مثلا غسل جنابت کی یہ حدیث دیکھیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي مَيْمُونَةُ، قَالَتْ: «أَدْنَيْتُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلَهُ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ أَفْرَغَ بِهِ عَلَى فَرْجِهِ، وَغَسَلَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ الْأَرْضَ، فَدَلَكَهَا دَلْكًا شَدِيدًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ مِلْءَ كَفِّهِ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى عَنْ مَقَامِهِ ذَلِكَ، فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِالْمِنْدِيلِ فَرَدَّهُ»(صحيح مسلم:317)
ترجمہ: ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے میری خالہ میمونہ ؓ نے بتایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے آپ کے قریب پانی رکھا ، آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دو یا تین دفعہ دھویا، پھر اپنا (دایاں) ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس کے ذریعے سے اپنی شرم گاہ پر پانی ڈالا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مار کر اچھی طرح رگڑ اور اپنا نماز جیسا وضو فرمایا ،پھر ہتھیلی بھر کر تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالا ، پھر اپنے سارے جسم کو دھویا، پھر اپنی اس جگہ سے دور ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے ، پھر میں تولیہ آپ کے پاس لائی تو آپ نے اسے واپس کر دیا۔
اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے وہ ہے کیفیت اور بیان کرنے والے نبی ﷺ نہیں ہیں بلکہ سیدہ میمونہ کے واسطہ سے جنہوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھاہے ابن عباس نے بیان کیاہے اور کفایت بھی اپنے لفظی معنی سے واضح ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن سے غسل یعنی طہارت حاصل ہوجائے گی یا کفایت کرجائے گی۔غسل جنابت کی کیفیات وجزئیات سے ہٹ کر صرف ان چند عملوں سے غسل ہوجائے گا جن کا پایا جانا ضروری ہے وہ ہے ناک کی صفائی ،کلی اور سارے بدن پر پانی بہانا۔ ان چند عملوں سے غسل کفایت کرجائے گا مگر اکمل اور افضل غسل یا غسل جنابت اسی کیفیت سے انجام دیا جائے گا جو نبی ﷺ سے منقول ہے۔
(2)عبادت امر تعبدی ہے جس میں وضو، غسل ، طہارت وغیرہ بھی شامل ہے اور تعبدی اوامر کو اسی کیفیت میں انجام دینا ہے جس کیفیت کے ساتھ وارد ہے ۔ نبوی لائف اسٹائل کے لفظ سے تعبدی اوامر کو موسوم نہیں کرسکتے ۔ ہاں دنیاوی امور میں بھلے اس کا استعمال کرلیں مثلا ٹوپی، لباس، بال ، سواری ،نعلین وغیرہ کااستعمال ۔ ان امور میں ہم شرعی طور پرکیفیت کے ساتھ پابندی کے مکلف نہیں ہیں الا یہ جس وصف کی ممانعت وارد ہے ہم اس سے بچیں گے ۔ کوئی ان امور میں بھی نبی ﷺ کی پیروی کرسکتا ہے تو کرلے کوئی حرج اور کوئی ممانعت نہیں ہے۔نبی ﷺ نے«أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»(تم اپنی دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو) کہہ کر ہمیں دنیاوی امور میں آزادی دیدی ۔
(3) آج کل کی مساجد میں قالین وایرکنڈیشن ماحول عبادت کی کیفیت سے تعلق نہیں رکھتا۔ نماز میں کیفیت سے مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ نے قیام ، رکوع، سجود کس انداز وکیفیت سے ادا کیا ؟۔ہوائی جہاز کے سفراورسنگ مرمر پر چلنے کا تعلق بھی حج وعمرہ کی کیفیت سے نہیں ہے بلکہ ان میں کیفیت سے مقصود یہ ہے کہ آپ ﷺ طواف، تقبیل،سعی، رمی، قربانی، حلق/تقصیر، وقوف، مبیت وغیرہ مناسک کے اعمال کس کیفیت میں ادا کرتے تھے ؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترقی یافتہ یا ایرکنڈیشن باتھ روم بنانا کیفیت غسل سے متعلق نہیں ہے ، ہم سے عبادتا ًمطلوب ہے کہ اگراس قسم کے حمام میں بھی غسل جنابت میں نبوی کیفیت کو اپناتے ہیں تو یہ افضل واکمل ہےاور اگر صرف ناک میں پانی ڈالنے، کلی کرنے اور سارے بدن پر پانی بہانے پر اکتفا کرتے ہیں تو یہ محض کفایت کرے گا،اس عمل کو افضل واکمل نہیں کہہ سکتے ہیں۔

آخر میں بندی عاصی وگنہگار آپ کی بے لوث محبت کا بے پایاں شکریہ ادا کرتا ہے اور رب کریم سے دامن عفووکرم میں جگہ عنایت کرنے کی خصوصی دعا کرتا ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
اس میں گستاخی والی کوئی بات نہیں ہےبلکہ میرے لئے مسرت وشادمانی والی بات ہے۔ مسائل کی چھان بین اور ان کی تحقیق ایک اہم دینی فریضہ ہے اور کارثواب بھی ۔ الحمدللہ آپ کےرشحات قلم سے بہت سارے لوگوں فائدہ اٹھارہے ہیں ، آپ ایک بہترین اور سلجھے ہوئے قلم کار ہیں ، نہ صرف عصری مسائل کو موضوع بناتے ہیں بلکہ دین کے اہم موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں ۔ اللھم زد فزد
(1)جہاں تک کیفیت اور کفایت کا مسئلہ ہے وہ بالکل واضح ہے ۔ کیفیت کہتے ہیں اس انداز کو جو کسی امر سے وابستہ ہو مثلا کوئی ہم سے پوچھے کہ غسل جنابت کا طریقہ کیا ہے ؟ یا نبی ﷺ نے کس طرح جنابت کا غسل کیا؟ اور جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام عبادت کے معاملات میں نبی ﷺ کی کیفیت کو ہوبہو نقل کرتے ہیں مثلا غسل جنابت کی یہ حدیث دیکھیں :
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي مَيْمُونَةُ، قَالَتْ: «أَدْنَيْتُ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلَهُ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَغَسَلَ كَفَّيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ أَفْرَغَ بِهِ عَلَى فَرْجِهِ، وَغَسَلَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ الْأَرْضَ، فَدَلَكَهَا دَلْكًا شَدِيدًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ مِلْءَ كَفِّهِ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى عَنْ مَقَامِهِ ذَلِكَ، فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِالْمِنْدِيلِ فَرَدَّهُ»(صحيح مسلم:317)
ترجمہ: ابن عباس سے روایت ہے انہوں نے کہا: مجھے میری خالہ میمونہ ؓ نے بتایا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت کے لیے آپ کے قریب پانی رکھا ، آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دو یا تین دفعہ دھویا، پھر اپنا (دایاں) ہاتھ برتن میں داخل کیا اور اس کے ذریعے سے اپنی شرم گاہ پر پانی ڈالا اور اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مار کر اچھی طرح رگڑ اور اپنا نماز جیسا وضو فرمایا ،پھر ہتھیلی بھر کر تین لپ پانی اپنے سر پر ڈالا ، پھر اپنے سارے جسم کو دھویا، پھر اپنی اس جگہ سے دور ہٹ گئے اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے ، پھر میں تولیہ آپ کے پاس لائی تو آپ نے اسے واپس کر دیا۔
اس حدیث میں جو بیان ہوا ہے وہ ہے کیفیت اور بیان کرنے والے نبی ﷺ نہیں ہیں بلکہ سیدہ میمونہ کے واسطہ سے جنہوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے دیکھاہے ابن عباس نے بیان کیاہے اور کفایت بھی اپنے لفظی معنی سے واضح ہے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن سے غسل یعنی طہارت حاصل ہوجائے گی یا کفایت کرجائے گی۔غسل جنابت کی کیفیات وجزئیات سے ہٹ کر صرف ان چند عملوں سے غسل ہوجائے گا جن کا پایا جانا ضروری ہے وہ ہے ناک کی صفائی ،کلی اور سارے بدن پر پانی بہانا۔ ان چند عملوں سے غسل کفایت کرجائے گا مگر اکمل اور افضل غسل یا غسل جنابت اسی کیفیت سے انجام دیا جائے گا جو نبی ﷺ سے منقول ہے۔
(2)عبادت امر تعبدی ہے جس میں وضو، غسل ، طہارت وغیرہ بھی شامل ہے اور تعبدی اوامر کو اسی کیفیت میں انجام دینا ہے جس کیفیت کے ساتھ وارد ہے ۔ نبوی لائف اسٹائل کے لفظ سے تعبدی اوامر کو موسوم نہیں کرسکتے ۔ ہاں دنیاوی امور میں بھلے اس کا استعمال کرلیں مثلا ٹوپی، لباس، بال ، سواری ،نعلین وغیرہ کااستعمال ۔ ان امور میں ہم شرعی طور پرکیفیت کے ساتھ پابندی کے مکلف نہیں ہیں الا یہ جس وصف کی ممانعت وارد ہے ہم اس سے بچیں گے ۔ کوئی ان امور میں بھی نبی ﷺ کی پیروی کرسکتا ہے تو کرلے کوئی حرج اور کوئی ممانعت نہیں ہے۔نبی ﷺ نے«أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ»(تم اپنی دنیا کے معاملا ت کو زیادہ جاننے والے ہو) کہہ کر ہمیں دنیاوی امور میں آزادی دیدی ۔
(3) آج کل کی مساجد میں قالین وایرکنڈیشن ماحول عبادت کی کیفیت سے تعلق نہیں رکھتا۔ نماز میں کیفیت سے مقصود یہ ہے کہ نبی ﷺ نے قیام ، رکوع، سجود کس انداز وکیفیت سے ادا کیا ؟۔ہوائی جہاز کے سفراورسنگ مرمر پر چلنے کا تعلق بھی حج وعمرہ کی کیفیت سے نہیں ہے بلکہ ان میں کیفیت سے مقصود یہ ہے کہ آپ ﷺ طواف، تقبیل،سعی، رمی، قربانی، حلق/تقصیر، وقوف، مبیت وغیرہ مناسک کے اعمال کس کیفیت میں ادا کرتے تھے ؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترقی یافتہ یا ایرکنڈیشن باتھ روم بنانا کیفیت غسل سے متعلق نہیں ہے ، ہم سے عبادتا ًمطلوب ہے کہ اگراس قسم کے حمام میں بھی غسل جنابت میں نبوی کیفیت کو اپناتے ہیں تو یہ افضل واکمل ہےاور اگر صرف ناک میں پانی ڈالنے، کلی کرنے اور سارے بدن پر پانی بہانے پر اکتفا کرتے ہیں تو یہ محض کفایت کرے گا،اس عمل کو افضل واکمل نہیں کہہ سکتے ہیں۔

آخر میں بندی عاصی وگنہگار آپ کی بے لوث محبت کا بے پایاں شکریہ ادا کرتا ہے اور رب کریم سے دامن عفووکرم میں جگہ عنایت کرنے کی خصوصی دعا کرتا ہے۔
بہت بہت شکریہ شیخ۔ جزاک اللہ خیرا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و عمل میں برکت اور دامن عفو و کرم میں جگہ عنایت فرماءے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین
 
Top