ہمیشہ کے لیے اس لیے کہ یہ پھر آپ کا بوقت تعارض مسئلہ اخذ کرنے کا اصول ہوگا جس طرح فقہاء کے اصول ہوتے ہیں۔ اگر ایک تعارض کو دور کرنے کے لیے آپ ایک طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قیاس سے جس کی تائید ہو رہی ہو وہ قول لیتے ہیں اور قاعدہ کلیہ کو چھوڑ دیتے ہیں) اور دوسرے تعارض کے لیے الگ طرز اختیار کرتے ہیں (مثال کے طور پر قاعدہ کلیہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور قیاس کی تائید والے اصول کو چھوڑ دیتے ہیں) تو آپ کے اجتہاد میں خود تعارض ہو جائے گا۔
فجر کی دو سنتیں فجر کے بعد ادا کی جائیں، اس بارے میں یہ احادیث پہلے صفحے پر نقل کی گئی ہیں:
رأى النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ رجلاً يصلِّي بعدَ صلاةِ الصُّبحِ رَكعتينِ فقالَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ أصلاةَ الصُّبحِ مرَّتينِ فقالَ لَهُ الرَّجلُ إنِّي لم أَكن صلَّيتُ الرَّكعتينِ اللَّتينِ قبلَها فصلَّيتُهما , قالَ فسَكتَ النَّبيُّ صلَّى الله عليْهِ وسلَّم(صحيح ابن ماجه: 954)
ترجمہ :نبی ﷺ نے ایک آدمی کو فجر کی نماز کے بعد دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کیا فجرکی نماز دو مرتبہ ہے ؟ تو اس آدمی نے کہا کہ فجرکی نماز سے پہلی والی دو رکعت سنت نہیں پڑھ سکا تھا جسے ادا کیا ہوں۔تو آپ ﷺ خاموش ہوگئے ۔
مَن لم يصلِّ رَكْعتيِ الفجرِ فليُصلِّهما بعدَ ما تطلعُ الشَّمسُ(صحيح الترمذي: 423)
ترجمہ : نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے فجر کی دو سنت نہ پڑھی ہو وہ سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھ لے ۔
اس کے مقابلے میں وہ احادیث ہیں جن میں فجر کی نماز کے بعد طلوع شمس تک نماز سے منع کر دیا گیا ہے جیسا کہ بخاری کی ان روایات میں ہے جن کا حوالہ عبد الرحمان بھٹی بھائی نے دیا ہے۔
بخاری کی روایت تو صحیح ہونا ظاہر ہے۔
روایت اول کی استنادی حیثیت دیکھتے ہیں:
ابن ماجہ کی اس روایت کو البانیؒ نے صحیح کہا ہے۔
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة قال: حدثنا عبد الله بن نمير قال: حدثنا سعد بن سعيد قال: حدثني محمد بن إبراهيم، عن قيس بن عمرو، قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «أصلاة الصبح مرتين؟» فقال له الرجل: إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلها، فصليتهما. قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم
اس روایت کو اسی سند کے ساتھ دیگر محدثین نے بھی نقل کیا ہے۔ اس میں راوی ہیں سعد بن سعید۔ انہیں امام احمدؒ نے ضعیف فرمایا ہے۔ یحیی بن معین کی ایک روایت میں ضعیف اور ایک روایت میں صالح مذکور ہیں۔ نسائی نے لیس بالقوی کہا ہے اور ابن حبان نے ثقات میں ذکر کر کے ساتھ کہا ہے کہ یہ غلطی کرتے تھے۔ ابن عدی اور محمد بن سعد نے ان کی تعدیل کی ہے۔ (تہذیب الکمال للمزی)
اس روایت میں ان کے استاد محمد بن ابراہیم ہیں۔ وہ روایت کر رہے ہیں صحابی رسول حضرت قیس بن عمرو رض سے۔ لیکن امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
وإسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن إبراهيم التيمي لم يسمع من قيس
"اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے۔ محمد بن ابراہیم التیمی نے قیس سے سماع نہیں کیا۔"
(ترمذی،2۔284، ط: مصطفی البابی)
درمیان میں کون غائب ہے اس کا نہیں پتا۔ میں نہیں جانتا کہ البانیؒ نے اس کی تصحیح کیوں کی ہے۔
دوسری روایت تو طلوع شمس کے بعد کی ہے اور طلوع کے بعد تو سب پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
اب آئیے اصل جواب کی جانب۔
ہم ان دونوں روایات میں اگر تطبیق کرتے ہیں تو بخاری کی روایت میں نماز فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے اور اس (روایت اولی) میں اس شخص کے نماز پڑھنے کا ذکر ہے۔ لیکن یہ تفصیل نہیں ہے کہ یہ طلوع کے بعد پڑھ رہا تھا یا طلوع سے پہلے۔ تو تطبیق کے لیے ہم اس پر محمول کرتے ہیں کہ وہ شخص طلوع شمس کے فورا بعد پڑھ رہا تھا۔
اور اگر ترجیح دیں تو اول بخاری کی روایت صحت کے اعتبار سے اس سے راجح ہے۔ اور دوم بخاری کی روایت میں صراحت ہے نہی کی اور اس میں سکوت ہے اور صراحت سکوت سے راجح ہوتی ہے۔
اس لیے فجر کی سنتیں فرض نماز کے بعد ادا نہیں کی جا سکتیں۔
باقی دوسری روایت میں جو سورج کے طلوع کے بعد پڑھنے کا ذکر ہے تو وہ اس صورت میں ہے جب واقعی رہ گئی ہوں (چاہے نماز فجر کی وجہ سے چھوڑی ہوں، چاہے ایک رکعت ضائع ہونے کے خوف سے چھوڑی ہوں، چاہے تشہد بھی نہ ملنے کے خوف سے یا چاہے سستی کی وجہ سے چھوڑ دی ہوں)۔ اس صورت میں اس وقت نفل یا سنتیں پڑھنے سے کوئی منع نہیں کرتا۔
و اللہ اعلم