جی مرشد جی
رکن
- شمولیت
- ستمبر 21، 2017
- پیغامات
- 548
- ری ایکشن اسکور
- 14
- پوائنٹ
- 61
اسلام علیکم ورحمہ اللہ
سب سے پہلی بات یہ کہ مسائل میں الجھنے کی بجائے اتحاد کے لئے مشورہ جات دیجئے جو اصل مقصد ہے
اگر جواب ہاں میں ہے (اور یقیناً ہاں میں ہی ہونا چاہیئے) تو یہ ان سے سیکھا ہؤا تھا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راشدین اور مہدیین کہا۔ یا یہ طریقہ ان صحابہ کا سکھایا ہؤا تھا جن سے قرآن سیکھنے کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔
اگر جواب نہ میں ہے تو اس پر دلائلل دیجئے۔
اگر آپ کو میری بات سے اتفاق ہے تو فبہا اور اگر نہیں تو اس پر دلیل قائم کریں۔
اس سے تو آج کے زمانہ میں اتحاد کی اور بھی زیادہ ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ اس فتن کے زمانہ میں لوگوں میں برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
جس حدیث کو خیر القرون کے محدثین اور فقہا نہ پا سکے اہل حدیثوں نے وہ کہاں سے پالی؟
کسی کو اس سے ’’انقباض‘‘ نہیں ہاں التہ افتراق کا باعث یہ لوگ ضرور بنتے ہیں اللہ ہدایت دے۔
کسی کو ان سے اگر انقباض بھی ہے تو میرے خیال میں وجہ حدیث پر عمل نہیں بلکہ ان کے خیال میں اختلاف اجماع سبب ہوسکتا ہے اور اختلاف اجماع یقینا بہت بری بات ہے۔ اب اس پر بحث نہ شروع کر دیجئے گا کہ اجماع کہاں سے ثابت ہے؟ بھائی جس کے نزدیک ثابت ہے اس کی بات ہے۔
گو رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے مگر اس کے لئے انسان اسباب کا مکلف ہے۔ اگر ساری مخلوق دین سیکھنے میں لگ جائے تو یہ اسباب کیسے اختیار کیئے جاسکیں گے۔ ایک مزدور سارا دن مزدوری کرکے بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ کسان محنت کرکے فصل بوتا ہے جس دوسرے نفع اٹھاتے ہیں علیٰ ۃٰذالقیاس۔
سب سے پہلی بات یہ کہ مسائل میں الجھنے کی بجائے اتحاد کے لئے مشورہ جات دیجئے جو اصل مقصد ہے
محترم اشماریہ صاحب آپ نے فرمایا کہ صحابہ کرام کے دور کے فوراً بعد اہل کوفہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اہل کوفہ نے یہ کام صحابہ کرام کو دیکھ کر کیا یا از خود کرنے لگ پڑے تھے؟میرے بھائی! نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس بارے میں اختلاف آپ کو پتا ہے کہاں سے ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے فوراً بعد اہل کوفہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے، اہل مدینہ اور حسن بصری رضی اللہ عنہ وغیرہ ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے تھے اور اہل مکہ ہاتھ ناف کے اوپر باندھتے تھے۔
اگر جواب ہاں میں ہے (اور یقیناً ہاں میں ہی ہونا چاہیئے) تو یہ ان سے سیکھا ہؤا تھا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راشدین اور مہدیین کہا۔ یا یہ طریقہ ان صحابہ کا سکھایا ہؤا تھا جن سے قرآن سیکھنے کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی (ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔
اگر جواب نہ میں ہے تو اس پر دلائلل دیجئے۔
میرے بھائی ناف کے نیچے اور اوپر کا فرق ہے ہی نہیں یہ ایک ہی طرح ہاتھ باندھنا ہے۔ دیکھنے والے کا مشاہدہ میں فرق ہے حقیقی فرق نہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب کے مسالک اس سلسلے میں واضح نہیں ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ تابعین انہی صحابہ کرام رض سے سیکھ کر یہ عمل کرتے تھے۔ اب ان میں سے اہل مدینہ کوفہ اور مکہ جاتے رہتے تھے، اہل کوفہ علم حاصل کرنے کے لیے مکہ اور مدینہ جاتے تھے اور اہل مکہ کوفہ اور مدینہ۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ تابعین اور تبع تابعین کے بعد واضح مثال ہیں۔ کیا امام شافعیؒ نے مدینہ جانے کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنا شروع کر دیے یا کوفہ جانے کے بعد ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا شروع کیے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔
ان کا زمانہ خیر القرون کا تھا اور یہ زمانہ فتن کا ہے۔ خیر القرون میں اس قسم کے اجتماع کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔جب کسی صحابی یا تابعی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے فروعی احکام میں اپنا مسلک صرف اتفاق کے لیے ترک کر دیا ہو تو کیا ہم اس سلسلے میں ان سے زیادہ سمجھدار ہیں؟
اگر آپ کو میری بات سے اتفاق ہے تو فبہا اور اگر نہیں تو اس پر دلیل قائم کریں۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے یہ تسلیم کیا کہ خیر القرون میں کوئی بھی اس طرح ہاتھ نہیں باندھتا تھا جس طرح اہل حدیث باندھتے ہیں۔ تو میرے بھائی ان کو سمجھائیں نا کہ یہ تو تمام اخیار کی مخالفت بھی ہے اور انتشار کا سبب بھی لہٰذا اسے چھوڑ دیں کم از کم اتحاد ہی کے لئے چھوڑ دیں۔آپ نے فقہاء کرام کے اقوال نقل فرمائے۔ بے شک ان میں کوئی قول اس طرح سینےپر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے جس طرح اہل حدیث حضرات باندھتے ہیں لیکن اتفاق اور اتحاد تو ان میں بھی نہیں ہے۔
یعنی کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مصر میں مالکیہ کا مسلک بہت زیادہ تھا۔ وہاں امام شافعیؒ کی شہادت کی بنیادی وجہ ہی بعض روایات کے مطابق امام مالکؒ کے مسائل سے کھلا اختلاف تھی۔
اس سے تو آج کے زمانہ میں اتحاد کی اور بھی زیادہ ضرورت ثابت ہوتی ہے کہ اس فتن کے زمانہ میں لوگوں میں برداشت کا مادہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔
نہیں بھائی نہیں بلکہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ کون اسہل حدیث ہے اور کون حنفی۔اب آپ کہتے ہیں کہ ہم اتحاد اس طرح کریں کہ سب ایک طرح ہاتھ باندھ لیں۔ پھر اس سے کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جو حنفی لوگ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں وہ یہ دیکھیں گے کہ اہل حدیث بھی نیچے ہاتھ باندھ رہے ہیں اور بس۔
میرے بھائی آپ نے الفاظ کے چناؤ میں سختی کی ہے بہر حال پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔اگر کسی حنفی کو یہ دیکھ کر دل میں تنگی پیدا ہوتی ہے کہ کوئی اہل حدیث اپنی وسعت اور علم کے مطابق اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث پرعمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے دس جوتے لگانے چاہئیں تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آ جائے۔ اسے کہنا چاہیے کہ اگر تجھے زیادہ مسئلہ ہے تو تو خود علم حاصل کر اور پھر اپنی وسعت کے مطابق حدیث پر عمل کر۔
میں ناف کے نیچے ہاتھ اس لیے نہیں باندھتا کہ میں حنفی ہوں۔ بلکہ اس لیے باندھتا ہوں کہ میرے نزدیک دلائل سے یہ راجح ہے۔
جس حدیث کو خیر القرون کے محدثین اور فقہا نہ پا سکے اہل حدیثوں نے وہ کہاں سے پالی؟
کسی کو اس سے ’’انقباض‘‘ نہیں ہاں التہ افتراق کا باعث یہ لوگ ضرور بنتے ہیں اللہ ہدایت دے۔
کسی کو ان سے اگر انقباض بھی ہے تو میرے خیال میں وجہ حدیث پر عمل نہیں بلکہ ان کے خیال میں اختلاف اجماع سبب ہوسکتا ہے اور اختلاف اجماع یقینا بہت بری بات ہے۔ اب اس پر بحث نہ شروع کر دیجئے گا کہ اجماع کہاں سے ثابت ہے؟ بھائی جس کے نزدیک ثابت ہے اس کی بات ہے۔
بھائی اشماریہ میرے خیال میں آپ نے یہ بات نص کے خلاف کی ہے۔ہر کوئی یہ کر سکتا ہے اور اس کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔
گو رزق کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے مگر اس کے لئے انسان اسباب کا مکلف ہے۔ اگر ساری مخلوق دین سیکھنے میں لگ جائے تو یہ اسباب کیسے اختیار کیئے جاسکیں گے۔ ایک مزدور سارا دن مزدوری کرکے بمشکل اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ کسان محنت کرکے فصل بوتا ہے جس دوسرے نفع اٹھاتے ہیں علیٰ ۃٰذالقیاس۔
آپ تو غصہ ہی کھا گئے۔ ابتسامہاگر کوئی سارا دن دو اور دو چار کا حساب کرے اپنی دکان پر بیٹھ کر اور نماز کے وقت میں اسے دوسرے اپنے سے زیادہ علم والے کو دیکھ کر "انقباض" ہونے لگ جائے تو (معذرت کے ساتھ) اسے "اتحاد" کی نہیں "جمال گوٹے" کی ضرورت ہے۔