• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تجویز فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے اچھا پلیٹ فارم

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس میں پہل اہل حدیث کا حق بنتا ہے کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہونے کے ساتھ علم بھی رکھتے ہیں احناف (دیو بندی، بریلوی) ننانوے فی صد فقہ سے لاعلم لوگ ہیں۔ علم والے کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے آگے بڑھے۔
ابتسامہ
کیا غیر علم والے پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ علم والے سے پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرے؟ فاسئلوا اہل الذکر میں اسی طرف تو اشارہ ہے۔
اس لیے آپ کے قول کے مطابق تمام "فقہ سے لاعلم مقلدین" کو مسائل علم والے اہل حدیث بھائیوں سے پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے نہ کہ ان اہل حدیث کو بھی لاعلموں کے پیچھے چلنا چاہیے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃاللہ

بھائی آپ کی تحریر سے کچھ ناراضگی کا عنصر جھلک رہا ہے۔
دیکھیں بھائی میں نے نہ تو پوری دنیا کے مسلم کے اتحاد کی بات کی ہے اور نہ ہی اس کے لئے فی الحال کوشاں ہوں۔ میں اپنے ملک پاکستان میں اتحاد کے لئے کوشاں ہوں اس کے لئے تعاون کا کہ رہا ہوں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۔۔۔۔۔۔ الآیۃ
اس میں پہل اہل حدیث کا حق بنتا ہے کہ وہ تعداد میں تھوڑے ہونے کے ساتھ علم بھی رکھتے ہیں احناف (دیو بندی، بریلوی) ننانوے فی صد فقہ سے لاعلم لوگ ہیں۔ علم والے کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے آگے بڑھے۔
سنجیدگی سے عرض هیکہ وہ 99% جناب محترم اشماریہ بهائی کے مراسلہ پر غور کریں اور عملا آدهی دنیا سے تو "اتحاد" کر ہی لیں ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃاللہ
جو قربانی شریعت نے نہیں مانگی وہ قربانی کسی کے ذمے نہیں ہونی چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ قربانی نہیں دی تو کیا ہم ان سے زیادہ سمجھدار ہیں؟
آپ کی بات کو میں فالو نہیں کر پایا ٹھوڑا وضاحت فرمادیں۔

باقی خطا والے مجتہد کو اجر اس لیے ملتا ہے کہ وہ اسے درست سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اگر مجتہد کسی مسئلے کو خطا سمجھتے ہوئے عمل کرے تو یہ اس کے لیے سرے سے جائز ہی نہیں ہے۔
جی بالکل متفق

علامه كاسانيؒ (جو احناف ميں ملک العلماء کہلاتے ہیں) فرماتے ہیں:
فإن كان من أهل الاجتهاد، وأفضى رأيه إلى شيء يجب عليه العمل به، وإن خالف رأي غيره ممن هو من أهل الاجتهاد والرأي، ولا يجوز له أن يتبع رأي غيره؛ لأن ما أدى إليه اجتهاده هو الحق عند الله - عز وجل - ظاهرا
(بدائع الصنائع،7۔4، ط: دار الکتب العلمیۃ)
ترجمہ: "اور اگر وہ اہل اجتہاد میں سے ہو اور اس کی رائے کسی ایک چیز کی جانب مائل ہو جائے تو اس پر عمل کرنا اس کے لیے واجب ہے اگرچہ وہ اس میں دوسرے رائے اور اجتہاد والوں کی مخالفت کرے۔ اور اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی اور کی رائے کی اتباع کرے اس لیے کہ جس چیز کی طرف اس کے اجتہاد نے اسے پہنچایا ہے، ظاہراً وہی اللہ عز وجل کے نزدیک حق ہے۔"
یہاں آپ نے لفظ ’’واجب‘‘ لکھا ہے میرے خیال میں ’’واجب‘‘ نہیں بلکہ ’’جائز‘‘ کہیں تو زیادہ بہتر ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃاللہ
کیا غیر علم والے پر یہ لازم نہیں ہے کہ وہ علم والے سے پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرے؟ فاسئلوا اہل الذکر میں اسی طرف تو اشارہ ہے۔
جی آپ نے بالکل صحیح کہا اور عموماً لوگ ایسا ہی کرتے ہیں۔

اس لیے آپ کے قول کے مطابق تمام "فقہ سے لاعلم مقلدین" کو مسائل علم والے اہل حدیث بھائیوں سے پوچھ کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے نہ کہ ان اہل حدیث کو بھی لاعلموں کے پیچھے چلنا چاہیے۔
بھائی آپ نے شائد میری پہلے والی پوسٹ کو غور سے نہیں پڑھا۔ میں نے سو (100) فی صد نہیں بلکہ ننانوے (99) فی صد لکھا تھا اور جو ایک (1) فی صد بچائے تھے وہ یہی اہل الذکر ہی تھے (ابتسامہ)۔
میرے بھائی یہ تو بڑی نا انصافی کی بات ہے کہ آپ انہیں ان کی بجائے اہل حدیثوں ہی کے پاس بھیجنا چاہتے ہیں!
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا بات یہ ہے کہ مشورہ میں کہا جاتا ہے کہ خیر ہے وہ اسی سبب ہے کہ مختلف اذہان ہر پہلو کو اجاگر کر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی کو دوسری فقہوں پر فوقیت حاصل ہے کہ یہ مشاورت سے مدون کی گئی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃاللہ
سنجیدگی سے عرض هیکہ وہ 99% جناب محترم اشماریہ بهائی کے مراسلہ پر غور کریں اور عملا آدهی دنیا سے تو "اتحاد" کر ہی لیں ۔
بھائی آپ کو پوری دنیا کی فکر لگی ہے اور مجھے پاکستان کی۔ اصلاح جز سے کل کی ممکن نہ کہ کل سے جزو کی۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃاللہ
محترم اشماریہ بھائی کی ایک بات تھوڑی ترمیم کے ساتھ قابل غور ہے وہ یہ کہ اگر کسی کے پاس ’’برہان‘‘ ہو تو وہ اگر تعداد میں کم بھی ہوں تو ان کے لئے جائز نہپیں کہ وہ اکثریت سے اتحاد کی خاطر اس کو چھوڑیں۔
مگر معاملہ یہاں یہ ہے کہ برہان کسی کے پاس نہیں۔ ہاں البتہ احناف کے دلائل میرے خیال میں نماز میں ہاتھ باندھنے کے معاملہ میں قوی ہیں۔ چند ایک ذکر کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ تم نماز ایسے پڑھو جیسا مجھے پڑھتے دیکھا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے صحابہ کرام نے دیکھا اور یاد رکھا۔ صھابہ کرام کو تابعین نے دیکھا اور یاد رکھا۔ اس طرح سلسلہ چلا۔
صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین برجہ اولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نماز پڑھنے والے تھے۔ ان خلفاء راشدین میں سے آخری خلیفہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ورود کوفہ میں ہؤا اور اسے داراکلافہ بنایا۔ ان کے سات کثیر تعداد میں صحابہ کرام بھی آئے جنمیں بڑی عمر کے جلیل القدر صحابہ کرام بھی تھے۔
یہ پانچ وقت کے نمازی پانچ وقت کی نما جیسے پڑھتے تھے اسے کوفہ والوں نے دیکھا اور ان سے سیکھا۔ کوفہ کے فقیہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد محدث امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:
الآثار لمحمد ابن الحسن - (ج 1 / ص 158)
119 - محمد ، قال : أخبرنا أبو حنيفة ، عن إبراهيم ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتمد بإحدى يديه على الأخرى في الصلاة ، يتواضع لله تعالى
قال محمد : ويضع بطن كفه الأيمن على رسغه الأيسر تحت السرة فيكون الرسغ في وسط الكف۔
امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہاتھ باندھنے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کو الٹے ہاتھ کے گٹ پر ناف کے نیچے رکھے اور اس کا گٹ ہتیلی کے وسط میں ہو۔
یہ طریقہ انہوں نے تابعین کی نماز کو دیکھ کر اس تفصیل سے لکھا۔
اس کی تائید ایک دوسرے محدث سے بھی ہوتی ہے۔ صحیح ترمذی میں ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے لوگوں کو نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے یا ناف کے اوپر ہی باندھتے دیکھا۔ یہ دو محدثین کی دکھی ہوئی نماز ہے وہ بتا رہے ہیں۔
اب آئیے فقہاء کی طرف۔ ابو حنفہ رحمۃ اللہ کے شاگرد سے تو بات پہلے ہی واضح ہوچکی۔ احناف کا اس کے علاوہ کوئی قول نہیں۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی ناف کے نیچے یا اوپر ہی کا کہتے ہیں۔
امام مالک کا قول ہے کہ یا تو ہاتھ کھلے رکھیں اگر باندھیں تو ناف کے نیچے۔
امام شافعی کا ایک قول ناف کے نیچے کا ہے اور ایک سینہ پر کا ہے۔ ان میں سے راجح کونسا ہے اس کا علم نہیں۔
یہ چند گزارشات جمناً کردیں تاکہ یہ نہ کہا جائے کہ زبردست ہے کیا کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھ کر ہی ’’اتحاد‘‘ ہوسکتا ہے۔
مقصد اس پر مباحثہ کرنا نہیں بلکہ پاکستان کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کر ان میں ’’اتحاد‘‘ پیدا کرنا ہے۔ اس کے لئے تیار ہیں نا آپ سب لوگ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
اولا: " ﺟﻮ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﻭﮦ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺫﻣﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ- ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮩﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭ ﮨﯿﮟ؟" (اشماریہ)

ثانیا: یہ کس اتحاد کی بات کی جارہی هے ؟ میری نظر میں محض ظاهری اتحاد کو اهمیت دی جارہی هے اور اصل اتحاد جو واقعتا ضروری هے اس کی اهمیت کو کم سے کم کرنے کی کوشش هے ۔ ظاهر ایک اور بباطن کئی !؟
نماز کی ادائیگی کے طریقے پر مختلف آئی ڈیز سے کئی تهریڈ شروع کیئے گئے اور جو بهی نتائج رهے وہ اس فورم کے اوراق پر محفوظ ہیں ۔
الغرض تمہید مختلف تهی مثلا "پلیٹ فارم" یا "اتحاد" جبکہ کوشش اور ہی هے ، خاص کر جب اتحاد کی باتیں کرنیوالا اپنی ہی کہی باتوں کا مطلب بدل دے ۔ مثلا اشماریہ بهائی کے مدلل رد پر رد عمل میں لکهے گئے جملے ۔
بات ابو طلحہ بابر کی یک سطری تحریر بالکل موزوں جواب هے ، دوبارہ ملاحظہ فرمائیں :
" ﻣﺤﻠﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﯾﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﺗﺤﺎﺩ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ- "
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ کی بات کو میں فالو نہیں کر پایا ٹھوڑا وضاحت فرمادیں۔
میرے بھائی! نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس بارے میں اختلاف آپ کو پتا ہے کہاں سے ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے فوراً بعد اہل کوفہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھتے تھے، اہل مدینہ اور حسن بصری رضی اللہ عنہ وغیرہ ہاتھ کھلے چھوڑ دیتے تھے اور اہل مکہ ہاتھ ناف کے اوپر باندھتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب کے مسالک اس سلسلے میں واضح نہیں ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ تابعین انہی صحابہ کرام رض سے سیکھ کر یہ عمل کرتے تھے۔ اب ان میں سے اہل مدینہ کوفہ اور مکہ جاتے رہتے تھے، اہل کوفہ علم حاصل کرنے کے لیے مکہ اور مدینہ جاتے تھے اور اہل مکہ کوفہ اور مدینہ۔ اس سلسلے میں امام شافعیؒ تابعین اور تبع تابعین کے بعد واضح مثال ہیں۔ کیا امام شافعیؒ نے مدینہ جانے کے بعد ہاتھ کھلے چھوڑنا شروع کر دیے یا کوفہ جانے کے بعد ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا شروع کیے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ حتی کہ ان کے بارے میں یہ بھی ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے رفع یدین تک کبھی اس وجہ سے ترک کیا ہو۔ امام شافعیؒ کے اپنے استاد امام محمدؒ سے مناظرے بھی ہوئے ہیں مسائل پر لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنا مسلک ترک نہیں کیا۔
جب کسی صحابی یا تابعی سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے فروعی احکام میں اپنا مسلک صرف اتفاق کے لیے ترک کر دیا ہو تو کیا ہم اس سلسلے میں ان سے زیادہ سمجھدار ہیں؟

آپ نے فقہاء کرام کے اقوال نقل فرمائے۔ بے شک ان میں کوئی قول اس طرح سینےپر ہاتھ باندھنے کا نہیں ہے جس طرح اہل حدیث حضرات باندھتے ہیں لیکن اتفاق اور اتحاد تو ان میں بھی نہیں ہے۔ سب کے اقوال الگ الگ ہیں اور ان میں سے کسی مسلک والے نے دوسرے کے علاقے میں جا کر اپنے مسلک کو اس جگہ کے حساب سے نہیں کیا۔
مصر میں مالکیہ کا مسلک بہت زیادہ تھا۔ وہاں امام شافعیؒ کی شہادت کی بنیادی وجہ ہی بعض روایات کے مطابق امام مالکؒ کے مسائل سے کھلا اختلاف تھی۔

اب آپ کہتے ہیں کہ ہم اتحاد اس طرح کریں کہ سب ایک طرح ہاتھ باندھ لیں۔ پھر اس سے کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ جو حنفی لوگ مسجد میں نماز پڑھتے ہیں وہ یہ دیکھیں گے کہ اہل حدیث بھی نیچے ہاتھ باندھ رہے ہیں اور بس۔
اگر کسی حنفی کو یہ دیکھ کر دل میں تنگی پیدا ہوتی ہے کہ کوئی اہل حدیث اپنی وسعت اور علم کے مطابق اللہ کے نبی ﷺ کی حدیث پرعمل کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو اسے دس جوتے لگانے چاہئیں تاکہ اس کی عقل ٹھکانے آ جائے۔ اسے کہنا چاہیے کہ اگر تجھے زیادہ مسئلہ ہے تو تو خود علم حاصل کر اور پھر اپنی وسعت کے مطابق حدیث پر عمل کر۔
میں ناف کے نیچے ہاتھ اس لیے نہیں باندھتا کہ میں حنفی ہوں۔ بلکہ اس لیے باندھتا ہوں کہ میرے نزدیک دلائل سے یہ راجح ہے۔ ہر کوئی یہ کر سکتا ہے اور اس کے لیے وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی سارا دن دو اور دو چار کا حساب کرے اپنی دکان پر بیٹھ کر اور نماز کے وقت میں اسے دوسرے اپنے سے زیادہ علم والے کو دیکھ کر "انقباض" ہونے لگ جائے تو (معذرت کے ساتھ) اسے "اتحاد" کی نہیں "جمال گوٹے" کی ضرورت ہے۔
 
Top