• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہاء اربعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نمایاں خدوخال:

٭۔ علماء احناف کی آراء:

پہلی رائے:
امام محترم ؒسے منسوب یہ فقہ اگرچہ عام طور پر فقہ حنفی کہلاتی ہے لیکن درحقیقت وہ چار شخصوں یعنی امام ابوحنیفہؒ، امام زفرؒبن ہذیل(۱۱۰۔۱۵۸)، قاضی ابویوسفؒ اورامام محمدؒ بن حسن الشیبانی(۱۳۲۔۱۸۹) کی آراء کا مجموعہ ہیں۔ قاضی ابویوسفؒ، وامام محمدؒ نے بیشتر مسائل میں امام ابوحنیفہؒ کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔ فقہائے احناف کی اکثر مرویات میں ہے کہ ان صاحبوں کو اعتراف تھا کہ ہم نے جو اقوال امام ابوحنیفہ ؒکے خلاف کہے وہ بھی امام ابوحنیفہؒ ہی کے اقوال ہیں کیوں کہ بعض مسئلوں میں امام ابوحنیفہؒ نے متعدد اور مختلف آراء ظاہر کی تھیں۔

دوسری رائے:
یہ ان فقہاء کا حسن ظن ہے، قاضی ابویوسفؒ اور امام محمدؒ اجتہاد مطلق کا درجہ رکھتے تھے اور انہیں اختلاف کا پورا حق حاصل تھا۔ اسلام ترقی پذیر اس وقت تک رہا جب تک لوگ باوجود حسن عقیدت کے اپنے بزرگوں، اور اساتذہ کی رائے سے اختلاف کرتے تھے اور خیالات کی ترقی محدود نہ تھی۔ یہ لوگ ہر سابقہ حکم اور فیصلہ کو بعد کے فیصلہ اور حکم کی روشنی میں پڑھتے، سمجھتے اور اس پرعمل کیا کرتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک قانون کی تعبیر وتشریح کا یہ وہ اصول ہے جس کو نہ صرف اسلامی قانون بلکہ آج بھی دنیا کے سارے ہی قوانین تسلیم کرتے ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ ان چاروں میں امام ابویوسف ؒ سب سے زیادہ متبع حدیث ہیں۔

تیسری رائے:
فقہ حنفی کے احکام ومسائل ادلہ شرعیہ سے ان اصول اور قواعد سے ماخوذ و مستنبط ہیں جو امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں نے وضع کئے۔ فقہ حنفی کا ایک عام قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ مسائل کے جواز وعدم جواز یا اس کے صحیح یا غلط ہونے میں ائمہ احناف کے مابین آراء کا اختلاف نظر آتا ہے یعنی اگر امام ابوحنیفہؒ کسی چیز کو جائز قرار دیتے ہیں تو ان کے شاگرد اسے ناجائز گردانتے ہیں۔ ایسی صورت میں متأخر ائمہ احناف نے ان اختلافی اقوال میں ترجیح کے کچھ اصول بیان فرمائے ہیں جو فقہ حنفی کی حفاظت کے لئے ان کی ایک اجتہادی کوشش ہے اور حنفی نقطہ نظر کو سمجھنے کے لئے بہت اہم بھی۔

چوتھی رائے:
یہ بات علماء احناف کے ہاں طے شدہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو فقہ کے اصول وضع کیے تھے تمام حنفی فقہاء ان کے پابند تھے اور آج بھی ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کی رائے میں کوفہ کے اصحاب کی روایات، ان کے فتاوی اور ان کے قیاسی مسائل ہی قابل اعتماد ہیں۔ انہی اصولوں کو سامنے رکھ کر فقہی مسائل کی وقت کے ساتھ ساتھ تدوین کی گئی اور تخریج بھی۔ اس لئے اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف رائے ہو تو اس صورت میں کس کی بات قبول کی جائے گی اور کس کی بات غیر مقبول ٹھہرے گی؟ اس سلسلے میں وقتا فوقتا بتدریج حسب ذیل اصولوں اور ضابطوں کو متعارف کرایا گیا جو مختلف اصولی و فقہی کتب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضابطے:

… اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے دونوں شاگردوں یعنی امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کسی مسئلہ میں متفق الرائے ہیں تو بعد کے مفتی حضرات اسی اتفاقی قو ل کے مطابق ہی فتویٰ دیں گے۔

… اور اگر ان کے مابین اختلاف ہے تو بعض ائمہ احناف کے نزدیک سب سے اولین حیثیت امام ابوحنیفہؒ کے قول کی ہوگی ورنہ امام ابویوسفؒ کی۔ ان کے بعد امام محمدؒ، پھر امام زفرؒ اور پھر امام حسن ؒبن زیاد کے قول پر فتوی ہوگا۔

… بعض فقہائے احناف کے ہاں اگر امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ دونوں کی رائے یا مسئلہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے یا مسئلہ کے خلاف ہے تو مفتی کو اختیار ہے کہ وہ امام صاحب یا دونوں شاگردوں میں سے جس کو چاہیں ان کے قول پر فتوی دے دیں۔ اگر مفتی مجتہد نہیں تو مناسب یہی ہے کہ اولاً امام صاحب کو رکھے پھر امام ابویوسف ؒ کو ، پھر امام محمدؒ کو، پھر امام زفرؒ کو اور پھر امام حسن بن زیادؒ کو۔ (فتاویٰ سراجیہ)

… رد المختار جو فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب ہے اس کی ج۱ص۵۳، اور ج۲ص۴۰۵میں مرقوم ہے:

مسائل میں اگر امام ابوحنیفہؒ اور ان کے شاگردوں کے مابین اختلاف ہو تو پھرفقہاء احناف کے نزدیک عبادات میں ہمیشہ فتوی امام ابوحنیفہؒ کے قول پر ہوگا اور مسائل ذوی الأرحام میں امام محمدؒ کے قول پر۔ جب کہ وقف، قضاء، مواریث اور شہادات کے مسائل میں امام ابویوسفؒ کے قول پر اور سترہ مسئلوں میں امام زفرؒ کے قول پر فتوے ہوگا۔ مفتی کے لئے درجہ بالا اصول ہی پیش نظر رہیں گے۔

مگر امام صباغی ؒحنفی اس کے خلاف ہیں اسی کتاب کی ج۱ص۱۶۱میں ہے :

وہ نماز میں صرف امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتوی دیا کرتے تھے اور دیگرمسائل خواہ عبادات ہوں یا غیر عبادات سب میں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭۔ تلفیق:
تلفیق کا اہم مسئلہ کتب فقہ میں زیربحث آیا ہے۔ طلبہ دین اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔جس سے مراد ہے کہ کیاایک مذہب کا عام وخاص شخص دوسرے مذہب کے مسائل اختیار کرسکتا ہے یا نہیں؟اس عمل کو فقہاء تلفیق کہتے ہیں۔ احناف کے ہاں اس کی دو قسمیں ہیں۔ تلفیق مذموم اور تلفیق محمود۔

 تلفیق مذموم:
دوسرے مذہب کی باتیں اختیار کرنے میں اگر نیت صرف سہولتوں کی تلاش ہو۔ یعنی ہر مذہب سے اپنی خواہش کے مطابق مسائل وجوازلے لیا جائے تو ایسا کرنا یقینا قابل مذمت ہے۔مثلاً : غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا یا رمضان مبارک میں فجر کی نماز اول وقت میں پڑھنا۔

تلفیق محمود ومطلوب:
جب نیت ومقصدمحض حق کی تلاش اور نصوص شریعت کی بالا دستی قائم کرنا ہو اور عوام کو آسانی فراہم کی جائے تو ایسی تلفیق عین مطلوب ہے مثلاُ: کوئی حنفی شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیتا ہے۔ ایسی طلاق فقہ حنفی میں تین طلاقیں ہی شمار ہوتی ہیں جو بیوی کو شوہر پر حرام کردیتی ہیں۔شوہر اگر اپنی غلطی پر نادم ہو اور بیوی کو دوبارہ آباد کرنا چاہتا ہو تو فقہ حنفی ہی اسے یہ سجھاتی ہے کہ اپنی بیوی کا حلالہ کرائے۔ تاکہ وہ اس کے لئے حلال ہو سکے۔دوسری طرف زوجین اسے ایک غیرت کا مسئلہ بناتے اور ناپسند کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں فقہ حنفی کو چھوڑ کر اس حدیث پر عمل کرلیا جائے جو رسول اکرم ﷺ نے خود ایسے جوڑے کو آباد کرنے کا فرمایا تھا۔ کہ ایسی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوگی اور رجعی ہوگی شوہر اپنے بیوی سے عدت کے اندر اگر رجوع کرلیتا ہے تو بغیر نکاح کے اس کا یہ حق ہے اور بعد از عدت رجوع کی صورت میں دوبارہ نکاح ہوگا۔ مگر حلالہ کرنے اور کروانے والوں پر آپ ﷺ نے لعنت فرمائی۔ ایسی صورت میں اگر کوئی حق کو پانے کے لئے اپنے مسلک سے نکل کر کسی اور مذہب کے آسان حل کی طرف جانا چاہتا ہو تو امام ابوحنیفہؒ اس کے جواز کے قائل ہیں۔

حَکَی الْحَنَّاطِیُّ وَغَیرُہُ عَنْ أَبِی إسْحَاقَ فِیْمَا إِذَا اخْتَارَ مِنْ کُلِّ مَذْہَبٍ مَا ہُوَ أَہْوَنُ عَلَیہِ، أَنَّہُ یُفَسَّقُ بِہِ۔ وَعَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ: لاَ یُفَسَّقُ بِہِ۔امام حناطی اور دیگر علماء نے ابو اسحاق سے یہ بیان کیا ہے کہ ہر مذہب سے اگر آسانی کے لئے کچھ اختیار کر لے تو وہ گناہ گار ہوگا۔ امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں : وہ ایسا کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا۔

صرف رخصتیں تلاش کرنا بھی امام صاحبؒ کے نزدیک جب فسق نہیں تونصوص شریعت کی بالا دستی اور عوام کی سہولت کے نقطہ نظر سے مختلف مذاہب کی باتیں اختیار کرنا کیسے غلط ہوگا۔ ہر دور میں ایسا ہوا ہے۔ برصغیر میں حنفی علماء نے زوجہ مفقود الخبرکے بارے میں حنفی فقہ کی بجائے فقہ مالکی کا مسلک اپنا یا ہے۔اور اسے بجائے نوے سال کا انتظار کرنے کے چار سال کے انتظار کا کہا ہے ۔پھر چار ماہ دس دن عدت گذار کر اسے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایسے مسائل کے لئے عصر حاضر میں فقہی جمود کی نہیں بلکہ فقہی توسع کی ضرورت ہے۔ امام طحاویؒ قاضی کے آداب میں امام محمدؒ کا ارشاد گرامی ذکر فرماتے ہیں:
وَإِنْ کَانَ إِنَّمَا قَضَی بِہِ بِتَقْلِیدِ الْفَقِیہِ بِعَینِہِ، ثُمَّ تَبَینَ لَہُ أَنَّ غَیرَہُ مِنْ أَقْوَالِ الْفُقَہَائِ أَوْلٰی مِمَّا مَضَی بِہِ ، نَقَضَہِ، وَقَضَی بِمَا یَرَاہُ فِیہِ، وِبِہِ نـَأخُذُ۔ وَلاَ یَنْبَغِیْ لَہُ أَنْ یَنْقُضَ قَضَائَ مَنْ تَقَدَّمَہُ مِنَ الْقُضَاۃِ إِذَا کَانَ مِمَّا یَخْتَلِفُ فِیہِ الْفُقَہَائُ۔
اگر قاضی نے کسی معین فقیہ کی تقلید میں فیصلہ کیا ۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ کسی دوسرے فقیہ کا قول اس سے بہتر ہے تو اسے چاہئے کہ پہلا فیصلہ توڑ کر صحیح فیصلہ کرے ۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں : ہم بھی اس کے قائل ہیں۔ لیکن قاضی متقدمین فقہاء کے اس فیصلہ کو توڑ نہیں سکتا جس میں فقہاء کا اختلاف ہو۔ (مختصر الطحاوی ص۳۲۷)

مگراس گنجائش کو سختی کی نذر فقہاء کرام نے نہیں فرمایا۔ بقول صاحب شرح مسلم الثبوت :
شَدَّدَ بَعْضُ الْمُتَکَلِّمِینَ، قَالُوا: ’’اَلْحَنَفِیُّ إِذَا تَرَکَ مَذْہَبَ إِمَامِہِ یُعَزَّرُ‘‘، وَالْحَقُّ أنَّہُ تَعَصُّبٌ،لاَ دَلِیلَ عَلَیہِ، وَإنمَا ہُوَ تَشْرِیعٌ مِنْ عِنْدِ نَفْسِہِ۔ قَالَ فِی التَّیْسِیْرِ شَرْحُ التَّحْرِیرِ: ’’ہُوَالأَصَحُّ، إِذْ لاَ وَاجِبَ إِلاَّ مَا أَوْجَبَہُ اﷲُ، وَبِالْجُمْلَۃِ لَا یَجِبُ تَقْلِیدُ مَذْہَبٍ مُعَیَّنٍ، بَلْ جَازَ الاِنْتِقَالُ۔ لَکِنْ لَابُدَّ أَنْ لاَ یَکُونَ ذَلِکَ قَصْدَ التَّلَہِّی وَتَوہِینِ کِبارِ الْمُجْتَہِدِینَ۔‘‘
کچھ متکلمین اہل علم نے شدت سے کام لیا اور کہہ دیا : ’’حنفی اگر اپنے امام کے مذہب کو ترک کر دے تواسے تعزیر (کوئی سزا) دی جائے۔‘‘ سچ پوچھیں تو یہ متعصبانہ بات ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ بلکہ اپنی طرف سے شریعت سازی ہے۔ ’’التیسیر‘‘ میں ہے : ’’بالکل یہ تعصب ہے کیونکہ واجب وہی ہے جسے اللہ نے واجب قرار دیا، (ہم کون ہوتے ہیں تقلید کو واجب کرنے والے، اور اس کے ترک پر تعزیر دینے والے) بہرحال کسی مذہب معین کی تقلید واجب نہیں۔ بلکہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف مسئلہ کی تلاش میں جانا بھی جائز ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ایسا کرنامحض خواہش نفس کی بنیاد پر نہ ہو اور نہ ہی مجتہدین کرام کی توہین مقصودہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ان اصولوں کو دیکھ کر ایک معتدل قاری یہ ضرور باور کرتا ہے کہ متقدم علماء احناف حریت فکر کے قائل تھے۔ان کے نزدیک تلفیق کرنا نعوذ باللہ یہودیوں یا عیسائیوں سے کوئی بات لینا نہ تھا اور نہ ہی اس کی اجازت لینا تھا۔بلکہ دین کے یہ سب ممتاز علماء ہی تھے جن کے علم سے مستفید ہونا مقصود تھا۔ ممتاز ترین شاگرد بھی باوجود مجتہد فی المذہب ہونے کے متعدد مسائل میں شیخ سے مختلف رائے رکھتے تھے جو ان کی باکمال وسعت کا مظہر ہے۔

تلفیق کے مسئلے کو اس مثال سے سمجھئے کہ کسی مرض کے علاج کے لئے کوئی فیملی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے۔ وہ مریض کو آپریشن کا مشورہ دیتا ہے یا تجویز دیتا ہے۔ مریض آپریشن سے ڈر جاتا ہے اور Second Opinionکے لئے کسی دوسرے Specialist کے پاس جاتا ہے ۔ یہ دوسرا معالج مرض کی نوعیت کو سمجھنے کے بعد یہ تجویز کرتا ہے کہ آپریشن کی ضرورت نہیں ہے یہ دوا لے لیں۔ اس صورت میں مریض دوسرے معالج کی رائے ہی کو ترجیح دے گا اور دینی چاہئے۔یہ خواہش پرستی نہیں اور نہ ہی نیت کی خرابی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہ حنفی کی چند اصطلاحات:

مفتٰی بہا:
ہر دور میں پیش آمدہ مسائل پر تخریج ، فقہ حنفی کی ضرورت رہی ہے اور رہے گی۔ فروع اور چند اصولوں کی بنیاد پر کی گئی یہ کوششیں اصحاب تصحیح اور اصحاب تخریج کی ذمہ داری ٹھہری۔ چنانچہ جو نئے فروعی یا مفروضہ مسائل ان اصحاب کی نظر سے گذرے وہ مفتیٰ بہا کہلائے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اب علماء احناف کا فتوی ان مسائل پر ایسا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ تخریج جیسی وسعت ہوتے ہوئے پھر تقلید پر اصرار بے معنی سی بات لگتی ہے۔ مفتیٰ بہا مسائل کو ایک طالب علم وعام قاری کس طرح جانے؟ اس کے لئے الگ فقہی کتب کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ جہالت میں نامعلوم کتنے لوگ کسی بھی فقہی کتاب کو پڑھ کر اس سے مسائل کی تفہیم شروع کردیتے ہیں جو خالصتاً غیر علمی کوشش ہوگی۔ اسی طرح آج کے مسائل کے لئے اصحاب تصحیح وترجیح کون ہیں جن کے فتاوی وغیرہ کو مفتیٰ بہا کہا جا سکے اس کی وضاحت کی بھی ضرورت ہے۔

ظاہر الروایہ:
عام طور پر اس سے ائمہ احناف امام ابوحنیفہؒ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے اقوال مراد ہیں۔

ا لإ مام:
سے مراد امام ابوحنیفہؒ ہیں۔

الشیخان:
مراد امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسف ؒہیں۔

الطرفان:
اس سے مراد امام ابوحنیفہؒ اور امام محمدؒ ہیں۔

صاحبان:
سے مراد امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ ہیں۔

أصحابنا:
مشہور یہی ہے کہ اس سے مراد تینوں ائمہ کرام ہیں۔ انہیں ائمہ ثلاثہ بھی کہہ دیتے ہیں۔

مشائخ:
وہ فقہاء جنہوں نے امام محترمؒ کا زمانہ نہ پایا۔

سلف:
اس سے مرادصدر اول کے فقہاء جو امام محمدؒ بن الحسن تک ہیں ۔ خلف سے امام محمدؒ تا شمس الأئمہ الحلوانی ؒتک ہیں اور متاخرون سے مراد ۔ الحلوانی تا حافظ الدین بخاریؒ تک ہیں۔ (حاشیہ ا بن عابدین ۷؍۱۶۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فقہاء احناف اور ائمہ کے مابین اختلاف کی صورتیں:
علامہ ابوزید الدبوسی(م:۴۳۰ھ) نے اپنی کتاب تَأْسِیْسُ النَّظَرِ میں ائمہ احناف اور دیگرفقہاء کے مابین اصولی اختلافات کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں:

۱۔ امام ابوحنیفہؒ اور صاحبین میں اختلاف

۲۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ میں اختلاف

۳۔ امام ابوحنیفہؒ ، امام محمدؒاور امام ابویوسفؒ میں اختلاف

۴۔ امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کے مابین اختلاف

۵۔ امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، حسن بن زیادؒ اور امام زفرؒ میں اختلاف

۶۔ احناف اور امام مالکؒ میں اختلاف

۷۔ احناف اور امام ابن ابی لیلیؒ میں اختلاف

۸۔ احناف اور امام شافعیؒ میں اختلاف

علامہ دبوسیؒ نے ان اصولوں کا بھی ذکر کر دیا ہے جو ان ائمہ کے مابین اختلاف کا سبب بنے۔ بعد کے فقہاء اور علماء کے مابین اصولی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ سطحی سا محسوس ہوتا ہے۔مفقو د الخبرکا مسئلہ ہو یا وضوء کا، یا فقہی کتب میں وارد دیگرمسائل ہوں، یہ سب کچھ اختلاف برائے اختلاف نہ تھا بلکہ برائے وسعت تھا ۔کتاب الحیلۃ الناجزۃ میں مؤلف مرحوم نے کھلے دل سے اس کا اعتراف کیا ہے۔اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بھرپور جزا دے۔آمین۔ مگرمتاخر تلامذہ نے عوام کے فعل وعمل کی ذمہ داری اٹھا کر بعض مسائل متعارف کرائے اور ان کی طرف سے ترجمانی بھی کی اور انہیں اختلافی مسائل بھی کہا۔جب کہ ان مسائل میں ائمہ فقہاء کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مثلاً: زبان سے نیت کے مسئلے میں بعض متاخر علماء کا یہ کہنا کہ اس مسئلہ میں اختلاف ہے ۔ حالاں کہ نیت کا تعلق زبان سے نہیں بلکہ دل سے ہے ۔ اور ائمہ اربعہؒ اس پر متفق ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
وفات:
خلافت اموی کے بعد علویوں اور عباسیوں کے مابین جو سیاسی وانتقامی آگ بھڑکی تو امام محترمؒ نے اس موقع پرمحمد نفس ذکیہ کے بھائی ابراہیم کا مالی، سیاسی اور اخلاقی ساتھ دیا۔ ان کی ہمت بندھائی اس لئے کہ امام محترم عباسیوں کی ابتدائی بے اعتدالیوں کو دیکھ کر مسلمانوں کے مستقبل سے خائف تھے۔ عباسی خلیفہ منصور نے بغداد کو اپنا مرکز بناکران اکابرین پر ہاتھ ڈالا جن کا مسلم دنیا پر ایک اثر تھا اور سیاسی طور پر وہ مخالف بھی تھے۔ امام محترم کے بارے میں اسے علم تھا کہ انہوں نے ابراہیم کا ساتھ دیا ہے۔انہیں بلا بھیجا ۔ گفتگو کے دوران اس نے عہدہ قضاء تجویز کیا جسے امام محترم نے رد کردیا۔ اور کہا کہ میں اس کی اہلیت نہیں رکھتا وجہ یہ بتائی کہ مجھے اپنی طبیعت پر اطمینان نہیں، نہ ہی میں عربی النسل ہوں اس لئے اہل عرب کو میرا قاضی بننا ناگوار ہوگا۔ درباریوں کی مجھے تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ سب کچھ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ منصور نے غصہ میں آکرکہا : تم جھوٹے ہو۔ امام محترم ؒنے فرمایا: آپ نے خود ہی میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ پھر جھوٹا آدمی کیسے قاضی بن سکتا ہے۔ مگر پھر بھی منصور نہ مانا اور قسم کھا کر کہا کہ تمہیں یہ عہدہ قبول کرنا ہوگا۔ امام محترم نے بھی قسم اٹھالی کہ ہرگز قبول نہیں کروں گا۔ اس جرـات وبے باکی پر اہل دربار حیران رہ گئے۔ ربیع جو حاجب منصور تھا اس نے غصہ سے کہا: ابوحنیفہ ! تم امیر المومنین کے مقابلہ میں قسم کھاتے ہو؟ امام محترمؒ نے جواب میں فرمایا: جی ہاں! اس لئے کہ امیر المومنین کو قسم کا کفارہ ادا کرنا میری نسبت زیادہ آسان ہے۔

خلیفہ منصور نے امام محترم ؒکو جیل بھجوادیا۔ یہ سن۱۴۶ھ تھا مگر خلیفہ منصور، امام محترم کی وجیہ علمی شخصیت سے بہت متأثر تھا اور خوف زدہ بھی۔ بغداد ویسے بھی علوم وفنون کا مرکز بن چکا تھا۔ علماء کی آمد ورفت اور اس کے اہل دین پر اثرات ایک بہت بڑی قوت ثابتہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے آخری تدبیر پھر یہی کی کہ امام محترم کو بے خبری میں زہر دلوادیا۔ امام محترمؒ کو جب علم ہوا تو بارگاہ الٰہی میں سجدہ شکر بجالائے اور اسی عالم میں جان ،فرشتہ اجل کے حوالے کی۔ اور یوں منصور کی قید کے بعد قید حیات سے بھی چھوٹ گئے۔

امام محترمؒ کی وفات کی خبر شہر میں پھیلی تو پورا شہر غم واندوہ میں ڈوب گیا۔ چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی۔ پہلی نماز جنازہ میں کم وبیش پچاس ہزار کا مجمع تھا۔ بغداد کے خیزران نامی مقبرے میں عصر کے قریب جاکر تدفین عمل میں آسکی۔ اور یوں علم فقہ کا یہ آفتاب اپنی حیات میں امت مسلمہ کو ایک نئی، منفردفقہی ، استدلالی اور اجتہادی جہت دے کر رخصت ہوگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ایک تحقیق طلب معاملہ:
امام ابوحنیفہ ؒ بلاشبہ اپنے وقت کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ جن کی فکرکو ان کے شاگردوں نے بڑی عرق ریزی اور محنت کے بعد منظم ومربوط کیا۔ جو ان کی پہچان بنی اور یہی ان کی امامت کی دلیل ہے۔ مگر کچھ مبالغہ آمیزباتیں امام محترمؒ کے بارے میں کہی گئیں جو آج کے تحقیقی دور میں علمی اعتبار سے بہت کمزور حیثیت رکھتی ہیں۔ مناسب یہی تھا جیسا مقام اللہ تعالیٰ نے امام محترم کو دیا اس کے بڑھانے میں یہ غیر علمی کوششیں نہ کی جاتیں۔ ان چند منسوب باتوں میں ایک بات تدوین فقہ اور مجلس علمی کی بھی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے تدوین فقہ کے لئے چالیس ارکان پر مشتمل ایک مجلس قائم کررکھی تھی جو مخصو ص مسائل کو کھنگالتی۔ اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے تو اسی وقت قلم بند کرلیا جاتا ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں ۔ کبھی کبھی دیر تک بحث قائم رہتی۔ امام ابوحنیفہؒ غور وتحمل کے ساتھ سب کے دلائل سنتے اور بالآخرایسا جچا تلا فیصلہ صادر فرماتے جو سب کو تسلیم کرنا پڑتا۔ اس کام میں کم وبیش تیس برس لگے اور یوں چودہ لاکھ فقہی مسائل مدون ہوئے۔ بعض عقیدت مندوں نے تدوین فقہ کا یہ دورانیہ چودہ برس کا بھی لکھا ہے۔بغور اس واقعہ کو دیکھا جائے تو علمی اور تاریخی اعتبارسے اس میں مبالغہ آرائی لگتی ہے۔ مثلاً:

…مجلس علمی کے چالیس ارکان کون کون تھے اہل علم ان کے نام بتانے سے قاصر ہیں اگر کوئی لکھتا بھی ہے تو زیادہ سے زیادہ دس نام ملتے ہیں مگر باقی کو وہ بھی نہیں مانتے۔

… یہ بھی مبالغہ ہے کہ آپؒ بحث و مباحثہ اور غوروتحمل کے بعد سب سے آخر میں ایسا جچا تلا فیصلہ فرماتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا۔کیونکہ ہمیں تو محسوس یہ ہوتا ہے کہ جناب امام ابو حنیفہؒ کے دونوں عظیم شاگرداپنے استاد محترم جناب امام ابو حنیفہؒ سے بیشتر مسائل میں اختلاف کرنے کی بھی جرأت کرتے ہیں؟ اس سلسلہ میں امام طحاویؒ عقیدہ طحاویہ میں فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِی یَوسفَ رَحِمہُ اللّٰہَ قَالَ: نَاظَرْتُ أَبَا حَنِیفۃَ مُدَّۃً حَتّٰی اتَّفَقَ رَأیِی وَرَأیَہُ، أَنَّ مَنْ قَالَ بِخَلْقِ الْقُرآنِ فَہُوَ کَافِرٌ۔ امام ابویوسفؒ فرماتے ہیں:
میں نے کئی سال تک امام ابو حنیفہؒ سے بحث کی۔ بالآخر ان کی اور میری یہ رائے ٹھہری کہ جو خلق قرآن کا قائل ہے وہ کافر ہے۔

آخر یہ اختلاف رائے اور مناظرے حریت فکر کو ہی ظاہر کرتے ہیں جس کی گواہی فقہ حنفی کی ہر معتبر کتاب کا ہر صفحہ دیتا ہے۔کہ ان دو شاگردوں کے علاوہ تیسرے شاگرد امام زفرؒ بھی اپنے استاد محترم کے بتائے ہوئے بیشتر مسائل میں مختلف رائے رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جب اختلاف بداہتہً ہو رہا ہے تو پھر مجلس کی تشکیل اور مسائل پر بحث و مباحثہ ،اور جچا تلا فیصلہ، سب کیلئے تسلیم شدہ، یہ سب دعوے غیر صحیح نظر آتے ہیں۔

… اسی طرح یہ کہنا کہ تیس برس میں چھ لاکھ مسائل مدون ہوئے۔سوال یہ ہے کہ وہ مسائل کہاں ہیں؟ وہ محنت شاقہ اور عرق ریزی کو ن سی ہے جو ضبط تحریرمیں آئی بھی سہی مگر اپنا وجود کھو بیٹھی؟ چالیس ارکان میں سے کوئی بھی اس عظیم الشان کام کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ یا کم از کم امام مرحومؒ کے شاگردِ رشیدامام محمدؒ جنہوں نے حنفی فقہ کی کتب ظاہر الروایہ لکھیں۔ ان میں ہی کسی مسئلہ کا ذکر فرمادیتے۔ افسوس کہ ان چھ لاکھ یا اسی ہزار مسائل میں سے کچھ توکسی نے ذکر کیا ہوتا۔مشہور محدث اور فقیہ امام سفیان ثوریؒ کہا کرتے تھے:
لَمَّا اسْتَعْمَلَ الرُّوَاۃُ الْکِذْبَ استَعْمَلْنَا لَہُمُ التَّارِیْخَ۔
جب راویوں نے جھوٹ کو شعار بنا لیا تو ہم نے تاریخ کا ہتھیار استعمال کیا۔

یہی بات امام حفصؒ بن غیاث فرماتے ہیں:
إِذَا اتَّہَمْتُمُ الشَّیْخَ فَحَاسِبُوہُ بِالسِّنیِنَ۔( الکفایۃ: ۱۹۳)
جب تم کسی شیخ پر شک کرنے لگو تو اس کا احتساب پھر تاریخ وسال سے کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تاریخی اعتبار سے اگر اس فقہی مجلس کا جائزہ لیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ اس عظیم فقہی فورم کوامام ابوحنیفہؒ نے ۱۲۱ھ میں تشکیل دیا۔کیونکہ امام محترم اس کے تیس برس بعد یعنی ۱۵۰ھ میں فوت ہوگئے تھے۔جس کے ارکان میں امام محمدؒ بھی تھے جو ۱۳۵ھ میں پیدا ہوئے۔ امام محمدؒ کی پیدائش سے چودہ سال قبل فورم کی تشکیل ہوئی۔ امام ابوحنیفہؒ کی وفات تک یہ پندرہ سال کے تھے اور اس بورڈ کے اہم رکن تھے ۔ اگر ۱۵۰ھ تک یہ بورڈ قائم رہتا ہے تو کیا پندرہ سال کا نوجوان اس اھم بورڈ کا ۔۔جو فقہی ،قانونی اور شرعی مسائل کا حل پیش کرتا رہاہو۔۔ـ رکن ہو سکتا ہے؟ ایک عقلی سوال ہے؟

قاضی ابو یوسفؒ ۱۱۳ھ میں پیدا ہوئے۔ جب بورڈ کے وہ رکن بنے تو ان کی عمر آٹھ برس تھی۔ امام زفر ۱۱۰ھ کی پیدائش رکھتے ہیں۔ گیارہ برس کی عمر میں یہ بھی رکن بن گئے۔ امام یحی بن زکریا ۱۱۹ھ میں پیدا ہوئے۔ اس حساب سے ۱۲۱ھ میں دو برس کے تھے۔ حفصؒ بن غیاث کاسن پیدائش تقریب التھذیب میں ۱۱۵ھ لکھا ہے۔ گو یا کہ یہ بورڈ کی تشکیل کے وقت چھ برس کے تھے اور اس کے رکن بنے۔ یہی حال دیگر ارکان کا ہے جو کم وبیش اسی عمر میں ہی تھے جب انہیں اس بورڈ کی رکنیت ملی۔ کیا یہ دعوی خلاف عقل نہیں کہ ایسے بورڈ کو مہتم بالشان مجلس قرار دیا جائے جس میں دو برس، چھ برس، آٹھ برس، نو، دس یا گیارہ برس کی عمر کے ممبر مقرر ہوں۔ پھر ایسی مجلس جو مسائل یا احکامات O.K.کرے گی اس کی وقعت اہل انصاف کے نزدیک کیا ہو گی۔ اس مبالغے کو علمی حدود اور ضابطوں کے جاننے والا کوئی عالم بھی علمی حیثیت نہیں دیتا۔اس لئے بیشتر محققین احناف نے اس مجلس کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بعض دعوئوں کا ضعف:

۱۔ امام سرخسیؒ نے المَبْسُوط کی ابتداء میں اور الموفق بن احمد المکی نے مَنَاقِبُ اَبِی حَنیفہَؒ میں یہ بات بڑی شدومد سے لکھی ہے کہ سب سے پہلے فقہ کی تدوین امام ابوحنیفہؒ نے فرمائی۔ مگر سرخسیؒ کسی کتاب کا ذکر نہ کرسکے اور نہ ہی ابواب ومسائل کا۔ جب کہ آخر ا لذکر نے بعض ابواب کا ذکر تو کیا ہے مگر کتاب کا تذکرہ وہ بھی نہ کر سکے۔ اس لئے کہ یہ کتاب اگر موجود ہوتی یا امام محترم کے تلامذہ سے ہوتی تو کم از کم مسائل تو اس کتاب کی طرف منسوب ہوتے جیسے مالکی، مسائل کی نسبت موطأ امام مالک کی طرف کرتے ہیں اور شافعی، کتاب الأم کی طرف۔ مگر یہاں کوئی ایک صورت بھی نہیں۔

۲۔ فقہاء اربعہ میں ترجیح کا یہ اصول کہ امام محترم ؒہی فقہ کے بانی ہیں لہٰذا ان کی بات دوسرے فقہاء کے مقابلے میں اولی ہوگی۔ یہ دلیل بھی درست نہیں اس لئے کہ جو واضع اول ہوتا ہے اس کی تحریر میں بہت سے تسامحات اور تساہلات شامل ہوجاتے ہیں۔ رہے متأخر تو ان کی بات تنقیح وتہذیب والی ہوتی ہے۔ اگر اس اصول سے یہ بات ثابت کرنا مقصود ہے کہ امام محترم کی کوئی تصنیف ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ ان کی کوئی کتاب وجود ہی نہیں رکھتی۔ بلکہ امام محترمؒ کے تلامذہ کی تصنیفات ملتی ہیں۔ اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ وہی سب سے پہلے مسائل میں گویا ہوئے اور فروعات پر خامہ فرسائی فرمائی تو یہ بھی درست نہیں۔ اس لئے کہ امام محترمؒ سے بہت پہلے صحابہ وتابعین میں محدثین اور فقہاء کی ایک بڑی جماعت بے شمار تفریعی مسائل پرگفتگو فرما چکی تھی ۔مناقب الإمام الشافعی از امام فخر الدین رازی: ۱۹۲۔

٭٭٭٭٭​
 
Top