• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہاء اربعہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
امام مالک ؒ بن انس(۹۳تا ۱۷۹ھ)

دوسرے بڑے امام ہیں ۔ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ دادا، چچا اور والد غرضیکہ پورا خانوادہ حدیث رسول کا خادم وعالم تھا۔ مدینہ منورہ میں تو ویسے ہی فقہاء وعلماء کی کثیر تعداد تھی۔ اس لئے یہ خوش قسمتی انہی کے حصے میں آئی کہ بچپن سے ہی وہ انہی کے چشمہ فیض سے اپنی پیاس بجھاتے رہے۔ فقہائے سبعہ میں باستثناء چند کے اکثر سے مالکؒ نے استفادہ کیا ۔ اس طرح متفرق سینوں کا بکھرا علم ایک ہی سینہ میں مجتمع ہوگیا۔ اسی لئے آپؒ إمامُ دَارِ الہِجْرَۃِ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ اور عَالِمُ المَدِینَۃِ کی پیشین گوئی کے مصداق بھی بنے۔طلب علم کے لئے دوسرے شہروں کا سفر امام صاحبؒ سے ثابت نہیں اس لئے کہ ان کا اپنا گھر اور وطن خود زرو جواہر کی ایسی کان تھے جہاں ہر قیمتی موتی میسر تھا۔

علم کے شوق کے ساتھ دل ودماغ جب فکر سے آزاد ہوں تو علم کا حصول ممکن ہوتا ہے مگر شاذ مثالیں ہی ایسی ملتی ہیں کہ طالب علم کو یہ دونوں چیزیں نصیب ہوں۔ طلب علم کی راہ میں جناب امام مالکؒ کو فقر کا سامنا کرنا پڑا جو ہم سب کے لئے ایک قابل فخرمثال ہے کہ اپنی ضرورت کے لئے انہوں نے چھت کی کڑیاں تک فروخت کردیں مگر کسی کے آگے اپنا ہاتھ نہیں پھیلایا اور علم کے حصول میں ہمت نہیں ہاری۔ جناب امام بخاری ؒ … جو فقہ وحدیث میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں… کو بھی سفر میں سوائے ستر کے کپڑے کے باقی سب کپڑے بیچنے پڑے اور گھاس کھا کرقناعت کی مگر دست طلب کو دراز نہیں کیا اور نہ ہی علم کے حصول کو بوجھل سمجھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اساتذہ:
شیوخ میں امام مالکؒ کا انتخاب بھی قابل تحسین ہے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے خریدار نہیں بنتے تھے۔ بلکہ جو اہل ہوتا اسی سے علم کی پیاس بجھاتے۔ تحدیث نعمت کے طور پر کہا کرتے کہ میں کبھی کسی غیر فقیہ یعنی سفیہ کی صحبت میں نہیں بیٹھا۔ کبھی فرماتے: اس صحن مسجد کے ستونوں کے پاس میں نے ستر شیوخ کو ایسا پایا جو قال رسول اللہ کہا کرتے ۔ اگر ان میں ہر ایک کو بیت المال کا امین بھی بنا دیا جاتا تو یقینا وہ امین ہی ثابت ہوتے۔ مگر میں نے ان سے حدیث نہ سنی نہ روایت کی اس لئے کہ حدیث رسول ان کا میدان ہی نہ تھا کہ وہ اس کے مغز سخن کو سمجھتے۔ اسی طرح اہل عراق سے حدیث روایت نہیں کرتے تھے وجہ یہی بتاتے کہ میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ یہاں آکر عموماً ان لوگوں سے حدیث سیکھتے اور سنتے ہیں جن پر وثوق نہیں کیا جا سکتا۔

صحابی رسول جناب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی تیس سالہ شاگردی میں رہنے والے مایہ ناز فقیہ ومحدث امام نافعؒ، جو آزاد کردہ غلام تھے، امام مالک ؒکے قابل فخراستاد تھے۔ کہا کرتے جب ابن عمرؓ کی حدیث امام نافعؒ سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پروا نہیں کیا کرتا کہ کسی اور سے بھی اس کی تائید سنوں۔ دوسرے مایہ ناز استاد، جن کی حق گوئی، علمی وقار ورعب کے خلفاء بھی قائل تھے وہ امام ابن شہاب زہریؒ ہیں جن کی روایات سے صحاح ستہ مالا مال ہیں اور جو ابوبکر ابن حزم کے بعد حدیث رسولﷺ کے سب سے بڑے مدون ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے امام صاحبؒ کے شیوخ کی تعداد پچھتر کے قریب بتائی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تدریس وعلمی وقار:
بارہ برس مسلسل اپنے استاذامام نافع ؒکی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد امام مالکؒ ۱۱۷ھ میں مسند تدریس پر بیٹھے اور جس جاہ وجلال کی محفل سجائی وہ علم اور علماء کی شان کو ظاہر کرتی تھی۔ تمام مجلس پر ایک مقدس سکوت طاری ہوتا کتاب کا ورق الٹنے سے طلبہ ڈرتے تھے کہ مبادا اس کی سرسراہٹ ہو۔ سب مؤدب ہو کر بیٹھتے اس لئے کہ امام صاحب کی اداء سے شکوہ اور وقار جھلکتا تھا۔ امام شافعی ؒ نے جب موطا امام مالک سن لی تو ساتھیوں نے انہیں کہا کہ اب آپ کا کام مکمل ہو چکا ہے پھربھی آپ یہیں ہیں؟ فرمانے لگے: اب تک میں نے اپنے شیخ سے علم سیکھا تھا اب رہ کر ادب ووقار سیکھنا چاہتا ہوں۔امام ابوحنیفہؒ ، خلیفہ ہارون الرشید، اس کے دونوں شاہزادے امین ومامون بھی ان کی مجلس میں آکرشریک ہوئے اور اسی طرح مؤدب ہوکر بیٹھے جس طرح شاگرد بیٹھتے ہیں۔چند دنوں بعد لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ یہی شاہزادے امام محترم کی جوتیاں اٹھانے اور انہیں درست کرنے میں ایک دوسرے سے پہل کرر ہے ہیں۔

عام وخاص اگر علم سے مستفید ہو رہے ہوں تو شخصی منفعت کے لئے امام محترم عام افادہ کا خون نہیں کرتے تھے اور اس کے قائل تھے کہ إِنِّی لاَ أَذُلُّ الْعِلْمَ میں علم کو رسوا نہیں کرنا چاہتا۔ یا یوں فرمایا کرتے: العِلْمُ یُزَارُ ولاَ یَزُورُ علم کے پاس آیا جاتا ہے نہ کہ علم کو لایا جاتا ہے۔ پڑھانے کا عام طریقہ یہ تھا کہ پہلے امام محترم احادیث، فتاوی اور اپنی تعلیقات کو قلم بند کر لیتے اور پھر کسی چاق وچوبند اور سمجھ دار شاگرد کومامور کرتے کہ وہ اسے خوش خط لکھے۔ یہی لکھے ہوئے اجزاء کاتب کے ہاتھ میں ہوتے جسے وہ محفل میں پڑھتا تو امام محترم جابجا اس کی تشریح ومطالب بیان کرتے جاتے اور اگر کاتب سے کوئی غلطی ہوتی تو خود اس کی تصحیح فرما دیتے۔

امام صاحب کے بارے میں امام شافعیؒ نے یہ کہا ہے کہ إِذَا ذُکِرَ الْعُلَمَائُ فَمَالِکٌ النَّجْمُ۔ یعنی جب علماء کے بارے میں سلسلہ گفتگو چل نکلے تو امام مالک ؒ ہی ایک چمکتا ہوا تارا محسوس ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ حدیث رسول ہو تو اس کی تصحیح وتضعیف، رجال کی معرفت اور جرح وتعدیل کے تمام اسباب کا جاننا اور پھر اس کی تصحیح کے بعد احکام کا استنباط اور ان کی تفریع ، اختلاف کی صورت میں ترجیح وتطبیق اور پھر واجب وسنت ومستحب وغیرہ کی تعیین ایک غیر معمولی کام تھا جو امام مالک نے قولی ، عملی اور تحریری صورت میں پیش کیا جس کے نتائج سے دنیا مستفید ہوئی۔ موطأ ہو یا ان کے شاگرد عبد الرحمان بن القاسم (م۔۱۹۱ھ) کی امام مالکؒ کے ملفوظات فقہیہ وعلمیہ پر مبنی کتاب المُدَوَّنَۃُ الْکُبْرٰی ہو یہ سب شاہد ہیں کہ امام صاحبؒ کے علم وفضل کے بارے میں غلو سے کام نہیں لیا گیا بلکہ یہ ان کی للہیت کا ثمرہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فقہ مالکی کی اہم کتب :
۱۔ موطا امام مالکؒ:
یوں مسلسل باسٹھ سال تک مسجد نبوی میں اپنی فقہی ، حدیثی، اور تدریسی مخلصانہ خدمات انجام دیں۔ اس عرصے میں اپنی معروف کتاب موطأ لکھی اورکئی بار نقد ونظر سے گذاری ۔ بارہا اس میں ترمیم ، حک واضافہ کے مراحل آئے۔ جب امام محترمؒ نے اس کا آغاز کیا تو کسی شاگرد نے انہیں عرض کی: کہ موطأ نام کی کتب تو بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں؟ آپ کے لکھنے کا کیا فائدہ؟ امام مالکؒ نے جواب میں فرمایا: مَا کَانَ لِلّٰہِ بَقِیَ۔ جو کام اللہ کے لئے ہوگا اللہ تعالیٰ اسے باقی رکھے گا۔ موطأ امام تو باقی رہی مگر ان کے معاصرین کی موطآت مفقود ہو گئیں۔ موطأ فقہ کی کتاب بھی ہے اور حدیث کی بھی۔ کیونکہ یہ کتاب مرفوع احادیث کے علاوہ بہت سے فقہی احکام پر مبنی فقہاء صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے فتاوی، فیصلہ جات اور اجتہادات سے بھی مالا مال ہے۔ فقہ اور اصول فقہ کے بارے میں امام مالکؒ کے نقطہ نظر کو واضح کرتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
شہرت کتاب:
امام محترمؒ کی زندگی میں ہی اس کتاب کو ایسا عروج ملا کہ خلیفہ ہارون نے اس کتاب کو بطور ایک قانون کے اپنی خلافت میں نافذ کرنا چاہا اور اسے ایک آئینی حیثیت دینا چاہی کہ اسی کے مطابق تمام علماء وفقہاء فتوے دیں مگر امام محترم نے فرمایا: کہ یہ میرا علم ہے جب کہ عالم اسلام میں بے شمار اہل علم موجود ہیں ان کے علم سے بھی مستفید ہونا چاہئے۔ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے وعقل پر جس سے صحت وغلطی دونوں کا امکان ہے عالم اسلام کومجبور کرنا مناسب نہیں۔ لہٰذا میرے علم کو حتمی علم کی حیثیت نہ دی جائے۔ امام محترمؒ اپنی سوچ اور فقہ کو اگر عام کرنا چاہتے یا اپنی شہرت ووجاہت چاہتے تو ان کے لئے کتنا سنہرا موقع تھا کہ ارباب حکومت میں گھس کر اپنے مسلک کو عام کرتے مگر انہوں نے خانہ کعبہ میں اپنی کتاب موطا کو آویزاں کروانا پسند نہ فرمایا۔ (الدیباج: ۲۰۰)

انہی کی زندگی میں یہ کتاب اندلس میں پہنچ چکی تھی اور افریقہ کے علاوہ اہل مشرق بھی اس کتاب کے نسخوں کو اپنے اپنے علاقوں کی زینت بنا چکے تھے۔ امام شافعیؒ کے علاوہ امام محمدؒ بن الحسن بھی ان کے شاگرد تھے انہوں نے امام مالکؒ سے ان کی موطا سنی۔ بعد میں امام محمدؒ نے اپنے دیگر اساتذہ سے سنی ہوئی احادیث کو موطأ میں شامل کردیا۔ یہ وہ روایات تھیں جو امام مالکؒ نے اپنی اصل موطا میں بیان نہیں کی تھیں۔ اس بناء پر ان کی موطا ، موطا امام محمد ؒکے نام سے مشہور ہے جو موطأ امام مالک سے بالکل مختلف مواد رکھتی ہے۔ امام محمدؒ نے یہ کوشش بھی کی کہ اپنی موطا میں ہر حدیث کے آخر میں حنفی مسائل کو ثابت کردیا جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۲۔ المُدَوَّنَۃُ:
یہ فقہ مالکی کی دوسری مشہور کتاب ہے۔ اس میں ان سوالوں کے جوابات جمع کئے گئے ہیں جو امام مالکؒ سے پوچھے گئے تھے۔ پھر انہیں ان کے شاگردوں نے مرتب کرکے کتابی شکل دے دی۔ امام سحنونؒ نے اس کتاب کومرتب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعض مقامات پر ان آثار سے بھی احتجاج کیا جو ابن وہب کی روایت موطا سے تھے۔ مگر یہ سب کچھ امام ابن القاسم سے تصدیق کے بعد کیا۔ اس کتاب میں تقریبا چھتیس ہزار مسائل ہیں اور مالکیوں کے ہاں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
امام مالکؒ کے شاگرد :
امام مالک کی شاگردی کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ مدینہ منورہ جو مسلمانوں کا مرکز عقیدت ہے دنیا بھر سے آنے والے مسلمان نہ صرف امام مالک ؒ کے حلقہ درس میں بیٹھے بلکہ ان کے شاگرد بن کر موطأبھی پڑھ گئے جن کی روایت اپنے اپنے ملکوں میں جاکر انہوں نے پھیلائی۔ ان تلامذہ میں مصری، اندلسی، حجازی اور عراقی بھی ہیں۔ چند نامور شاگردوں کے نام یہ ہیں: ابوعبد اللہ عبد الرحمن بن القاسم العتقی ۱۹۱ھ مصری ہیں بیس برس تک امام مالکؒ سے علم سیکھتے رہے۔ ابو محمد عبد اللہ بن وہب بن مسلم م:۱۹۷ھ انہوں نے بھی بیس برس امام محترم کی شاگردی میں گزارے۔ ابوعبد اللہ زیاد بن عبد الرحمن القرطبی م:۱۹۳ھ ان کا لقب شبطون تھا امام مالک ؒسے انہوں نے موطأ سنی۔ اسد بن الفرات بن سنان م: ۲۱۳ھ تیونس کے حکمران رہے۔ امام مالکؒ سے انہوں نے بھی موطأ سنی۔ ابومروان عبد الملک بن ابی سلمہ الماجشون م:۲۱۲ھ اپنے وقت کے مفتی تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
فقہ مالکی کے ا صول :
امام مالکؒ کے فقہی منہج کامبدا اہل حجاز کا وہ منہج ہے جس کا آغاز امام سعید بن المسیبؒ نے کیا تھا۔نیز اپنی کتب میں بھی اسے اجاگر کیا ہے۔ قاضی عیاض ؒ نے ان فقہی اصولوں کی تفصیل دی ہے جن پر امام مالکؒ اعتماد کرتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ اجتہاد ۔۔۔جس پر عمل ہو سکے اور جو شریعت کے مزاج کے مطابق ہو۔۔۔ کی شرائط، اس کا ماخذ اور اس کے مراتب وغیرہ درج ذیل ہیں:

… اجتہاد کرتے وقت اللہ کی کتاب کو اس طرح مقدم رکھنا ہے کہ نصوص سے ہی اس کے مستفید ہونا ہے۔ اورپھر اس کے ظاہر معانی کو لیا جائے پھر اس کے مفہوم کو۔ پھر اسی طرح سنت میں متواتر اور مشہور کی ترتیب سے مستفید ہوا جائے۔ پھر مراتب نصوص کا لحاظ رکھا جائے جن میں ان کے ظواہر اور ان کے مفہوم ، جو کتاب اللہ کے مطابق ہوں کومقدم رکھا جائے۔ پھر اجماع پر انحصار کیا جائے بشرطیکہ وہ مسئلہ کتاب اللہ وسنت متواترہ میں نہ ہو۔ ان تینوں کی عدم موجودگی میں اس مسئلہ پر قیاس بھی کیا جاسکتا ہے اور قیاس سے استنباط بھی۔ کیونکہ کتاب اللہ تو قطعی الثبوت ہے اور متواترسنت بھی(جس کا تعلق سند یا احوال رواۃ سے نہ ہو)، اسی طرح نص بھی قطعی ہوتی ہے تو ان دونوں کو بہر حال مقدم رکھنا واجب ہوگا۔ پھران نصوص کے ظواہر اور مفہوم ہیں کیونکہ ان کے معنی کا بھی ان دونوں میں شامل ہونے کا احتمال ہے۔ ان کے بعد اخبار آحاد مقدم ہوں گی جن پر عمل کرنا واجب ہے یہ اس صورت میں جب مسئلہ کتاب وسنت متواترہ میں نہ ہو۔ خبر متواتر قیاس پر مقدم ہوگی۔

عمل اہل مدینہ:
افتاء میں یا استنباط مسئلہ میں امام محترمؒ قرآن وحدیث پر اعتماد کرتے ہیں۔ اور اس معاملہ میں سارا دار ومدار علماء حجاز میں کبار تابعین محدثین پر کرتے ہیں۔یعنی اہل مدینہ کی روایات، ان کے قضایا واحکام کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ وجہ سیدنا عمرؓ اور ان کے صاحب زادے عبد اللہؓ کی خاص اہمیت تھی۔ دیگر شہروں کی روایات کو یہ کہہ کر ترک کردیا کرتے کہ ان کے راوی میرے شہر سے نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ اہل مدینہ کا اس پر عمل بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر کسی مسئلہ میں کوئی جواب انہیں نہ ملتا تو پھر قیاس یا ایک نئی دلیل یعنی مصالح مرسلہ کے ذریعے اجتہاد کرلیا کرتے تھے جس کا مطلب ہے مصلحت عامہ کا تقاضا۔

مگر اہل مدینہ کے اس عمل کو کہ مدنی لوگ گاہک اور دوکاندار میں سودے کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کے اختیار کو ہمہ وقت تسلیم کرتے ہیں ۔ امام مالکؒ نے جب اسے صحیح حدیث پرترجیح دی جس میں آپ ﷺ نے ارشار فرمایا: البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا بائع ومشتری دونوں اس وقت تک بااختیار ہیں جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو جاتے۔ تو دیگر فقہائے محدثین نے یہ کہہ کر عمل اہل مدینہ کو حدیث پر ترجیح نہ دی کہ آپ ﷺ کا یہ اصول آفاقی ہے ۔ ہر مقام پر مدینہ والے لوگ نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس مزاج کے حامل ۔اور نہ ہی اہل مدینہ کا عمل حدیث صحیح کے مقابل میں ایک آفاقی اصول بنایا جا سکتا ہے۔ بلکہ اصول ، حدیث سے ہی ماخوذ ہوگا۔کیونکہ صحابہ مدینہ میں رہے اور باہر بھی۔ نیز صحابہ مدینہ میں ہوں تو یہ علم امام مالکؒ کے نزدیک حجت ہو لیکن جب یہ علم مصر وشام اور کوفہ چلا جائے تو اس کی حجیت قابل غور ٹھہرے؟اس لئے باہر والوں کا علم انہوں نے Quote نہیں کیا۔

ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے سیدنا علی ؓوابن عباسؓ کی روایات ذکر نہیں فرمائیں تو جواب دیا: لَمْ یَکُوناَ مِنْ بَلَدِیْ۔ یہ دونوں میرے شہر(مدینہ) میں نہیں تھے۔مدینہ کے علماء کا باہم اختلاف عمل اہل مدینہ کا اصول کمزور بناتا ہے۔ جس کا ذکر موطأ میں ہے اس صورت میں کچھ اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پر کیسے حجت ہوسکتے ہیں؟ کون سے اقوال ہونگے جنہیں ترجیح دے کر سنت ثابت کیا جائے ؟ جب کہ دونوں طرف اہل مدینہ ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
چند مالکی اصطلاحات
۱۔ائمہ:
ان سے مراد ابو القاسم بن محرز(م: ۴۵۰ھ)، متاخرین میں قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبی (پیدائش : م ۴۷۶ھ) اور متقدمین میں عبد العزیزبن ابی سلمہ(م: ۱۸۴ھ) ہیں۔(کشف النقاب از ابن فرحون مالکی: ۱۷۶)

۲۔الأخوان:
سے مراد مطرف بن عبد اللہ (م: ۲۲۰ھ) اور عبد الملک بن عبد العزیز المعروف ابن الماجشون (م:۲۱۴ھ) ہیں اس کی وجہ ان کا باہم بے شمار احکام اور ان پر عمل میں اتفاق ہوجاتا تھا۔ (الفکر السامی از حجوی ۳؍۹۶)۔ انہی کے بارے میں ایک شاعر نے کہا تھا:
کَذَا مُطَرِّفٌ وَنَجْلُ الْمَاجِشُونَ حَلَّاہُما بِالأَخَوَینِ النَّاقِلُونَ

شیخ:
اس سے مراد مالکی فقہاء ممتاز مغربی فقیہ ابو محمد عبد اللہ بن ابی زید القیروانی (م: ۳۸۹ھ)لیتے ہیں۔ انہیں مالک صغیر بھی کہا جاتا ہے۔(شرح مختصر خلیل ۱؍۴۹)

شیخان:
سے مراد ابو محمد القیروانی اور ابو الحسن علی القابسی رحمہما اللہ لیتے ہیں۔ قابسی ، ابوالحسن علی بن محمد بن خلف المعافری (م: ۴۰۳ھ)کے نام سے معروف ہیں اور ابوزید المروزی سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ (حاشیہ العدوی ۱؍۲۷۲)

قرینان:
اس سے مراد اشہب بن عبد العزیز القیسی العامری(م: ۲۰۴ھ) اور عبد اللہ بن نافع الصائغ(م: ۱۸۶ھ) ہیں۔

مفتی۔
جو فقہ مالکی میں راجح کے مطابق ایسا فتوی دے جو نفس مسئلہ کے لئے مناسب ہو۔ اور غیر مفتی وہ ہوتا ہے جو اجتہاد کی شروط پر نہیں اترتا بلکہ وہ متفق علیہ مسائل ہی بیان کرتا ہے۔ یا وہ مسائل جو مذہب میں مشہور ہوں یا جن کو اولین فقہاء مالکیہ نے ترجیح دی ہو۔

۲۔ مالکی کتب کی روایات میں اور مشائخ کی روایات میں ترجیح کے کچھ اصول ہیں۔مثلا: مشایخ کے اقوال میں اگر اختلاف ہو تو المدونۃ میں امام مالکؒ کا قول ابن القاسمؒ کے قول سے مقدم ہوگا۔ اس لئے کہ امام مالکؒ بہرحال بڑے امام ہیں۔ اسی کتاب میں ابن القاسمؒ کا قول دوسرے کے مقابلے میں مقدم ہوگا اس لئے کہ وہ امام مالکؒ کے مذہب کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔

۳۔ مذہب کی اصطلاح سے مراد مذہب امام مالک ہے۔ مالکی مسلک میں فقہاء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں ترجیح کے لئے مشہور کا لفظ مستعمل ہوتا ہے جس سے مراد وہ مسئلہ جومالکی مسلک میں مشہور ہے یا جس مسئلے کے قائلین بہت ہوں۔

موازنہ مابین فقہ مالکی وحنفی: شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں دونوں ائمہ کرام کے مقام ومرتبے کو بیان کرنے کے بعد دونوں کا موازنہ کرکے ان کے اپنے اپنے طریقہ اجتہاد پر روشنی ڈالی ہے۔
کَانَ مَالِکٌ مِنْ أَثْبَتِہِمْ فِی حَدِیثِ الْمَدَنِیِّینَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ وَأَوْثَقِہِمْ إِسْنَادًا، وَأَعْلَمِہِمْ بِقَضَایَا عُمَرَ، وَأقَاوِیْلَ عَبدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَۃَ، وَأَصْحَابِہِمْ مِنَ الْفُقَہَائِ السَّبْعَۃِ، وَبِہِ وَبِأمْثَالِہِ قَامَ عِلْمُ الرِّوَایَۃِ وَالْفَتْوٰی۔
امام مالک علماء مدینہ کی احادیث کو خوب یاد رکھتے تھے۔ ان کی سند بھی زیادہ قوی تھی۔ سیدنا عمرؓ کے فیصلہ جات، ابن عمر ، سیدہ عائشہؓ اور فقہاء سبعہ کے اقوال سب سے زیادہ جانتے تھے۔ امام مالک اور ان کے ہم سروں کی محنت سے روایت حدیث اور افتاء کا علم قائم ہوا۔

اس کے بعد امام ابوحنیفہؒ کا حال لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
وَکَانَ أَبْوحَنِیفَۃ ؒ أَلْزَمُہُمْ بِمَذْہَبِ إِبْرَاہِیْمَ وَأَقْرَانِہِ، لاَ یُجَاوِزُہُ إِلاَّ مَاشَائَ اللّٰہُ، وَکَانَ عَظِیْمَ الشَّأنِ فِی التَّخْرِیجِ عَلَی مَذْہَبِہِ، دَقِیقَ النَّظَرِ فِی وُجُوہِ التَّخْرِیجَاتِ مُقْبِلاً عَلَی الْفُرُوعِ أَتَمَّ إِقْبَالٍ، وَإِنْ شِئْتَ أَنْ تَعْلَمَ حَقِیقَۃَ مَا قُلْنَاہُ فَلَخِّصْ أَقْوَالَ إِبْرَاہِیمَ وَأَقْرَانِہِ مِنْ کِتَابِ الآثَارِ لِمُحَمَْدٍ رَحِمَہُ اللّٰہُ، وَجَامِعِ عَبدِ الرَّزَّاقِ، وَمُصَنَّفِ أَبِی بَکْرِ بْنِ أَبِی شَیْبَۃَ، ثُمَّ قَایِسْہُ بِمَذْہَبِہِ تَجِدْہُ لاَ یُفَارِقُ تِلْکَ الْمَحَجَّۃَ إِلاًَّ فِی مَوَاضِعَ یَسِیرَۃٍ وَہُوَ فِی تِلْکَ الْیَسِیْرَۃِ أَیضًا لاَ یَخْرُجُ عَمَّا ذَہَبَ إِلَیہِ فُقَہَائُ الْکُوفَۃِ۔
امام ابوحنیفہؒ نے ابراہیم نخعی اور ان کے معاصرین کا مذہب اختیار کیا ہوا تھا۔ اس سے ذرا ادھر ادھر نہ ہوتے تھے۔الا ماشاء اللہ۔ ابراہیم نخعی کے قواعد پر مسائل نکالنے میں امام محترم کو عظیم دسترس حاصل تھی۔وجوہ تخریج میں بڑے باریک بین تھے۔ ان کی مکمل توجہ فروع پر تھی۔ میری اس بات کی تحقیق اگر آپ کرنا چاہیں تو امام محمد کی کتاب الاثار اور مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابو بکر لے لیجئے۔ پھر ان میں ابراہیم نخعی اور ان کے معاصرین کے اقوال لے لیجئے۔ اب امام ابوحنیفہؒ کے مذہب سے ان کا موازنہ کر دیکھئے تو آپ شاید سوائے چند جگہوں کے کہیں فرق نہیں پائیں گے۔ پھر ان چند جگہوں میں بھی امام ابوحنیفہؒ فقہاء کوفہ کے مذہب سے باہر نہیں جاتے۔(حجۃ اللہ البالغۃ: ۱؍ ۴۱۸ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
وفات:
امام محترمؒ کو اللہ تعالیٰ نے خدمت دین کا بھر پور موقع دیا۔ ۹۳ھ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۱۷ھ میں مسجد نبوی کی مسند درس پرتشریف فرما ہوئے۔ باسٹھ سال تک علم ودین کی خدمت کی۔ ۸۱سال کی عمر میں ہی طبیعت میں ضعف وناتوانی آچکی تھی۔ تسلسل سے مسجد نبوی میں آنا، غم وشادی کی تقریبات میں جانا سب موقوف ہوگیا تھا۔ لوگ اعتراض کر تے تو جواب میں فرماتے: ہر شخص اپنا عذر بیان نہیں کرسکتا۔ آپ کے معروف شاگرد معن بن عیسیٰ جو صحاح ستہ کے رواۃ میں سے ہیں وہ اس عمر میں امام صاحب کے خادم تھے۔ انہی کا سہارا پکڑ کر چلتے تھے۔ اور کبھی کبھار اس بڑھاپے میں بھی درس وافتاء کی خدمت جاری رہتی۔

امام محترم ؒاتوار کے روز بیمار ہوئے یہ بخار اپنی شدت تین ہفتے تک دکھاتا رہا۔ اس دوران مرض کی شدت میں کوئی تخفیف نہ ہوئی۔ شاگردوں کو امام محترم کی تکلیف وبیماری کا جو ملال تھا اس کا یوں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صرف مدینہ کے علماء کو یقین ہوگیا کہ اب امام محترم کا آخری وقت ہے تو تیمارداری کے لئے حدیث وفقہ کے ۱۶۰علماء مودب بہ چشم نم آس پاس بیٹھے تھے۔

امام قعنبیؒ جو آپ کے خاص تلامذہ میں سے تھے انہوں نے امام محترم کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تو سبب پوچھا۔ امام محترم فرمانے لگے: قعنبی! میں نہ روؤں تو کون روئے۔ اے کاش! مجھے میرے ہر قیاسی فتوے کے بدلے میں ایک کوڑا مارا جاتا۔ یہی گریہ جاری تھا لب متحرک تھے کہ اسی عالم میں جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ اور یوں ۸۶سال کی عمر پاکر ۱۷۹ھ کوانتقال فرمایا۔ جنازہ میں خلقت تھی۔ سارا مدینہ حتی کے والی مدینہ پیدل جنازہ میں نہ صرف چلا بلکہ اس نے کندھا دیا۔ جنت البقیع میں تدفین ہوئی جہاں ام المومنین عائشہؓ، عثمان ذوالنورینؓ، سیدنا حسنؓ، سیدہ فاطمہؓ ام المومنین حفصہ ؓ جیسی عظیم ہستیاں مدفون ہیں۔
 
Top