- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,763
- پوائنٹ
- 1,207
وفات:
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کو آخری عمر میں بواسیر کی سخت شکایت ہوگئی تھی۔ ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو متصلب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں امام محترم کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام محترم کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کردیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لئے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے :
تَمَــنّٰی رِجَالٌ بِأَنْ أَمُـــــوتَ فَإِنْ أَمُتْ فَتِلْکَ سَبِیـْــــلٌ لَسْتُ فِیْہَا بِأَوْحَدِ
َوقَــدْ عَلِمُوا لَو یَنْفَــــعُ الْعِلْمُ عِنْدَہُمْ لَئِـــنْ مِتُّ مَا الــدَّاعِیْ عَلَیَّ بِمَخْلَدِ
لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مرجاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بددعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔
آپ کی طبیعت جب بہت زیادہ بگڑی تو پاس بیٹھے شاگرد امام مزنی ؒ نے خیریت دریافت کرتے ہوئے عرض کی: کَیْفَ أَمْسَیْتَ یَا أُستاذَ الأستاذِینَ؟ اساتذہ کے استاذ! آپ کا دن کیسے گذرا؟ جواب میں فرماتے ہیں:
أَصْبَحْتُ مِنَ الدُّنْیَا رَاحِلاً فَلِلإخْوَانِ مُفَارِقًا، وَبِسُوئِ أَفْعَالِی مُلَاقِیًا، وَعَلَی اللّٰہِ وَارِدًا، وَلَکَأْسُ الْمَنِیَّۃِ شَارِبًا، وَلَا وَاللّٰہِ لاَ أَدْرِیْ أَنَّ رُوحِیْ یَصِیرُ إِلَی الْجَنَّۃِ فَأُھَنِّئُہَا أَوْ إِلَی النَّارِ فَأُعَزِّیْہَا۔آج میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں ، اور اپنے بھائیوں کو چھوڑنے والا بھی۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی سزا بھی پانے والا ہوں اور اللہ بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں پیش ہونے والا بھی ہوں اور موت کا پیالہ ابھی پینے والا ہوں۔ واللہ ! میں نہیں جانتا آیا میری روح جنت میں جائے گی کہ میں اسے مبارک باد دوں یا اس کامقام دوزخ ہے کہ میں اس سے تعزیت کروں۔
نماز مغرب سے فراغت کے بعد لیٹے ہی تھے کہ نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر دُعا مانگی۔ دُعا سے فارغ ہو کرلیٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترمؒ خدمت دین سے بھرپور اپنی یہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی میں جا پہنچے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے سیدہ نفیسہ بنت حسن نے ادا کی اور پھر ساری خلقت نے۔ اور یوں بعد از عصر آپ کو قاہرہ کے جبل مقطم کے قبرستان قرا فصۃ الصغری میں دفن کیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین
امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کو آخری عمر میں بواسیر کی سخت شکایت ہوگئی تھی۔ ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو متصلب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں امام محترم کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام محترم کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کردیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لئے بددعا کرتا رہا کہ الٰہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے :
تَمَــنّٰی رِجَالٌ بِأَنْ أَمُـــــوتَ فَإِنْ أَمُتْ فَتِلْکَ سَبِیـْــــلٌ لَسْتُ فِیْہَا بِأَوْحَدِ
َوقَــدْ عَلِمُوا لَو یَنْفَــــعُ الْعِلْمُ عِنْدَہُمْ لَئِـــنْ مِتُّ مَا الــدَّاعِیْ عَلَیَّ بِمَخْلَدِ
لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مرجاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بددعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔
آپ کی طبیعت جب بہت زیادہ بگڑی تو پاس بیٹھے شاگرد امام مزنی ؒ نے خیریت دریافت کرتے ہوئے عرض کی: کَیْفَ أَمْسَیْتَ یَا أُستاذَ الأستاذِینَ؟ اساتذہ کے استاذ! آپ کا دن کیسے گذرا؟ جواب میں فرماتے ہیں:
أَصْبَحْتُ مِنَ الدُّنْیَا رَاحِلاً فَلِلإخْوَانِ مُفَارِقًا، وَبِسُوئِ أَفْعَالِی مُلَاقِیًا، وَعَلَی اللّٰہِ وَارِدًا، وَلَکَأْسُ الْمَنِیَّۃِ شَارِبًا، وَلَا وَاللّٰہِ لاَ أَدْرِیْ أَنَّ رُوحِیْ یَصِیرُ إِلَی الْجَنَّۃِ فَأُھَنِّئُہَا أَوْ إِلَی النَّارِ فَأُعَزِّیْہَا۔آج میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں ، اور اپنے بھائیوں کو چھوڑنے والا بھی۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی سزا بھی پانے والا ہوں اور اللہ بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں پیش ہونے والا بھی ہوں اور موت کا پیالہ ابھی پینے والا ہوں۔ واللہ ! میں نہیں جانتا آیا میری روح جنت میں جائے گی کہ میں اسے مبارک باد دوں یا اس کامقام دوزخ ہے کہ میں اس سے تعزیت کروں۔
نماز مغرب سے فراغت کے بعد لیٹے ہی تھے کہ نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر دُعا مانگی۔ دُعا سے فارغ ہو کرلیٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترمؒ خدمت دین سے بھرپور اپنی یہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی میں جا پہنچے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے سیدہ نفیسہ بنت حسن نے ادا کی اور پھر ساری خلقت نے۔ اور یوں بعد از عصر آپ کو قاہرہ کے جبل مقطم کے قبرستان قرا فصۃ الصغری میں دفن کیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین
٭٭٭٭٭