محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
سلف وخلف میں اکثر مجتہدین ایسے ہوگذرے ہیں جنہوں نے کسی مسئلہ پر کچھ کہا یا کیا تو وہ بدعت تھی مگرانہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ بدعت ہے۔یا تو ضعیف احادیث کی وجہ سے انہوں نے ایسا کہہ دیا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ احادیث صحیح ہیں یا آیات کا مفہوم انہوں نے ایسا ہی لے لیاجو ان آیات کا تھا ہی نہیں۔یا انہیں کوئی رائے سوجھی مگراس مسئلہ میں وارد نصوص ان تک نہ پہنچ سکیں۔اس لئے جو بندہ اپنے رب سے جس قدر بھی ڈرتا ہے وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد میں شامل ہوجاتا ہے:{ربنا لا تؤاخذنا إن نسینا أو أخطأنا} اور صحیح روایت میں ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: قد فعَلْتُ۔ میں نے ایسا کردیا۔(الفتاوی الکبری ۱۹؍۱۹۱)
سوال یہ ہے کہ ن مذہبی اختلافات سے بچنے اور تمام فقہاء کرام کو ان کا جائزمقام واحترام دینے کی آخر سبیل کیا ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا ایک صائب مشورہ ہے کہ:
ہرمذہب کے تین حصے کرلیجئے۔
وہ حصہ جس میں حق واضح ہو اور کتاب وسنت کے موافق ہو شرح صدر سے اس کے مطابق فتوے دیجئے۔
دوسرا وہ حصہ جو مرجوح ہے اور دلائل کے اعتبار سے بہت کمزور۔ اس کے مطابق نہ فتوی دیا جائے اور نہ ہی مسائل بتائے جائیں بلکہ اس حصے کو تو ذہن سے ہی نکال دینا چاہئے۔
تیسرا حصہ وہ جس میں دلائل کی کشش دونوں طرف موجود ہے اس میں جیسے طبیعت چاہے فتوی دیا جاسکتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی خیال میں رہے کہ مذہبی فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ نیز بیشتر مسائل میں استاد شاگرد کا اصولی ونظری اختلاف بھی موجود ہے جو اس کی استدلالی حیثیت کومشکوک بنا دیتا ہے اس لئے یہ مذہبی فقہ کسی بھی مقام پر رد وقبول کے لئے معیار نہیں قرار پا سکتی۔ ہاں اگر مقدار وپیمانہ کا تعین ہو جائے تو درایت کے اعتبار سے مذہبی فقہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ن مذہبی اختلافات سے بچنے اور تمام فقہاء کرام کو ان کا جائزمقام واحترام دینے کی آخر سبیل کیا ہے؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ کا ایک صائب مشورہ ہے کہ:
ہرمذہب کے تین حصے کرلیجئے۔
وہ حصہ جس میں حق واضح ہو اور کتاب وسنت کے موافق ہو شرح صدر سے اس کے مطابق فتوے دیجئے۔
دوسرا وہ حصہ جو مرجوح ہے اور دلائل کے اعتبار سے بہت کمزور۔ اس کے مطابق نہ فتوی دیا جائے اور نہ ہی مسائل بتائے جائیں بلکہ اس حصے کو تو ذہن سے ہی نکال دینا چاہئے۔
تیسرا حصہ وہ جس میں دلائل کی کشش دونوں طرف موجود ہے اس میں جیسے طبیعت چاہے فتوی دیا جاسکتا ہے یا اسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
یہ بھی خیال میں رہے کہ مذہبی فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ نیز بیشتر مسائل میں استاد شاگرد کا اصولی ونظری اختلاف بھی موجود ہے جو اس کی استدلالی حیثیت کومشکوک بنا دیتا ہے اس لئے یہ مذہبی فقہ کسی بھی مقام پر رد وقبول کے لئے معیار نہیں قرار پا سکتی۔ ہاں اگر مقدار وپیمانہ کا تعین ہو جائے تو درایت کے اعتبار سے مذہبی فقہ قابل قبول ہو سکتی ہے۔