• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فقہ اسلامی از ابوہشام (کینیڈا)

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۹۔ القدیم: یہ وہ اقوال ہیں جو امام محترم ؒنے عراق میں اپنی کتاب الحجۃ کو تصنیف کرتے دوران لکھے یا وہیں کوئی فتویٰ دیا۔ قدیم اقوال کے رواۃ میں مشہور شاگرد: امام احمدؒ بن حنبل، الزعفرانی، الکرابیسی، ابوثور وغیرہ ہیں۔ امام شافعیؒ نے ان تمام قدیم اقوال سے رجوع کرلیا تھا اس لئے ان کے مطابق فتوی دینا جائز نہ ہوگا۔

… بعض شوافع نے امام شافعیؒ کے قدیم قول کے مطابق سترہ مسائل میں فتویٰ دیا ہے۔

… رہے وہ اقوال جو مصر اور عراق کے درمیان انہوں نے ارشاد فرمائے تو ان میں متاخر قول جدید شمار ہوگا اور متقدم قول قدیم شمار ہوگا۔ اور اگر کسی مسئلہ میں قدیم وجدید دونوں پائے جائیں تو جدید معمول بہ ہوگا سوائے سترہ مسائل کے جو امام شافعیؒ نے قدیم قول کے مطابق دیے۔

۱۰۔ قولا الجدید: مراد دو جدید قول، مفتی ان اقوال میں آخری قول کے مطابق فتوی دے گا بشرطیکہ اسے علم ہو۔ اور اگر اسے علم نہیں مگر امام شافعی ؒنے ان دونوں میں سے ایک پر عمل کیا ہے تو یہی عمل دوسرے کے ابطال کے لئے کافی ہوگا۔ یا ترجیح عملی قول کو دی جائے گی۔

۱۱۔ الشیخان : اس سے مراد امام رافعیؒ اور امام نوویؒ ہیں۔

۱۲۔ اختلافی اصطلاحات:

فقہ شافعیؒ میں اختلاف تین قسم کے ہیں۔

… الأقوال: جو امام شافعیؒ کی طرف منسوب ہیں۔

… الأوجہ: یہ وہ آراء ہیں جنہیں فقہاء شافعیہ نے امام شافعیؒ کے اصول اور قواعد کی روشنی میں مستنبط کیا ہے۔

… الطرق: مذہب کے بیان میں راویوں کا اختلاف مرادہے۔

امام نوویؒ نے فقہاء شافعیہ کے ہاں اختلاف کی صورت میں ان کے اقوال بیان کرنے ، شوافع کی مختلف مخرج صورتوں کی وضاحت اور ان کے درمیان ترجیح قائم کرنے کے یہی طریقے متعارف کرائے ہیں۔

۱۳۔ مذہب شافعی کی ضعیف باتوں پر عمل کرنا جائز نہیں۔

۱۴۔ کسی مسئلہ میں تلفیق بھی ممنوع ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تبصرہ:​
ہم اوپر پڑھ آئے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک صرف رخصتیں تلاش کرنا بھی فسق نہیں تو حق کی طلب اور نصوص شریعت کی بالا دستی کے لئے مختلف مذاہب کی باتیں اور مسائل اختیار کرنا کیسے غلط ہوگا۔؟ تلفیق کے بارے میںیہ شدت جو شوافع اور دیگر فقہاء میں نظر آرہی ہے کہیں: {وقالوا کونوا ہودا أو نصاری تہتدوا}۔ وہ کہتے ہیں یہودی یا عیسائی ہو جاؤ ہدایت پا لو گے۔ یعنی ہدایت پانے کے لئے کیا یہ ضروری ہے کہ کسی ایک مسلک کے ساتھ چمٹا جائے ورنہ گمراہ ہو گے اور دوسروں کو بھی کروگے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تقابلی جائزہ:​

عبادات وغیرہ کے متعلق ذیل میں ایک تقابلی جائزہ پیش کیا جارہا ہے ۔ تاکہ طلبہ دونوں مذاہب کے مسائل کو علیحدہ علیحدہ جان لیں اور اس اختلاف کو بآسانی سمجھ سکیں:

حنفی مسائل:
٭… وضوء بغیر نیت اور بغیر ترتیب کے جائز ہے۔
٭ …کھجور کے شیرہ سے جب پانی نہ ہو تو وضوء جائز ہے۔
٭ … وضوء و غسل میں کلی کرنا اور ناک میں پانی دینا فرض ہے۔
٭ … اگر بحالت نماز قہقہہ لگ جائے تو وضوء بھی ٹوٹ جائے گا اور نماز بھی۔
٭ … بحالت روزہ وضوء میں کلی کرتے وقت بے اختیار اور بھول کر پانی حلق میں اتر جائے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٭ … نفل روزہ کی قضاء بھی فرض کی طرح ہے۔
٭ …امام کے پیچھے سورہ فاتحہ جہری یا سری نماز میں نہیں پڑھنی چاہئے
٭ … بیماری وسفر کی حالت میں جمع بین الصلوتین جائز نہیں ہے۔
٭ … قربانی واجب ہے اور استطاعت والے پر ایک بکرا ہے۔
٭ …کوئی زبر دستی شوہر کو پکڑ کر طلاق لکھوا لے تو جائز ہے اور طلاق ہوجائے گی۔

شافعی مسائل
٭ … بغیر نیت اور بغیر ترتیب کے وضوء صحیح نہیں ہوتا ۔
٭ … بغیر پانی کے وضوء درست نہیں ہوتا۔
٭ …یہ دونوں فعل فرض نہیں۔
٭ … ایسی صورت میں وضوء نہیں ٹوٹے گا ۔ نماز فاسد ہو جائے گی۔
٭ … بھول کر یا بلا ارادہ کلی کرتے وقت اگر پیٹ میں پانی چلا جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ … نفل روزہ کی قضاء لازمی نہیں۔
٭ … ہر نماز میں مقتدی کو سورہ فاتحہ پڑھنی چاہئے ورنہ نماز نہیں ہوتی۔
٭ … بیماری یا سفر کی حالت میں جمع بین الصلوتین جائز ہے۔
٭ … قربانی مسنون ہے اور ہر گھر کا سربراہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکرا قربان کرسکتا ہے
٭ … ایسی طلاق لغو اور باطل ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وفات:

امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ کو آخری عمر میں بواسیر کی سخت شکایت ہوگئی تھی۔ ایک مشہور واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ فتیان بن ابی السمح جو متصلب مالکی تھے انہوں نے ایک مناظرے میں امام محترم سے علمی شکست کھائی تھی۔ مگر انہوں نے بعد میں موقع پاکر رات کے اندھیرے میں امام محترم کے سر پر لوہے کا ایک گرز دے مارا جس سے امام محترم کا سر پھٹ گیا۔ طبیعت پہلے ہی کمزور تھی۔ اس تکلیف نے مزید نڈھال کردیا۔ دوسری طرف مالکی فقیہ اشہب بن عبد العزیز مسلسل سجدہ میں پڑ کر آپ کے لئے بددعا کرتا رہا کہ الہی! شافعی کو اٹھالے ورنہ ہمارا مالکی مسلک فنا ہو جائے گا۔ امام محترم کو جب اس کا علم ہوا تو فی البدیہہ دو اشعار کہے :

تَمَــنّٰی رِجَالٌ بِأَنْ أَمُـــــوتَ فَإِنْ أَمُتْ فَتِلْکَ سَبِیـْــــلٌ لَسْتُ فِیْہَا بِأَوْحَدِ
َوقَــدْ عَلِمُوا لَو یَنْفَــــعُ الْعِلْمُ عِنْدَہُمْ لَئِـــنْ مِتُّ مَا الــدَّاعِیْ عَلَیَّ بِمَخْلَدِ

لوگ تمنا کرتے ہیں کہ میں مرجاؤں۔ اگر میں مر بھی گیا تو یہ راہ ایسی ہے جس کا راہی صرف میں نہیں ہوں۔ اگر علم لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہو تو وہ یہ مان لیں کہ میں اگر مر بھی گیا تو مجھے بددعا دینے والا بھی باقی رہنے کا نہیں۔

آپ کی طبیعت جب بہت زیادہ بگڑی تو پاس بیٹھے شاگرد امام مزنیؒ نے خیریت دریافت کرتے ہوئے عرض کی: کَیْفَ أَمْسَیْتَ یَا أُستاذَ الأستاذِینَ؟ اساتذہ کے استاذ! آپ کا دن کیسے گذرا؟ جواب میں فرماتے ہیں:

أَصْبَحْتُ مِنَ الدُّنْیَا رَاحِلاً فَلِلإخْوَانِ مُفَارِقًا، وَبِسُوئِ أَفْعَالِی مُلَاقِیًا، وَعَلَی اللہِ وَارِدًا، وَلَکَأْسُ الْمَنِیَّۃِ شَارِبًا، وَلَا وَاللہِ لاَ أَدْرِیْ أَنَّ رُوحِیْ یَصِیرُ إِلَی الْجَنَّۃِ فَأُھَنِّئُہَا أَوْ إِلَی النَّارِ فَأُعَزِّیْہَا۔آج میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں ، اور اپنے بھائیوں کو چھوڑنے والا بھی۔ ہائے! اپنے برے اعمال کی سزا بھی پانے والا ہوں اور اللہ بزرگ وبرتر کی بارگاہ میں پیش ہونے والا بھی ہوں اور موت کا پیالہ ابھی پینے والا ہوں۔ واللہ ! میں نہیں جانتا آیا میری روح جنت میں جائے گی کہ میں اسے مبارک باد دوں یا اس کامقام دوزخ ہے کہ میں اس سے تعزیت کروں۔

نماز مغرب سے فراغت کے بعد لیٹے ہی تھے کہ نزع کی کیفیت شروع ہوگئی۔ بہت الحاح کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں پھر عرض گزار ہوئے۔ عشاء کی نماز ہمت کرکے پڑھی اور فراغت کے بعد پھر گڑگڑا کر دُعا مانگی۔ دُعا سے فارغ ہو کرلیٹے ہی تھے کہ روح مبارک بآسانی نکل گئی۔ اور اس طرح امام محترمؒ خدمت دین سے بھرپور اپنی یہ مختصر زندگی گزار کر دار فانی میں جا پہنچے۔ نماز جمعہ کے بعد آپ کی نماز جنازہ سب سے پہلے سیدہ نفیسہ بنت حسن نے ادا کی اور پھر ساری خلقت نے۔ اور یوں بعد از عصر آپ کو قاہرہ کے جبل مقطم کے قبرستان قرا فصۃ الصغری میں دفن کیا گیا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آمین

٭٭٭٭٭​
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام احمد بن حنبلؒ(۱۶۴۔۲۴۱ھ)


ابو عبد اللہ الشیبانی، بغداد میں ربیع الاول ۱۶۴ ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم حدیث، مجتہد تھے۔ سنت نبوی سے عملی وعلمی لگاؤ تھا اس لئے امت سے امام اہل السنۃ کا لقب پایا۔ زہد واستغناء ایسا مثالی تھا کہ جذبہ جہاد سے ہر وقت معمور رہتے۔ آپ کے والد محترم بھی فوج کے ایک سپاہی تھے جو جوانی میں ہی انتقال کر گئے۔ اس وقت ان کی عمر دو برس کی تھی۔ والدہ محترمہ نے تربیت وتعلیم کی ذمہ داری کو نبھایا اور پوری نگہداشت کی اور ابتدائی تعلیم بغداد میں ہی دلائی۔

تعلیم وسماعت حدیث: سولہ برس کی عمر میں آپ نے حدیث کی سماعت شروع کی۔ امام ابویوسفؒ کے حلقہ درس میں بیٹھے۔ ۱۸۰ ھ میں سب سے پہلا حج کیا۔ پھرحجاز آمد ورفت رہی اور علماء حجاز سے علم سیکھتے رہے۔ ۱۹۶ھ میں یمن جاکر امام عبد الرزاق الصنعانی ؒسے احادیث سنیں۔ یہاں امام یحییؒ بن معین اور اسحق بن راہویہؒ بھی ان کے شریک درس رہے۔ آپ کوفہ بھی تشریف لے گئے۔ مسافرت برائے حدیث میں تنگدستی بھی دیکھی۔ ان دنوں جس جگہ قیام پذیر رہے سر کے نیچے سونے کے لئے اینٹ رکھا کرتے۔ کہا کرتے کاش میرے پاس دس درہم ہوتے میں حدیث سننے کے لئے جریر بن عبد الحمید کے پاس رے چلا جاتا۔ امام شافعیؒ خود فرماتے ہیں انہوں نے مجھ سے مصر آنے کا وعدہ کیا مگر معلوم نہیں کس وجہ سے نہیں آسکے شاید وجہ بے زری ہوگی۔ بایں ہمہ امام محترم تقریبا سارے اسلامی ممالک میں گھومے اور اپنے وقت کے بیشتر مشایخ سے احادیث حاصل کیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہارون الرشید کی طرف سے یمن کا قاضی بننے کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول نہ کیا۔ ۱۹۹ھ میں امام شافعیؒ جب دوسری بار بغداد تشریف لائے تو امام احمدؒ سے انہوں نے کہا: اگر تمہارے پاس ، کوئی صحیح حدیث حجاز، شام، یا عراق کہیں کی ہو مجھے مطلع کرو ۔میں حجازی فقہاء کی طرح نہیں ہوں جو اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد اسلامیہ میں پھیلی ہوئی احادیث کو غیر مصدقہ سمجھتے ہیں۔ اس وقت امام احمدؒ کی عمرچھتیس برس کی تھی۔

اساتذہ: آپ کے اساتذہ کی ایک خاصی تعداد ہے جن سے فقہ وحدیث کا علم حاصل کرتے رہے۔ ان میں قاضی ابویوسفؒ، امام شافعیؒ، سفیانؒ بن عیینہ، یحییؒ بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدیؒ، إسمعیلؒ بن علیہ، ابوداؤد طیالسیؒ اور وکیعؒ بن الجراح جیسی نابغہ روزگار شخصیات ہیں جو اپنے مقام اور مرتبے کے اعتبار سے نہ صرف روایت ودرایت حدیث میں سب سے آگے ہیں بلکہ فقاہت کے اعتبار سے بھی وہ اجتہاد کے مقام کو پہنچتے ہیں۔ امام محترم نے حدیث حفظ کی اور جمع بھی کی۔اس ذوق نے انہیں اپنے وقت کا امام حدیث اور مجتہد بنا دیا۔ امام ابراہیم الحربی کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو دیکھا یوں لگتا تھا کہ اللہ تعالی نے ان میں علم اولین وآخرین جمع کردیا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں: میں جب بغداد سے نکلا تو اپنے پیچھے سب سے زیادہ متقی اور فقیہ انسان احمدؒ بن حنبل ہی کو چھوڑا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
تلامذہ:
بہت سے علماء نے آپ سے علم حاصل کیا۔ خصوصیت کے ساتھ آپ سے فقہ اور اجتہادات کو اخذ کرنے والے ایک سو بیس سے زیادہ فقہاء شاگرد ہیں۔جنہوں نے اپنے شیخ کی فقہ اور اجتہادات کو سارے عالم میں پھیلایا۔ ان میں ان کے اپنے بڑے صاحب زادے صالح بن احمد ہیں جنہوں نے اپنے والد محترم سے علم فقہ وحدیث کو حاصل کیا اور دیگر اساتذہ سے بھی وہ مستفید ہوئے۔۲۶۶ھ میںان کا انتقال ہوا۔ ابوبکرأحمدؒ بن محمد الخراسانی جو الأثرم کے نام سے معروف تھے، انہوں نے بھی امام احمدؒ سے بہت سے فقہی مسائل روایت کئے ہیں اور بہت سی احادیث بھی۔ اپنے وقت کے فقہاء وحفاظ حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔ سن ۲۷۳ھ میں آپ فوت ہوئے۔ ایک اور شاگرد عبد الملک بن عبد الحمید بن مہران المیمونی جو امام محترم کی صحبت میں بیس سال سے زائد عرصہ تک رہے۔ امام محترم کے شاگردوں میں یہ بہت جلیل القدر شمار ہوتے ہیں۔ ان کا انتقال سن ۲۷۴ھ میں ہوا۔ اسی طرح امام بخاریؒ، امام مسلمؒ اور امام ابوداؤدؒ بھی آپ کے تلمذ پر مفتخر تھے۔

تقویٰ: امام بیہقی ؒلکھتے ہیں: امام احمدؒ اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے پیچھے نماز نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی ان میں سے کسی کے گھر کھانا کھاتے ۔ وجہ یہ تھی کہ ان دونوں نے بادشاہی مناصب قبول کر رکھے تھے۔ بڑے تاجر آآکر آپ کی خدمت میں دینار پیش کرتے مگر بالکل قبول نہ کرتے۔ یمن میں طالب علمی کے دوران ان کی مالی حالت بہت کمزور تھی آپ کے شیخ امام عبد الرزاقؒ نے اس خبر پر جب خاموشی سے ان کی مٹھی میں کچھ دینا چاہا تو لینے سے انکار کردیا اور کہا: اللہ میری ضروریات پوری کردیتا ہے۔ ان کی صحبت لوگوں کو آخرت یاد دلا دیتی ۔ دنیاوی باتوں میں بالکل نہیں الجھتے تھے۔ متوکل کون ہوتا ہے؟ اس کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: جو غیر اللہ سے ہر قسم کی توقعات ختم کردے۔ دلیل پوچھی گئی تو فرمایا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب منجنیق پر چڑھائے گئے تو جبریل امین نے آکرمدد کے لئے کہا تو فرمایا: ہاں مدد تو چاہئے مگر تم سے نہیں۔ جبریل علیہ السلام نے عرض کی تو آپ اسی سے کہئے جس سے آپ کہنا چاہتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: میرے لئے وہی امر پسندیدہ ہے جو اللہ تعالی کوپسندیدہ ہے۔ فرمایا کرتے: فقر ایک ایسا عظیم مرتبہ ہے جسے اکابر کے سوا اورکوئی نہیں پا سکتا۔ اپنی دعاؤں اور سجدوں میں اکثر گڑگڑاتے اور فرماتے: اے اللہ! اگر گنہگاران امت محمدیہ کا توکوئی فدیہ چاہتا ہے تومجھی کو ان کا فدیہ بنا لے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
فتنہ خلق قرآن:


خلیفہ مامون نے معتزلی علماء کے اکسانے پر علمائے امت کو ایک خط لکھا جس میں قرآن کو مخلوق اور محدَث ماننے کی بہ جبر دعوت تھی۔ انکارکی صورت میں سختیاں شروع کر دیں، معاش بند کردیا اور سخت سزاؤں کی دھمکی بھی دی۔ بہت سے جبرا ًقائل ہوگئے کہ قرآن مخلوق ہے۔ مگر امام احمدؒ اور محمدؒ بن نوح نیسابوری نے اس نظریے کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔ آزمائش کے اس مرحلے پر دونوںثابت قدم رہے بلکہ کندن بن کر نکلے اور بڑا رتبہ بھی پایا مگر درجہ بدرجہ۔ جتنا ایمان اتنی آزمائش، جوتاحیات قائم رہتی ہے حالانکہ وہ گناہ گار نہیں ہوتا۔ آپ ﷺ کا یہ ارشاد انہیں ازبر تھا: یہ دنیا ہمیشہ مصائب اور فتنے دکھایا کرتی ہے۔ بعد کے ادوار میں مصائب کی شدت تیز تر ہوگی۔

خلیفہ مامون نے سب علماء کو بلا بھیجا۔ کمزور لوگ حکومت کی سطوت اور قہرکے آگے گردن خم کر بیٹھے۔ امام احمد اور محمد بن نوح نے جب نہ مانا تودونوں حضرات کو اونٹ پر سوار کرکے مامون کے ہاں لے جایا گیا۔ راستہ میں ایک بدو نے نصیحت کرتے ہوئے کہا: آپ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے جارہے ہیں ۔ سب کی نظر آپ پر ہے۔ للہ آپ مسلمانوں کو رسوا نہ کیجئے گا۔ اللہ آپ کا دوست ہے صبر کیجئے گا ۔ جنت آپ اور آپ کے شہید ہونے کی دیر تک ہے۔ موت تو بہرحال آنی ہے اس فتنہ میں آپ اگر کامیاب ہوگئے تو دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ یہ نصیحتیں میرے دل کو لگ گئیں اور میں نے مامون کے خیالات کی نفی کا پورا عزم کرلیا۔

مامون کے ہاں جب یہ دونوں حضرات پہنچے تو قریب ہی ایک جگہ میں انہیں ٹھہرا دیا گیا۔ خادم نے اطلاع دی کہ مامون نے رسول اللہ سے قرابت کا واسطہ دے کر قسم کھالی ہے : اگر احمدؒ نے خلق قرآن کا اقرار نہ کیا تو اسی تلوار سے اس کی گر دن اڑا دوں گا۔ امام احمدؒ نے یہ سنتے ہی گھٹنے زمین پر ٹیک دیے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور عرض کی: خدایا! اس فاجر کوتیرے حلم نے بہت مغرور کردیا ہے کہ وہ اب تیرے دوستوں پر بھی تلوار اٹھاتا ہے۔ خدایا! اگر تیرا کلام غیر مخلوق ہے تو تو مجھے اس پر ثابت قدم رکھ میں اس کے لئے ہر مصیبت سہنے کو تیار ہوں۔اسی رات صبح ہونے سے پہلے مامون کا انتقال ہوگیا۔ مگر معتصم خلیفہ بن گیا۔ اس نے محمد بن ابی دواد کو اپنا وزیر اور قوت بازو بنایا۔ اس طرح معتصم، مامون سے بھی زیادہ اس نظریے کے لئے سخت گیر ثابت ہوا۔ اس نے امام محترم کو دیگر قیدیوں کے ساتھ بیڑیاں باندھ کر ایک کشتی میں بغداد بھیج دیا۔ محمدؒ بن نوح راستہ میں ہی انتقال کرگئے۔

امام محترم جب بغداد پہنچے تو پاؤں میں بوجھل بیڑیا ں تھیں جن کی وجہ سے چلنا دشوار تھا۔ سخت علیل ہوگئے۔ قید خانہ میں ڈال دئیے گئے اور تیس ماہ قید میں رہے۔ پھر معتصم کے پاس انہی بیڑیوں میں لائے گئے۔ سُرَّمَنْ رَأَی (گلبرگ) میں ایک کمرہ میں بند کردیا گیا۔ جس میں اندھیرا ایسا تھا کہ کوئی چیز نظر نہ آتی۔ رب کے حضور نماز شکرانہ ادا کی۔ امام محترم فرماتے ہیں: معتصم کے پاس اسی حالت میں مجھے لے جایا گیا ۔ میں نے سلام کے بعد گفتگوکی اور کہا کہ آپ کے نانا محترم کا کیا پیغام تھا؟ معتصم نے کہا لا إلہ إلا اللہ کی طرف۔ تھوڑی گفتگو کے بعدمعتصم نے عبد الرحمن معتزلی کو کہا کہ ان سے پوچھو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
عبد الرحمن نے مجھ سے کہا: قرآن کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ میں چپ رہا۔ لیکن معتصم نے اصرار کیا جواب دو تو میں نے کہا: باری تعالی کے علم کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ اس نے جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: قرآن اللہ کا علم ہے اور جس نے اللہ کے علم کو مخلوق کہا اس نے کفر کیا۔ کفر کے لفظ سے یہ جماعت بڑی سیخ پا ہوئی اور معتصم سے کہا: دیکھئے اس نے آپ کو اور ہم سب کو کافر کہہ دیا۔ مگر معتصم نے توجہ نہ دی۔ پھر عبد الرحمن نے سوال کیا: یہ بتاؤ ایک زمانہ تھا جب اللہ تھا اور قرآن نہ تھا۔ میں نے جوابا ًکہا: کیا ایسا تھا کہ خدا تھا اور اس کا علم نہ تھا؟ عبد الرحمن چپ ہوگیا۔ بہرحال وہ جو دلائل دیتے میرے سوال یا جواب میں وہ خاموش ہوتے رہے اور بدتمیزی وبد کلامی بھی کرتے رہے۔ اور خلیفہ کو بہکاتے بھی۔ میں کہتا : دین کی بنیاد کتاب وسنت کے علاوہ کسی تیسری چیز پر نہیں ہے ۔ مگر ابن ابی دواد کہتا: بحث کا دار ومدار نقل کے علاوہ عقل پر بھی ہونا چاہئے۔ اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن گفتگو ہوتی رہی۔ آخری دن امام محترم کی آواز ان سب کی آوازوں سے بھاری اور اونچی رہی جو معتزلی فقہاء اور قضاۃ کی تھی۔وہ لا جواب رہے۔ اور خلیفہ مجھے یہی کہتا رہاکہ تم میرے مسلک کی تائید کرو میں تمہیں مقرب خاص بنا لوں گا۔ میں نے یہی کہا: کہ اگر کوئی دلیل قرآن وحدیث سے بیش کردیجئے تومیں ماننے کو تیار ہوں۔ بعد ازاں خلیفہ نے میرے ہاتھ پاؤں بندھوا دئیے اور مجھے کوڑے برسوائے۔ میں بار بار بے ہوش ہوا۔ جب پہلا کوڑا برسا میں نے بِسْمِ اللہِ کہا۔ جب دوسرا پڑا تو لاَ حَولَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللہِ کہا اور جب تیسرا پڑا تو کہا: {قل لن یصیبنا إلا ما کتب اللہ لنا}۔ بے ہوش ہوتا تو چھوڑ دیا جاتا ۔ ہوش میں آتا تو دوبارہ مارنا شروع کردیتے ۔میں جلد بے ہوش ہونے لگا تو معتصم ڈر گیا کہ کہیں اب یہ فوت ہی نہ ہوجائیں۔ اس نے ضرب بند کرادی۔ جب ہوش آیا تو معتصم کے ایک کمرہ میں ہی خود کو بغیر سلاسل کے آزاد پایا۔ یہ واقعہ ۲۵ رمضان ۲۲۱ھ کا ہے۔

مجھے گھر پہنچانے کا خلیفہ نے حکم دیا۔ راستہ میں اسحق بن ابراہیم کے ہاں ٹھہرے۔ کہتے ہیں کہ میں صائم تھا۔ کپڑے خون آلود تھے اسی حالت میں نماز ادا کی۔ ابن سماعہ نے کہا کہ آپ نے خون کے کپڑوں میں نماز ادا کی؟۔ میں نے کہا: ہاں! سیدنا عمرؓ نے خون بہنے کی حالت میں نماز ادا تھی اور ان کے زخم کا خون فوارہ کی صورت میں نکل رہا تھا۔ کوڑوں کے ضرب کی وجہ سے ہاتھ اور ہونٹوں پر سردی کا اثر تا وفات رہا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
خراج عقیدت: امام ابن المدینیؒ نے آزمائش کی اس گھڑی پر امام کی ثابت قدمی پر کہا: اللہ تعالی نے اسلام کو دو بندوں کی وجہ سے بڑی عزت عطا فرمائی۔ ابو بکرؓ صدیق سے جو یوم الردۃ(جنگ یمامہ) کے دن ثابت قدم ر ہے۔ اور امام احمدؒ سے جنہوں نے محنہ(آزمائش) کے موقع پر اسلام کو سرفراز فرمایا۔امام بشر الحافیؒ نے فرمایا: امام احمدؒ نے اس امت میں نبوت کے فرائض سر انجام دیے ہیں۔ ابو الولید الطیالسیؒ نے کہا: اگر احمدؒ بنو اسرائیل میں پیدا ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ وہ نبی ہوتے۔

عقیدہ: امام محترم ٹھوس اسلامی عقائد کے قائل تھے۔ قرآن پر کسی چیزکومقدم نہ کرتے۔ اسے غیر مخلوق بلکہ لوح محفوظ میں جو کچھ ہے وہ بھی غیر مخلوق قرار دیتے ۔ اس کے بعد حدیث رسولﷺ کا مرتبہ ہے۔ اور آپ ﷺ کی حدیث کے ساتھ صحابہ وتابعین کے آثار بھی قابل قبول ہیں۔ آپ ﷺ جو کچھ لائے ہیں اس کی تصدیق اور آپ ﷺ کی سنت کی اتباع میںہی نجات ہے۔ قضاء وقدر، خیر وشر سب اللہ کی جانب سے ہیں۔ اگر کسی نے فرض کو سستی ولا پروائی سے ترک کردیا تو اللہ کو اختیار ہے بخش دے یا اسے عذاب دے ۔ ایمان، قول وعمل اور دلی تصدیق کا نام ہے۔ میزان حق ہے۔ صراط حق ہے۔ جنت ودوزخ برحق ہیں۔ عیسی بن مریم کا نزول برحق ہے۔ حوض حق اور شفاعت بھی حق ہے۔ عرش وکرسی بر حق ہیں۔ ملک الموت پر میرا ایمان ہے۔ دجال یقینا آئے گا۔ عیسیٰ بن مریم دنیا میں آئیں گے اور باب لد پر دجال کو قتل کریں گے۔

آپﷺ کے بعدسیدنا ابوبکر ؓ جیسا کوئی نہیں۔ ان کے بعد سیدنا عمرؓ جیسا اور ان کے بعد عثمانؓ جیسا کوئی نہیں۔ بغیرولی نکاح صحیح نہیں۔ متعہ(وقتی نکاح) قیامت تک کے لئے حرام ہے۔وغیرہ
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
وفات: ۲۴۱ ھ ربیع الاول میں مرض الموت میں مبتلا ہوئے ۔ وفات سے قبل امام محترم نے وصیت لکھی اور کی بھی۔ جس کے الفاظ یہ تھے:
بِسمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ ہٰذَا مَا أَوْصٰی أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ أَوْصٰی أَنَّہُ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ وَحْدَہُ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ، أَرْسَلَہُ بِالْہُدٰی وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وَلَوکَرِہَ الْمُشْرِکُونَ، وَأُوْصِیْ لِأہْلِی وَقَرَابَتِی أَنْ یَعْبُدُوا اللہَ وَأنْ یَحْمَدُوہُ وَأَنْ یَنْصَحُوا لِجَمَاعَۃِ الْمُسلِمِینَ وَأُوْصِی أَنَّی قَدْ رَضِیتُ بِاللہِ رَبًّا وَبِالإسْلاَمِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً۔
وفات سے قبل اپنا وضو کرایا، اور ہر حصے کو اچھی طرح دھلوایا۔ پیر کی انگلیوں کا خلال تک کیا۔ درمیان میں اللہ کا ذکر کرتے رہے جب وضو مکمل ہوا تب فوت ہوگئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ عمر تقریبا (۷۷) ستتر سال تھی۔تجہیز وتکفین سب کچھ اولاد نے خرید کر کی۔ جنازہ میں سات لاکھ لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت اہل علم کی تھی۔ علماء اس وقت کہا کرتے تھے: بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَومِ الْجَنَائِزُ ہمارے اور دوسروں کے درمیان جنازے ہی تو فرق کیا کرتے ہیں۔
 
Top